غزلیں
جلیل حیدر لاشاری
جس کا کسی کے دل میں کہیں کوئی گھر نہیں
جتنا بھی معتبر وہ لگے معتبر نہیں
تم ساتھ دو گے زندگی بھر؟ مان لیتے ہیں !
ایسا تو اس جہان میں ہوتا مگر نہیں
دور چار دن میں زندگی کا اختتام کیوں؟
اتنا بھی زندگی کا سفر مختصر نہیں
ہم سخت جان لوگ تو زندہ وہاں بھی ہیں
خوابوں کا بھی جہاں کبھی ہوتا گزر نہیں
ان راستوں کا لطف تو منزل سے بڑھ کے ہے
اب دُکھ نہیں نصیب میں منزل اگر نہیں
سب اپنی ا پنی شاخ پہ بیٹھے ہیں شادماں
گرنے کو ہے درخت کسی کو خبر نہیں
٭٭٭
سادہ مزاج لوگ ہیں ہم خاص ہیں نہ عام
ہم سے بھی کر لیا کر و بھولے سے کچھ کلام
ہتھیار اُس نے ڈال کر پہلے ہی وار میں
پھیکا سا کر دیا ہے مزہ جیت کا تمام
ہوتے ہیں جسم وجاں کے جہاں راستے جدا
لگتا ہے آگیا ہے وہی درد کا مقام
پاس آتی منزلوں کا نہیں دور تک نشاں
قربان جاؤں مَیں ترے شاہ ِ سبک خرام
کردار گو بدلتے ہیں ہر دور میں جلیلؔ
ہوتا نہیں کسی بھی کہانی کا اختتام
٭٭٭
زمانے کی نگاہوں میں نہیں ہیں جو کسی قابل
وہی لمحے وہی یادیں ہیں اپنی زیست کا حاصل
مجھے کاٹا گیا جتنا ، میری شاخیں اُگیں اتنی
میری نشوونما میں ہے مرا انکار بھی شامل
ہمیں تو عمر بھر اتنا پتہ بھی چل نہیں پایا
کہ وہ معصوم سا چہرہ مسیحا تھا کہ تھا قاتل
زمیں کو کھود کر ہم نے بالآخر پا لیا پانی
نہیں ہم التفاتِ ابروباراں کے رہے سائل
کسی آساں ہدف کا مَیں تعاقب ہی نہیں کرتا
مَیں اس کو ڈھونڈتا ہوں جسکا پانا ہو بہت مشکل
فضائے شہرِ جاناں کو تھا مہکانا ،سو مہکایا
نہیں اب غم جلا دے دھوپ یا کر دے خزاں گھائل
٭٭٭