غزلیں۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

غزلیں

 

سَیَّد اَنور جاوَید ہاشِمی

 

باتوں باتوں میں دُہرائی جا سکتی ہے

پَل پل بچّوں کو سمجھائی جا سکتی ہے

 

نیّت کا بھی اجر عمل جیسا ہوتا ہے

نیکی ہر صورَت سے کمائی جا سکتی ہے

 

مِل جُل کر نَفرت کی جھیل کو صاف کریں ہم

دِل میں جمی مُدّت کی کائی جا سکتی ہے

 

سچ تو یہی ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں

بات یہ سچّی سب کو بتائی جا سکتی ہے

 

اُس کو خیالِ خام سمجھ کر دِل سے نکالا

بات زبَردستی منوائی جا سکتی ہے

 

ہم نے غزَل میں اُس کا سراپا لکھ ڈالا ہے

دل میں جو تصویر لگائی جا سکتی ہے

 

بامِ فلک پر جن کی قسمَت لکھّی گئی ہو

اُن ذہنوں سے کب دانائی جا سکتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دل سے نکلے گی مری جان یہ حسرت کسی دن

تم سے ہو جائے سرِ راہ محبت کسی دن

 

آ بھی سکتی ہے سرِ بام یہ ساعت کسی دن

خوگرِ رنج مرا دل ہو نہایت کسی دن

 

اُن نگاہوں سے تصادم جو ہُوا بھی کسی شب

گفتگو آپ ہی لے لے گی رعایت کسی دن

 

سبز ہوتی ہو جہاں شاخِ تمنا چلئیے

عرض کی جائے گی چپکے سے حکایت کسی دن

 

رحلِ تقدیر پہ جُز دان سے رکھ کر باہر

مصحفِ یار تری ہو گی تلاوت کسی دن

 

نام مرقوم ہوا کس کا کتابِ دل میں

کیا نہ کھُل جائے گی خود اُس پہ حقیقت کسی دن

٭٭٭

One thought on “غزلیں۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

  • غزلوں کی اشاعت پر ممنون ہیں ۔سمت کے مشمولات دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ایک علی و ادبی ثقافتی جریدہ میں جس قسم کے مضامین تخلیقات،نگارشات ہونا چاہئیں وہ کما حقہ آپ نے مرتب/مدوّن کردی ہیں لکھنے والوں کا تعاون بھی اس کی کام یابی کا مرھون منت ہے۔خدا کرے کہ آپ کی محنت کا صلہ آپ کو بہ صورت تحسین و ستایش ملتا رہے۔ ممنون سید انور جاوید ہاشمی کراچی پاکستان ۳ دسمبر ۲۰۱۵ء

سید انور جاوید ہاشمی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے