عالم خورشید کی شاعری ’کارِ زیاں ‘ کے حوالے سے ۔۔۔ اصغر شمیم

 عالم خورشید کی شاعری ’کارِ زیاں ‘ کے حوالے سے

 

                   اصغر شمیم

 

غزل اردو کی سب سے مقبول صنفِ شاعری ہے۔ کم و بیش ہر شاعر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزل نے اردو شاعری کی باقی اصناف کے مقابلے میں بہت زیادہ دلوں سے قربت حاصل کی ہے۔ اس نے نہ صرف بدلتے وقت کے تقاضوں سے خود کو مربوط رکھا بلکہ اس کی مضبوط روایت اور تکنیک کو بھی بہت شائستہ طریقے سے نبھایا  بعض اوقات نامساعد حالات، جبر اور گھٹن کے ماحول میں بھی اشاروں ، کنایوں ، علامتوں اور استعاروں کے اوٹ میں اپنے آپ کو غروب ہونے سے بچائے رکھا۔

غزل کے زندہ رہنے اور اس کے فروغ کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہر عہد کے شاعر نے روایت کو اجتماعی شعور کے پس منظر میں دیکھا اور ذاتی واردات کے ساتھ ساتھ اجتماعی تجربات اور مشاہدات کو بھی مصرعوں میں سمو دیا۔ دور جدید میں جو نئی نسل غزل گوئی کے میدان میں اپنے افکارو خیالات پیش کر رہی ہے ان میں ایک نام عالم  خورشید کا بھی ہے۔ عالم  خورشید کا تعلق دبستان آرہ سے ہے۔ آرہ جو ریاست بہار کا ایک تاریخی شہر ہے اور زمانۂ  قدیم سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ نوکری کی مناسبت سے عالم  خورشید ان دنوں پٹنہ میں مقیم ہیں ۔ اب تک ان کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ ’’کارِ زیاں ‘‘ ان کا تازہ اور چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ’’نئے موسم کی تلاش‘‘(1988)، ’’زہر گل (1998) اور ’’خیال آباد(2002)منظرِ عام پر آ چکے ہیں ۔

عالم  خورشید 1980 کے بعد کی نسل کے ایک نمائندہ شاعر ہیں ۔ اپنے منفرد لب و لہجے کی وجہ سے جدید شعراء کی بھیڑ میں آسانی سے پہچان لئے جاتے ہیں ۔ وہ زندگی کے مشاہدات و احساسات، تجربات، خیالات اور جذبات کو موثر اور جامع انداز میں شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں  ؎

 

دل روتا ہے چہرہ ہنستا رہتا ہے

کیسا کیسا فرض نبھانا پڑتا ہے

 

ہر ایک راہ گزر پر نظر جمائے ہوئے

میں چل رہا ہوں نیا راستہ بنائے ہوئے

 

ہم دور ہوئے جاتے ہیں ہر لمحہ خدا سے

کس راہ پر اب خلق خدا چلنے لگی ہے

 

محور تو کہیں بدلا نہیں اپنی زمیں کا

ہر شئے میں عجب رد و بدل دیکھ رہا ہوں

 

خاموش اس طرح تو کبھی آسماں نہ تھا

شاید اب اس زمیں کا مقدر کچھ اور ہے

 

زباں تراش لی ہونٹوں کو سی لیا ہم نے

اب اور کیسے زمانے سے التجا کرتے

 

عجب ہے پیڑ تو سارے ہیں میرے

مگر کوئی شمر میرا نہیں ہے

 

کیا قیامت ہے کہ روز اہل جفا کے سامنے

ہم وفائیں کر کے بھی ثابت وفاداری کریں

 

وہ قلم کرتے رہیں گے شاخِ گل، شاخِ ثمر

اور ہمیں فرمان یہ ہے ہم شجر کاری کریں

 

عالم  خورشید کی غزلوں میں زیادہ تر اشعار ایسے نظر آتے ہیں جو موضوعات اور لفظیات دونوں اعتبار سے بالکل جدید ہیں  ؎

 

گھروں میں چاند ستارے سجا لئے ہم نے

تو کیوں دلوں میں اندھیرے سمائے جاتے ہیں

 

بس ایک پل میں فضا اجنبی ہوئی کیسے

کھلی ہوئی تھی ابھی دھوپ آشنائی کی

 

سارے مکیں باہر سڑکوں پہ بھاگتے ہیں

گھر گھر میں بے گھری کے اسباب دیکھتا ہوں

 

لطیفے سب سمجھ لیتا ہے عالم

میرا بیٹا مگر ہنستا نہیں ہے

 

عالم  خورشید نے اپنی غزلوں میں عصر حاضر کی سنگین صورت حال کو اپنا موضوع بنایا ہے بالخصوص آج کے ماحول میں نفرتوں اور تباہیوں کا جو بازار گرم ہے اور انسان جس طرح گھٹ گھٹ کر جی رہا ہے اُس کے متعلق متعدد اشعار میں انہوں نے مختلف انداز سے اظہار خیال کیا ہے  ؎

چاروں طرف ہیں شعلے ہم سائے جل رہے ہیں

میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں

 

کیسے زندہ رہتا ہوں میں زہر کو پی کر اب

دیوار و در کو بھی ہمراز نہیں کرتا

 

اے شہر بدحواس! میں تنہا نہیں اداس

یاں چین اور قرار تو سب کے نہیں رہے

 

ملی ہے جب سے سزا بے گناہ لوگوں کو

ہم اپنے ہاتھ لگاتار دھوئے جاتے ہیں

 

عالم  خورشید کی شاعری ہمارے اپنے عہد کی شاعری ہے۔ اس کا پس منظر ہمارا موجودہ دور، عصری زندگی اور ہمارے گردو پیش کا ماحول ہے  ؎

 

ایک ہونے نہیں دیتی ہے سیاست لیکن

ہم بھی دیوار پہ دیوار اٹھائے ہوئے ہیں

 

پسند آئی نہیں بجلی کو بھی تقسیم آنگن کی

کبھی اس پار گرتی ہے کبھی اُس پار گرتی ہے

 

سازش ہوتی رہتی ہے دیوار و در میں

گھر سے اچھا اب مجھ کو باہر لگتا ہے

 

زمانہ چاہتا ہے کیوں میری فطرت بدل دینا

اسے کیوں ضد ہے آخر پھول کو پتھر بنا نے کی

 

آزادی کے بعد غزل کو جو حیات نو ملی اس کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا  اس میں عالم  خورشید کی غزلوں کا نمایاں حصہ رہا ہے۔  مختصر یہ کہ عالم  خورشید نے غزل کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا نیا لہجہ اختیار کیا ہے کہ جدید شعراء کی بھیڑ میں ان کی ایک الگ شناخت بن گئی ہے۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے