نئے ہفتے کا پہلا دن سب سے مشکل تھا۔ دفتر میں چھ افراد پر مشتمل ایک پوری ٹیم اس کی منتظر تھی۔ نئی ڈکشنری کا پراجیکٹ شروع ہو چکا تھا۔ افسر خاتون سے فرمائش کی گئی تھی کہ پہلے وہ نئی ڈکشنری کے ’’اصولیات تالیف‘‘ بتائے۔
’’اصولیات تالیف، یا خدا!‘‘ اس نے دل ہی دل میں سر پیٹ کر کہا تھا۔ ’’میرے فرشتوں کو بھی کسی نئی، یا پرانی ڈکشنری کے اصولیات تالیف کا بھلا کیا پتہ؟‘‘
’’پرانی ڈکشنریوں کے اصولیات پڑھ لیجیے۔‘‘ اس نے کہا تھا۔
’’لیکن یہ تو نئی ڈکشنری ہے۔ یہ مختلف ہو گی، یہی تو ہمارا دعویٰ تھا، اسی پر تو پراجیکٹ ملا ہے۔‘‘
عورت نے اپنے پیٹ کی طرف دیکھا جو بہرحال قمیص سے ڈھکا ہوا تھا۔ یا پیٹ!‘‘ اس نے سوچا۔ ’’تیری خاطر میں نے ڈکشنری بنانے کی ملازمت کر لی۔‘‘ یہ ملازمت اسے ایک اچھی انگریزی میں لکھی ہوئی درخواست کی بنا پر دی گئی تھی، بلکہ دے ڈالی گئی تھی۔ اس احتمال کے ساتھ کہ اردو تو اسے خوب آتی ہی ہو گی۔ پیٹ پوجا کے چکر میں اس نے کبھی ایک بائی لنگوئل ڈکشنری پر تھوڑا سا کام بھی کیا تھا۔ لیکن اردو کی ڈکشنری! یا اللہ! یہ تو ایک بالکل دوسری دنیا تھی۔
’’ہم جو دعویٰ کیا ہے، یعنی دعوے کی جو تفصیل ہے، اسے پڑھ کر اس کے مطابق بنانا شروع کر دیجیے۔ دس بارہ صفحات کے بعد دیکھیں گے کہ ہم نے کیا کیا ہے۔ وہی ہمارے اصولیات ہوں گے۔ پھر وہ ہم لکھ لیں گے۔‘‘ اس کے دماغ نے تیزی سے کام کرتے ہوئے اسے سجھایا تھا۔ یہی بات اس نے ٹیم کو بتا دی تھی۔ انھوں نے سو پچاس صفحات پر کام کر کے نئی ڈکشنری کے چار صفحے بنا ڈالے تھے۔ اور آج۔۔۔ آج اسے ان پر بات چیت کرنی تھی۔ ڈسکشن۔۔۔ جو در اصل بحث نہیں ہوتا۔ بحث کا کیا سوال؟ تبادلۂ خیالات؟ ایک بنائی ہوئی ترکیب جو در اصل اس کے کلچر میں نہیں ہوتا۔ مخالفت ہوتی ہے، جو بحث بنتی ہے اور پھر اس کے بعد ہوتی ہے لڑائی۔ ہا ہا ہا۔ عورت نے سوچا تھا۔
چہرے کو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے چائے کی پیالی کا پہلا گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔ اگر میں آج نہ آتی؟ شہر میں ہر طرف قتل کی وارداتیں ہو رہی تھیں۔ جانے کب سے چل رہا تھا یہ سلسلہ؟ عاشورہ کے روز خودکش دھماکوں سے تعزیتی جلوس میں چالیس سے زیادہ مرد عورتیں بچے جاں بحق ہوئے، یہ کوئی مہینہ بھر پہلے کی بات تھی۔ اس کے بعد ہر روز منتخب افراد کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ رات اس کے ایک دوست نے فون پر کہا تھا کہ شہر میں افواہ گردش کر رہی ہے کہ کل وارداتیں پوری شدت سے ہوں گی اور یہ کہ وہ احتیاط کرے۔ صبح عورت احتیاطاً تھوڑی دیر بستر میں لیٹی رہی تھی، پھر عاجز آ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ خودکش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تو ختم ہونے والا نظر آتا نہیں تو پھر کیا ہاتھ پیر توڑ کر گھر بیٹھ جایا جائے؟
باہر سے پھیری والے کی آواز آ رہی تھی، ’’لے لو آلو، مٹر، ٹماٹر، گاجر’’۔ آخر یہ کیوں نہ ڈرا؟ اس نے سوچا تھا۔ سبزی منڈی سے ٹھیلہ بھر کر آیا ہو گا۔ کراچی کے شہری سرعت سے ناگہانی موت کے امکان کے عادی ہو گئے تھے اور اپنے اپنے کام سے لگے رہے تھے۔ پس وہ بھی منھ پر چھپکا مار کر دفتر آ گئی۔
تو ایسے بسم اللہ! اس نے ٹیم کے ارکان سے کہا جو اس کے دفتر میں آ چکے تھے۔ ان کے چہروں پر ہمیشہ ایک دھند سی چھائی رہتی تھی جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔ صرف کبھی کبھی ان کی آنکھوں میں ایک چمک کا شرارہ نظر آتا تھا۔ ان میں زیادہ تر باریش تھے۔ عورت کے سامنے سیاہ اور کھچڑی، گھنی اور پتلی داڑھیوں کا ایک جال سا پھیلا ہوا تھا۔ ڈسکشن کرنے کے لیے وہ گویا اپنے زمین دوز تہہ خانے سے نکل کر آئے تھے۔
’’تو چلیے، بسم اللہ۔ الف مقصورہ‘‘ اس نے بہ آواز بلند کہا اور سوچا کہ اس الف سے کوئی قصور ہوا ہو گا۔ جب کہ الف ممدوحہ نے بڑے اچھے کام کیے ہوں گے جس کی وجہ سے اس کی حمد و ثنا ہوتی ہے۔ اس کامیاب خیال پر وہ بے حد خوش ہوئی تھی۔ تب ٹیم کے ایک ممبر نے کہا، ’’ممدوحہ نہیں ممدودہ۔ حائے حطی نہیں اس لفظ میں۔‘‘
’’نہیں ہو گی۔۔۔‘‘ اس نے شرمندہ ہو کر کہا۔ سب سے پہلے وہ ’’اب‘‘ تک پہنچے۔
’’ماخذ لکھ رہے ہیں نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’جی ہاں۔ سب سے پہلے لکھ رہے ہیں۔‘‘
اب کے آگے درج تھا، ’’قدیم آریائی۔‘‘
’’قدیم آریائی؟ یعنی سنسکرت سے بھی پرانا؟‘‘ عورت نے حیرت سے کہا۔
کمرے میں موجود سب لوگ مبہوت ہو کر’اب’ کو دیکھتے رہے۔ اس کا اولین تلفظ ’’او‘‘ سامنے لکھا تھا۔ ہزاروں برس سے یہ ہندوستانیوں، اور اب پاکستانیوں کے ساتھ لگا چلا آ رہا تھا۔ حیرت انگیز ‘اب’! ماضی کے سارے ملبے کو چیرتا پھاڑتا، طوفانوں، زلزلوں، آتش زنی سے بچ نکلتا۔ جب کہ پہاڑ ڈھے گئے تھے اور ’’اب‘‘ باقی تھا۔ کسی قدیم، دھندلائے ہوئے، مدفون ماضی کی یادگار۔۔۔’’میں تھا۔۔۔ میں ہوں‘‘ کہتا ہوا۔ کون کہتا ہے پتھر آدمی سے زیادہ دیر پا ہیں؟ انھوں نے سوچا تھا۔ پتھر ٹوٹ گئے ہیں، آدمی کے نطق سے بنا لفظ باقی ہے۔ یہ کہاں تک ہمارے ساتھ چلے گا، کون کہہ سکتا ہے؟ تہذیبیں مٹ جائیں گی، خاک ہو جائیں گی۔ ہو سکتا ہے ’’اب” کپڑے جھاڑ کر نئے آنے والوں، نئے لوگوں کی زبانوں پر دوبارہ دوڑتا پھرے، شاید وہ شکل بدل لے۔
’’اب’’! جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ دن میں سیکڑوں بار تو اسے کہتے ہوں گے۔ اس قدر قدیم ’’اب’ ‘کی خاطر وہ انجانے میں احتراماً چند لمحے خاموش رہے، پھر عربی کے ’’ابّ’ ‘اور ’’ابّ و جد” کو جھک جھک کر آداب و تسلیمات کرتے آگے بڑھے۔
’’ابتہاج آپ نے نہ ڈالا؟‘‘ افسر عورت نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا۔
’’گڈ‘‘ عورت نے کہا۔ ’’یہ لفظ اب اردو میں کوئی استعمال نہیں کرتا، لیکن پھر ابتسام کیوں شامل کر لیا؟’’
داڑھیاں مسکرائیں، مگر خاموش رہیں۔
’’میرے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی۔‘‘ ایک نے کہا۔
’’تھی! تھی؟‘‘ دوسرے نے کہا۔ ’’دیکھیے جب لوگ بچے کا نام رکھنے کے لیے ڈکشنری دیکھیں گے تو۔۔۔ یہ الفاظ تو ہونے چاہئیں۔‘‘
’’بچے کا نام رکھنے کے لیے وہ ہماری بڑی والی ڈکشنری دیکھ لیں۔‘‘ عورت نے خیال آرائی کی۔ اب اسے لگ رہا تھا کہ ابتہاج اور ابتسام دو چھوٹے چھوٹے بھائی ہیں۔ دو ننھے منے کھلنڈرے بچے جو کسی گیند کے پیچھے لڑکھڑاتے ہوئے دوڑ رہے ہیں اور اس نئی ڈکشنری میں داخل ہو گئے ہیں۔
اپنے بے قابو تصور کو لگام ڈال کر عورت نے کہا۔
’’دیکھیے، رول آف دی تھمب یہی رکھیں کہ جو الفاظ 1901 سے اور اس کے بعد چھپی ہوئی کتابوں میں موجود ہیں، بس وہی رکھیں گے۔‘‘
بات یہ تھی کہ یہ ادارہ باوا آدم کے زمانے سے اردو میں استعمال ہونے والے الفاظ کی ایک بائیس جلدوں والی ڈکشنری پہلے ہی بنا چکا تھا۔ اب منصوبہ یہ تھا کہ ایک مختصر ڈکشنری بنائی جائے جو محققوں کے علاوہ دوسروں کے بھی کام آ سکے۔ منصوبہ ایک جلد کی ڈکشنری کا تھا، لہٰذا کثیر تعداد میں تراکیب اور الفاظ تو چھوڑنے ہی تھے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ڈکشنری کو بالکل جدید طرز پر بنایا جائے گا۔ یعنی جیسے انگریزی، فرانسیسی وغیرہ کی جدید ڈکشنریاں ہوتی ہیں۔ دعوے میں ’’یوزر فرینڈلی‘‘ قسم کے الفاظ بھی لکھے گئے تھے۔
جب اس نے یہ تجویز رکھی تھی کہ یہ جنرل آئیڈیا لینے کے لیے کسی قسم کے الفاظ کو چھوڑا جا سکتا ہے، ٹیم کے سب ممبران (اور وہ خود) انگریزی کی قدیم ترین اور جدید ترین ڈکشنری کے دس بارہ صفحات کا تقابلی مطالعہ کریں تو ان میں سے ایک نے لال پیلا ہوتے ہوئے اور اکبر کی طرح غیرت قومی سے زمین میں گڑتے ہوئے کہا تھا۔
’’گویا ہم ان کی نقل کریں؟ مکھی پر مکھی ماریں؟‘‘
’’تو پھر آپ کوئی راستہ بتائیں؟‘‘ عورت نے کہا تھا۔
چھ کارکنوں نے چھ راستے بتائے تھے۔ حاصل ان کا یہی تھا کہ کوئی لفظ چھوڑا نہیں جا سکتا۔ انھیں تمام الفاظ سے شدید جذباتی لگاؤ ہو چکا تھا۔ گفتگو کا حاصل یہی تھا کہ پرانی ڈکشنری کو پورے کا پورا دوبارہ لکھ ڈالا جائے۔
تو یہ خاتون ان سے کچھ کم جذباتی نہ تھیں، لیکن پریکٹیکل ہونا بھی تو کوئی چیز ہے دنیا میں۔ ’’ہم نقل نہیں کر رہے ہوں گے، لیکن سیکھنے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنا بھی تو پڑتا ہے۔‘‘ اس نے بیچارگی سے کہا تھا۔ پھر اسے ایک کارگر مثال یاد آئی تھی۔ ’’آپ ہمارے ایٹم بم ہی کو دیکھ لیجیے۔ کیا اس کا نسخہ ہالینڈ سے نقل کر کے ایک کاغذ کا کارتوس بنا کر پاکستان اسمگل نہیں کیا گیا تھا؟ اور اب دیکھیے کہ اس نقل کے باعث ہم کیا سے کیا ہو گئے ہیں۔ مجال ہے کہ دشمن میلی آنکھ سے اب ہمیں دیکھے۔‘‘
’’وہ اور بات تھی اور یہ اور بات ہے۔‘‘ انھوں نے کہا۔
اس بات سے وہ انکار نہیں کر سکی تھی۔ بات تو واقعی وہ اور تھی، یہ اور ہے۔
’’ہندوستانیوں کو ہی لیجیے۔‘‘ اس نے انھیں راضی کرنے کی کوشش جاری رکھتے ہوئے کہا تھا۔ ’’مار روسیوں کے ٹینکوں وغیرہ کو نقل کر کر کے دھڑا دھڑ ٹینک بنا رہے ہیں۔ بنا رہے ہیں کہ نہیں؟‘‘
اس مثال سے وہ زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ جو کچھ دشمن کرتا ہے، وہ کرنا مباح بلکہ عین شریعت ہے کہ اصول کے مطابق وہ انگریزی ڈکشنریاں پڑھنے پر آمادہ ہو گئے تھے اور پھر تو کام تیزی سے چل نکلا تھا۔
اچانک انھیں ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ سب کے سب چونک پڑے۔ ’’یہ۔۔۔ یہ کیا ہوا؟‘‘ چند لحظوں بعد عورت نے کہا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ دروازے پر کھڑے نائب قاصد نے بتایا۔ ’’ایک دروازہ ذرا زور سے بند ہو گیا۔‘‘
’’افوہ!‘‘ انھوں نے کہا۔ ان کی جان میں جان آئی۔ وہ خوب ہنسے۔ انھوں نے پانی پیا، جب ان کے بلیوں اچھلتے دل قرار پر آئے تو عورت نے سب کے لیے چائے منگوائی۔ اب وہ آگے چلے۔
’’ابابیل‘‘ سے وہ سرسری گذر رہے تھے کہ عورت کو اچانک خیال آیا۔ نہ جانے کب سے اس کے ذہن میں ایک خلش سی تھی جو اس نے کہہ ڈالی۔
’’دیکھیے انگریزی ڈکشنری میں ہر پرندے، پھول، درخت وغیرہ کے ساتھ لاطینی میں اس کی اصل نسل وغیرہ درج ہوتی ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم بھی ڈکشنری استعمال کرنے والے کو کسی بھی لفظ کی بہترین معلومات دیں گے۔ کیا ہم یہ سائنسی توضیح ان ناموں کے ساتھ شامل نہیں کر سکتے؟‘‘
’’سائنسی توضیح کہاں سے لائیں؟‘‘ انھوں نے کہا۔
’’پلاٹس میں دیکھیے۔‘‘ کسی نے مشورہ دیا۔ پلاٹس میں ’’ابابیل‘‘ کا چھوٹا سا مطلب Swallow لکھا تھا۔ اس کی سائنسی توضیح جدید انگریزی ڈکشنری میں موجود تھی، کوئی لاطینی نام تھا۔
عورت سوچ میں ڈوبی بیٹھی تھی۔ اس نے کہا، ’’بھائیو! یہ کوئی انگریزی چڑیا ہے۔ زمین کے مختلف حصوں میں ایک سے چرند پرند نہیں ہوتے۔ ہندوستانی ابابیل وہ نہیں ہو سکتی جو انگلستان کے مرغزاروں میں اڑتی پھرتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان کا کوا کچھ اور ہے اور ہمارا کوا کچھ اور۔۔۔ میں نے خود دیکھا ہے۔‘‘
’’تو نسل میں جو فرق ہے، جغرافیائی۔۔۔ وہ ہمیں بتانا چاہیے نا۔‘‘ اس نے آنکھیں پھیلا کر کہا۔
وہ ’’ابابیل‘‘ کے مختلف اندراجات غور سے دیکھنے لگی، یہ دیکھ کر اسے خوشی ہوئی کہ توضیحات میں قرآنی آیت کا ذکر تھا کہ اردو میں ابابیل کی تقریباً مقدس حیثیت ہے کہ کنکریوں کی بارش سے اس نے ابرہہ کے لشکر کو مجروح کر دیا تھا جو خانۂ کعبہ پر یورش کرنے کے ارادے سے نکلا تھا۔ ’’ابابیل‘‘ کا ماخذ عربی درج تھا۔
’’گڈ‘‘ اس نے کہا۔ ’’یہ اہم توضیحات ہیں، انھیں ضرور شامل ہونا چاہیے۔‘‘
وہ سب داڑھیوں میں مسکرائے۔ انگریزی میں Swallow کے ساتھ ضرب المثال لکھی تھی۔ ’’ون سوالو ڈز ناٹ میک سپرنگ’’۔ یہ پڑھ کر انھوں نے کہا۔ گویا بہار کے آغاز میں یہ پرند آتے ہوں گے۔ یوں سمجھیے کہ سردیوں کے اختتام پر۔۔۔ دیکھیے یہ ہم نے بھی لکھا ہے۔ اس کا نام ’’ابابیل کوچی‘‘ ہوتا ہے، یعنی جو آتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔
عورت نے ’’ابابیل کوچی‘‘ کے معنی دیکھے۔ ’’سیاہ پرند، جس کے پر دو لخت ہوتے ہیں اور گردن پر سرخ ڈوری ہوتی ہے۔ یہ سردیوں کے آغاز پر شہروں میں آتا ہے۔‘‘
’’لیکن انگریزی پرندہ سردیوں کے آغاز میں نہیں، گرمیوں کے آغاز پر آتا ہے۔ ‘‘
عورت نے غور کرتے ہوئے کہا۔ یہ دو مختلف پرندے معلوم ہو رہے ہیں۔ ان کے عادات و خصائل جدا ہیں۔ ’’سیر الطیور میں کوئی نسل نہیں دی گئی۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’وہ جو دس بارہ برس پہلے ایک انگریز نے کتاب لکھی تھی، ‘پاکستانی پرندے ‘، وہ ہے لائبریری میں؟‘‘
’’وہ تو نہیں ہے۔‘‘
’’تو فوراً منگوا لیجیے۔ مفید معلومات ملیں گی، بلکہ درختوں، پھولوں کے بارے میں جو نئی کتابیں شائع ہوئی ہیں، وہ سب بھی منگوا لیجیے۔‘‘ پھر اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ ’’سب انگریز کم بختوں نے لکھی ہوں گی وہ بھی۔‘‘ پھر اسے یاد آیا، ’’وہ جو ایک برڈ واچر ہیں انڈیا میں۔۔۔ کافی مشہور۔۔۔ تو انھوں نے کوئی کتاب لکھی ہو تو منگوا لیں۔‘‘
انڈین کے نام سے ان کے چہروں پر تذبذب پھیلنے لگا۔
’’بھئی وہ مسلمان ہیں۔‘‘ عورت نے تسلی دی جس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔
’’ویسے نام ان صاحب کا کیا تھا؟ خیر نیٹ سے نکال کر بتا دوں گی۔‘‘ عورت نے سوچتے ہوئے کہا۔ اس کے نیٹ کے استعمال پر یہ ٹیم مرعوب رہتی تھی۔ اس بات سے عورت کو بہ یک وقت اطمینان، افسوس اور شرمندگی ہوتی رہتی تھی۔
ابابیل کے ضمن میں آگے ’’ابابیلیہ‘‘ بھی تھا۔ ایک ایسا کبوتر جس کے پر اور دم ابابیل سے مشابہ اور ہم رنگ ہوتے ہیں۔
’’ہممم م۔۔۔‘‘ عورت نے کہا۔ ’’بہت خوب!‘‘ لیکن اب اس کے دماغ میں مزید جغرافیائی الجھنیں آ چکی تھیں۔ اس نے کہا، ’’ہندوستانی پاکستانی پرندے۔۔۔ ضروری نہیں کہ عرب سر زمینوں پر بھی ہوں یا بلکہ نہیں ہوتے۔ یہ ہمارے جنگلات کے باسی ہیں۔ اچھا دیکھتے ہیں عربی ڈکشنری میں ابابیل کے لیے کیا لکھا ہے؟‘‘
عربی ڈکشنریاں لائبریری سے فوراً منگوائی گئیں۔ دس پندرہ منٹ کی ورق گردانی کے بعد بھی کمرے میں سناٹا تھا۔ لغت نویسوں کے چہروں پر عجب پریشانی طاری ہو چکی تھی۔
’’کیوں؟ کیا لکھا ہوا ہے؟‘‘ عورت نے پوچھا۔
’’لفظ تو ہے۔ یہ ’’بیل‘‘ کی جمع ہے۔ اور ’’بیل کا مطلب ہے گروہ یا جھنڈ، پرندوں، چوپایوں کا۔‘‘
’’اور وہ جو قرآن شریف میں ہے کہ۔۔۔‘‘ عورت نے ہکلاتے ہوئے آیت یاد کی۔
’’وہی۔۔۔ طیراً ابابیل۔‘‘
’’جی ہاں!‘‘ ایک عربی داں لغت نویس نے کہا۔ ’’یعنی پرندوں کا جھنڈ۔‘‘
’’اور قرآن میں یہ نہیں ہے کہ وہ کون سے پرندے تھے؟‘‘ عورت نے مزید حیران ہو کر پوچھا۔
’’جی نہیں۔۔۔ یہ نہیں بتایا گیا ہے۔ عربی لغات کی روشنی میں تو بات واضح ہے۔‘‘
چند منٹ کمرے میں خاموشی رہی۔ لغت نویس اور ان کی افسر عورت ساکت و صامت، حیرت اور کچھ مایوسی میں غرق تھے۔ آخر افسر عورت نے گہری سانس بھرکر کہا۔
’’اور میں۔۔۔ ساری عمر سمجھتی رہی کہ وہ ابابیلوں کا لشکر تھا جس نے ابرہہ کی فوج پر کنکریاں برسائیں۔‘‘
’’صرف آپ ہی نہیں، آپ کے ابّ و جد اور ان کے ابّ و جد نے بھی ایسا ہی سمجھا۔‘‘ کسی نے چپکے سے اس کے کان میں کہا، ’’جب غیر عربوں نے قرآن کریم پڑھا تو ابابیل کو ایک چڑیا سمجھا۔ تیرہ چودہ برس پہلے پھر انھوں نے ایک خوش نما سیاہ پرند کو یہ نام دے دیا اور یقین کر لیا کہ کنکریاں برسانے والا پرند یہی تھا۔ وہ پرند۔۔۔ جو نہ صرف عرب میں نہیں، بلکہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اس طرح ایک چڑیا کو یہ نام ملا اور وہ چڑیا ابابیل بن گئی جس نے کنکریاں برسائی تھیں۔‘‘
عورت کو یاد آیا۔ اس نے تو ایک عرب مصنف کی انگریزی میں لکھی کتاب میں یہ بھی پڑھا تھا کہ ابرہہ کا لشکر در اصل چیچک کا شکار ہو گیا تھا۔
مکہ کے باسیوں نے ہاتھیوں کی طرح چیچک کو بھی پہلے نہ دیکھا تھا۔ وہ اس موذی مرض سے ناواقف تھے۔ انھیں بالکل ایسا نظر آیا تھا جیسے لشکر کے سپاہیوں کے جسموں پر ننھی ننھی کنکریوں نے زخم ڈال دیے ہوں۔ عربوں کے شاعرانہ تخیل نے اس بیماری کے اثرات کے لیے یہی تشبیہ تراشی تھی۔
ذہن میں تیرتی کتاب کی اس یاد کو اس نے پرے دھکیل دیا، وہ باریش لغت نویسوں کے سامنے یہ کفر کے کلمات نہ کہنا چاہتی تھی۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ انسانی تخیل کس قدر اہم ہوتا ہے اور کتنا طاقت ور تخلیق کار! مثال تو سامنے تھی۔ یہ تخیل ہی تو تھا جس کے باعث ابابیل ایک جیتا جاگتا پرند بن گیا جس کا رنگ سیاہ، دم اور پر دو لخت ہیں اور جو ہندوستان اور پاکستان اور ترکی اور ایران میں رہتا ہے۔ وہی پرندہ، جس نے ابرہہ کے لشکر پر کنکریاں برسائی تھیں۔
’’میں کچھ نہیں کہوں گی۔‘‘ اس نے سوچا، ’’نہ نہ بابا، میری توبہ! میرے باپ دادا کی توبہ۔‘‘ اس نے دل میں کہا اور سوچا کہ تو بہ ہمیشہ باپ دادا کی کی جاتی ہے، ابّ و جد کی نہیں۔ نہ جانے کیوں؟ معنی تو دونوں کے بالکل ایک ہیں۔ شاید ایک ترکیب دوسری ترکیب کا لفظی ترجمہ ہو۔ اس کے باوجود۔۔۔ اس کے باوجود کسی قدر باریک پھر بھی کتنا واضح فرق موجود تھا۔ باپ دادا سے ہم زیادہ بے تکلف ہیں۔ اس کی توبہ بلاتے رہتے ہیں۔
’’چونکہ لفظ عربی ہے، لہٰذا ماخذ عربی ہی رہے گا۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’درست‘‘ عورت نے کہا۔
’’لیکن ابابیل کوچی کا ماخذ کیا ہو گا؟ فارسی ترکیب ہے۔‘‘
’’ماخذ فارسی لکھ دیجیے۔ تراکیب کا ماخذ اگر اصل لفظ سے مختلف ہے تو وہ لکھا جائے گا، لکھ لیجیے اصولیات تالیف میں۔۔۔‘‘
وہ جلد ہی چار صفحوں کے اختتام تک پہنچ گئے۔ افسر عورت ان کے کام پر بے حد مسرور تھی۔ سو پچاس صفحات کو دو تین صفحوں میں اس طرح سمیٹنا کہ ہر ضروری لفظ شامل رہے، کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ انگریزی اور اردو انگریزی جدید لغات میں الفاظ کو دیکھتے رہنے کا فائدہ ہوا تھا۔ مثلاً اُبال میں وہ حرارت کے ایک خاص درجے کا ذکر شامل کر سکے تھے، جیسا کہ انگریزی ڈکشنری میں بوایل کے معنوں میں درج تھا جب کہ اردو کی پرانی ڈکشنریوں میں نہیں تھا۔ کہیں کہیں فونٹ کو گاڑھا کر کے، مختلف بریکٹوں کا استعمال کر کے، کوما اور سیمی کولن کا ہر لفظ کے معانی میں یکساں استعمال کر کے، انھوں نے معنی تخلیق کیے تھے جو صرف اسی ڈکشنری سے مخصوص تھے۔ (یہ ایک شان دار معنی آفرینی ہے، عورت نے سوچا تھا۔)
وہ پرانی ڈکشنری میں ادھر اُدھر بکھرے محاورات، ضرب الامثال اور تراکیب کو کھینچ لائے تھے اور ہیڈ ورڈ کے تحت درست ترتیب میں انھیں جما دیا تھا۔ عورت کی ترکیب کامیاب رہی تھی کیوں کہ تکنیکی اصولیات کیے ہوئے کام سے نکل رہے تھے۔ اس کامیابی پر عورت کو تعجب بھری خوشی ہو رہی تھی۔ ٹھیک ہی تو کہتے تھے چچا کارل مارکس، پیٹ بھرنے کے لیے کام کرنے سے انسان نے علم حاصل کیا۔ اس نے دل ہی دل میں مارکس کی تصویر کو پیار بھری نظروں سے دیکھا، جو اس کے دل ہی میں تھی۔ نوجوانی میں، اسے یاد آ رہا تھا، وہ مارکس اور اینجلز کی تصویریں اپنی امی کو دکھا کر کہا کرتی تھی ’’دیکھیے یہ بھی صوفیا کرام ہیں۔ ذرا ان کی نورانی داڑھیاں دیکھیے۔‘‘ امی ہنس کر اس سے کہتی تھیں، ’’بکو مت۔ یہ اور قسم کے لوگ ہیں۔‘‘
اس کا بے چارگی سے ٹیم سے یہ کہنا، ’’کون سا لفظ لینا ہے اور کون سا نہیں، بالآخر یہ فیصلہ آپ کو ہی کرنا پڑے گا’’، سود مند ثابت ہوا تھا۔ اب وہ ہر لفظ میں گہری دلچسپی لے رہے تھے اور سچ تو یہی تھا کہ اس کے سوا اور چارہ بھی کیا تھا؟ لفظوں کے بارے میں اگر حتمی فیصلہ افلاطون بھی آ کر صادر کرتا تو اسے بھی چیلنج کیا جا سکتا تھا، جب کہ افسر عورت کو افلاطونیت کا دعویٰ بھی نہ تھا۔ (یہ دعویٰ کرنے سے وہ بال برابر ہچکچاتی تھی۔)
عورت کو اپنی ٹیم پر بے حد پیار آ رہا تھا۔ کتنے ذہین، محنتی اور من موہنے ہیں یہ لوگ!
اس نے ڈکشنریاں اور کاغذات اپنی بڑی سی میز پر رکھنے کے لیے میز پر کھلے ہوئے اخبار کو تہہ کر کے ایک طرف رکھا جو سارا ٹارگٹ کلنگ خبروں سے بھرا پڑا تھا۔ دو تین دن سے میڈیا کے ذریعے یہ بھید نہیں کھل رہا تھا کہ کون کس کو مار رہا ہے۔ آیا شیعہ سنیوں کو یا سنی شیعوں کو قتل کر رہے ہیں یا مہاجر پٹھانوں کو یا سندھیوں کو یا سندھی یا پٹھان مہاجروں کو قتل کر رہے ہیں۔ یا یہ سب ایک دوسرے کو ہر قتل کے انتقام کے لیے گولی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تیسری صورت یہ بھی ممکن تھی یہ کہ قتال خود ایجنسیوں کا کھیلا ہوا ایک تماشا تھا جو کسی خاص مقصد بر آری کے لیے منعقد کیا جا رہا تھا۔ چوتھی صورت حال یہ بھی تھی کہ اس کے پیچھے کوئی غیر ملکی ہاتھ ہے۔ شاید یہ باہر والوں کو یہ باتیں بہت مضحکہ خیز لگیں لیکن انھیں کیا پتہ بھئی، کسی کو کیا خبر۔ یہاں کے حالات تو مدت سے بس ایسے ہی ہیں۔
کتابیں میز پر اوپر تلے رکھ کر، تشکر سے پر لہجے میں عورت نے کہنا شروع کیا۔
’’سمجھ میں نہیں آتا، میں آپ لوگوں کی کیسے تعریف کروں۔ پہلے مجھے فکر تھی کہ پتہ نہیں جو ذمہ داری ہم نے لی ہے، جدید طرز کی ڈکشنری بنانے کی، آپ اسے پورا بھی کر سکیں گے یا نہیں؟‘‘ پھر وہ جوش مسرت میں ان سے مذاق کرنے لگی، ’’مثلاً میں تو آپ لوگوں کے حلیے سے خوف زدہ رہتی تھی۔ ڈرتی تھی کہ کہیں کوئی خود کش بمبار تو آپ میں نہیں؟‘‘
وہ مسکرائے۔ انھوں نے کہا، ’’وہی تو ہیں ہم لوگ۔‘‘ اور اپنی کرسیوں پر جنبش کی۔
پھر نہ وہ کمرہ تھا اور نہ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگ۔ صرف ایک زور دار دھماکہ تھا جو شہر میں گونج رہا تھا۔ ڈکشنریوں کے پرخچے دور دور تک اڑ رہے تھے۔ تنہا ابتہاج اور اس کا چھوٹا بھائی ابتسام فضا میں اچھال دیے گئے تھے۔ ان کے ننھے منے کپڑوں پر بنے ہاتھی گھوڑوں کی تصویریں بھڑکتے ہوئے شعلوں خاکستر ہو چکی تھیں۔
ابّ وجد کے ہاتھ پاؤں جسم سے علیحدہ بکھرے پڑے تھے۔ ایک تصور سے حقیقت بن جانے والی ابابیلیں جھلس کر مر گئی تھیں۔ قدیم آریائی گھڑ سوار ‘اب’ کا حال ابتر تھا۔ اس کا اشو یا اسپ الف ہو کر ہنہنا رہا تھا۔ بھڑکتے شعلوں سے اس کی آنکھیں خوف زدہ ہو کر پھیل گئی تھیں۔ اب کے قدیم بلم بھالے لٹوؤں کی طرح چکراتے دور دور تک منتشر ہو چکے تھے۔ اس کا حلق خوف سے خشک ہو گیا تھا۔ وہ بیٹھی ہوئی آواز میں مسلسل چلا رہا تھا۔
’’اب کیا ہو گا؟ اب کیا ہو گا؟‘‘
ایک اور زوردار دھماکہ۔۔۔ اور اب کی بار وہ بھی اپنے رہوار سمیت بھک سے اڑ گیا۔
https: //www.rekhta.org/stories/tairan-ababeel-fahmida-riaz-manto?lang=ur
٭٭٭
افسانے کی بنت اچھی ہے۔ انجام چونکانے والا ہے۔