’دیدبان‘، جلد 2 پر ایک بے تکلف تبصرہ ۔۔۔ اعجاز عبید

خالص ادبی جریدوں میں ’سمت‘ ہی تنہا نہیں ہے، ایک اور جریدہ اہمیت کا حامل ہے جس کا نام ’دیدبان‘ ہے۔ اس کی مدیران تین خواتین ہیں، جو الگ الگ ممالک میں رہتے ہوئے مل کر اسے ترتیب دیتی ہیں۔ سلمیٰ جیلانی نیوزی لینڈ میں ہیں، سبین علی سعودی عرب میں رہتی ہیں اور نسترن احسن فتیحی ہندوستان میں۔

اور مجھے دیدبان نہ صرف اس لیے پسند ہے کہ اس میں معیاری تخلیقات شائع ہوتی ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ بھی تحریری اردو میں ہے۔  اگرچہ یہ جریدہ ’سمت‘ کی طرح پابندی سے ہر تیسرے ماہ پہلی تاریخ کو شائع نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس کا لے آؤٹ ایسا ہے کہ آپ کسی تخلیق سے پہچان سکیں کہ یہ ’دیدبان‘ کے فلاں شمارے میں شامل ہے۔ لیکن آن لائن جریدہ ہونے کے باوجود اس کا سرورق اہم مصوروں کا بنایا ہوا ہوتا ہے، اور یہ اس بنا پر اپنی واحد (Unique) حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کا سرورق بھی ہر شمارے پر نظر نہیں آتا اور اس کے مشمولات کی فہرست بھی  ’قابلِ کلک‘ نہیں ہوتی۔

دیدبان نے یہ کارنامہ ضرور انجام دیا ہے جو ’سمت‘ اب تک نہیں کر پایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ دیدبان اپنے آن لائن شماروں کا انتخاب آف لائن یعنی قلم و قرطاس پر بھی شائع کرتا ہے۔ اس طرح دیدبان کے پہلے تین شماروں کا انتخاب آف لائن دیدبان کی جلد ایک میں شامل تھا۔ اور زیر تبصرہ دیدبان کا یہ شمارہ جلد دوم،آن لائن شماروں ۴، ۵ اور ۶ کے انتخاب پر مشتمل ہے۔ لیکن اتفاق سے آن لائن شماروں کے جو موضوعات تھے، ان کی بجائے اسے ‘مزاحمتی ادب نمبر‘ کا نام دیا گیا ہے۔(شمارہ ۴ تھا ‘عالمی انتشار‘ کے موضوع پر، شمارہ ۵ تھا ‘نسائی اور تانیثی ادب‘ کے موضوع پر اور آن لائن شمارہ ۶ کا موضوع تھا ’شدت پسندی کے اثرات‘)۔ اگرچہ انتخاب انہیں شماروں کا ہے، لیکن ان شماروں میں بھی موضوع کے لحاظ سے دو ایک مضامین ہی تھے۔

بہر حال ’قرطاسی‘ جلد دوم پر تبصرہ یہاں کیا جا رہا ہے۔

شمارہ ’پیش لفظ‘ سے شروع ہوتا ہے جو مشرف عالم ذوقی کا تحریر کردہ ہے۔ یہ چار اوراق پر مشتمل ہے، جس میں اکثر آج کے فکشن پر بات کی گئی ہے۔ رضیہ فصیح احمد کے ناول ’صدیوں کی زنجیر‘ کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ اور اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کی کہانی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ ’’افسانے کا بنیادی منتر ’سیاست‘ ہے اور یہ کہ سیاست کو اب فکشن سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا‘‘

شمارے کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب ۱ شاعری پر مشتمل ہے، جس کا آغاز راقم الحروف کی حمدیہ مناجات، سید انور جاوید ہاشمی اور ضیاء الدین نعیم کی نعتوں سے کیا گیا ہے۔ (اس سلسلے میں یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ اگرچہ میری نعت شمارہ ۴ میں شامل تھی (اور آن لائن شمارے کی پرانی ہندوستانی سائٹ میں  شامل تھی لیکن نئی سائٹ (https://www.deedbanmagazine.com) میں شامل نہیں!!)

حمد اور نعت کے بعد دوسری غزلیں ۔۔۔ صابر، ظفر، ایوب خاور، باصر کاظمی، جمیل الرحمٰن، سہیل احمد صدیقی، افتخار حیدر، فخر عباس، سحرتاب رومانی، عمران عامی، نیر رانی اور شفق کی شامل ہیں۔ ان کے بعد باب شاعری میں نظمیں شامل ہیں۔ نصیر احمد ناصر، عذرا عباس، ابرار احمد، افتخار بخاری، تنویر قاضی، ناہید قاسمی، یوسف عزیز زاہد، ناہید قاسمی، نسیم سید، عارفہ شہزاد، فہیم شناس کاظمی، ثروت زہرا، سدرہ سحر عمران، عشرت معین سیما، علی زیرک، سیمیں درانی، عمیرہ احمد، کہکشاں تبسم اور سلمیٰ جیلانی کی تخلیقات اس حصے کی زینت ہیں۔  ان میں صرف پانچ شعراء اور شاعرات (ناہید قاسمی، نسیم سید، فہیم شناس کاظمی، عشرت سیما اور علی زیرک) کی نظموں میں افاعیل دیکھے جا سکتے ہیں، باقی ساری نثری نظمیں ہیں۔ یادہ تر نظمیں بہت خوب ہیں۔

باب ۲، فنکار کے عنوان سے ہے، اور اس میں آن لائن شماروں کے مصوروں کا تعارف اور ان کی تصویروں کے رنگین پرنٹ (گلیزڈ پیپر پر) شامل ہیں۔ یہ مصور ہیں سلمی آفتاب ظفر، شائستہ مومن (جو خیر سے انور شعور کی پوتی بھی ہیں) اور طیبہ عزیز شامل ہیں۔

باب ۳ کے تحت افسانے دئے گئے ہیں۔ افسانہ نگاروں میں بھی اہم نام شامل ہیں: محمود احمد قاضی، حامد سراج، محمد حمید شاہد، نیر حیات قاسمی (یہ بھی احمد ندیم قاسمی کی پوتی واقع ہوئی ہیں) کوثر جمال، رفاقت حیات، آدم شیر، توصیف احمد ملک، عادل فراز، انجم قدوائی، روما رضوی، سبین علی اور رضیہ صغیر۔

باب ۴ مضامین پر مشتمل ہے جس میں علی رفاد فتیحی (فوکلائزیشن)، زاہدہ حنا (عطیہ فیضی)، ظفر معین بلے جعفری، حقانی القاسمی (شبنم عشائی)، مسرور حسین (شموئیل احمد)، قاسم یعقوب، نسرین ملک اور رابعہ الرباء شامل ہیں۔

باب ۵ تبصروں پر مشتمل ہے۔ اس میں نجم الدین احمد، تنویر قاضی ، حقانی القاسمی اور ارشد علی کے تبصرے ہیں۔

باب ۶ تراجم پر مشتمل ہیں۔ جس میں افتخار بخاری، رابی وحید، نجم الدین احمد، محمد نہال افروز، عامر صدیقی، سلمیٰ جیلانی، عینی علی، اور سبین علی کے کیے ترجمے شامل ہیں۔

اگلا باب قارئین کی آرا پر مشتمل ہے جب کہ آخری باب ۸، ایلف شفق کے ناول ’محبت کے چالیس اصول‘ کا نعیم اشرف کا کیا ہوا ترجمہ قسط وار دیا جا رہا ہے۔ شاید یہ  آئندہ انتخاب، یعنی جلد سوم میں بھی جاری رہے۔

یہ جلد، جیسا کہ کہا جا چکا ہے، مزاحمتی ادب کے موضوع پر ہے۔  اور جریدہ ہونے کے باوجود اس کا انتساب ’صنفی افسانہ اور جبر کے خلاف مزاحمت کرنے والی عورتوں کے نام‘ ہے۔

ایجوکیشنل  بک ہاؤس، دہلی سے شائع شدہ یہ کتابی سلسلہ جو ۴۳۱ صفحات پر مشتمل ہے، ساڑھے چار سو ہندوستانی روپیے میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی طباعت میں محمد حسن ریسرچ فاؤنڈیشن کا اشتراک شامل ہے، جس کو بجا کریڈٹ دیا گیا ہے۔

اکثر تحریری ویب سائٹس سے مجھے یہ شکایت ہے کہ اس کے مدیران ان پیج سے تبدیل کر کے وہی متن بغیر ایڈٹ کیے پوسٹ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اصل کمپوزنگ میں بھی اغلاط ہوتی ہیں، جو یونیکوڈ میں کنورٹ کرنے پر اور نمایاں ہو جاتی ہیں۔ بہت سے کنورٹرس بھی درست کام نہیں کرتے، اور اعداد الٹے ہو جاتے ہیں یعنی ۲۰۱۹ِ کا ۹۱۰۲ نظر آنا ممکن ہے۔ اس کتاب میں ایسی کوئی فاش غلطی تو نظر نہیں آئی۔ لیکن یہ یونی کوڈ متن سے ہی کتاب شائع ہوئی ہے، اس کی چغلی اس میں موجود عربی کے اعداد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شک کچھ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ کچھ ادیب خود بھی کمپوز کر کے اپنی تخلیقات فیس بک پر لگا دیتے ہیں لیکن کوئی مجہول کی بورڈ استعمال کرتے ہیں جس میں اعداد عربی والے ہوتے ہیں، اور ’ہ‘ اور ’ھ‘ میں پھیر بدل ہو جاتا ہے۔ ی، ان کو ہی ہ اور ھ کا درست استعمال نہیں آتا۔ (ایک صاحب کا تو بیان تھا کہ ان کو ’ھ‘ کا استعمال کرنا بہت ’خوبصورت‘ لگتا ہے!!) مجھے ’سمت‘ کے لیے بھی ایسی تخلیقات ملتی ہیں لیکن میں ’ھے‘ اور ’ھیں‘ کو ’ہے‘ اور ‘ہیں‘ میں تبدیل کر دیتا ہوں۔ یہ اغلاط ’دیدبان’ میں اب بھی نظر آ رہی ہیں، جو ویب سائٹ میں تھیں۔ بہر حال یہ بھی خوشی کا مقام ہے کہ اسے ممکنہ طور پر یونی کوڈ میں ہی شائع کیا گیا ہے۔

مدیران سلمیٰ جیلانی، سبین علی اور نسترن احسن فتیحی مبارکباد کی مستحق ہیں کہ ان کو ایسی اچھے معیار کی تخلیقات مل جاتی ہیں، اور وہ آں لائن بھی تین چار ماہ جے وقفے سے شائع کرتی رہتی ہیں، اور تین تین شماروں کا انتخاب بھی قرطاس پر شائع کرتی ہیں۔ اس کی اشاعت یقیناً نسترن فتیحی جو اس کی ہندوستانی مدیر ہیں، کا کارنامہ مانا جا سکتا ہے، اور اس کے لیے (اور مجھے بھیجنے کے لیے) وہ ہمارے شکریے کی مستحق ہیں۔

٭٭٭

خالص ادبی جریدوں میں ’سمت‘ ہی تنہا نہیں ہے، ایک اور جریدہ اہمیت کا حامل ہے جس کا نام ’دیدبان‘ ہے۔ اس کی مدیران تین خواتین ہیں، جو الگ الگ ممالک میں رہتے ہوئے مل کر اسے ترتیب دیتی ہیں۔ سلمیٰ جیلانی نیوزی لینڈ میں ہیں، سبین علی سعودی عرب میں رہتی ہیں اور نسترن احسن فتیحی ہندوستان میں۔

اور مجھے دیدبان نہ صرف اس لیے پسند ہے کہ اس میں معیاری تخلیقات شائع ہوتی ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ بھی تحریری اردو میں ہے۔  اگرچہ یہ جریدہ ’سمت‘ کی طرح پابندی سے ہر تیسرے ماہ پہلی تاریخ کو شائع نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس کا لے آؤٹ ایسا ہے کہ آپ کسی تخلیق سے پہچان سکیں کہ یہ ’دیدبان‘ کے فلاں شمارے میں شامل ہے۔ لیکن آن لائن جریدہ ہونے کے باوجود اس کا سرورق اہم مصوروں کا بنایا ہوا ہوتا ہے، اور یہ اس بنا پر اپنی واحد (Unique) حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کا سرورق بھی ہر شمارے پر نظر نہیں آتا اور اس کے مشمولات کی فہرست بھی  ’قابلِ کلک‘ نہیں ہوتی۔

دیدبان نے یہ کارنامہ ضرور انجام دیا ہے جو ’سمت‘ اب تک نہیں کر پایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ دیدبان اپنے آن لائن شماروں کا انتخاب آف لائن یعنی قلم و قرطاس پر بھی شائع کرتا ہے۔ اس طرح دیدبان کے پہلے تین شماروں کا انتخاب آف لائن دیدبان کی جلد ایک میں شامل تھا۔ اور زیر تبصرہ دیدبان کا یہ شمارہ جلد دوم،آن لائن شماروں ۴، ۵ اور ۶ کے انتخاب پر مشتمل ہے۔ لیکن اتفاق سے آن لائن شماروں کے جو موضوعات تھے، ان کی بجائے اسے ‘مزاحمتی ادب نمبر‘ کا نام دیا گیا ہے۔(شمارہ ۴ تھا ‘عالمی انتشار‘ کے موضوع پر، شمارہ ۵ تھا ‘نسائی اور تانیثی ادب‘ کے موضوع پر اور آن لائن شمارہ ۶ کا موضوع تھا ’شدت پسندی کے اثرات‘)۔ اگرچہ انتخاب انہیں شماروں کا ہے، لیکن ان شماروں میں بھی موضوع کے لحاظ سے دو ایک مضامین ہی تھے۔

بہر حال ’قرطاسی‘ جلد دوم پر تبصرہ یہاں کیا جا رہا ہے۔

شمارہ ’پیش لفظ‘ سے شروع ہوتا ہے جو مشرف عالم ذوقی کا تحریر کردہ ہے۔ یہ چار اوراق پر مشتمل ہے، جس میں اکثر آج کے فکشن پر بات کی گئی ہے۔ رضیہ فصیح احمد کے ناول ’صدیوں کی زنجیر‘ کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ اور اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کی کہانی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ ’’افسانے کا بنیادی منتر ’سیاست‘ ہے اور یہ کہ سیاست کو اب فکشن سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا‘‘

شمارے کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب ۱ شاعری پر مشتمل ہے، جس کا آغاز راقم الحروف کی حمدیہ مناجات، سید انور جاوید ہاشمی اور ضیاء الدین نعیم کی نعتوں سے کیا گیا ہے۔ (اس سلسلے میں یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ اگرچہ میری نعت شمارہ ۴ میں شامل تھی (اور آن لائن شمارے کی پرانی ہندوستانی سائٹ میں  شامل تھی لیکن نئی سائٹ (https://www.deedbanmagazine.com) میں شامل نہیں!!)

حمد اور نعت کے بعد دوسری غزلیں ۔۔۔ صابر، ظفر، ایوب خاور، باصر کاظمی، جمیل الرحمٰن، سہیل احمد صدیقی، افتخار حیدر، فخر عباس، سحرتاب رومانی، عمران عامی، نیر رانی اور شفق کی شامل ہیں۔ ان کے بعد باب شاعری میں نظمیں شامل ہیں۔ نصیر احمد ناصر، عذرا عباس، ابرار احمد، افتخار بخاری، تنویر قاضی، ناہید قاسمی، یوسف عزیز زاہد، ناہید قاسمی، نسیم سید، عارفہ شہزاد، فہیم شناس کاظمی، ثروت زہرا، سدرہ سحر عمران، عشرت معین سیما، علی زیرک، سیمیں درانی، عمیرہ احمد، کہکشاں تبسم اور سلمیٰ جیلانی کی تخلیقات اس حصے کی زینت ہیں۔  ان میں صرف پانچ شعراء اور شاعرات (ناہید قاسمی، نسیم سید، فہیم شناس کاظمی، عشرت سیما اور علی زیرک) کی نظموں میں افاعیل دیکھے جا سکتے ہیں، باقی ساری نثری نظمیں ہیں۔ یادہ تر نظمیں بہت خوب ہیں۔

باب ۲، فنکار کے عنوان سے ہے، اور اس میں آن لائن شماروں کے مصوروں کا تعارف اور ان کی تصویروں کے رنگین پرنٹ (گلیزڈ پیپر پر) شامل ہیں۔ یہ مصور ہیں سلمی آفتاب ظفر، شائستہ مومن (جو خیر سے انور شعور کی پوتی بھی ہیں) اور طیبہ عزیز شامل ہیں۔

باب ۳ کے تحت افسانے دئے گئے ہیں۔ افسانہ نگاروں میں بھی اہم نام شامل ہیں: محمود احمد قاضی، حامد سراج، محمد حمید شاہد، نیر حیات قاسمی (یہ بھی احمد ندیم قاسمی کی پوتی واقع ہوئی ہیں) کوثر جمال، رفاقت حیات، آدم شیر، توصیف احمد ملک، عادل فراز، انجم قدوائی، روما رضوی، سبین علی اور رضیہ صغیر۔

باب ۴ مضامین پر مشتمل ہے جس میں علی رفاد فتیحی (فوکلائزیشن)، زاہدہ حنا (عطیہ فیضی)، ظفر معین بلے جعفری، حقانی القاسمی (شبنم عشائی)، مسرور حسین (شموئیل احمد)، قاسم یعقوب، نسرین ملک اور رابعہ الرباء شامل ہیں۔

باب ۵ تبصروں پر مشتمل ہے۔ اس میں نجم الدین احمد، تنویر قاضی ، حقانی القاسمی اور ارشد علی کے تبصرے ہیں۔

باب ۶ تراجم پر مشتمل ہیں۔ جس میں افتخار بخاری، رابی وحید، نجم الدین احمد، محمد نہال افروز، عامر صدیقی، سلمیٰ جیلانی، عینی علی، اور سبین علی کے کیے ترجمے شامل ہیں۔

اگلا باب قارئین کی آرا پر مشتمل ہے جب کہ آخری باب ۸، ایلف شفق کے ناول ’محبت کے چالیس اصول‘ کا نعیم اشرف کا کیا ہوا ترجمہ قسط وار دیا جا رہا ہے۔ شاید یہ  آئندہ انتخاب، یعنی جلد سوم میں بھی جاری رہے۔

یہ جلد، جیسا کہ کہا جا چکا ہے، مزاحمتی ادب کے موضوع پر ہے۔  اور جریدہ ہونے کے باوجود اس کا انتساب ’صنفی افسانہ اور جبر کے خلاف مزاحمت کرنے والی عورتوں کے نام‘ ہے۔

ایجوکیشنل  بک ہاؤس، دہلی سے شائع شدہ یہ کتابی سلسلہ جو ۴۳۱ صفحات پر مشتمل ہے، ساڑھے چار سو ہندوستانی روپیے میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی طباعت میں محمد حسن ریسرچ فاؤنڈیشن کا اشتراک شامل ہے، جس کو بجا کریڈٹ دیا گیا ہے۔

اکثر تحریری ویب سائٹس سے مجھے یہ شکایت ہے کہ اس کے مدیران ان پیج سے تبدیل کر کے وہی متن بغیر ایڈٹ کیے پوسٹ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اصل کمپوزنگ میں بھی اغلاط ہوتی ہیں، جو یونیکوڈ میں کنورٹ کرنے پر اور نمایاں ہو جاتی ہیں۔ بہت سے کنورٹرس بھی درست کام نہیں کرتے، اور اعداد الٹے ہو جاتے ہیں یعنی ۲۰۱۹ِ کا ۹۱۰۲ نظر آنا ممکن ہے۔ اس کتاب میں ایسی کوئی فاش غلطی تو نظر نہیں آئی۔ لیکن یہ یونی کوڈ متن سے ہی کتاب شائع ہوئی ہے، اس کی چغلی اس میں موجود عربی کے اعداد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شک کچھ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ کچھ ادیب خود بھی کمپوز کر کے اپنی تخلیقات فیس بک پر لگا دیتے ہیں لیکن کوئی مجہول کی بورڈ استعمال کرتے ہیں جس میں اعداد عربی والے ہوتے ہیں، اور ’ہ‘ اور ’ھ‘ میں پھیر بدل ہو جاتا ہے۔ ی، ان کو ہی ہ اور ھ کا درست استعمال نہیں آتا۔ (ایک صاحب کا تو بیان تھا کہ ان کو ’ھ‘ کا استعمال کرنا بہت ’خوبصورت‘ لگتا ہے!!) مجھے ’سمت‘ کے لیے بھی ایسی تخلیقات ملتی ہیں لیکن میں ’ھے‘ اور ’ھیں‘ کو ’ہے‘ اور ‘ہیں‘ میں تبدیل کر دیتا ہوں۔ یہ اغلاط ’دیدبان’ میں اب بھی نظر آ رہی ہیں، جو ویب سائٹ میں تھیں۔ بہر حال یہ بھی خوشی کا مقام ہے کہ اسے ممکنہ طور پر یونی کوڈ میں ہی شائع کیا گیا ہے۔

مدیران سلمیٰ جیلانی، سبین علی اور نسترن احسن فتیحی مبارکباد کی مستحق ہیں کہ ان کو ایسی اچھے معیار کی تخلیقات مل جاتی ہیں، اور وہ آں لائن بھی تین چار ماہ جے وقفے سے شائع کرتی رہتی ہیں، اور تین تین شماروں کا انتخاب بھی قرطاس پر شائع کرتی ہیں۔ اس کی اشاعت یقیناً نسترن فتیحی جو اس کی ہندوستانی مدیر ہیں، کا کارنامہ مانا جا سکتا ہے، اور اس کے لیے (اور مجھے بھیجنے کے لیے) وہ ہمارے شکریے کی مستحق ہیں۔

٭٭٭

One thought on “’دیدبان‘، جلد 2 پر ایک بے تکلف تبصرہ ۔۔۔ اعجاز عبید

  • اعجاز عبید آپ کا بہت شکریہ آپ نے بہت مفصل اور عرق ریزی سے مطالعہ کے بعد اپنا تبصرہ لکھا۔ ان پیج سے یونی کوڈ اور پھر ان پیج میں کنورٹ کرتے وقت جن مسائل کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا اور ان میں سے کچھ کتاب میں بھی بھی رہ گئیں وہ "ی” اور "ے” کا معاملہ ہے ۔ ہمارے پاس مواد کبھی ان پیج پروفیشنل کبھی ان پیج کے پرانے ورژن اور کبھی یونی کوڈ کی صورت میں موصول ہوتا ہے ۔جلد اول میں ہم نے ساری کتاب کی تین بار پروف ریڈنگ کی اور اغلاط سے پاک کیا۔ جبکہ جلد دوم میں کچھ صفحات میں ے سے لفظ ٹوٹے ہیں۔۔ہم ان مسائل سے نپٹنے کے لیے سنجیدہ کوشش کر رہی ہیں۔ یہ جلد دوم جنگ اور شدت پسندی کے ساتھ تانیثیت کے حوالے سے خاص نمبر تھا۔ اور اسی موضوع کی ذیل میں تحریروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ مزاحمتی ادب کی کتاب ابھی زیر ترتیب ہے جو ان شاءاللہ جلد پریس میں ہو گی۔ جلد دوم چھپنے کے بعد میں بطور خاص آپ سے ے سے لفظ ٹوٹنے کے بارے میں مشورہ بھی کیا تھا اور میں آپ کی خاص طور پر شکرگزار ہوں کہ آپ نے ایک سافٹ وئیر بھی بھیجا تھا۔ سلامت رہیے۔ اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہیے۔
    پس نوشت
    شائستہ مومن معروف شاعر انور شعور کی بیٹی ہیں۔ جبکہ نئیر حیات قاسمی ،احمد ندیم قاسمی کے نواسے اور ڈاکٹر ناہید قاسمی کے فرزند ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے