ایک سراغ رساں کی نوٹ بک
______________________________________________________________________
ابھی حال ہی میں میرے پاس ایک کیس آیا ہے۔ پرائیویٹ ڈکٹیٹیو ہوتے ہوئے بھی جانتا ہوں کہ میں اس کیس کو حل کرنے کے لئے کوئی مناسب شخص نہیں ہوں۔ میرے سامنے کئی رکاوٹیں ہیں۔ جن سے گزرنا آسان نہیں۔ جنہیں پار کرنا دنیا کے ساتوں سمندر کو پار کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ مثال کے لئے آپ کو آسمان کی وسعتوں میں جگمگاتے بیشمار تاروں کو گننے کے لئے کہہ دیا جائے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کام نا ممکنات میں سے ایک ہے۔ تاریخ کے زندہ صفحات ظلم و بربریت کی ہولناک داستانوں سے آج بھی تھرتھراتے ہیں۔ ان میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہیاں بھی شامل ہیں۔ ان جنگوں کا ذائقہ کچھ ایسا تھا کہ ایک زمانے تک اندھی اور بیمار نسلوں کو ان تباہیوں کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ لیکن اب جو کیس میرے ہاتھ میں ہے، اسے دیکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ نئے واقعات اور حادثات کی روشنی میں ان تباہیوں کا افسانہ کچھ زیادہ اثر انگیز نہیں ہے۔ مثال کے لئے توپوں سے زندہ انسانوں کو اڑا دینا، بھوکے شیر کے پنجروں میں چیختے ہوئے زندہ غلاموں کو ڈال دینا، نازیوں کا گیس چیمبر، جہاں مجرموں کی کراہیں سخت اور پتھریلی دیواروں میں شگاف کر دیتی تھیں۔ آگے بڑھیئے تو تاریخ کے نئے باب میں داعش اور طالبان جیسی دہشت گرد تنظیموں کی خوفناک وارداتیں شامل ہیں۔ انسانی کٹے ہوئے سر کو ظالمانہ انداز سے فٹ بال کی طرح اچھالنا یا معصوم ننھے بچوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر قہقہہ لگانا۔۔۔۔ انقلاب کی ایسی ہزاروں تاریخ کے صفحے پلٹئے تو ان خوفناک واردات کی کڑیوں کو آپس میں جوڑنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ان کہانیوں میں ہر تانا شاہ ایک بیڈ مین، ایک ظالم حکمراں، ایک ویلن ہے۔ مگر معاف کیجئے گا، اچانک تاریخ نے ندی کی طرح اپنا رُخ بدل دیا۔ سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو گیا۔ تعریفیں بدل گئیں۔ نظر یہ بدل گیا۔ بیڈ میں نے اصلی ہیرو کی جگہ لے لی۔ مجرم، معصوم بن گیا۔ معصوم، مجرم بن گئے۔ انصاف کی عمارتوں پر سیاہ کہرا چھا گیا۔ ایک سراغ رساں ہوتے ہوئے تازہ واردات کی کڑیاں جوڑنا چاہتا ہوں تو سوائے ناکامی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ ان کڑیوں کو جوڑتے ہوئے میں جن نتائج پر پہنچنا چاہتا ہوں وہاں گہری دھند ہے یا وقت کی دھول جمی ہے۔ نہ ختم ہونے والا اندھیرا ہے۔ اور جیسا میں نے کہا۔۔۔۔ تاریخ اُلٹ پلٹ ہو گئی ہے۔
تاریخ کا ظالمانہ رس
_____________________________________________________
میں اب تک اسے شک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ سچ ہے کہ ان دنوں میں بیکار تھا۔ اور مجھے کام کی ضرورت تھی۔ لیکن سامنے جو شخص تھا، اسے دیکھتے ہوئے ایسا بالکل نہیں لگ رہا تھا، کہ یہ شخص میری بیکاری کو ختم کر سکے گا۔
کہانی کی ایک کڑی کو دوسری کڑی سے وابستہ کرنا میرے لئے مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ گھر کی سفیدی جھڑتی چھت کو دیکھتے ہوئے میں نے صرف اتنا کہا— ’یہاں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے، جسے ہم پہلے سے نہیں جانتے‘ یہ بات میں نے اس قدر آہستہ سے کہی کہ سامنے بیٹھے شخص کو بھی میری آواز سنائی نہیں پڑی۔ میں نے سگار سلگایا۔ اجنبی کو غور سے دیکھا … پھر پوچھا۔
’تم چاہتے ہو میں تمہاری ماں کو تلاش کروں …؟‘
’ماں نہیں ماتا … ‘
’ایک ہی بات ہے … ‘
’ایک ہی بات نہیں ہے سر … اجنبی کی آنکھوں میں خوف تھا … ’ماں اور ماتا میں فرق ہوتا ہے۔‘
’میرے خیال سے نہیں۔ کچھ لوگ ماں کہتے ہیں، کچھ لوگ ماتا … ‘
ماتا غائب ہوئی ہے … ’ اجنبی کا چہرہ اب لاش کی طرح سرد تھا … ’آپ شاید اخبار نہیں پڑھتے — ٹی وی نہیں دیکھتے …؟‘
’دیکھتا ہوں۔ اخبار بھی پڑھتا ہوں۔‘ میں نے پھر الجھن بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا— ’لیکن ابھی تم کہہ رہے تھے کہ تمہارے پاس پیسہ بھی نہیں … ‘
’ہم تو غریب ہیں صاحب … ’کمیٹی اور کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیجیے … دلدل میں ہیں صاحب، پیسہ کہاں سے آئے گا۔‘
’پھر میری فیس کیسے دو گے؟‘
’وہ ایک تنظیم دے گی۔۔.‘
’تنظیم—‘ اس بار میں بیٹھے بیٹھے تقریباً اپنی جگہ سے اچھل گیا۔
’تمہاری تنظیم بھی ہے؟‘
میری نہیں صاحب … لیکن ہے۔ وہ لوگ ہمارا مقدمہ لڑتے ہیں۔‘
’کون لوگ؟
’وہی تنظیم والے۔‘
میرے کانوں کے پاس دھڑا دھڑ بارود کے گولے پھٹ رہے تھے۔
’تم تنظیم کے لئے کام کرتے ہو؟‘
’ارے نہیں صاحب۔۔ . ہم تو معمولی لوگ ہیں۔ لیکن وہ لوگ بہت اچھے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں پر آتے ہیں۔ سفیدچمچماتے کڑک کپڑے ہوتے ہیں۔ کمال ہے کہ آپ ان کے لباس پر ایک بھی داغ دکھا دیں۔ وہ جب بھی آتے ہیں، ہماری کچھ نہ کچھ مدد کر کے جاتے ہیں۔‘
’کیسی مدد؟‘
’وہ ہمارے لئے کپڑے اور گھریلو سامان لاتے ہیں۔ کبھی کبھی پیسے کوڑی سے بھی ہماری مدد کرتے ہیں۔‘
میں نے کچھ سوچ کر پوچھا — ’آپ پولیس کے پاس کیوں نہیں گئے؟‘
’پولیس کے پاس جا کر کیا ہوتا صاحب؟‘
میں نے جو کچھ سنا وہ مجھے حیرت میں ڈالنے جیسا تھا۔ میں جانتا تھا، ایک پوری دنیا بدل چکی ہے۔ وقت تاریخ کو اپنے طور پر رقم کرتی ہے۔ ہم ایک نئی کارپوریٹ دنیا کا حصہ ہیں۔ یہاں جتنا کچھ آرگنائزڈ ہے، اس سے کہیں زیادہ بکھرا ہوا ہے۔ غریبوں کی جھونپڑیوں سے مختلف ایک بلند اٹھتی ہوئی سول سوسائٹی بھی ہے۔ اس نئی دنیا میں زبان، علامت، دلیلیں سب اسی حساب سے تیار کی جا رہی ہیں۔ سیاست، سماج، مذہب کے اپنے معیار ہیں۔ اور یہاں جہاں کھربوں کی دولت ہے، وہیں ایک سہمی ہوئی بلی بھی ہے، جو مسلسل بھاگتے ہوئے ماری جا رہی ہے۔ میں یہ بتا دوں کہ میں اکیلے رہتا ہوں۔ اکیلے رہنا مجھے پسند ہے۔ اور اس وجہ سے میں نے شادی نہیں کی۔ جاسوس ہونا میرا پیشہ بھی ہے شوق بھی۔ میں نے اپنے لئے ایک گرم کافی تیار کی اور فلیٹ کی بالکنی پر آ گیا۔ سامنے ہرے بھرے درختوں کی قطار تھی۔ پارک بھی نظر آ رہا تھا جہاں بچے کھیل رہے تھے۔ کافی کی چسکی لیتے ہوئے میں ان واقعات کو شامل کرنا چاہتا تھا جو معلومات مجھے اس شخص سے ملی تھیں۔ اس شخص کا نام اسلم شیخ تھا اور وہ اندھا تھا۔ وہ پیدائشی اندھا نہیں تھا، بلکہ کچھ دن پہلے ہی آنکھوں میں چوٹ لگنے کی وجہ سے اس کی بینائی چلی گئی تھی۔ اس کے باپ دادا کسان تھے۔ وہ بھی ایک کسان کا بیٹا تھا۔ اس نے کالج تک تعلیم حاصل کی تھی، پھر پڑھائی چھوٹ گئی۔ پڑھائی چھوٹی نہیں، بلکہ دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جب وہ جیل سے باہر آیا تو صدمے میں اس کے ماں باپ دونوں گزر چکے تھے۔ گھر کی دیکھ بھال اس کا غیر شادی شدہ چچا کرتا تھا۔ اسے میرے پاس لے کر آنے والا اس کا چچا تھا۔
کڑیاں جڑنے لگیں تو آزادی کے 70 سال سامنے تھے۔ بقول اسلم شیخ، یہ کہانی اس وقت کی ہے جب میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن تاریخ کے صفحات پلٹیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں، ان کی دھمک تو آزادی کے وقت سے ہی آنی شروع ہو گئی تھی۔
میں اس کا نام سن کر پہلی بار چونکا تو وہ ہنس دیا … ’یہ نام پہلی بار پوری دنیا کو چونکاتا ہے سر۔ اب امریکہ میں دیکھئے۔ آپ مسلمان ہیں تو ڈائل پیڈ پر نمبر گھما کر سسٹم کو بتائیے۔ وقت نے ہمیں نمبر بنا دیا ہے۔ ایسا نمبر جو لوگوں کو ڈرانے کے کام آتا ہے۔‘
اسلم شیخ ہنسا۔ ’ہم مفرور ہیں صاحب۔ ایک جگہ چین سے نہیں بیٹھتے۔ دیکھئے 70 سال پہلے ہم اچھے بھلے جی رہے تھے۔ سارے ملک میں فساد کرا دیا۔ ایک مختلف ملک بنوا دیا۔ مفرور بھاگ کر اپنے ملک پہنچ گئے۔ کچھ یہاں رہ گئے۔ بھاگنا ہی تھا تو سب بھاگتے۔ کچھ کو یہاں رہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کی سزا تو ملنی ہی تھی۔ ملی بھی۔ جانتے ہیں کیا ملی؟‘
اسلم شیخ کی اندھی آنکھوں میں اس وقت میں، غضب کی چمک دیکھ رہا تھا۔ وہ ذرا دیر کے لئے رکا۔ پھر کہنا شروع کیا۔
’بھگوڑوں پر یقین نہیں کیا جاتا۔ ہم پر بھی نہیں کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری نسلیں جوان ہوتی رہیں، لیکن ہم شک کے دائرے میں رہے۔ مفرور ڈرپوک ہوتے ہیں سر۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ گاندھی جی سے اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے قتل تک— خبر آئی نہیں کہ مسلمان اپنے گھروں میں دبک گئے۔ ملک ان 70 سالوں میں ڈرتا رہا کہ مفرور کہیں پھر سے دوسرا ملک نہ بنا لیں۔ شک اور غیر یقینی کے درمیان ایک لکشمن جھولا تھا، جس پر ہم جھول رہے تھے۔ اور اب بھی جھول رہے ہیں … وہ ایک لمحے کو رکا۔۔ .
’آپ کو بابری مسجد، رتھ یاترائیں، یہ سب تو یاد ہیں نا؟‘
’ہاں۔‘
’تب میرے بڑے چچا مارے گئے تھے۔ فساد میں ابا ایک ہی بات کہتے تھے۔ بھگوڑوں کو چپ چاپ خاموش زندگی گزانی چاہیے۔‘ وہ اچانک ٹھہرا۔ ’اس سے پہلے ہم میرٹھ تھے۔ ہاشم پورہ میں۔ وہ تصویر آپ نے دیکھی ہو گی۔ سی آر پی والے کچھ لوگوں پر بندوق تانے ہوئے ہیں۔ ان میں میرے چھوٹے چچا بھی تھے۔ بھگوڑوں کی تاریخ نہیں ہوتی۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ تاریخ بھگوڑوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دینا پسند نہیں کرتا۔‘
اسلم شیخ نے پھر بولنا شروع کیا۔ میں تو جیل میں تھا سر۔ لیکن اس وقت میرا خاندان دادری میں تھا۔ جس کا قتل ہوا، میں اسے بھی جانتا تھا سر۔ ایک نمبر کا جادوگر تھا۔ جادو سے مٹن اور چکن کیا نوٹوں کو بھی بدل دیتا تھا یا غائب کر دیتا تھا۔ وہاں سے بھگوڑے بھگائے گئے تو میرا خاندان وزیر آباد آ گیا۔ یہاں ایک چھوٹا سا مٹی کا گھر تھا۔ اور جو واقعات ہوئے، ان کی کہانی اسی وزیر آباد سے ملتی ہے۔‘
بکھری ہوئی غیر انسانی تاریخ کو ادھر ادھر سے جوڑ کر وہ کیا کہنا اور بتانا چاہتا تھا، یہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ اسے ایک تنظیم نے میرے پاس بھیجا تھا۔ بقول اسلم شیخ، مجھے اس کی ماں کو تلاش کرنا ہے۔ لیکن اب بھی کہانی کے کئی ایسے پیچ تھے، جسے سمجھنا اور جاننا ضروری تھا۔ جاسوس ہونے کے ناطے ہم تاریخ کی پرتیں ضرور ادھیڑتے ہیں۔ مگر تاریخ کے اندر کے پوشیدہ درد کا احساس کرنا ہمارے کام میں شامل نہیں ہوتا۔ اس دن وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھا تھا۔ میں نے سگار کا کش لیا۔ گہری آنکھوں سے اس کی اندھی آنکھوں میں جھانکا۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ عمر 35 اور 40 کے درمیان۔ رنگ گندمی، قد اوسط سے کچھ زیادہ۔ جسم دبلا پتلا، اگر وہ باتیں نہیں کرتا تو کسی لاش کی طرح بے جان یا پتھر کا مجسمہ نظر آتا۔ میں نے پھر اس کی طرف دیکھا۔
’ہاں۔ تم کہہ رہے تھے کہ تم جیل گئے تھے …؟‘
’ہاں، گیا تھا نا، پورے آٹھ سال جیل میں گزارے …‘
’وجہ کیا تھی۔؟‘
اسلم شیخ زور سے ہنسا۔ ’اونچی پروازوں کے درمیان ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔ ہم تاریخ کے بیکار کل پرزوں کی طرح ہیں۔ اب دیکھئے تھوڑے برسوں میں کتنے پرزے بیکار ہو گئے۔ فلاپی، کیسٹ، پیجر، گراموفون، ٹیلی گرام، پبلک فون بوتھ، ٹی وی انٹینا، ٹائپ رائٹر، وقت بتانے والی گھڑیاں۔ ہم بھول گئے تھے کہ تاریخ نے ہمیں بھی ردی کے گودام میں چپکے سے ڈال دیا ہے۔ اور اس وجہ سے کوئی بھی پرواز ہمارے لئے نہیں ہے۔ میں کیریئر بنانے چلا تھا۔‘ وہ ہنس رہا تھا۔ ’ایک لیپ ٹاپ لے آیا۔ آپکی نئی گلوبل دنیا سے جڑنا چاہتا تھا۔ فیس بک، گوگل، ٹوئٹر … دوست بنا رہا تھا۔ لیکن وقت بتانے والی گھڑی بند تھی۔ ہم پیچھے چلے گئے تھے۔‘
’آگے کیا ہوا بتاؤ۔؟‘
’ایک دن دروازے پر دستک ہوئی۔ دو تین پولیس والے تھے۔ وہ دھڑ دھڑاتے ہوئے اندر آ گئے۔ میرا نام پوچھا … گھر کے سامانوں کی تلاشی لی۔ میں باقاعدہ پوری دلچسپی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک پولیس والا میرا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے فن میں ماہر تھا۔ اس نے پتہ نہیں کیا کاریگری کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے میرا لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا۔‘
’لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا؟‘
اسلم شیخ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی … ’اسکرین پر اچانک ایمان تازہ ہو گیا سر۔ دنیا بھر کی اسلامی فوٹوز میرے لیپ ٹاپ کے اسکرین پر جھلملا رہی تھیں۔ کچھ چہرے بھی تھے۔ پولیس والے نے میرا پاس ورڈ پوچھا۔ میں نے بتا دیا۔ نہ بتانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ کچھ دیر تک پورے انہماک سے وہ اپنا کام انجام دیتا رہا۔ پھر میرے والدین سے کہا آپ سب کو میرے ساتھ تھانے چلنا پڑے گا۔‘
’کیوں؟‘
اسلم شیخ نے الجھن سے میری طرف دیکھا۔ ’آپ واقعی جاسوس ہیں یا مجھے غلط آدمی کا پتہ بتایا گیا؟ یہ آپ کو بتانا پڑے گا کہ میں کیوں تھانے لایا گیا۔ پہلی بار مجھے لگا کہ میرے پاس اس سوال کا بھی جواب نہیں ہے کہ میں کیوں پیدا ہوا۔ میرے والدین کو اسی شرط پر چھوڑا گیا کہ میں اپنا گناہ قبول کر لوں۔ اور مجھے اعتراف کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ مجھے جیل ہو گئی۔ دو سال پہلے تنظیم والے مجھ سے ملے۔ میرا مقدمہ انہوں نے اپنے ہاتھ میں لیا۔ رہا ہونے سے پہلے جیل میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔
’کیسا واقعہ؟؟‘
’وہ جہادی تھے سر۔ تعداد میں آٹھ۔ مختلف بیرکوں میں تھے۔ لیکن سب ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے۔ ان میں سے دو جلد رہا ہونے والے تھے۔ باقی بھی کچھ دنوں بعد قید کی رہائی سے آزاد ہونے والے تھے۔ میں ان سب کو جانتا تھا۔ ان میں کسی کو بھی رہائی پسند نہیں تھی۔ جیل میں پکنک کا ماحول تھا۔ ان لوگوں نے پوری منصوبہ بندی کی۔ پہلے چالیس چادریں حاصل کیں۔ چالیس شیٹس کی رسیاں تیار کرنے میں ہی کئی گھنٹے لگ گئے۔ جیل کی دیواریں اتنی سخت اور بلند تھیں کہ پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔ چالیس چادریں بن گئی۔ جیل کے برتنوں سے، چمچ کانٹے سے ڈھول بجاتے ہوئے باہر نکلے۔ ایک پہریدار تھا۔ مذاق سے اس کے سر پر برتن دے مارا۔ مگر وہ شوگر کا مریض نکلا۔ اور مر گیا اور اس درمیان ان لوگوں نے ٹوتھ برش اور لکڑی سے جیل کا تالا کھولنے والی چابی تیار کر لی تھی۔ بیرک سے نکلے۔ ٹوتھ برش کی چابی سے دروازہ کھول دیا۔ بجلی کے تار والی دیوار پر رسی پھیکی۔ دیوار پر چڑھ گئے۔ باہر گئے، پھر ایک چٹان پر جمع ہو گئے۔‘
’بس کرو … ‘میں زور سے چلایا۔ ’یہاں میں تمہاری فنتاسی سننے کے لئے نہیں آیا ہوں …‘
’آپ حقیقت کو فنتاسی مانتے ہیں؟‘ مجھے اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی جھلک نظر آئی تھی۔
مجھے یاد آیا، دنیا میں ہونے والے اس طرح کے کئی واقعات نے فینٹم، اسپائڈر مین تک کی فینٹسی کو صفر بنا دیا ہے۔ حقیقت کی عالیشان دنیا میں وہ سب ممکن ہے، جسے کل تک ہم فنتاسی کا نام دیا کرتے تھے۔
میرا سر بوجھل تھا۔ ’آگے کیا ہوا؟‘
’میرے خلاف جو ثبوت تھے، وہ کمزور نکلے۔ میں رہا ہو کر باہر آیا تو معلوم ہوا، میرے والدین دادری سے وزیر آباد آ چکے ہیں۔ ان کو تلاش کرتا ہوا میں ایک اجنبی گھر میں آیا۔ کمزور مٹی کا بنا ہوا چھوٹا سا گھر۔ گھر کے باہر چھوٹی سی جگہ جسے لکڑی کی شہتیروں اور گھاس پھونس سے گھیر کر رہنے کے لئے جگہ بنائی گئی تھی۔
’’ایک منٹ ٹھہرو …‘ میں نے اچانک چونک کر اسلم شیخ کو دیکھا … کس کے لئے جگہ بنائی گئی تھی …‘
’ماتا کے لئے۔‘
’ماتا؟‘
’ہاں، دو ماتاؤں کے لئے۔‘
’لیکن تم نے کہا، تمہارے والدین گزر گئے۔‘
’ہاں اور یہ میرے چچا ہیں۔ جن کے ساتھ آیا ہوں۔‘
’تو پھر یہ ماں کا کیا چکر ہے؟‘اچانک میرے دماغ میں کچھ اتھل پتھل سا ہوا … کہیں تم گایوں کو؟‘
اسلم شیخ اچھلا۔ ’ماتا کہیے سر۔ آپ جانتے نہیں کہ ماں کے لئے کتنی سیکورٹی بڑھ چکی ہے۔ بڑھنی بھی چاہیے۔ سارے ملک میں قتل ہو رہے ہیں۔ ہونا بھی چاہیے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ ویسے بھی ماں کے گم ہونے تک میں اتنے سارے عذاب سے گزر چکا ہوں کہ آپ کو بتا نہیں سکتا۔ آپ نے سنا نہیں، ملک بھی ماں ہے۔ یہاں بھی ان لوگوں پر مصیبت آئی ہوئی ہے، جو ملک کو باپ مانتے ہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جو بھی کہا جا رہا ہے، اسے مان لینا چاہیے۔ آپ بھی نام نہ لیجئے۔ آپ پر بھی مصیبت آ سکتی ہے۔‘
میں اب اسلم شیخ کو حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ’تم نے میرا وقت برباد کیا۔ تم معمولی گایوں کی گمشدگی کے بعد چاہتے ہو کہ میں تلاش کروں۔‘
اس کی بجھی ہوئی آنکھوں میں نفرت تھی۔ ’کیا آپ اسے معمولی کام سمجھ رہے ہیں؟ اور یہ کام اتنا پیچیدہ نہیں ہوتا تو میں آپ کے پاس کیوں آتا؟‘
اس کی آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا۔ ’میری جان کو خطرہ ہے۔ میں بھاگا بھاگا چل رہا ہوں۔ وہ لوگ کبھی بھی میرا قتل کر سکتے ہیں۔‘
اس بار میں واقعی چونک گیا تھا۔
دور جدید کا مزاح رس
__________________________________________________
کتوں پر بنی ہوئی ایسی کئی فلمیں مجھے یاد تھیں، جہاں کسی صاحب بہادر کے گمشدہ کتے کی تلاش طنز و مزاح کے نئے رنگوں کو جنم دیتی تھی۔ کچھ سال پہلے ایک سیاستداں کی کھٹال سے بھینسوں کے فرار ہونے کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔ اکثر ظلم کے واقعات کا جہاں ایک افسوس ناک پہلو ہوتا ہے، وہیں حکمرانوں کی پراسرار شخصیت اور زندگی کے کئی پہلو ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں چونکا دیتے ہیں۔ تیمور کے لنگڑے ہونے، نپولین کے چھوٹے قد اور ہٹلر کی مونچھوں نے بھی شہرت حاصل کی تھی۔ ملک، تہذیب اور مذہب کی بلند دیواروں کے درمیان اب یہاں ایک ’گائے‘ آ گئی تھی۔ موجودہ تاریخ کے بہت سے سیاق و سباق ایسے تھے جہاں ظلم کے ساتھ خوف اور طنز و مزاح کے عناصر دونوں ایک ساتھ ایک جگہ جمع ہو گئے تھے۔ لیکن یہاں مزاح کا رس چارلی کے کردار کی طرح تھا، جس کی کہانیاں اکثر ملک اور سیاست پر رلا بھی دیتی ہیں اور ہنسا بھی دیتی ہیں۔
اسلم دادری سے وزیر آباد آیا تو حالات بہت حد تک بدل چکے تھے۔ بقول اسلم، جب حکومت کی طرف سے یہ طے کیا جائے کہ آپ کو کیا کھانا ہے، کیا بولنا ہے، تو سمجھ لیجئے، مسئلہ سنگین ہے۔ ایک جاسوس ہونے کے ناطے میں اس سے اب مکمل کہانی جاننے کا خواہش مند تھا۔ اس نے بتایا۔
’وزیر آباد میں اچانک ایک دن کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ سامنے دو شخص کھڑے تھے۔ انہوں نے گایوں کے سلسلے میں پوچھا اور کہا تم تو جانتے ہو وقت بدل چکا ہے۔ ایک سیدھا سا مشورہ ہے کہ ان گایوں کو ہمیں بیچ دو۔ وہ اپنی بات پر اڑے تھے اور خود کو گایوں کا سرپرست بتا رہے تھے۔ وہ ملک، مذہب اور ثقافت کی باتیں کر رہے تھے۔ ان کا براہ راست سوال تھا، ہماری ماتا تمہارے پاس محفوظ کس طرح رہ سکتی ہے؟ جبکہ تم ناپاک بھی رہتے ہو۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ تم گوشت خور ہو۔ ایسے ماحول میں تم کو کس طرح اس بات کی اجازت دی جائے کہ اگر تم ہماری ماتا سے اپنی روزی روٹی چلاؤ — جاتے وقت ان دونوں میں سے ایک کا لہجہ سخت تھا۔ ’ہم تین دن بعد آئیں گے۔ اس درمیان سوچ لینا، ورنہ ہم زور زبردستی ماتا کو یہاں سے لے جائیں گے۔‘
اسلم نے بتایا۔ ’تب تک میری آنکھیں تھیں۔ آنکھیں جن سے ہم دنیا کو دیکھ سکتے تھے۔ اخبار پڑھ سکتے تھے۔ ٹی وی دیکھ سکتے تھے۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا مذہب نے انسانوں کے ساتھ جانوروں کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ وہ صحیح تھے۔ وہ اپنی ثقافت اور ملک کی سلامتی چاہتے تھے۔ یہ ان کا حق بھی تھا مگر گائے ہماری رزق تھی۔ میں نے چچا سے مشورہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے پہلے وہ گایوں کو اپنے ساتھ لے جائیں، ہمیں انہیں فروخت کر دینا چاہیے۔ ہمیں ایک ڈیری فارم کے مالک کے بارے میں معلوم ہوا جو وزیر آباد سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر رہتا تھا۔ یہ پتہ جیت رام نے بتایا جو ہمارا پڑوسی تھا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’جیت رام نے کہا کہ ان دنوں خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس لئے ٹرک یا گاڑی میں ہم گایوں کو لے کر بالکل نہ جائیں۔ کیونکہ ملک بھر میں ایسی کئی حادثے سامنے آ چکے ہیں۔ وہ قدم قدم پر ہیں۔ اور ذرا بھی بے احتیاطی برتی تو جان بھی جا سکتی ہے۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ ہم گایوں کو لے کر پیدل ہی تاجر کے پاس جائیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ ایک کلو میٹر سے کچھ زیادہ چلے ہوں گے کہ اچانک ہماری گائیں رک گئیں۔ کچھ فاصلے پر گؤ رکشک ٹرک سے اتار کر دو افراد کو بری طرح مار رہے تھے۔ دونوں شخص ٹرک پر گائے لے جا رہے تھے۔ اسلم شیخ نے لمبی سانس لی — ’مجھے لگ گیا، موت سامنے ہے۔ لیکن اسی وقت کشمکش میں چچا نے مجھ سے پوچھا کہ گائیں کہاں ہیں۔ ہماری دونوں گائیں غائب تھیں۔ ہم آگے نہیں جا سکتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگر گائیں نہیں ملیں تو ہم پر گؤ قتل سے لے کر کوئی بھی الزام لگایا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ بھی سوال تھا کہ اتنی دیر میں گائیں کہاں گئیں؟ جہاں ہم کھڑے تھے، اس کے دائیں بائیں دونوں طرف راستہ تھا۔ یعنی گائیں دونوں راستوں سے ہو کر بھاگ سکتی تھیں۔ اس سے پہلے کہ گؤ رکشکوں کی نظر ہم پر پڑے، چچا اور میں نے دونوں نے گایوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تیزی سے گھر کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ جب ہم دروازے پر پہنچے، وہاں وہ دونوں شخص پہلے سے موجود تھے۔
’گائے کہاں ہیں؟‘
چچا نے بتایا۔ ’گائیں گم ہو گئیں۔‘
ان میں سے ایک شخص نے چچا کو ایک تیز چانٹا لگایا۔ ’گم ہو گئیں۔ یا مار ڈالا؟‘
دوسرا غصہ میں اسلم کی جانب مڑا ’گؤ ماتا کو کھا تو نہیں گئے؟‘ اتنی دیر میں اس نے آس پاس کے لوگوں کو جمع کر دیا۔ بھیڑ نے ہم دونوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔
اسلم شیخ ذرا ٹھہرا۔ میری طرف دیکھا۔ ’کیا اب بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ میری آنکھیں کس طرح چلی گئیں؟ ان میں سے ایک نے میری دونوں آنکھوں پر حملہ کیا تھا۔ وہ جاتے ہوئے دھمکی دے گئے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر گائیں نہیں ملیں تو وہ ہمیں جان سے مار ڈالیں گے۔ اس رات، اس واقعہ کی جانکاری ملنے پر تنظیم کا ایک رکن میرے پاس آیا تھا۔‘
اسلم شیخ نے پھر میری طرف دیکھا۔ ساری دنیا اسی طرح چل رہی تھی، جیسے پہلے چل رہی تھی۔ مگر تنظیم کا رکن یہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم آدھی آبادی سے زیادہ جیلوں میں ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ہمیں برباد اور ختم کرنے کی ایک منصوبہ بند سازش اس وقت رچی جا چکی ہے۔ اور میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک نتیجہ بھر ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ گائیں نہ ملنے پر خطرناک نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ اور ان کا اثر مجھ جیسے ہزاروں خاندانوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ تو سب سے پہلی ضرورت گایوں کی تلاش کی ہے۔
اسلم شیخ چپ ہوا تو میں خاموشی سے بغیر کچھ کہے، لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی بتائی تنظیم کی ویب سائٹ دیکھی تو یہ سمجھنا آسان ہو گیا کہ ایسی تنظیمیں در اصل سیاسی جماعتوں کی آڑ میں اپنے لئے فنڈ اکٹھا کرتی ہیں۔ ان کے پاس بین الاقوامی پیسوں کی کانوں سے بھی فنڈ آتے ہیں، جس میں کچھ کا سیاسی استعمال تنظیمیں شیخ جیسے لوگوں کو مہرہ بنا کر کرتی ہیں۔ ایسی تنظیمیں ہر جگہ ہیں۔ مگر سوال تھا کہ گایوں کو کیسے تلاش کیا جائے؟
یہ بھی سوال تھا کہ جب تک کوئی خاص نشانی نہ ہو، کیا ایک جیسے نظر آنے والے جانوروں کو تلاش کیا جا سکتا ہے؟ کانن ڈائل سے اگاتھا کرسٹی اور خود میری زندگی میں واقع ہونے والی جاسوسی کی کئی کہانیاں میرے سامنے زندہ ہو گئی تھیں۔ لیکن ان کہانیوں میں کہیں کسی گمشدہ گائے کا تذکرہ نہیں تھا۔ کچھ سوچ کر میں نے پوچھا۔
’کیا تمہارے پاس ان گایوں کی تصویریں ہیں۔‘
مجھے امید تھی کہ اس کا جواب مجھے نہیں میں ملے گا۔ مگر اسلم شیخ کے چچا نے موبائل نکال کر ایک تصویر میرے آگے کر دی۔ یہ ایک سیلفی تھی، جس میں اسلم شیخ اپنی دونوں گایوں کے ساتھ نظر آ رہا تھا۔ اس نے میرے موبائل پر سیلفی بھیج دی۔ مجھے تب تک پتہ نہیں تھا کہ اس پوری ملاقات اور واقعات کو سننے کے بعد جو کہانی لکھی جانے والی ہے، وہ صیغہ حال کے مزاح رنگ سے اچانک نکل کر خوف میں ڈوبی وقت کی نئی تصویر بن جائے گی۔
جیسا میں عام طور پر کرتا ہوں۔ میں نے دن، تاریخ کے حساب سے واقعات کا ایک سلسلہ وار نوٹ تیار کیا۔ اس سے چھوٹی چھوٹی کچھ باتوں کی جانکاری حاصل کی۔ جائے حادثہ، گھر کا پتہ اور نمبر نوٹ کیا۔ پھر اسلم شیخ سے کہا کہ جب تک ضرورت نہیں ہو گی، ہم ملنے سے پرہیز کریں گے۔ بہت ہوا تو نمبر پر ایک دوسرے کو کال کر لیں گے۔ اور اس کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ جب تک خطرہ ٹل نہیں جاتا، وہ تنظیم کے ہی کسی رکن کے گھر اپنا ٹھکانہ بنا لے۔
٭٭
ایک کہانی یہاں سے بھی شروع ہوئی تھی۔
یہ بلگام چوراہا تھا۔ موبائل میپ لوکیشن سے مجھے اس جگہ پر پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ ہائی وے والی سڑک یہاں سے کئی کلومیٹر آگے تھی۔ یہاں درختوں کی ایک لمبی قطار دور تک چلی گئی تھی۔ یہ سوال بے معنی تھا کہ گائیں اب تک میرے انتظار میں وہاں ہوں گی؟ اس وقت وہاں سناٹا تھا۔ کچھ دور پر دو پولیس اہلکار ٹہل رہے تھے۔ دائیں طرف ایک پان سگریٹ کی گمتی تھی۔ وہیں سے ایک کچی سڑک اندر تک چلی جاتی تھی۔ دور کچھ مکانات بنے نظر آ رہے تھے۔
گمتی اب خالی تھی۔ یہ ایک تیس پینتیس سال کا نوجوان تھا۔ میں نے اس سے سگریٹ طلب کیا۔ پھر پوچھا۔
’یہاں کچھ دن پہلے کوئی واقعہ ہوا تھا؟‘
’ہوتا رہتا ہے۔‘
’نہیں، میرا مطلب ہے، گایوں کو لے کر کوئی واقعہ؟‘
’کئی بار ہو چکا ہے۔‘
میں نے دن تاریخ کا حوالہ دیا تو وہ سوچ کر بولا۔ ’ہاں، دو لوگ تھے — سلامتی کمیٹی والوں نے کافی مارا۔ مار کر وہاں پھینک دیا تھا؟‘ اس نے اشارے سے بتایا۔
’پھر پولیس آئی ہو گی؟‘
’پولیس ان معاملات میں نہیں پڑتی۔ کچھ دیر بعد ایک گاڑی والے کو ان پر رحم آ گیا۔ وہ گاڑی میں ان دونوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔‘
’کیا وہ دونوں زندہ ہوں گے؟‘
’پتہ نہیں صاحب۔ مر بھی گئے ہوں تو کیا کرنا ہے۔‘
میں نے سگریٹ جلایا۔ ’اچھا بتاؤ اس واقعہ کے بعد کیا کوئی لا وارث گائے؟‘
میں نے موبائل پر تصویر دکھائی۔ دکاندار نے انکار کر دیا۔ اس نے نہیں دیکھا تھا۔
اب میں اس علاقے کی پولیس سے بھی ملنا چاہتا تھا۔ تھانے میں ایک ایس پی او اور دو سپاہیوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ ایس پی صاف مکر گیا کہ اس علاقے میں ایسی کوئی واردات بھی ہوئی تھی۔ اس نے بتایا، پولیس مذہبی معاملات سے الگ رہتی ہے۔
میں نے اپنی نوٹ بک کھولی۔ کچھ لکھنے کے بعد، نوٹ بک جیب میں رکھ لی۔ اسلم شیخ کی معلومات درست تھی۔ واردات تو ہوئی تھی۔ تھانہ پاس ہوتے ہوئے بھی پولیس مدد کو نہیں پہنچی۔ پولیس کے اس رو یہ پر میں پریشان نہیں تھا۔ میں نے آس پاس کے کئی علاقوں میں اپنی چھان بین جاری رکھی۔ مگر تفتیش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
اس کے ٹھیک دوسرے دن میں نے اسلم شیخ کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ اس کا گھر ویران تھا۔ باہر ایک پولیس اہلکار کی گاڑی لگی تھی۔ کھٹال خالی تھا۔ چار پولیس والے تھے، جن کی ڈیوٹی گھر کے باہر لگائی گئی تھی۔
میں نے پولیس والوں سے بات کی۔ پولیس والوں کا بیان اس بیان سے بالکل مختلف تھا، جو اسلم شیخ نے مجھے دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ’سالا فساد کروانا چاہتا تھا۔ گؤ رکشکوں سے پہلے بھی کئی بار اس کا سامنا ہو چکا تھا۔ وہ کہتا تھا، گایوں کو مار کر باہر پھینک دے گا۔ دیکھیں کون کیا کرتا ہے۔ دو بھلے لوگ اس کے پاس آئے۔ سمجھایا کہ گؤ ہتیا جرم ہے۔ گایوں کو ہمیں بیچ دو مگر وہ آخر تک گؤ ہتیا اور کھانے کی بات کر رہا تھا۔ بھیڑ اکٹھی ہو گئی تھی۔‘
’تب آپ کیوں نہیں آئے؟‘
’مطلب۔‘
’یعنی آپ آئے ضرور لیکن ان میں ایک کی آنکھیں پھوٹ جانے اور دوسرے کے زخمی ہونے کے بعد؟‘
ایک پولیس والے نے شک سے میری طرف دیکھا ’آپ کون ہیں۔؟‘
’صحافی‘
وہ ہنسا۔ ’کس کے لئے صحافت کرتے ہیں؟‘
’آپ کے لئے۔ حکومت کے لئے۔ میں نے ہنس کر جواب دیا۔
وہ اس بات پر مطمئن تھا — ’پھر ٹھیک ہے۔‘
’لیکن پتہ چلا کہ آپ لوگ اس رات بھی نہیں آئے۔ دوسرے دن آئے۔‘
’اس رات آ کر کیا کرتے۔ آپ تو سب جانتے ہیں۔‘
’اس کی گائے کا کچھ پتہ چلا؟‘
’نہیں۔ لیکن یہاں کے لوگ بہت ناراض ہیں۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں نا، مذہب کا معاملہ ہے۔‘
پولیس والوں سے ملنے کے بعد میں جیت رام سے بھی ملا۔ وہ کافی گھبرایا ہوا تھا۔ اور اس نے کچھ بھی بولنے بتانے سے صاف انکار کر دیا۔
اس رات اسلم شیخ کا فون آیا تھا۔ وہ کافی ڈرا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ زیادہ دن تک تنظیم والوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ وہ ہماری جنگ تو لڑ سکتے ہیں، لیکن ہمیں رکھنے کو تیار نہیں۔
’پھر تم کہاں جاؤ گے؟‘
’میں کہہ نہیں سکتا۔ لیکن گائیں مل جائیں تو میں اپنے آپ کو بے قصور ثابت کر کے دوبارہ اپنے گھر واپس آ سکتا ہوں۔
٭٭
میں اس کہانی سے اس حد تک بیزار ہو چکا تھا کہ اب اس باب کو بند کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کھٹال کی پالتو گائیں کیا اب تک اپنے مالک کے انتظار میں ہوں گی؟ گائیں تو اب تک مارکیٹ میں پہنچ چکی ہوں گی۔ میرے پاس ایک راستہ اور تھا۔ لیکن یہ راستہ تکلیف دہ تھا۔ اور میں اس راستے سے زیادہ واقف نہیں تھا۔ پھر بھی کوشش کر کے میں نے فیک آئی ڈی سے اسلم شیخ اور گایوں کی سیلفی انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دی۔ میرا یقین تھا کہ اگر بے لگام چوراہے کے آس پاس کسی نے گایوں کو دیکھا ہو تو وہ ضرور خبر کریں گے۔ موبائل تو ان دنوں گاؤں شہروں کی تمام سرحدیں توڑ چکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آخر میں کس طرح کے نتائج کی امید کر رہا ہوں۔
نتیجہ یہ آیا کہ اپ لوڈ ہوتے ہی تصویر وائرل ہو گئی۔ وزیر آباد گاؤں کے کسی شخص نے اسلم شیخ کو پہچان لیا۔ اس نے وہی تفصیل پوسٹ پر ڈالی جو مجھے پولیس والے نے بتائی تھی۔ یعنی اسلم شیخ نے ان دونوں گایوں کو مار ڈالا۔
پہاڑ جیسے خدشات نے میرے اب تک کے کارناموں اور میرے پیشے پر سوال یہ نشان لگا دیا تھا۔ اس رات تنظیم سے کسی رکن کا فون آیا۔ اس نے نام نہیں بتایا، صرف اتنا پوچھا۔
’اسلم کے چچا نے تصویر آپ کے موبائل پر بھیجی تھی۔ کیا انٹرنیٹ پر بھیجنے کا کارنامہ آپ کا ہے؟‘
’ہاں۔‘ میں آگے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس نے روک دیا۔
’آپ جانتے ہیں، اسلم کے گھر کا کیا ہوا؟‘
’نہیں۔‘
’دنگائیوں نے گھر میں آگ لگا دی۔ اسلم کے پیچھے کافی لوگ پڑے ہیں۔
’اب وہ کہاں ہے؟‘
’ابھی تک میرے پاس ہے۔ لیکن میں اب اس ہنگامے کے بعد اپنے گھر نہیں رکھ سکتا۔ پولیس ہم تک پہنچ گئی تو غیر ضروری بہت سے سوالات کے جواب ہم نہیں دے پائیں گے۔‘
فون رکھتے ہوئے اس نے کہا ’آپ نے اچھا نہیں کیا۔ آپ نے اس کی جان کو پہلے سے کہیں زیادہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘
٭٭
پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ زندگی کے سسٹم میں آنے والی ڈیجیٹل اور جدید زندگی سے میرا کوئی تعارف نہیں ہے۔ میں کسی سی ڈی، پیجر، فلاپی کی طرح ایک بڑے جدید معاشرے اور مارکیٹ سے کاٹ دیا گیا ہوں۔ کسی فلاپ شو کی طرح میرا پیشہ ایک فلاپ پیشے میں بدل چکا ہے۔ میں اس پیشہ کے جدید استعمال سے مکمل طور انجان ہوں۔ اس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ انٹرنیٹ پر نئے میسج دوسرے دن میرا انتظار کر رہے تھے۔ ان میں بے چین ہوتے سماج و معاشرہ کا کردار، اشتعال انگیز بیانات کے طور پر درج تھا۔ میں کڑیاں جوڑتا تھا تو ملک اور ثقافت سے ہوتی ہوئی کہانی، وہاں پہنچ رہی تھی جہاں بڑی بڑی اونچی کرسیوں پر موجود افراد کے نام نہیں لئے جا سکتے۔
میں اس چیلنج میں اسی طرح ناکام تھا، جیسے میرا پیشہ۔ جرم کی ساری سوئیاں سفید کالر سے ہو کر اسلم شیخ جیسے لوگوں کو نشانہ بنا رہیں تھیں۔ یہاں ہنگامہ تھا۔ بھیڑ تھی، ثقافت اور ملک کے محافظ تھے۔ اور اسلم جیسے لوگ غیر محفوظ ہوتے ہوئے بھی مجرم۔
اس رات میں نے تنظیم کے اسی رکن کو فون کیا، جس کا فون میرے پاس آیا تھا۔
اس کے لہجہ میں غصہ تھا۔ ’کیا ہے؟‘
’ایک آئیڈیا میرے پاس ہے؟‘
’آج کل آئیڈیا سب کے پاس ہے۔‘
’پھر بھی میرا آئیڈیا سن لیجئے۔‘
’بتائیے۔‘
اس درمیان اسلم شیخ والی سیلفی اور گایوں کو میں نے بار بار زوم کر کے دیکھا تھا۔ مجھے یقین تھا، گائیں ساری ایک جیسی ہوتی ہیں۔
میں نے گلا کھنکھارا اور کہنا شروع کیا۔ ’آپ کی تنظیم کے پاس بہت پیسے ہیں۔ پھر آپ لوگ اسلم شیخ کی جان بھی بچانا چاہتے ہیں۔ کیا اسلم کے لئے دو نئی گائیں نہیں خریدی جا سکتیں؟ وہ نئی گایوں کو گمشدہ گائے بتا کر اپنے گھر تو جا ہی سکتا ہے؟‘
’اب کیا آپ ہماری جان لینا چاہتے ہیں؟‘
دوسری طرف لہجہ غصہ سے بھرا ہوا تھا۔ ’میرے انکار کرنے پر بھی اسلم اور اس کے چچا دونوں گھر سے نکل گئے۔ دونوں مارے گئے۔ آپ کہاں رہتے ہیں؟ ٹی وی نہیں دیکھتے کیا؟ پولیس کو دونوں کی لاشیں مل گئی ہیں۔‘
میں گہرے سناٹے میں تھا۔ کچھ دیر کے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ حادثہ سچ مچ میں ہو چکا ہے۔ یہ میری زندگی کا اب تک کا سب سے دل دہلا دینے والا حادثہ تھا۔ میری آنکھوں میں اب تک اسلم شیخ کا چہرہ ناچ رہا تھا۔ ’کیا آپ اسے معمولی واقعہ سمجھتے ہیں؟‘ وہ واقعی سچ بول رہا تھا۔ لیکن اس وقت مجھے چکر آ رہا تھا۔ اچانک ساری دنیا گھومتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ وقت نے ہیرو اور ویلن کی، اب تک کی تمام تعریفوں کو بدل ڈالا تھا۔ ہم اس گلوبل تہذیب میں معنی کے نئے طول و عرض کا اضافہ کر رہے تھے۔
ایک دھند ہے/
اس دھند سے باہر ہمارا قتل ہو رہا ہے/
اس دھند میں کچھ بھی باقی نہیں ہے/
اس سیاہ دھند میں زندہ رہنا
اب تک کا سب سے بڑا جرم ہے/
٭٭
اس رات میں نے اپنی نوٹ بک میں صرف ایک جملہ لکھا۔ ’اور جاسوس مر گیا۔‘
میری آنکھوں کے آگے اس وقت بھی دھند کا ایک جنگل آباد تھا۔ اس دھند کے آر پار کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
٭٭٭