تازہ منظر نامے ۔۔۔ اقبال مجید

 

(اقبال مجید کے ‘ایک حلفیہ بیان’ کا دیباچہ)

_______________________

اقبال مجید چھٹی دہائی کے اوائل کے افسانوی دنیا میں متعارف ہوئے، پھر دو بھیگے ہوئے لوگ کی اشاعت ان کی ادبی حیثیت میں چار چاند لگائے اور پھر پہلا مجموعہ اسی عنوان سے چھپا اور قدر شناسوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا لیکن آٹھویں دہائی کے درمیان پہنچتے پہنچتے ان کا افسانوی نخل نئی زندگی سے سرشار نظر آتا ہے۔ اس تبدیلی کا احساس مجھے 1975ء میں ہوا۔ بھوپال میں ایک جگہ ادبی نشست کا اہتمام تھا۔ وہاں میں بھی شریک تھا، اقبال مجید نے اپنے مخصوص ڈرامائی لہجہ میں افسانہ، پیشاب گھر آگے ہے، سنایا تو میں حیران ہوا کہ یہ وہی مصنف ہے جو پہلے پہل، عدد چاچا کی تخلیق سے پہچانا گیا تھا۔ چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس نئے مجموعہ کے بیشتر افسانے اپنی تخلیقی کیفیت میں ایک کروٹ بدلتے ہیں اور گروٹ کا یہ رخ تازہ منظر نامے کی طرف ہے۔

اقبال مجید کے یہاں بیانیہ کو طرح طرح سے آزمانے کا واضح رجحان ہے، ایک طرف وہ بیانیہ کہانی کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں تو دوسری طرف تمثیلی اور علامتی افسانوں کی جانب گامزن نظر آتے ہیں۔ اظہار بیان کی جو مختلف النوع صورتیں افسانوں میں نمایاں ہیں اقبال مجید کی تکنیکی صلاحیتوں کی چغلی کھ اتی ہیں۔ انہوں نے سیدھی سادی کہانی بھی کہی ہے (شرمندگی) اور ڈرامائی طرز تحریر بھی اختیار کیا ہے (ایک حلفیہ بیان) ظاہر ہے جب افسانے میں شاعری کی کرافٹ چل سکتی ہے تو افسانے میں ڈرامے کی کرافٹ بھی چلے گی۔ ان کے یہاں وقفے وقفے سے جملوں یا پیراگرافوں کی تکرار بھی ملتی ہے اور ابتدائیہ و اختتامیہ کا انطباق بھی (ہائی وے پر ایک درخت) کبھی کبھی تو ساری دیواریں جو قاری اور مصنف کے درمیان حائل ہوتی ہیں انہیں بڑھ کر مصنف خود ہی منہدم کر دیتا ہے۔ پھر اس کا مخاطب براہ راست قاری ہوتا ہے (ایک حلفیہ بیان، پوشاک) افسانوں میں جہاں کہیں انگریزی الفاظ جڑے ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ پر اظہاری قوت کی پرورش کرتے ہیں۔

ایک حلفیہ بیان اقبال مجید کے اور افسانوں کی طرح ایک ہی استعاراتی محور کے گرد رقصاں ہے۔ افسانے کا مرکز ایک کیڑا ہے جس سے مصنف (مصنف اور راوی میں یہاں امتیاز مشکل ہے ) ایک فکری پیچ و تاب میں مبتلا ہے۔ فکر بھی شدید ہے اور رد عمل بھی شدید۔ کیڑے اور مصنف کے درمیان کچھ من و تو کا سا رشتہ قائم ہے۔ مگر یہاں من و تو کا فرق مٹتا نہیں بلکہ پیدا ہوتا ہے۔ (فرق کی پیدائش مصنف کی زبانی گالیاں سنانے میں پوشیدہ ہے) یہی فرق ہے جس سے معنی کی تہہ داریاں خلق کی جاتی ہیں، مصنف اور اس کے مد مقابل کے علاوہ خارجی صورت حال بار بار ابھاری گئی ہے۔ جو کیڑے جیسے کردار کو جنم دیتی ہے۔ اندھیرا، رات، اور برسات، علاوہ بریں ٹیوب لائٹ کی روشنی ہے جو کمرے کی فضا پر مسلط ہے اور یہ فضا جسے ہم غیر فطری بھی کہہ سکتے ہیں کیڑے کی گرفتاری کا سامان ہے، چکنا فرش کیڑے کو بے بس رکھتا ہے، اس کی ابتلا کے وقفے کو فزوں تر کرتا ہے اور اسی فرش کے باعث کیڑا مظلومیت کا شکار ہے۔ ایک ایمبسرڈ صورت حال میں پھنسا ہوا ہے، لہذا کیڑا ایک طرف ہے جو مسلسل ابتلا کی تصویر ہے جس میں کبھی ہاتھ پاؤں چلانا ہوتا ہے اور کبھی صبر و تحمل آزماتا، دوسری طرف مصنف ہے جو کیڑے کی سعی ناکام پر جھلاہٹ کا شکار ہے، اور اسے بر انگیختہ شکل میں جگہ جگہ استعمال کرتا ہے، مصنف کی یہ بر انگیختی کیڑے کی ناکافی تڑپ کے خلاف احتجاج ہے کہ وہ کیڑے کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے یا پھر یہ احتجاج چکنے فرش کے خلاف ہے جس کے باعث یہ صورت حال پیدا ہے۔ بہر حال وقفہ وقفہ سے ابھرنے والی بر انگیختگی ایک نئے بیانیے کی تخلیق میں ڈھلتی ہے۔ یعنی حلف اٹھانے کی زبان ہر بار نئی جہت لیتی ہے۔ اس افسانے میں تین طرح کی بیانیہ لہریں اپنے آپ کو بدل بدل کر دہراتی ہیں۔ ایک حلفیہ بیان، ایک خارجی ماحول یا کمرے کے پس منظر کا بیان اور ایک کیڑے اور مصنف کے رد عمل کا بیان۔ اپنی اپنی جگہ پر ابتدائیہ اور اختتامیہ دونوں ہی حلفیہ بیان پر تمام ہوتے ہیں مگر اول اور آخر کا فرق ہے جسے بڑھتے ہوئے تخلیقی تناؤ کا آئینہ کہا جا سکتا ہے۔

پیشاب گھر آگے ہے، بھی ایک حلفیہ بیان، کی طرح لہروں کی تکرار سامنے لاتا ہے، اس میں بھی تین پیٹرن موجود ہیں۔ ایک راوی کا بیانیہ، پیٹرن ہے، ایک بنیادی کردار کے سوال کا پیٹرن ہے۔ غائب یا موجود کرداروں کے جواب کا پیٹرن۔ اقبال مجید کی فنکاری ان پیٹرن کی تخلیق میں دیکھی جا سکتی ہے، وہی مکالمے آگے آتے ہیں تو مزید اضافے کے ساتھ دہراتے ہیں۔ اس صناعی کی خوبی چھنتی چلی جاتی ہے۔ بہ ایں ہمہ تناؤ کی شدت بھی کئی حساب بڑھتی جاتی ہے۔ راوی کا بیانیہ رخ بھی جھلملاتا، اپنی بر انگیختگی کو ہوا دیتا آگے قدم اٹھاتا ہے۔ پیشاب حیاتیاتی تناؤ کا نمونہ ہے، جو فنی تخلیقی تناؤ کے ساتھ فیوز ہو کر ایک مظہر، ایک فنامنا بن گیا ہے۔ دو کانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ اور راہ گیر اس رکاوٹ اور اس شدت کو کیا محسوس کریں گے خواہ یہ شدت حیاتیاتی یا تخلیقی سطح پر ہو خواہ داخلی یا فنی سطح ہو۔۔ ایسے وقت فرد فرد، فنکار محض اتنا جانتا ہے کہ بہت دیر کا ٹھہرا ہوا پیشاب جب یکبارگی بہہ نکلتا ہے تو جسم کے ایک ایک حصہ کا تناؤ جس مسرت انگیز لذت کے ساتھ کم ہو جاتا ہے وہ لطف و طمانیت قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے۔

وقت اقبال مجید کے یہاں کسی ایک استعارے میں نہیں ڈھلتا، جس طرح قرۃ العین حیدر کے فوٹو گرافر، میں، یا سریندر پرکاش، محمد عمر میمن، یا حمید سہروردی کے دو ایک افسانوں میں استعارے یا تلمیح کا روپ دھار لیتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کی طرح ان کے یہاں اکثر تاریخی تسلسل والا وقت موجود ہے۔ افسانوی حیثیت سے عصری سطح پر وقت کی تاریخی تہیں خدا عورت اور بیٹی، میں نمایاں ہو کر کرافٹ میں شپ کی مثال پیش کرتی ہیں، مختلف ادوار کی تہیں ازلی وقت کی تہہ میں اس طرح مدغم ہو جاتی ہے کہ آپس میں ایک crushing closeness کا پرتو اتارتی ہیں۔ کرافٹ میں شپ کے علاوہ اقبال مجید کے یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وقت کا ٹریٹمنٹ بھی بڑھتے ہوئے تناؤ کا نمونہ ہے۔

وقت کے واسطے سے دیکھے تو اس سلسلے کا ایک افسانہ ہائی وے پر ایک درخت، عجیب و غریب افسانہ نظر آئے گا۔ یہاں اتفاق سے اقبال مجید تکنیک کا وہی ملتا جلتا سلسلہ بروئے کار لاتے ہیں جو اوپر بیان میں آیا ہے اقبال مجید کے افسانوں کا تکنیکی تنوع دیکھنا ہو تو ایک حلفیہ بیان، پیٹ کا کیچوا، پوشاک، دو بھیگے ہوئے لوگ، مدافعت، وغیرہ پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے، جن میں تکنیکی اختلاف کے علاوہ داخلیت اور خارجیت مشاہدہ اور انوالومنٹ غرض ہر طرح کی کوشش موجود ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ انوالو منٹ والے افسانے عموماً یکسانیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ البتہ اقبال مجید کے یہاں تجربوں میں فنکار کی شمولیت کے باوجود افسانوں کی رنگا رنگی قائم ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی تجربے کی دنیا میں شامل ہونے کے بعد فن کار اس کا پرتو اتارتا ہے اور دنیا بدل دیتا ہے۔ یہاں سوال دنیا کو بدلنے یا نہ بدلنے کا ہے فن کار کی شمولیت کا نہیں۔

ہاں تو یہاں وقت اپنے برتاؤ میں ایک ایسا ڈائمنشن اختیار کرتا ہے، جو پھانسی پر لٹکے ہوئے آدمی کا ذہنی وقت ہے۔ وہ بھی مرنے سے چند لمحے پہلے اور مرنے کے کچھ دیر بعد کا ذہنی وقت۔ مرنے سے قبل والا ذہنی عرصہ تو سبھی قبول کر لیں گے مگر فرد مرنے کے بعد بھی کچھ دیر تک ذہنی طور پر فعال رہ سکتا ہے۔ یہ متنازعہ فیہ امر ہے۔ مگر میرا خیال یہ ہے کہ افسانہ آگے بڑھ رہا تھا۔ تخلیق مزید زندگی مانگ رہی تھی، ورنہ شاید تکمیل کو کبھی نہ پہنچتی۔ نفسیات یا ذہنی حیات کے طور پر یہ بات ممکن ہے یا نہیں اسے دانائے علوم یا ریسرچ اسکالرس طے کرتے رہیں، افسانہ تو اپنی منزل طے کر چکا۔

بہر حال اقبال مجید اپنے افسانوں کے لہجے میں پختگی اور طمانیت کی نمایاں پہچان قائم کرتے ہیں۔ پرانی قدروں اور عصری حسیت کے تال میل میں قدیم اسلوب استعمال ہوتا ہے۔ اور اس میں بڑی خود اعتمادی جھلکتی ہے، جہاں تک نئی حسیت کا تعلق ہے، اس کے اظہار میں پرانے اسلوب کا استعمال بڑی محنت کا طلب گار ہوتا ہے۔ امنڈتے ہوئے عصری دھاروں کو ایسے اسلوب میں ڈھالنے کے لئے جس کوشش اور جانفشانی کی ضرورت ہے۔ اسے اقبال مجید جیسا پختہ فنکار ہی محسوس کر سکتا ہے۔ نئے فنکاروں کی یہ پیدائشی مشکل ہے کہ زبان کو عصریت کے تابع بنایا جائے نہ کہ عصریت کو کھینچ تان کے پرانی زبان کے چوکھٹے میں بٹھایا جائے۔ اقبال مجید تو کم لیکن قاضی عبدالستار زیادہ اس کشمکش سے گریزاں ہیں۔ عصری حسیت کے تانے بانے بننا دشوار گزار مرحلہ ہے، یہی وہ ہے کہ میں نے اقبال مجید کے حالیہ افسانوں کو ایک نئی کروٹ سے تعبیر کیا ہے۔

اقبال مجید کے بیانیہ کی بات مکمل نہ ہو گی اگر ان کے افسانوی اسلوب میں موجود خشکی اور ٹھوس پن کا احساس نہ دلایا جائے کہ یہ ان کی افسانوی ہیئت کی تشکیل کا اہم جزو ہیں۔ ایک پر وقار فن کار کی نظر اسلوب کو جذباتیت سے ماورا کرتی ہے اور جذباتی معدومیت کے باوجود بھی اگر بیان کی بے ساختگی نمایاں رہے تو یہ ایک خوبی ہے۔

-مہدی جعفر

کچھ غیر ضروری باتیں

_______________________

 (‘ایک حلفیہ بیان’ کا پیش لفظ)

_______________________

کوئی مخصوص اسٹراکچر Structure کسی خاص فنکشن Function کو ہی ادا کر پاتا ہے۔

کچھ لوگ کہانی سے کسی سادھو کی سمادھی والے لوہے کی کیلوں جڑے تختے کا کام Function کرنا چاہتے ہیں اس لئے اس کو ویساہی بنا کر اس پر قاری کو لٹا دیتے ہیں۔

کچھ کے لئے کہانی کا کام گھانس چھیلنا ہے، اس لئے وہ کہانی کا بھدا سا موٹی دھار والا کھرپا بناتے ہیں اور گھانس چھیلتے رہتے ہیں۔ نہ تو پہلے والے کے لئے کھرپا اس کے کام کا اسٹرکچر ہے اور نہ دوسرے والے کے لئے کیلوں جڑا تختہ۔

مجھے کہانی کے لئے شیشہ چاہئیے، پارہ چاہئے، پارہ کو گزرنے کے لئے ایک بے روک راستہ چاہئے، ایسا راستہ جس کی سطح پر نشاندہی کے لئے کچھ نمبر بھی پڑے ہوں۔ لینی کہانی میرے لئے تھرمامیٹر کے آس پاس کی چیز ہے۔ ممکن ہے کہ اس تھرمامیٹر کو کبھی ایسے بخار سے بھی سابقہ پڑے جب اس کا پارہ ناکافی ہو یا پارے کا راستہ ناکافی ہو اور اس طرح تھرما میٹر اپنا صحیح کام نہ کر سکے اور مجھے اس کے اسٹرکچر میں خاطر خواہ تبدیلی کرنا پڑے۔

یقین کیجئے اس تبدیلی کی خاطر میں اپنے تھرمامیٹر سے ناراض ہو کر اس کی نا اہلی سے بد دل ہو کر اس کو کسی طور پر بھی کھرپے میں نہیں بدلوں گا۔ اور نہ کیلوں بھرا تختہ ہی بناؤں گا۔۔۔ زیادہ پارہ مہیا کروں گا، اور پارے کے لئے زیادہ بڑا راستہ بناؤں گا، اور وہ اس تبدیلی کے بعد بھی تھرمامیٹر کے آس پاس کی ہی کوئی چیز ہو گی۔

مجھے ان لوگوں سے کوئی شکایت نہیں جن کے لئے کہانی سمادھی لگانے والا کیلوں کا تختہ ہے۔

ان سے بھی کچھ نہیں کہنا جن کے لئے کہانی گھانس چھیلنے کا کھرپا ہے۔ وہ لوگ بھی قابل احترام ہیں جن کے لئے کہانی مکڑ جال ہے۔

اس لئے کہ ان سب ہی لوگوں کے ذہن میں پورے خلوص کے ساتھ کہانی کے فنکشن (Function) کے مطابق کہانی کا اسٹرکچر (Structure) متعین ہے۔

ادب کے کاروبار میں اس سے زیادہ اور کیا چاہئے۔

– اقبال مجید

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے