اُس کی اُبلی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک ہے چمک
اور سیاہ بال ہیں بھیگے ہوئے خوں سے اب تک
تیرا فرمان یہ تھا اِس پہ کوئی داغ نہ ہو
سو یہ بے عیب اچھوتا بھی تھا اَن دیکھا بھی
بے کراں ریگ پہ سرگرم لہو جذب ہوا
دیکھ چادر پہ مری ثبت ہے اس کا دھبّہ
اے خداوند کبیر
اے جبآر
متکبر و جلیل
ہاں ترے نام پڑھے اور کیا ذبح اسے
اب کوئی پارۂ ابر آئے کہیں سایہ ہو
اے خداوندِ عظیم
یاد تسکیں! کہ نفس آگ بنا جاتا ہے
قطرۂ آب! کہ جاں لب پہ چلی آئی ہے
٭٭٭
تسکیں! کہ نفس آگ بنا جاتا ہے
قطرۂ آب! کہ جاں لب پہ چلی آئی ہے
آہ!