بابا کھلو جا
شاہد جمیل احمد
موسیقی کی محفل ہو، اور خاص کر کلاسیکی موسیقی کی تو مجھے رہ رہ کر اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ایک عرصے سے مجھے کلاسیکی موسیقی سننے کا بے حد شوق ہے۔ ٹھمری، دادرہ، پنچم، درباری، دیپک، مالکونس، بھیروی مجھے مرغوب ہیں۔ پچھلا پورا ہفتہ استاد سلامت علی خاں میری گاڑی میں سُر سنگیت کے پھُول بکھیرتے رہے ، اس سے پچھلے ہفتے استاد بڑے غلام علی خاں اور اس ہفتے استاد برکت علی خاں۔ میری اسی عادت کے بموجب میری بیوی اور میرے بچوں نے میرا بھانڈا ٹھیکر الگ کیا ہوا ہے۔ بیوی غصے سے آڈیو کیسٹس کو گھورتی نظر آتی ہیں تو بچے معنی خیز ہنسی ہونٹوں میں دبائے، گول گول آنکھیں مٹکائے میری سی ڈیز کو یوں بچ بچا کر ہاتھ لگاتے نظر آ تے ہیں گویا ان کے اندر سے بابا ابھی برآمد ہو کر درباری کا الاپ بپا کر دے گا اور پھر ہنس ہنس کر ان کی پسلیاں چڑھ جائیں گی۔ جب کبھی میوزک سی ڈیز خریدنے کی نوبت آتی ہے تو ہم لوگ اپنی متضاد پوزیشنوں پر چلے جاتے ہیں، یعنی بچوں کو نئے سے نیا اور مجھے پرانے سے پرانا والیم چاہئیے ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مگر میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ دکاندار مجھے دکان میں آتا دیکھ کر زیرِ لب مسکراتے ہوئے انگلیاں چٹخانے لگتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ساری فیملی بے دھیانی میں خوشی خوشی گاڑی میں سوار ہوئی اور جیسے ہی میں نے گاڑی سٹارٹ کی تو ایک دم اونچی آواز میں کوئی الاپ شروع ہو گیا، تان تا نا نا نا نا، آ آ آ آ، دے دے دے دے دے۔ میں اُس وقت بہت محظوظ ہوتا ہوں جب سب لوگ دم سادھ کر باؤلوں کی طرح ایک دوسرے کو تکنے لگتے ہیں۔ تان اُس وقت ٹوٹتی ہے جب بیوی کی دھاڑ بلند ہوتی ہے ! خدا پناہ، یہ کیا ہو گیا ! اب کیا ہو گا ! اب ہم کیا کریں گے ! بند کریں خدا کے لئے اِس کو یا پھر ہمیں گاڑی سے اُتار دیں۔ چھوٹی بیٹی کی وجہ سے تو میرا جینا دوبھر ہو گیا ہے، اگر اس کے کان میں کلاسیکی موسیقی کی تان پڑ جائے تو بے اختیار رونا شروع کر دیتی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ مجھے گاڑی بند کرنی تو ہمیشہ یاد رہتی ہے مگر سی ڈی پلیئر بند کرنا اکثر بھول جاتا ہوں۔ بد قسمتی سے یا خوش قسمتی سے میں کافی دیر میں دفتر سے گھر جاتا ہوں اور سارا رستہ گاڑی میں پکے راگ سنتاہوں۔ آج بھی حسبِ معمول ایسا ہی ہوا اور میں مزے سے گھر کو رواں دواں تھا کہ رستے میں اچانک ٹریفک کی بھِیڑ مچ گئی، گاڑی سنبھالتے نکالتے جیسے میرے ہاتھ پیر پھول گئے، استاد برکت علی خاں کے درباری الاپ نے سچوایشن میں کیٹالِسٹ کا کام کیا اور میں ایک دم جیسے گڑ بڑا سا گیا اور بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا، بابا کھلو جا خیر نال گھر تے پونچ لین دے ( بابا ٹھہر جا خیر کے ساتھ گھر تو پہنچ لینے دے)۔ کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے مجھے اپنے زمانۂ طالبعلمی کا ایک واقعہ یاد آ گیا، مجھے اور میرے روم میٹ کو کلاسیکی موسیقی سننے کا شوق تھا، ریڈیو پاکستان پر روزانہ رات ساڑھے گیارہ بجے سے بارہ بجے تک کلاسیقی موسیقی کا پروگرام نشر ہوتا تھا، ایک شب کوئی بے سرا اور کچے راگوں والا فنکار ریڈیو والوں کے ہتھے چڑھ گیا یا پھر یہ کہ ریڈیو والوں نے سوچا ہو گا کہ کلاسیکی موسیقی کا پروگرام ہے توکونسا عام لوگوں کو سمجھ آنا ہے۔ میں نے پندرہ بیس منٹ تو برداشت کیا، پھر جھلا کر اپنے دوست کی طرف دیکھ کر کہا کہ یار یہ کیا کر رہا ہے، یعنی گلوکار کیا کر رہا ہے، اُس نے بے اعتنائی سے جواب دیا، یہ بارہ بجا رہا ہے۔
٭٭٭