حیدرآباد دکن میں جن شاعروں اپنے فن کی بدولت ایک منفرد پہچان بنائی ہے ان میں ایک معتبر نام جناب مضطر مجاز صاحب کا تھا وہ نہ صرف ایک ممتاز شاعر تھے بلکہ انہوں نے غالب اور اقبال کی بیشتر فارسی نظموں/غزلوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے انہوں نے بحیثیت صحافی روزنامہ منصف میں اپنی طویل خدمات انجام دی ہیں وہ ماہر اقبالیات بھی کہلائے جاتے تھے اکثر جنوبی ہند میں اقبال، غالب اور امجد حیدرآبادی پر منعقد ہونے والے سمیناروں میں متخصص (اسپیشلسٹ) کے طور پر مدعو کیئے جاتے تھے مجھے بھی ان کے ساتھ اقبال اور امجد حیدرآبادی کے موضوع پر منعقدہ سمیناروں میں شرکت کرنے اور ان کے ساتھ ظہیر آباد سے حیدرآباد سفر کا موقع بھی ملا تھا۔ انتقال سے دو دن قبل بھی میری ان سے فون پر بات ہوئی تھی اور وہ دفتر منصف پر موجود تھے، جب بھی بات ہوتی حسن سلوک سے پیش آتے سکون سے بات سنتے اور اطمینان سے جواب دیتے اور ان کا انداز بے تکلفانہ ہوتا۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں مگر ان کی یادیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مرحوم کی ملی خدمات کے عوض ان کی مغفرت فرمائیں اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین
سید غلام حسین رضوی مضطرؔ مجاز کا آبائی وطن قصبہ پنڈارول، ضلع بلند شہر اتر پردیش ہے، وہ 13فروری 1935ء کو عثمان پورہ حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام سید زوار حسین تھا۔ مضطرؔ مجاز کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی انہوں نے اردو کے ساتھ فارسی بھی سیکھی، فوقانوی سطح کی تعلیم چنچل گوڑہ ہائی اسکول حیدرآباد سے مکمل کی، انہوں نے 1951ء میں آصفیہ ہائی اسکول حیدرآباد سے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ 1953ء میں چادر گھاٹ کالج سے انٹرمیڈیٹ کامیاب کیا اس کے بعد 1955ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی کام کی ڈگری لی، ان کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد کی خصوصی دلچسپی رہی شعر و ادب کا ذوق بھی انہی کے زیر اثر پیدا ہوا، مضطر مجاز کو یکساں طور پر اردو، فارسی، انگریزی اور تلگو پر عبور حاصل تھا۔ ان کی ملازمت کا آغاز 1957ء میں بحیثیت آڈیٹر محکمہ بلدیہ سے ہوا، 1961ء ایکسٹنشن آفیسر کی حیثیت سے انہوں نے ۱۴ماہ چنتا پلی، دیور کنڈہ، نلگنڈہ میں خدمات انجام دی، 1965ء میں سب رجسٹرار آف کوپرآیٹیو سوسائیٹز کے عہدے پر عادل آباد پر تقرر عمل میں آیا، دوران ملازمت ان کا تبادلہ حضور نگر، نلگنڈہ پر ہوا وہاں سے 1971ء میں تبادلہ پر حیدرآباد آئے۔ حیدرآباد آنے کے بعد ان کی ترقی عمل میں آئی اور وہ ڈپٹی رجسٹرار آف کوپرآیٹیو سوسائیٹز اور اس کے بعد اسپیشل کیڈر ڈپٹی رجسٹرار آف کوپرآیٹیو سوسائیٹز کے عہدے پر ترقی حاصل کی، 1993ء میں 58 سال عمر کی تکمیل پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ انہوں نے دوران ملازمت صاف اور شفاف خدمات انجام دی ان کا سلوک اپنے ماتحتین سے بہت اچھا تھا وہ ایک اصول پسند اور ذمہ دار شخصیت تھے۔ 1963ء میں ان کی شادی خواجہ غلام حسن الدین کی دختر فریدہ عتیق النساء سے ہوئی جن کے بطن سے چار لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئے ہوئے۔ ابتداء میں مضطر مجاز فرحت نگر میں ایک کرائے کے مکان میں مقیم رہے 1996ء میں سعید آباد میں اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوئے جہاں سے 19 اکٹوبر2018 بروز جمعہ رات 9 بجے وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اللہ مرحوم ان کی مغفرت فرمائے۔ مضطر مجاز نے اپنی اہلیہ کے ساتھ 2003ء میں حج بیت اللہ کے عظیم فریضہ کو انجام دیا تھا۔
مضطرؔ مجاز کی مزاج اور شخصیت سے متعلق ڈاکٹر مقبول احمد مقبول نے لکھا ہے کہ ’’مضظرؔ مجاز کے مزاج و شخصیت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو غیر اہم سمجھتے ہیں نہ انہیں نمود کی تمنا ہے نہ شہرت کی خواہش وہ اپنی ذات کے نہاں خانے میں مگن مضامیں نو کے انبار ضرور لگا رہے ہیں مگر اپنے خرمن کے خوشہ چینوں کو خبر کرنے کی فکر انھیں کبھی نہیں رہی در اصل ان کے مزاج میں خلوت نشینی و عزلت گزینی ہے انہیں بزم آرائیوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔
(ڈاکٹر مقبول احمد مقبول، مضطر مجاز شخصیت اور فن، ص17)
مضطر مجاز بحیثیت صحافی روزنامہ منصف حیدرآباد سے وابستہ رہے۔ انہوں نے 1997ء روزنامہ منصف کے نئے دور کے آغاز سے ہی ادبی صفحہ ’’ آئینہ ادب‘‘ کے مدیر کی خدمت انجام دی کم و پیش انہوں نے 21 سال تک ادبی صحافی کی خدمت انجام دی۔ انتقال سے دو دن قبل بھی وہ منصف کے دفتر پر موجود تھے اور 18 اکٹوبر کا شمارہ بھی ترتیب دیا تھا۔
مضطر مجاز کو بچپن سے ہی شعر و شاعری سے دلچسپی رہی انہوں نے بچپن میں ہی اقبال اور غالب کو خوب پڑھا۔ 1970ء کے دہے میں انہوں نے شاعری کا آغاز کیا ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’موسم سنگ ‘‘کے نام سے 1979ء میں منظر عام پر آیا، 1984ء میں ان کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ ’’اک سخن اور‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ 1992ء میں انہوں نے اپنی طویل نظم ’’شہر بقا‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ مضطر مجاز کی طنزیہ شاعری پر ڈاکٹر راہی فدائی نے کیا خوب لکھا ہے، ملاحظہ فرمائیں ’’جناب مضطر مجاز صاحب طنزیہ اسلوب کے اہم شاعر ہیں یہ اسلوب آپ کو یوں ہی حاصل نہیں ہوا بلکہ ایک طویل و مسلسل مشق و مزادلت کے بعد حاصل ہوا ہے جس کا اعتراف خود آپ کو بھی ہے۔
میرے فن نے کیا جو طے اب تک
وہ سفر سیکڑوں برس کا ہے
طنزیہ شاعری کی سطحیں ہیں ان میں سے اعلی سطح پر مضطر مجاز فائز ہیں اعلی سطح وہی ہے جس میں طنز کا ہدف تیر نیم کش سے زخمی ہونے کے باوجود تیر انداز سے خفا نہ ہو بلکہ غالب کا یہ شعر گنگناتا رہے کہ
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
(مضطر مجاز کی شاعری کا طنزیہ اسلوب، مدرکات، ص۷۷)
مضطر مجاز نے بحیثیت شاعر خوب نام کمایا۔ ان کا کلام معیاری ہے بلاشبہ ان کے کلام میں نئے نئے قوافی اور ردیف کے ذریعہ خیال کی نیرنگی کو شاعری میں برتنے کا خوب صورت سلیقہ دکھائی دیتا ہے، ان کا اپنا ایک منفرد اسلوب‘ مخصوص لہجہ اور متنوع رنگ ہے۔ اُن کا بیش تر کلام عصر حاضر کے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔
مضطر مجاز کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر بیگ احساس نے لکھا ہے ’’مضطر مجاز شاعر، مترجم، نثر نگار، ادبی صحافی ہیں انہوں نے صالح اقدار کا ہمیشہ پاس و لحاظ رکھا اور جو بھی لکھا، سوچ سمجھ کر لکھا، کتابوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے نہیں لکھا۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ انہوں نے تشہیر سے ہمیشہ احتراز کیا۔ انہوں نے ہمعصروں کی قدر کی اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ جو بھی لکھتے ہیں روشن سیاہی سے لکھتے ہیں‘‘
(مضطر مجاز شخصیت اور فن ,ڈاکٹر مقبول احمد مقبول،ص VII)
مضطر مجاز ایک سادہ مزاج اور مخلص شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے کم و بیش 50سالوں تک شاعری کی زلفیں سنواری ہیں۔ ان کے تین شعری مجموعہ ’’موسم رنگ‘‘، ’’اک سخن اور‘‘، ’’طلسم مجاز‘‘ ساتھ ہی ایک طویل نظم ’’شہر بقاء‘‘ شائع ہو چکی ہیں، تراجم میں طلوع مشرق، ارمغان حجاز، جاوید نامہ، پیام مشرق، بندگی نامہ، نقش ہائے رنگ رنگ شامل ہیں۔ ان کے تراجم میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ اقبال اور غالب کے رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ انہوں نے اقبال اور غالب کے کلام کو ان ہی خطوط پر اردو کے قالب میں ڈھالا ہے جس کے پیچھے ان کی محنت شاقہ شامل ہے۔
ناہید سلطانہ اپنی کتاب میں مضطر مجاز کی بحیثیت شاعر خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’مضطر مجاز نہ صرف شاعر کی حیثیت سے مقبول ہیں بلکہ مترجم، مبصر، اور نقاد کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں جانے جاتے ہیں یہ مشاعروں میں بھی شریک رہتے ہیں نہ صرف قومی سطح کے مشاعروں میں بلکہ عالمی سطح کے مشاعروں میں بھی مضطر مجاز نے کلام پرداد تحسین حاصل کی ہے مضطر مجاز کی شاعری میں محدود متنوع موضوعات نہیں ملتے ہیں کبھی یہ نعت گو بن جاتے ہیں تو کبھی منقبت کہتے ہیں کبھی ان کے یہاں گل و بلبل عشق و عاشقی کے موضوعات ملتے ہیں تو کبھی نصیحت آمیز موضوعات، ان کی شاعری کی خصوصیات میں نادر علامتیں، خوبصورت تلمیحات کا استعمال ہے‘‘ (علی ظہیر شخص اور شاعر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، ص 29)
مضطر مجاز بحیثیت مترجم کے اپنی ایک انفرادیت رکھتے ہیں انہوں نے اقبال کی بیشتر فارسی نظموں کا ترجمہ کیا ہے 1975ء میں انہوں نے ’’طلوع مشرق ‘‘کا منظوم ترجمہ انجام دیا ساتھ ہی 1977ء میں ’’ارمغان حجاز ‘‘کا اردو میں ترجمہ کیا، 1981ء میں انہوں نے ’ ’جاوید نامہ ‘‘کا ترجمہ کیا اور 1996ء میں اقبال کی مشہور نظم ’’طلوع مشرق‘‘ کا منظوم ترجمہ انجام دیا جس پر اتر پردیش اردو اکیڈیمی نے انہیں ایوارڈ سے نواز ہے۔
مضطر مجاز نے کئی کتابوں پر تنقیدی تبصرے بھی کئے ہیں جو روزنامہ سیاسیت، منصف اور دیگر ادبی رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ تبصروں کے علاوہ انہوں نے رپورتاژ، مقدمے، پیش لفظ اور مضامین بھی لکھے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے تعارفی خاکے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اداریے بھی لکھے ہیں۔ مضطر مجاز کو ملک کی مختلف اردو اکیڈیمیوں نے ایوارڈ و اعزازات سے نوازا گیا ہے، سال 2014ء میں میں مضطر مجاز کو ادب و ثقافت میں نمایاں خدمات انجام دینے پر غالب اکیڈیمی کی جانب سے غالب ایوارڈ عطا کیا گیا۔
واضح رہے کہ 2004ء میں مقبول احمد مقبول نے ’’مضطر مجاز شخصیت اور فن‘‘ کے موضوع پر یونیورسٹی آف حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کی ہے۔
مضطر مجاز کے چند اشعار جن سے ان کی کلام کی خوبصورتی اور ان کے کلام کی انفرادیت کا احساس ہوتا ہے ملاحظہ ہوں ؎
ذرہ سہی سنبھال قلم، آفتاب لکھ
قطرے کی آنکھ کے لیے دریا کا خواب لکھ
دیمک کتاب شب کے سب اوراق کھا چکی
لوح جبین گل پہ سحر کا نصاب لکھ
۔۔ ۔۔
تصویر تری کھینچ کے خود اپنے لہو سے
اندھوں کی سجائی ہوئی بستی میں کھڑا ہوں
۔۔ ۔
سنا رہا ہوں سمندر لغاتِ شبنم میں
زبانِ ذرہ میں صحرا کی بات کرتا ہوں
کتاب قطرہ کے اوراق چاٹنے والو
میں کاوشِ دل دریا کی بات کرتا ہوں
۔۔ ۔
تفصیل میں نہ جا کہ پیمبر تو میں نہ تھا
مضطر! مری قمیض تھی اک روز پھٹ گئی
٭٭٭