پرندہ ۔۔۔ خالدہ حسین

ہاں! میں انہیں خوب پہچانتا ہوں۔ یہ اسی کے قدموں کی چاپ ہے۔ زینے پر پوری گیارہ سیڑھیاں۔ پھر دروازے کی ہلکی سی آہٹ اور وہ قدم، نرم رواں بادلوں کے سے تیرتے قدم۔ ادھر اس دہلیز سے اندر ہوں گے اور اس کمرے کا وجود بدل جائے گا۔ میں بدل جاؤں گا۔ ایک ان دیکھا مفہوم اس کمرے میں، میرے، اس کے، ہر چیز کے گردا گرد تن جائے گا۔ وہ آہستگی سے اپنے سرد ہاتھ سے میری کلائی تھامے گی۔ اس کی بے وزن انگلیاں میری نبض ٹٹولیں گی اور گھڑی کی ٹک ٹک چاروں سمت فضا بن کر بہنے لگے گی۔

’’گڈ‘‘ وہ سرہانے رکھے چارٹ پر جھک جائے گی۔

’’رات نیند کیسی آئی؟‘‘ وہ کرسی میرے قریب کھسکا لے گی۔ تب مجھے وہ تمام باتیں بھولی بسری، دور افتادہ، ادھر ادھر کونوں کھدروں میں پڑی، خاک اٹی یاد آ جائیں گی۔ ایک دم سے، ایک ساتھ، ایک ہی سماعت میں اور میں اسے بتاؤں گا۔ دیکھو یہ جو ایک سیدھی لکیر کا تسلسل ہمارے تمہارے ذہنوں میں ہے سب فریب ہے۔ میں تو اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کہیں بھی کوئی پہلے یا بعد شروع اور آخر، آگے اور پیچھے نہیں۔ سب کچھ ایک ہی ہے۔ ساعتیں ایک دوسرے میں گھل مل رہی ہیں۔ ایک محلول ہے، میرے سامنے میری زبان پر یا شاید میری آنکھوں میں، بے رنگ، بے ذائقہ محلول، جس طرح بے کار، بے ذائقہ زبان اور یہی سب کچھ ہے۔ در اصل وجود ہے اور یہ سب کچھ میں اس سے نہایت آسانی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اور وہ اسی ایک نرم مسکراہٹ کے ساتھ سمجھ سکتی ہے۔ مگر عین کہتے کہتے میرے سب الفاظ گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ جب یہ خیال آتا ہے کہ اس کمرے کے بعد آگے قطار میں اور بھی کمرے ہیں اور سب میں ایک ایک میں، ہاں ایک ایک میں اسی طرح بستر پر کسی ایک ساعت کا منتظر۔ اس سے خائف، اس سے پناہ لیے پڑا ہے اور کیا معلوم میں ان میں سے کون سا ہوں۔ چنانچہ میں اس سے صرف اسی قدر پوچھتا ہوں:

’’کیا تم کو بھی ایک ساعت۔ ایک پیچھے پیچھے لپکنے والی ساعت کا انتظار ہے اور تم اس سے خائف ہو۔ ایک تجسس کے ساتھ؟‘‘

’’ہاں ہم سب اس کے منتظر ہیں۔ اس سے خائف ہیں اور متجسس‘‘۔

’’مگر تم ابھی۔ تمہیں مجھ پر کتنی ہی فوقیتیں حاصل ہیں!‘‘

’’تم نے پھر بھاری بھاری لفظ بولے۔ دیکھو میں یہ فوقیتیں وغیرہ نہیں سمجھتی۔ میں تو صرف اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ لفظ۔۔۔ خالی لفظ نہایت مبتذل چیز ہے‘‘۔

’’مبتذل؟ تو کیا تم بھی۔۔۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ تم عجیب آدمی ہو۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں تم سے وہ تمام باتیں کہہ دیتی ہوں جو میں کبھی کسی قیمت پر کسی اور سے نہ کہوں۔۔۔ لفظوں میں سوچنا۔۔۔ محسوس کرنا نہایت مبتذل حرکت ہے‘‘۔

’’تو پھر کس طرح سوچا اور محسوس کیا جائے‘‘۔ میں آپس میں محلول ہوتی ساعتوں میں بہہ گیا۔ ایک بے ذائقہ بے رنگ احساس میری زبان پر تھا اور یہی سب پر محیط تھا‘‘۔

’’یہی تو مصیبت ہے۔ اسی لیے میں نے لکھنا چھوڑ دیا‘‘۔ اس نے کرسی کی پشت کے ساتھ سر لگا کے اطمینان سے کہا۔ مجھے اس کی خود فریبی پر ہنسی آ گئی اور پہلی بار میں نے نہایت اعتماد کے محسوس کیا کہ میں ہر طرح سے کہیں بہتر ہوں۔ اس پر فوقیت رکھتا ہوں۔

’’شاید اس لیے کہ تم لکھ ہی نہ سکتی تھیں۔ تم اچھی رائٹر نہ تھیں، لکھنے والے تو کبھی لکھنا نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ سب کے سب جھوٹے ہوتے ہیں، بناوٹی‘‘۔

’’ہاں شاید۔۔۔ یہ بھی درست ہو۔۔۔ میں نے کب کہا کہ میں لکھنے والی ہوں‘‘۔ اس کی آنکھوں میں غصے کا سایہ لہرایا۔ لکھنے والا تو کوئی کوئی ہوتا ہے۔ ہاں یوں تو بہت سے لکھتے ہیں۔۔۔ لکھتے رہیں گے۔ در اصل میں نے تو یہ جانا تھا ایک دم۔۔۔ ایک عجیب خاموش، پرسکون دوپہر میں۔۔۔ اچانک مجھ پر انکشاف ہوا کہ زندگی کہیں بھی نریشن نہیں‘‘۔

’’نریشن؟‘‘

’’ہاں! کہی بھی نریشن نہیں۔۔۔ ہاں لفظ ہیں اور عمل اور وقت ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ وقت کا ایک ٹکڑا ہے اور کچھ ناقص لفظ اور ادھورا عمل، تو یہ نریشن تو در اصل ہم خود بناتے ہیں۔ عمل کو لفظوں میں لکھنے کے مجرم ہم خود ہیں۔ مجرم اس لیے کہ وہ تسلسل جو ہم پیدا کرتے ہیں وہ منطق جو اس میں لا ڈالتے ہیں، اس کے جھوٹ سچ کو نہیں جانتے محض ایک مفروضہ کی بنا پر لکھ ڈالتے ہیں، لہٰذا یہ غلط ہے‘‘۔

’’مگر جب ہم لکھیں گے نہیں تو لفظوں میں سوچیں گے ضرور‘‘۔

’’اور سوچ۔ سوچ بغیر عمل کے نہایت مبتذل ہے‘‘۔

’’تو پھر ہم کیا کریں؟‘‘

’’عمل۔۔۔ صرف عمل۔۔۔ اور لکھنا اور سوچنا تو صرف نبیوں اور ولیوں کا حصہ ہے‘‘۔

’’تم بھی حیران کرتی ہو۔۔۔ سخت حیران‘‘۔ میں نے کہنیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کی۔

’’لیٹے رہو۔۔۔ لیٹے رہو۔۔۔ اس نے آہستگی سے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کے مجھے لٹا دیا۔

اور مجھے سب کچھ یاد آ گیا۔ میں تو منتظر ہوں۔ وہ سب بھی منتظر ہیں اور یہ جو میرے سامنے بیٹھی ہے اس کو مجھ پر کتنی فوقیتیں حاصل ہیں۔ کوئی گننا چاہے تو نہ گن سکے۔

’’دیکھو۔۔۔۔ یہ سب انتہائی غلط ہے کہ ہم اپنی سوچ کو یوں بحث میں لائیں۔ آئندہ ہم ایسا نہیں کریں گے‘‘۔

’’ہم‘‘۔۔۔ تو کیا میرے تمہارے درمیان وجود کے مفہوم کا کوئی رشتہ بھی ہے۔ اگر ہے تو یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہے۔ ان باقی تمام کے ساتھ بھی ہے تو تم اس طرح علامت سی بن جاتی ہو اور یہ سب نہایت غلط بات ہے۔ بہرحال میں تو تمہیں بتانے والا تھا کہ میں وہاں پھر گیا تھا‘‘۔

’’تم۔۔۔ تم وہاں گئے تھے؟ وہ اپنی حیرت نہ چھپا سکی اور فوراً سیدھی ہو کر بیٹھ رہی۔

’’ہاں۔۔۔ میں وہاں گیا تھا۔ مگر تم کب یقین کرو گی۔۔۔‘‘ شاید میری آواز میں حد سے زیادہ آزردگی تھی۔

’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ اگر تم چاہو گے تو میں یقین کروں گی۔ تم وہاں گئے تھے؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ میں وہاں پھر گیا تھا۔ آج بھی دھوپ بہت تیز تھی۔ سڑک تپ رہی تھی۔ میرا سر یوں تھا جیسے کیتلی میں پانی ابلتا ہو۔ پیاس کے مارے زبان پر کانٹے پڑ گئے تھے۔ مگر سنو یہ کتنی عجیب بات ہے، وہاں کی سڑکیں بالکل ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ وہ کناروں کناروں سے، جہاں جہاں سے گلیوں کی اینٹیں اکھڑی تھیں، اسی طرح تھیں۔ گھروں کی کھڑکیوں پر رنگین چقیں اسی طرح گری تھیں۔ وہ کونے والا مائی جنت کا مکان ہے۔ اس کو بورئیے کا پردہ تو ہوا میں ہلتا تھا اور حد ہے اس نے اب تک اس کا سوراخ مرمت نہیں کیا تھا۔ نالیوں میں خربوزے کے بیج اور آموں کے چھلکے پڑے تھے۔ تو جب میں اسکول والی گلی پار کر کے آگے بڑھا تو میرے گھر کا لکڑی کا دروازہ ادھ کھلا تھا حالانکہ ان گلیوں میں بھیڑ بکریوں کا گھس آنا تو ایک عام سی بات ہے۔ پھر بھی ان لوگوں نے دروازہ کھلا رکھا تھا۔۔۔ تو میں بغیر دستک دئیے اندر چلا گیا۔ اندر نہایت اندھیرا تھا اور ٹھنڈک تھی۔ ڈیوڑھی پار کر کے صحن میں پہنچا تو بڑی اچھی پرسکون روشنی تھی۔ آنکھوں کو آرام دینے والی۔ سامنے برآمدے میں تخت پوش پر ماں بیٹھی سبزی بنا رہی تھی اور حقے کی نے اس کے منہ میں تھی۔ مجھے دیکھ کر ماں نے کہا: ’’بڑی سخت لو چل رہی ہے۔ تم کہاں گلیوں میں مارے مارے پھرا کرتے ہو۔ چلو نمکین لسی کا گلاس پیو۔ وہاں میز پر جگ رکھا ہے‘‘۔ میں میز کی طرف بڑھا تو ماں نے پیچھے سے کہا:

’’اور یہ کیا تم نے مصیبت ڈال رکھی ہے۔ تم جانتے ہو مجھے ان سب کا سنبھالنا مشکل لگتا ہے۔ پانی کی ناپاکی کی مصیبت الگ۔۔۔ تمہارے ابا بھی سخت ناراض ہو رہے تھے‘‘۔ میں نے حیران ہو کر ماں کی طرف دیکھا۔

’’کیوں۔۔۔ کیوں ناراض ہو رہے تھے؟‘‘

’’بھئی کیا عذاب ڈال رکھا ہے‘‘۔ اس نے چھت کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ تب میں نے دیکھا برآمدے کی چھت میں جو بڑا کنڈا پنکھے کی خاطر لگا تھا اس میں رنگین ڈوری کے ساتھ وہ لٹک رہا تھا۔۔۔۔ ایک پنجرہ۔

’’اس میں کیا ہے؟‘‘ میں گلاس چھوڑ کر آگے بڑھا۔ مگر اس پنجرہ پر کپڑا پڑا تھا۔ میں نے اسے ہٹانا چاہا تو ماں چلائی۔

’’رہنے دو۔۔۔ یہ کپڑا نہیں ہٹاؤ۔ بیمار ہے بیچارہ۔۔۔ ڈر جائے گا۔۔۔ مر جائے گا‘‘۔ نفرت کی سیاہ لہر میرے پیٹ میں اٹھی۔

’’تو پھر ادھر کیوں رکھا ہے اسے؟‘‘ میں دھاڑا۔ اس پر ماں بولی: ’’میں کیا جانوں، تمہیں تو لے کر آئے تھے۔ رکھ گئے تھے بغیر کچھ کہے سنے‘‘۔

’’میں۔۔۔؟ ہاں تو کیا حرج ہے۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں نے ہی رکھا ہے۔۔۔ پھر۔۔۔؟‘‘ میں غصہ میں باہر آ گیا۔ ’’کیا تم جانتی ہو وہ پنجرہ وہاں کیوں ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔

’’نہیں۔۔۔ میں نہیں جاتی اور کیا تم جانتے ہو کہ وہ مکان، وہ گلیاں۔۔۔ آج سے بیس برس پہلے کارپوریشن والوں نے ڈھا دی تھیں۔ تمہاری ماں کی زندگی ہی میں؟‘‘

’’نہیں، نہیں۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ میں وہاں گیا تھا‘‘۔ میں نے زچ ہو کر کہا۔

’’ہاں۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ اچھا اب میں چلوں۔ وقت ہو گیا ہے‘‘۔ اس نے گھڑی دیکھ کر کہا۔ مگراس کے جانے کے بعد۔۔۔ فوراً بعد میں نے اگلے روز اس کے آنے کی ساعت کے متعلق سوچنا شروع کر دیا۔ کیونکہ ساعتیں ایک دوسرے میں گھل مل کر سیال بنیں، میری آنکھوں کا خون، پورے وجود کے اندر باہر چاروں سمت بہہ نکلی تھیں اور وہ یہ کہہ گئی تھی کہ لفظوں میں سوچنا اور سوچ کے متعلق سوچنا نہایت مبتذل حرکت ہے۔ کتنی عجیب و غریب بات ہے کہ وہ اور میں۔۔۔ ہم دونوں ابتذال سے اس قدر خوفزدہ ہیں۔ مگر یہ کیا کہ وہ اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک جانتا ہوا سا۔۔۔ راز بھرا احساس تھا وہ یقیناً جانتی ہے، سب جانتی ہے کہ وہ میرے برآمدے کی چھت سے لٹکتا پنجرہ وہاں کیوں ہے۔ کیا میں اسے وہاں رکھ آیا تھا؟ ماں کہتی ہے۔۔۔ اور وہ اس پر لپٹا کپڑا؟ ہاں رات کو پرندے جانوروں سے ڈرتے ہیں۔۔۔ شاید اسی لیے۔۔۔ مگر ماں کہتی ہے وہ بیمار ہے۔ وہ پردہ ہٹا تو ڈر جائے گا، مر جائے گا۔ تو کیا وہ اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی۔ شاید وہ مجھ سے چھپا رہی تھی۔ اب اس کے آنے کی ساعت جو ایک روشن دیوار کی طرح کہیں میرے پیچھے کھڑی تھی اور میں اس کے سایہ میں تھا۔ اب اس دیوار نور کے میرے قریب آنے میں آوازوں، لفظوں اور ادھوری حرکتوں کے رینگتے سرسراتے ٹکڑے مل حائل ہیں۔

اس کے قدموں کی چاپ پر میں سنبھل کر ہی بیٹھا۔ میرا رواں رواں ساعت بن گیا اور گھڑی کی ٹک ٹک کا سمندر چاروں سمت بہنے لگا۔

’’گڈ۔۔۔‘‘ اس نے آہستہ سے کرسی آگے کھسکائی۔ ’’رات نیند کیسی آئی؟‘‘

’’سنو روز تم مجھ سے پوچھتی ہو۔۔۔ آج تم بتاؤ۔۔۔ رات تمہیں نیند کیسی آئی؟‘‘ وہ کچھ ٹھٹھکی، پھر ہلکی سی مسکراہٹ سے کہنے لگی۔

’’نیند۔۔۔؟ نیند در اصل بہت ہی ذاتی قسم کی۔۔۔ بے حد ذاتی قسم کی چیز ہے اور میں اس کا حجاب نہایت ضروری سمجھتی ہوں‘‘۔

’’تم مجھے حیران کرتی ہو‘‘۔ میں نے پھر کہا۔ جب تم میں اور مجھ میں ایک خاموش معاہدہ ہے۔۔۔ مگر میں تم سے یہی کہنے والی تھی کہ نیند سے پہلے کے چند لمحے وہ ہیں، جب ہم بالکل تنہا اور نہتے ہوتے ہیں۔ اور ہمارے اردگرد کے تمام حصار ٹوٹ چکتے ہیں تو اس وقت محض ایک خوف مجھے گھیر لیتا ہے۔ وہ تم جانتے ہو۔۔۔؟‘‘

’’ہاں میرا خیال ہے کہ میں جانتا ہوں‘‘۔

’’ہاں یہ خوف کہ یہ نہتا لمحہ اگر کبھی ختم نہ ہوا تو۔۔۔ اگر یہی ہمارے حصے کا تمام وقت بن گیا تو۔۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔ مگر تم کو مجھ پرا تنی فوقیتیں حاصل ہیں۔ تمہیں ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہئیں۔ تم خود کہتی ہو یہ مبتذل ہے‘‘۔

’’یہ سوچ نہیں۔۔۔ اس کے لفظ ہیں۔۔۔ یہ تو احساس ہے‘‘۔

’’محض احساس۔۔۔ دن کے اجالے میں ہم اپنے آپ کو دوسروں میں کھو دینے کی کوشش کرتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہ لمحہ ختم ہوا۔ مگر یہ سب غلط ہے۔ رات، نیند اور فنا ہم پر تنہا آتی ہے۔ تم نے سنا۔۔۔۔ تنہا‘‘۔

’’ہاں۔۔۔ میں نے سنا۔۔۔ میں نے سن لیا۔۔۔ مگر میں سوچتا ہوں کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ تنہا نہ ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں؟ کیا یہ بالکل نا ممکنات میں سے ہے؟‘‘ میں نے کہنیوں کے بل اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ مگر اس نے اپنے خوبصورت ہاتھ کے ذرا سے دباؤ سے مجھے لٹا دیا۔

’’لیٹے رہو۔۔۔ لیٹے رہو۔۔۔ یہ میں نہیں جانتی۔۔۔‘‘ اس نے فوراً مجھ سے نگاہ چرائی۔ اور باہر کھڑکی کی جانب دیکھنے لگی۔

’’تمہیں معلوم ہے یہ خزاں کا موسم ہے۔ باہر ٹھنڈی صبح۔۔۔ تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ خشک بالکل خشک اور درختوں سے خشک پتے مسلسل ہر لمحہ، ہر آن گرتے چلے جا رہے ہیں۔ صبح و شام۔۔۔ اور کبھی کبھی اچانک بے حد مصروفیت میں رک جاتی ہوں۔۔۔ یکدم مجھے خیال آتا ہے، ہو سکتا ہے یہ میرا آخری دن ہے۔ چنانچہ میں اپنے اس آخری دن کو دیکھتی ہوں۔ ایک کی اترتی دھوپ کو اور جب دیواروں کو اور سوچتی ہوں یہ میرا آخری دن ہے۔ یہ کیسا لگتا ہے اور شاید ہر کوئی کبھی، کسی وقت اچانک رکتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ آخری دن ہے۔ مگر بھول گئی ہم نے طے کیا تھا کہ کبھی اپنی سوچ پر بات نہ کریں گے‘‘۔

’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہمیں ضرور بات کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ بہت سی باتیں جب نہ کی جائیں تو ٹھوس واقع بن جاتی ہیں اور پھر ان کو ختم کرنا، ان سے بچنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے‘‘۔ میں نے اسے روکنے کی نہایت کمزور سی کوشش کی۔ وہ گھڑی دیکھ رہی تھی۔

’’تم وقت کی اتنی پابند ہو۔۔۔ کیوں اتنی پابند ہو۔ تم ایک لمحہ پہلے آتی ہو نہ بعد میں۔ دوپل رک جانے کو، کہنے کی ہمت نہیں ہوتی‘‘۔

’’کیوں۔۔۔ یہ تو محض تمہارا خیال ہے۔ در اصل مجھے گھر وقت پر پہنچنا ہوتا ہے۔ جب میں ان کو کھانا کھلاتی ہوں تو میری تمام بے کار سوچ مر جاتی ہے، میں خوش ہوتی ہوں۔ مگر پھر کچھ ہی دیر میں وہ لڑھکتے موتیوں کی طرح مجھ سے الگ، دور ہو جاتے ہیں اور عمل رک جاتا ہے۔ وقت رواں رہتا ہے، لفظ یلغار کرتے ہیں اور یہ سب انتہائی بے سود ہے‘‘۔

’’ہاں۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔ مگر۔۔۔‘‘

’’اچھا۔۔۔ دوا کھانا نہیں بھولنا۔۔۔ اور سر اونچا رکھو ادھر تکیہ پر۔۔۔۔‘‘

وہ بادلوں کے سے تیرتے قدموں سے چلی گئی اور دروازہ بند ہو گیا۔۔۔ اوہ خدا۔۔۔ اس کے جاتے ہی یہ مجھے کچھ یاد کیوں آ جاتا ہے۔ مجھے تواس سے پوچھنا تھا، اس پنجرہ کے متعلق اور اس کے اندر رہنے والے کے بارے میں۔ پھر یہ سب کچھ کل پر ملتوی ہو گیا۔ لیکن نیند سے پہلے کا یہ ایک نہتا لمحہ اگر طویل ہو گیا اور ساعتوں میں تو سب کا رنگ بدل جائے گا۔۔۔ ذائقہ بدل جائے گا۔۔۔ اور ہم سب کے سب اس میں بہہ جائیں گے۔

مگر اچانک مجھے برابر والے کمرے سے پلنگ اور کرسیاں گھسیٹنے کی آواز آئی۔۔۔ پھر بوجھ گھسیٹتے، بمشکل سیڑھیاں اترتے ناہموار قدموں کا ہجوم۔۔۔ اور سب کچھ تھم گیا۔ تو یہ واقعی کسی کا، ساتھ والے کا آخری دن تھا۔ یہ کیسا تھا؟ اس نے کھڑکی میں سے باہر نظر دوڑانے کی کوشش کی۔۔۔ وہاں کہیں کہیں اکا دکا پتے اڑ رہے تھے اور بس۔۔۔ تو یہ دن بھی اور دنوں کا سا تھا اور پھر ایک دم مجھے ہنسی آ گئی۔ تو ایک بار پھر وہ کوئی دوسرا تھا۔۔۔ میں نہیں تھا۔ میرے پیٹ میں ایک تاریک ہستی تل تل کرتی تھی۔ اچھا وہ کل سب سے پہلے مجھے یہی خبر دے گی۔

مگر میرا خیال غلط تھا۔ اس نے اگلے روز مجھے یہ خبر نہ دی۔ وہ اسی طرح ایک خوشگوار واہمے کی صورت وارد ہوئی، میری نبض گنی اور چارٹ پر جھک گئی۔ اس کی جھکی آنکھیں دیکھ کر مجھے گزری رات کی بھولی بسری ساعتیں یوں یاد آئیں جیسے صدیوں پہلے کی بات۔ اتنی جلد ان پر خاک اٹ گئی تھی۔ میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے خوش دلی سے پوچھا۔

’’میری طرف دیکھو‘‘۔ میں نے ڈوبتی آواز میں کہا۔۔۔ میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے اوپر میرے درمیان وجود کے مفہوم کا کون سا رشتہ ہے۔ مگر وہ اسی طرح جھکی چارٹ پر لکھتی رہی۔ شاید وہ بھی اس رشتہ کا تعین کرنا چاہتی تھی اور مجھے ایک دم غصہ آ گیا۔ گرم لہو میری کنپٹیوں اور آنکھوں میں کھولنے لگا۔ میرا سر بھاپ بن کر اڑ گیا۔

’’میری نبض نہ گنو۔۔۔ میرا بلڈ پریشر نوٹ نہ کرو۔۔۔ اس کاغذ کو چاک کر دو‘‘۔ میں نے گویا زہر گلے سے اتارتے ہوئے کہا۔

’’اگر تم نہ بھی آؤ تو کیا ہے۔ لیکن یہ تو تمہارا فرض ہے۔ مجھے بتاؤ اور کیا کیا فرض ہے۔۔۔ میں نے۔۔۔ میں نے تمہیں دیکھ لیا ہے‘‘۔ میں نے غصہ سے کانپتی آواز میں کہا۔ میری مٹھیاں زور سے بھنچ گئیں۔

’’سکون۔۔۔ سکون۔۔۔ لیٹ جاؤ۔۔۔‘‘ اس نے مجھے آہستگی سے لٹانا چاہا۔

’’نہیں۔۔۔ تم نے ایک ان کیا معاہدہ توڑا ہے۔ تم نے مجھ سے بہت کچھ چھپایا ہے‘‘۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دینا چاہا۔ مگر مجھ میں اتنی قوت کہاں تھی۔ وہ خاموشی سے کرسی میں بیٹھی رہی۔ میں اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔ مگر وہ خاموش رہی اور گھڑی ٹک ٹک بولتی رہی۔

’’سنو۔۔۔ اگر سن سکتی ہو تو۔۔۔ میں وہاں پھر گیا تھا۔ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ تم کچھ نہیں جانتیں۔۔۔ جب آج میں وہاں گیا تو ماں وہاں تخت پوش پر بیٹھی چاول چن رہی تھی اور گھر کا آنگن ایسا تھاجیسے ابھی ابھی اباجی ناراض ہو کر، بول بول کر، باہر نکلے ہوں۔۔۔ ماں نے کہا بیٹھ جاؤ۔ آج جانے کیا بات ہے اس میں کوئی آواز نہیں آ رہی۔۔۔ کوئی ہل جل نہیں‘‘۔

’’کس میں سے؟‘‘ میں نے پوچھا تو اس نے برآمدے کی چھت سے لٹکے اس ڈھکے ڈھکائے پنجرہ کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے چاہا کہ لپک کر اٹھا کر دیکھوں کیا بات ہے۔ مگر ماں نے مجھے روک دیا۔

’’نہیں نہیں۔۔۔ رہنے دو۔ بیمار ہے بے چارہ۔ ڈر جائے گا۔ مر جائے گا۔ وہ آتی ہی ہو گی۔ خود ہی دیکھے گی‘‘۔

’’وہ کون۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا تو اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ میں نے دیکھا وہاں تم کھڑی تھیں۔۔۔ تم۔۔۔ اور تم کہتی ہو تم وہاں کبھی نہیں گئیں‘‘۔

’’میں کھڑی تھی؟‘‘ وہ مصنوعی حیرت سے بولی۔

’’ہاں تم۔۔۔ اور پھر جانتی ہو، سب سے بڑا نہتہ لمحہ وہ تھا جب تم نے مجھے دیکھنے کے باوجود نہ دیکھا۔ تم چپکے سے آئیں، پنجرہ کا غلاف اٹھایا۔۔۔ پھر تمہارے منہ سے عجب حقارت اور کراہت بھری آواز نکلی، ’’اوں ہوں‘‘ تم نے انگلی اور انگوٹھے کے درمیان اسے کنڈے سے اٹھایا۔

’’اوں ہوں۔۔۔ سب کا سب کیڑوں سے بھرا ہے۔۔۔‘‘ تم نے پنجرے کا دروازہ کھول کر اسے زور سے باہر نالی میں الٹ دیا۔۔۔ اس کو جو اس کے اندر تھا۔ اس کے گرنے کی آواز آئی۔۔۔ میں آگے لپکا، دیکھوں۔۔۔ اسے دیکھوں۔ مگر تم راستے میں کھڑی تھیں اور مجھے اس خوف نے آ دبایا کہ کہیں یہ اس نہتے لمحے کا آغاز نہ ہو اور میں رک گیا۔ چلا آیا بھاگتا ہوا۔ دیکھو میرے پاؤں میں چھالے پڑے ہیں‘‘۔

’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ مجھے نہیں دکھاؤ۔۔۔‘‘ اس نے میری پیشانی پر اپنے خوشگوار ٹھنڈک بھرے ہاتھ رکھے۔ ’’مجھے نہیں دکھاؤ۔ یہ ہمارا معاہدہ ہے۔۔۔ ہم ایک دوسرے کے زخم نہیں دیکھیں گے، مگر کیا تمہیں یقین ہے کل رات جو آوازیں برابر کے کمرے سے آئیں وہ اسی کمرے کی تھیں، تمہارے کی نہ تھیں؟‘‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے