وہ گیا جس سے بزم روشن تھی ۔۔۔ امتیاز احمد

 

وہ گیا جس سے بزم روشن تھی

 

 

                   امتیاز احمد

 

بزم جہاں بھی عجیب چیز ہے، کب برہم ہو جائے کچھ نہیں معلوم۔ کتنی امیدوں آرزوؤں کے ساتھ ہم سب اپنی اپنی بزموں کو آراستہ پیراستہ کرتے ہیں اور کیسے یہ چشم زدن میں بکھر کر رہ جاتی کچھ پتہ نہیں چلتا، اور پھر ہم ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں ۔ یہی سب کچھ اُس بزم کے ساتھ بھی ہوا جو ۸۴۔ ۱۹۸۳کے آس پاس غازی پور لاج میں آباد ہوئی تھی۔

زمانہ کے سرد و گرم برداشت کرتے ہوئے علی گڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی، اقبال انسٹی ٹیوٹ، سری نگر سے ہوتے ہوئے جب جائسی صاحب علی گڑھ واپس آئے تو غازی پور لاج کے ایک چھوٹے سے مکان کو انھوں نے اپنا تکیہ بنایا۔ یہ مکان دو کمروں ، ایک آنگن، ایک کچن وغیرہ پر مشتمل تھا۔ شریکِ حیات بہت پہلے اس شرکت سے منہ موڑ کر اﷲ کو پیاری ہو چکی تھیں ۔ یوں پانچ بڑے ہوتے ہوئے بچے، اُن کی پرورش و پرداخت، تصنیف و تالیف کے اشواق، احباب نوازی، خورد پروری اور اکیلے کبیر احمد جائسی ان سب سے جوجھ رہے تھے۔

اسی مکان سے متصل ایک کمرے میں میرے فارسی کے استاد ڈاکٹر نجابت حسین بھی فروکش تھے۔ اﷲ مغفرت فرمائے نجابت صاحب ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے کے تعلیم یافتہ، انتہائی نستعلیق لوگوں میں تھے۔ انقلاب کے بعد اپنی مذہب بے زاری کی وجہ سے انھیں مجبوراً ایران چھوڑنا پڑا تھا، لیکن اب بھی یہ عالم تھا کہ کبھی اﷲ اکبر کی آواز سنتے تو یہ کہنا نہیں بھولتے تھے کہ بھئی یہ دن میں پانچ وقت اپنی بڑائی کا اعلان کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ بڑے ہیں تو رہیے بڑے۔ (نعوذ باﷲ) شادی صرف اس وجہ سے نہیں کی تھی کہ اگر متوقع شریکِ حیات کا تلفظ درست نہیں ہوا تو ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاریں گے۔ ان کے یہاں جدیدفارسی سیکھنے کے شوق میں ہم لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ یہیں پتہ نہیں کب اور کیسے جائسی صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر ہوتی چلی گئی۔

یہ ایک خانقاہ تھی جہاں ہر طرح کے افراد کا گزر ہوتا تھا۔ کسی پر کوئی پابندی نہ تھی، کوئی دکھاوا نہ تھا، کوئی ریاکاری نہ تھی۔ ایک فرش مسلسل بچھا رہتا تھا۔ دیوار سے ملحق کتابوں کا ڈھیر ہوتا۔ دیواروں اور کھڑکیوں پر کچھ تصویریں آویزاں ہوتیں اور اُن کے بیچ ایک درویش صفت بزرگ جھکے ہوئے کسی علمی کام میں مصروف ہوتے۔ کبھی طلبا آرہے ہیں تو کبھی اساتذہ، کبھی غیرتدریسی عملہ کے لوگ۔ اسی دوران دودھ والا آ جاتا تو اُٹھ کر اُس سے دودھ لے لیتے۔ دھوبی آ جاتا تو اُس کی دھُلائی کا حساب بھی کر دیتے اور پھر اپنی جگہ آ بیٹھتے۔

اسی کمرے میں ایک طرف عبدالسلام ندوی کے ساتھ ایک نوجوان طالب علم کی تصویر تھی۔ معلوم ہوا یہ کبیر احمد جائسی ہیں ، ہنسی آئی۔ وقت بھی کیسا ظالم ہے۔ کیسے کیسے نو خطوں کو بزرگ بنا دیتا ہے۔ بعد میں ان تصویروں میں جذبیؔ، عبدالسلام (نابیل انعام یافتہ سائنس داں ) اور ابن فرید کی تصویروں کا اضافہ بھی ہوا۔ انہی تصویروں اور کتابوں کے درمیان ایک اور بزرگ آ کر بیٹھ جاتے جنھیں دیکھ کر اقبال کا یہ مصرعہ یاد آتا تھا:

کف آئینہ باندھی ہے او ناداں حنا تو نے!

ہونٹوں سے پان کی سرخی جھانکتی ہوئی، آنکھوں سے ذہانت اور علمیت کی چمک ہویدا، کپڑے ہر طرح کے دکھاوے سے بے نیاز، داڑھی، مونچھیں اور سر کے بال اس شعر کی تفسیر پیش کرتے ہوئے:

خط بڑھا، زلفیں بڑھیں ، گیسو بڑھے، کاکل بڑھے

حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

بعد میں معلوم ہوا یہ پروفیسر اسرار احمد ہیں جنھیں لوگ پیار سے پروفیسر نیوٹن کہتے ہیں ۔ انہی کا ذکر کرتے ہوئے سیدحامد نے ایک جلسہ میں کہا تھا:

’’اَسرار صاحب جو اپنے آپ کو اِصرار کہے جانے پر اِصرار کرتے ہیں ۔ ‘‘

ہائے کیا لوگ تھے جو خاک ہوئے۔ یہیں پروفیسر ریاض الدین (پروفیسر شعبۂ ریڈیولوجی) آ بیٹھتے، کسی طرف سے ٹہلتے ہوئے اشتیاق احمد ظلّی اور شعبۂ تعلیمات کے پروفیسر، علی اختر خاں صاحب اور اُس وقت کے ڈپٹی اور بعد کے فائنانس آفیسر شفیق صاحب، وی۔ ایم ہال سے ایک ہجومِ عاشقاں کے ساتھ پیادہ پا چل کر آنے والے شباب الدین اعظمی اور نہ جانے کتنے لوگ آتے جاتے رہتے۔ چائے کا دور چلتا رہتا، پان کی گلوریاں بنتی رہتیں اور ایک بے تکلفی کے ماحول میں علم و عرفان و آگہی کا ذکر ہوتا رہتا۔

کچھ دنوں بعد اسی کمرے میں رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ علی گڑھ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے جانے لگے۔ سرفراز صاحب (مشہور آرٹسٹ) یہیں تہذیب الاخلاق کے سرورق کا خیال Discuss کرتے اور یہیں سلیم صاحب (تہذیب الاخلاق کے اُس وقت کے کاتب) رسالہ کے نوک پلک درست کرتے۔ یہیں رسالہ کی صَوَری اور معنوی ترتیب و تہذیب کا عمل مکمل ہوتا۔ علی گڑھ میں میری یہ پہلی تربیت گاہ تھی۔ پتہ نہیں کیوں اور کیسے ان بزرگوں میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہو گئی۔ یہیں پہلی بار Team Spirit سے آشنا ہوا، یہیں پہلے پہل قلم پکڑنا سیکھا۔ آج ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ اُس زمانے کی میری نہ جانے کتنی طالب علمانہ تحریریں صرف اس بزرگ کی توجہ اور عنایت کی وجہ سے تہذیب الاخلاق کے صفحات میں شائع ہوسکیں ۔ اُسی زمانہ میں جائسی صاحب کے ہی اصرار پر تہذیب الاخلاق کے سرسید نمبر کے لیے سائنٹفک سوسائٹی پر وہ مضمون بھی لکھ سکا جو بعد میں سی۔ پی۔ ایس۔ تہذیب الاخلاق انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔

یادوں کی پوری فلم ہے، کس کس سین کا ذکر کروں ۔ بی۔ اے کرنے کے بعد وطن واپس چلا گیا تھا۔ والد صاحب کی ملازمت سے سبک دوشی کی وجہ سے گھر کی ایسی حالت نہیں تھی کہ تعلیم جاری رکھ پاتا۔ وہیں پہلے بہار ریاستی انجمن ترقی اردو کی آفس میں اور پھر خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ میں چھوٹی موٹی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی عنایتوں سے علی گڑھ میں ہی لائبریری کا کچھ کام نکل آیا (یہ کام نسبتیؔ تھانیسری کے کلام کی تدوین میں نواب رحمت اﷲ خاں شروانی کا ہاتھ بٹانا اور جذبیؔ صاحب کی خودنوشت کے پروجیکٹ میں اُن کی مدد کرنا تھا۔ ) تو پھر سے ایم۔ اے میں داخلہ لینے کی صورت نکل پائی۔ داخلہ کی لسٹ میں میرا نام آ گیا تھا، لیکن داخلہ کے لیے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ ایسے میں غازی پور لاج کی اسی خانقاہ کا دروازہ کھلا تھا۔ S.B.I. کی پاس بک میں چھ سوروپے لیے کبیر احمد جائسی باہر نکلے تھے، اور چپکے سے میرے سپرد کر کے اندر واپس چلے گئے تھے۔ مجھے نہیں معلوم اُس وقت اُن کی تنخواہ کیا تھی، لیکن میرے لیے یہ چھ سو روپے آج کے لاکھوں روپے سے زیادہ اہم تھے۔ اسی رقم سے میں ایم۔ اے (اردو) میں داخلہ لے سکا۔ اس کے بعد بھی وہ خاموش نہیں بیٹھے۔ خدا بخش لائبریری سے مجھے ہر مہینے ڈیڑھ سو روپے ملتے تھے، خرچ لگ بھگ تین سو روپے کا تھا۔ حسنِ اتفاق اُسی زمانے میں جائسی صاحب کے استاد، سرپرست اور اردو کے ممتاز ناقد پروفیسر آل احمد سرورؔ اقبال انسٹی ٹیوٹ، سری نگر کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو کر علی گڑھ آ گئے۔ یہاں آ کر انھوں نے خودنوشت اور اپنے دوسرے بکھرے ہوئے کاموں کو سمیٹنے کا کام شروع کیا۔ اس کام میں مدد کے لیے انھیں ایک طالب علم کی ضرورت تھی، انھوں نے جائسی صاحب سے ذکر کیا تو انھیں جیسے منھ مانگی مراد مل گئی۔ فوراً میرا نام پیش کیا اور دوسرے دن خود مجھے لے کر سرورؔ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ سرورؔصاحب نے میرا انٹرویو لینے کے بجائے خود جائسی صاحب کا انٹرویو لینا شروع کر دیا۔ پہلا سوال تھا:

’’آپ انھیں کتنے دنوں سے جانتے ہیں ؟‘‘

دوسرا سوال:

’’کیسے جانتے ہیں ؟‘‘

پھر تیسرا، چوتھا…

بہرحال خدا خدا کر کے ہم دونوں اس امتحان میں پاس ہو کر سرخرو اور سرفراز ہوئے۔ یوں ان دونوں سے تعلق کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اُن دونوں کی زندگیوں کے بعد اب بھی جاری ہے۔ بعد میں جب میں نے سرورؔصاحب پر ایک کتاب مرتب کی تو یہ صرف جائسی صاحب کی محبت تھی کہ انھوں نے اس کے لیے سرورؔصاحب کی شخصیت سے متعلق ایک بھرپور مضمون لکھ کر عنایت فرمایا۔ پھر جب ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی کے لیے سرورؔ صاحب پر مونوگراف لکھنے کی نوبت آئی تو اس سلسلہ میں بھی قدم قدم پر مدد اور رہنمائی فرماتے رہے۔ اُسی زمانے میں جب شاہد علی خاں صاحب کے حکم اور استادِ محترم پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی رہنمائی میں رسالہ ’کتاب نما‘ نئی دہلی کے لیے میں نے گوشۂ جذبی مرتب کیا تو اُس کے لیے بھی جائسی صاحب نے خاصا تفصیلی مضمون عنایت فرمایا۔ وہ جذبیؔ صاحب کی اس خوبی کے بہت قائل تھے کہ ادھر اُن کا کوئی شاگرد سند فضیلت لے کر فارغ ہوتا اور اُدھر جذبیؔ صاحب چھڑی لیے صاحبان اقتدار سے اس کی ملازمت کے لیے سفارش کرنا شروع کر دیتے تھے اور اپنی حد تک اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ آخری وقت تک پروفیسر نذیر احمد اور پروفیسر آل احمد سرور کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ایک موقع پر حاضر ہوئے تو سرور صاحب کے پان کے پتّے ختم ہو گئے تھے۔ سرورؔ صاحب نے انھیں فوراً پان کے پتّے لانے کے لیے دودھ پور بھیج دیا۔ اسے یاد کر کے اور اس کا ذکر کر کے بہت خوش ہوتے تھے کہ آج بھی میرے ایسے اساتذہ موجود ہیں جو مجھے پان لانے کے لیے کہہ سکتے ہیں ۔

جائسی صاحب سرورؔ صاحب کے اُن شاگردوں میں تھے جنھوں نے اُن کی بکثرت تحریریں صاف کی تھیں ۔ چنانچہ آج بھی جائسی صاحب کی صاف کردہ سرورصاحب کی تحریروں کی ایک فائل میرے پاس موجود ہے۔ کشمیر میں (اقبال انسٹی ٹیوٹ) وہ سرورصاحب کے دست راست رہے تھے۔ چنانچہ وہاں کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے اکثر جذباتی ہو جاتے تھے۔ بنیادی طور پر وہ فارسی کے اسکالر اور پروفیسرنذیر احمد کے شاگرد تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو سرورصاحب کا ہی ساختہ پرداختہ تصور کرتے تھے۔ مختلف اوقات میں سرورصاحب نے بڑی تعداد میں انھیں خطوط لکھے تھے، ان میں سے اکثر ان کے پاس محفوظ تھے۔ کچھ خطوط انھوں نے فکرو نظر کے آل احمد سرورؔ نمبر میں شائع بھی کیے تھے، لیکن بقیہ خطوط کسی وجہ سے شائع نہ ہوسکے۔ ضرورت ہے کہ وہ خطوط شائع کر دیے جائیں ۔

سوویتی تاجیکی ادبیات کے سلسلہ میں اور فارسی میں قرآن کی تفسیروں کے سلسلہ میں انھوں نے بڑا کام کیا۔ ان میں سے بیشتر کام شائع ہو چکا ہے، لیکن اگر کچھ باقی ہے تو اُسے بھی شائع ہونا چاہیے۔ اُن کا بہت پرانا شعر ہے:

ایک اخفائے سوز دروں کے لیے

کوئی کس کس طرح سے ہنسے دوستو

مجھے اُن کی پوری شخصیت اسی اخفائے سوزدروں کی تصویر نظر آتی ہے۔ اس میں ایک فطری کشادگی تھی۔ قلب و نظر کی وسعت جو اُن کے اخلاف کو شاید میسر نہ آئے۔

آخر عمر میں وہ جلسوں اور سمیناروں میں جانے سے پرہیز کرنے لگے تھے۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد انھوں نے جس علاقے میں اپنا مکان بنوایا تھا اتفاق اور خوش قسمتی سے بعد میں مجھے بھی اس کے قریب ہی آباد ہونے کا موقع ملا۔ کبھی کبھی حاضر ہوتا تو بڑی دلچسپی سے چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی معلوم کرتے۔ بیوی بچوں کی خیریت پوچھتے۔ پھر ایک دن اچانک معلوم ہوا کہ جائسی صاحب حج بیت اﷲ سے مشرف ہو گئے۔ حیرت ہوئی اور خوشی بھی۔ حاضر ہوا تو بہت سرشار تھے۔ میرے پڑوسی جناب شمیم صاحب حج میں اُن کے شریکِ سفر تھے۔ اُن سے سفرکی تفصیلات معلوم ہوتی رہیں ۔

اسرار صاحب اُن سے پہلے اﷲ کو پیارے ہو گئے تھے، اُن کی موت پر ایک عالم رویا۔ یہ کیسے نہ روتے۔ کہنے لگے اسکوٹر لے کر آ جاؤ تمہارے ساتھ ہی چلوں گا۔ حاضر ہوا تو تکلیف سے بیٹھے۔ اسرارصاحب کے گھر آئے، واپسی پر بہت سے احباب اپنی اپنی گاڑیوں سے انھیں واپس پہنچانے کو تیار تھے لیکن اس فقیر کے ساتھ ہی واپس ہوئے۔ شاید کند ہم جنس باہم جنس پرواز کی مثال پیش کرنا چاہتے ہوں ۔ کبھی پینٹھ سے سبزی لے کر اپنے گھر کی طرف سے واپس آتے ہوئے دیکھ لیتے اور میں نہ دیکھ پاتا تو گھر فون کر کے میری نصف بہتر سے بہت محبت سے کہتے:

’’کتنی سبزی منگاتی رہتی ہو۔ ‘‘

پروفیسر اسرار احمد کی نواسی کی شادی میں زحمت کے باوجود خاص طورسے رکشا ریزرو کر کے گئے۔ وہاں میرے بیٹے انس احمد سے چھوٹی چھوٹی کھانے کی چیزیں منگا کر ٹسٹ کرتے اور اُسے دعائیں دیتے رہے۔

شہریارؔ صاحب کے انتقال کی خبر دینے حاضر ہوا تو خبر سن کر دُکھی ہو گئے۔ میں نے جنازے میں شرکت کے بارے میں دریافت کیا تو دلچسپی دکھائی۔ میں نے کہا میں حاضر ہو جاؤں گا۔ وقت مقررہ پر حاضر ہوا تو تیار بیٹھے تھے، لیکن کھڑا ہونا مشکل تھا۔ سانس تیز تیز چل رہی تھی، اُن کے صاحب زادے نے Blood pressureچیک کیا تو بہت بڑھا ہوا تھا۔ ہم سب نے سمجھابجھا کر دوا دے کر لٹا دیا۔ اندازہ ہو گیا کہ بہت دنوں ساتھ دینے والے نہیں ہیں ، لیکن پھر بھی یہ امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ بیچ میں ایک مرتبہ پھر طبیعت خراب ہوئی، جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں ایڈمٹ ہوئے۔ دیکھنے گیا تو لیٹے لیٹے باتیں کر رہے تھے، پھر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اسرارصاحب کی صاحب زادی صبیہ علوی بھی تشریف لے آئی تھیں ۔ اُن کا نواسہ بھی موجود تھا۔ سب سے بہت خوش گوار موڈ میں باتیں کرتے رہے۔ معلوم ہوا ڈاکٹر نے پیس میکر لگانے کا مشورہ دیا ہے، پھرکسی وجہ سے پیس میکر نہیں لگ سکا اور اُس کے بغیر ہی وہ ٹھیک ٹھاک ہو کر گھر واپس آ گئے۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا دوبارہ تکلیف ہوئی تو انھیں دہلی لے جانا پڑا۔ وہاں کافی دنوں بیٹی کے پاس رہے لیکن پھر واپس آتے ہی اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ اُن کے ہم محلہ ڈاکٹر ادیب عالم نے خبر دی ابھی ابھی جائسی صاحب کی باڈی ہاسپٹل سے اُن کے گھر پہنچا کر آیا ہوں ، وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ دل دھک سے رہ گیا۔ کیا اب ہم لوگ ایسی ہی خبریں سننے کو زندہ رہ گئے ہیں ؟ بھاگا بھاگا اُن کے گھر گیا تو آرام سے اپنی کتابوں کے درمیان ڈرائنگ روم میں لیٹے ہوئے تھے۔ باہر ان کے چاہنے والوں کا ہجوم تھا۔ جو آتا اُن سے اپنے تعلق کا اظہار کرتا۔ اُن کی خوبیاں گناتا اور دُکھی ہوتا رہتا۔ لیکن اب وہ اُس جہاں میں تھے جہاں ان کے لیے یہ چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔ خدا کرے اس جہاں میں اُن کی یہ خوبیاں زندہ رہ جائیں ۔

ان بزرگوں کے ساتھ علی گڑھ کا ایک پورا دور رخصت ہو رہا ہے۔ اُن کی قدریں رخصت ہو رہی ہیں ، اُن کی بے لوثی، اُن کی محبتیں ، اُن کی لگن، اُن کی Team spirit، ادارہ سے تعلق، اگلی نسل کی تربیت کا انداز سب رخصت ہو رہی ہے۔ دیکھیں آنے والا دور کیا رنگ دکھاتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے