مرزا خلیل احمد بیگ کا شمار اردو زبان و ادب کے ان معدودے چند اسلوبیاتی نقادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی مسلسل کاوشوں کی بدولت اسلوب (ادبی حوالے سے) اور اسلوبیات (لسانی صفات کے اعتبار سے) کے مابین واضح حد فاصل قائم کرتے ہوئے ’اسلوبیاتی دبستان تنقید‘ کے خد و خال متعین کیے۔ مرزا صاحب سے قبل محترم مسعود حسین خان نے اسلوبیاتی تنقید کا جامع ماڈل پیش کیا اور اس تنقیدی روش کی معروضیت اور سائنسی? منہاج پر روشنی ڈالی۔ ہمارے عہد میں اسلوبیاتی تنقید کا ایک جامع و مانع تصور مرزا خلیل احمد بیگ کے مضامین اور مقالات میں ملتا ہے جو بعد ازاں کتابی صورت میں مرتب ہوئے اور بعنوان ’اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے ہمارے سامنے آئے۔ یہ وقیع کتاب قومی کونسل برائے اردو زبان، نئی دہلی نے بڑے اہتمام سے شائع کی اور اس کا اڈیشن دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گیا (پاکستان میں اس کتاب کا اڈیشن موجود ہے اور گرم کیک کی طرح بک رہا ہے) یہ کتاب۵۰۰ صفحات پر مشتمل ہے اور اس حوالے سے لائق توجہ ہے کہ اس میں ۳۱ مضامین و مقالات شامل ہیں جن میں اسلوبیات کی عمومی تفہیم، نظریاتی حدود و ثغور، مغربی اور مشرقی نظریہ سازوں کا تعارف اور نظم و نثر کے اسلوبیاتی تجزیات پیش کیے گئے ہیں۔
اس کتاب کو در حقیقت اسلوبیات کا تربیتی کورس سمجھنا چاہیے کیوں کہ یہاں اس نئے تنقیدی ڈسپلن کو جس عمدگی اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اُسے سامنے رکھتے ہوئے اسلوبیات کے نہ صرف بنیادی تصورات واضح ہو جاتے ہیں بلکہ اس کی اطلاقی صورتوں کا جامع و مانع نمونے ہماری رہنمائی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان صفات کو پیش نظر اس کتاب کی تعریف لفظوں میں ممکن نہیں سکتی۔
مرزا صاحب کا اپنا اسلوب بہت سلیس، سادہ، دل کش اور منطقیانہ ہے، وہ اپنے ہر دعوے کی بنیاد مضبوط دلیل پر رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا مقالہ ’بیدی کی زبان‘ خاصے کی چیز ہے۔ ان کے علاوہ وہ مضامین بھی خصوصی توجہ کے حامل ہیں جن میں ابو الکلام آزاد کی نثر اور اکبر الہ آبادی کی لغات مغربی کا بے لاگ تجزیہ ملتا ہے۔ مرزا خلیل احمد بیگ کی اسلوبیات کے حوالے سے اردو اور انگریزی میں اور کتابیں بھی موجود ہیں جن میں اس نئے ڈسپلن کو مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے اور بلا شبہ ان کتابوں نے ہمارے ادب کو تنقیدی اعتبار سے ثروت مند بنایا ہے۔ زیر نظر مضمون میں صرف ان کی اردو کتاب (اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے) کے پاکستانی ایڈیشن کو مدِ نظر رکھا گیا ہے تاکہ اس کتاب کی جْملہ صفات اور اسلوبیاتی تنقید کی مبادیات پر تسلی سے بات ہو سکے۔
یہ نکتہ خاطر نشان رہے کہ اسلوبیات کا اصل کام کسی مصنف کے لسانی امتیازات کو نشان زد کرنا ہے لیکن یہ محض لسانی مطالعہ نہیں ہے کیوں اس میں مصنف کی انفرادیت تک پہنچنے کی ٹھوس کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش میں تخلیق کار کے لسانی امکانات اور خصائص کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اس تجزیاتی عمل کے دوران زبان کا کلی تصور پس منظر میں فعال رہتا ہے اور تخلیق کار کی لسانی انفرادیت کا مرحلہ بھی بخیر و خوبی طے پاتا چلا جاتا ہے۔ اردو ادب میں یہ شعبہ چوں کہ قدرے نیا ہے اس وجہ سے اس میں کبھی کبھار کچھ خلط مبحث بھی پیدا ہونے لگتے ہیں، مثلاً اسلوبیاتی تنقید کو عمومی لسانی تنقید سمجھ لیا جانا ایک ایسا عام مغالطہ ہے جس کی وجہ سے تنقید کا یہ جدید طریق کار اپنی واضح شناخت قائم نہیں کر پاتا اور اس کے بارے میں غلط فہمیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے اس مغالطے سے بچنے کے لیے لکھا ہے:
’’زبان کا صرف لسانیاتی تجزیہ اسلوبیاتی تجزیہ نہیں کہلا سکتا۔ اسلوبیاتی تجزیے کی بنیاد لسانیاتی تجزیے پر ضرور قائم ہے، لیکن خالص لسانیاتی تجزیے کو اسلوبیاتی تجزیہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس میں لسانیاتی تجزیے کے علاوہ اسلوبی خصائص کی شناخت بھی ضروری ہوتی اور اسلوبی خصائص کا تعین اسی وقت ہو سکتا ہے جب فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کیا جائے۔ لہٰذا اسلوبیاتی تنقید کو صرف لسانیاتی تنقید سمجھ لینا کافی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر اسلوبیاتی تجزیہ، لسانیاتی تجزیہ بھی ہوتا ہے۔ کچھ اہلِ علم اسلوبیاتی سے صرف لسانی تجزیہ ہی مراد لیتے ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید کی مکمل شکل و صورت یہ ہو گی۔۔۔۔۔۔ لسانیاتی تجزیہ +اسلوبیاتی خصائص کی شناخت=اسلوبیاتی تنقید۔‘‘ (۱)
گویا اسلوبیاتی نقاد کا اصل کام یا منصب کسی فن پارے میں موجود لسانیاتی نظام کو گرفت میں لانا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کسی ادب پارے کا مجموعی تعارف یا تجزیہ پیش نہیں کرتی بلکہ صرف اس کی لسانی جہتوں کی عقدہ کشائی کرتی ہے۔ اس کا کام فکر و نظر کے صغرے کبرے تلاش کرنا نہیں ہوتا اور نہ ہی سماجی اور ثقافتی معاملات میں اس کی کوئی مداخلت سامنے آتی ہے۔
اسلوبیاتی تنقید کا منصب تخلیقی متن میں لسانی صفات کی تلاش و جستجو ہے۔ یہاں لفظ کی صوتی اور معنیاتی سطحوں کا تجزیہ اور مطالعہ کیا جاتا ہے۔ متن میں اظہار کے قرینے چوں کہ جملوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں لہٰذا جملوں کی نحوی اور قواعدی ساخت کا عمل بھی اسی تنقید کی حدود میں شامل ہے۔ اگر معاملہ شعری تنقید کا ہو تو پھر اس میں بحروں کے تجزیات کے علاوہ حروف کی آوازیں، صوتی ارکان، حروفِ علت، مصمتہ، مصوتہ، کھلے رکن، پابند رکن، ردیف، قوافی، شعری صنف، الفاظ کی تکرار اور تضاد کی صورتوں کا بھی عمیق تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اسلوبیاتی طریق تنقید پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلوبیاتی تنقید مصنف کے اسلوب میں مضمر آوازوں کی تکرار، لفظوں کی ترتیب اور جملوں کے منفرد نظام کو موضوع بناتی ہے، تا کہ عام بول چال کی زبان سے مصنف کی زبان یا اسلوب کا انحراف یا امتیاز سامنے آ سکے‘‘ (۲)
محولہ بالا بیان سے یہ اصول اخذ کرنا آسان ہے کہ اسلوبیاتی تنقید کا تعلق متن کے مواد اور موضوع سے نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں بات کرنے کے لیے قاری یا ناقد کو اقداری فیصلوں کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ بلکہ متن کی ظاہری اور معروضی شکل یعنی اسلوب سے ہوتا ہے اور یہی وہ اصل شئے ہے جو مواد اور موضوع کو ادبی حدود میں داخل کر کے اس میں ادبیت پیدا کرتی ہے۔ اسلوب کے دو پہلو ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق ادب کے ساتھ بنتا ہے اور دوسرا لسانیات سے جا ملتا ہے۔ اسلوب کی تشکیل میں ایسے بے شمار عناصر موجود ہوتے ہیں جن کا مطالعہ معروضی پیمانوں کی مدد سے بآسانی کیا جا سکتا ہے اور انھی کو بنیاد مان کر کسی مصنف کی انفرادیت قائم کی جا سکتی ہے۔
ہر بولنے یا لکھنے والا شخص زبان کے استعمال میں ایک ’’لسانی انتخاب‘‘ کے عمل سے گزرتا ہے اب یہ اسلوبیات کا وظیفہ ہے کہ وہ اس لسانی انتخاب کا معروضی مطالعہ کرے اور اس لسانی انفرادیت کو ظاہر کر دے جو ایک مصنف کو دوسرے سے ممتاز و ممیز بناتا ہے روایتی اسلوب کے مسائل نسبتاً آسان اور عام فہم ہیں لیکن اسلوبیات (Stylistics) کے تمام مسائل اپنے اندر تفہیم اور برتاؤ کی گہری تکنیکی پیچیدگی رکھتے ہیں۔ ادبی اسلوبیات میں متن کا صرف لسانی تجزیہ پیش کرنا مقصود ہوتا ہے تاہم اس میں جمالیات کے مباحث بھی ایک خاص حد تک شامل ہو جاتے ہیں۔
مرزا خلیل احمد بیگ نے اسلوبیات کے حوالے سے جو اجتہادی کام کیا اس میں ادبی اسلوب کا بھی کچھ حصہ شامل نظر آتا ہے۔ ان سے قبل کسی اور اسلوبیاتی نقاد نے اس قسم کی کسی گنجائش پر بات نہیں کی تھی۔ لیکن یہ خصوصی مطالعہ اصل میں کسی لسانی یا اسلوبیاتی پہلو کو ہی نمایاں کرنے کی کی خاطر عمل میں آتا ہے۔ ادب کا لسانی جائزہ محض ایک میکانکی عمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں زبان کے ان تمام عوامل اور اجزائے ترکیبی کا کھوج لگایا جاتا ہے جو ایک مصنف کے اسلوب میں بنیادی تعارف کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ادب کا ہر اسلوبیاتی جائزہ سماجی لسانیات سے بھی حسب ضرورت مدد لیتا ہے تا کہ اسلوب میں موجود سماجی محرکات کو بھی منکشف کیا جا سکے۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے ان اہم نکات کی وضاحت کرتے ہوئے بار بار ہمیں یہ باور کرایا کہ اسلوبیات کی بنیاد چوں کہ لسانیات پر استوار ہے اس لیے لسانیات میں شامل تمام دیگر مضامین بھی کسی نہ کسی حوالے سے اسلوبیات کے دائرہ اثر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایسے تمام سماجی علوم و فنون (مثلاً عمرانیات، علم الانسان، نفسیات اور سیاسیات وغیرہ) جو انسان کے فکری اور عملی جہات سے منسلک ہیں ان کا ایک واضح عکس ہمیں اسلوبیات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ تنقید اور بالخصوص اسلوبیاتی تنقید ایک ایسی علمی اور تخلیقی سرگرمی ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ نئے اضافے ہوتے رہتے ہیں۔
ان اضافوں کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ متن کی دنیا کو زیادہ سے زیادہ سمجھا اور پرکھا جا سکے۔ تنقید کے روایتی دبستانوں میں متن کی تفہیم کا بڑا ذریعہ ذاتی پسند و ناپسند، ذوق اور مزاج ہوا کرتے تھے۔ اس قسم کی تنقید بالعموم یک رخی ہوتی اور ہر نقاد اپنی سہولت کے مطابق فیصلے صادر کرتا تھا۔ اس دور کی تنقید کا ایک نمایاں کمزور پہلو یہ تھا کہ اگر کسی بڑے ناقد نے کسی تصنیف یا صاحب تصنیف کے بارے میں جو رائے قائم کر دی پھر وہ حتمی متصور ہوتی تھی اور بعد میں آنے والوں کے لیے اس رائے کا احترام فرائض میں شامل ہو جاتا تھا۔ یہ طریق ہائے تنقید آہستہ آہستہ اپنی ساکھ کم کرتے گئے اور ان کی جگہ تنقید کے ایسے نئے نظریات متعارف ہونا شروع ہوئے جن کی مدد سے متن کی اہمیت اور اس کی تفہیم میں سہولت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اسلوبیات کا جدید دبستان تنقید کے اسی جامع تصور کی ایک توسیع ہے۔ اس میں متن کا مطالعہ، تخلیق کار کے اسلوب کا توضیحی اشاریہ کچھ اس انداز سے مرتب کرتا ہے کہ اس میں اسلوب کی صوتی، صرفی، لغوی، نحوی، قواعدی اور معنیاتی صفات روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسلوبیات نے ادب اور لسانیات کے درمیان ہم رشتگی کا گہرا شعور عطا کیا ہے۔
تنقید کا یہ انداز نظر خالص منطقی اور معروضی ہوتا ہے تاہم اس میں کسی حد تک تاثراتی اور جمالیاتی زاویے بھی شامل سمجھے جا سکتے ہیں۔ اسلوبیات کے جدید مفہوم، طریقِ کار اور تجزیات کے حوالے سے نظری مباحث کا سلسلہ جس شد و مد سے جاری و ساری ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے اردو نقاد تنقید کے نئے عالمی مباحث میں کس قدر دل چسپی رکھتے ہیں۔ جدید دنیا کا تصور اب ایک قریۂ آفاقی کی صورت کیا جانے لگا ہے جس کی وجہ سے فکر و نظر کی دنیا میں بھی ہل چل مچ گئی ہے کیوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے کئی مصنوعی حد بندیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مرزا خلیل احمد بیگ نے اسلوبیاتی تنقید پر جو قابلِ قدر کام کیا اس کی وجہ سے اردو زبان و ادب میں اسلوبیاتی تنقید بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔
جدید تنقیدی رجحانات نے متن کی تفہیم اور تجزیے کی جو نئی راہیں دریافت کی ہیں ان میں مرزا خلیل احمد بیگ صاحب کا بڑا نمایاں حصہ ہے جس کی وجہ سے معاصر تنقیدی منظر نامے میں انھیں خاص امتیاز حاصل ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ مرزا صاحب کی اسلوبیاتی تنقید کا انتہائی اہم حصہ ان کی تصنیف اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے کئی حوالوں سے ایک جامع اور مستند اسلوبیاتی دستاویز ہے جس میں ادبی تنقید، لسانیات اور اسلوبیات، اسلوب کے روایتی تصورات، اسلوبیاتی تنقید، اہم نظریہ ساز اسلوبیاتی نقاد، اہم نثر نگاروں کے اسلوبیاتی تجزیات، شعری متون کے اسلوبیاتی مطالعات اور اہم لسانیاتی اور اسلوبیاتی اصطلاحات کی وضاحت و صراحت شامل ہے۔
مرزا صاحب گزشتہ چار دہائیوں (یا شاید اس سے بھی زائد) سے اس موضوع پر مسلسل لکھتے چلے آر ہے ہیں اور اس ڈسپلن کی تفہیم کے لیے ایسے ایسے نادر اطلاقی نمونے فراہم کیے ہیں کہ عامی و عالم دونوں اس سے استفادے کی راہیں نکال سکتے ہیں۔ وہ بذات خود لسانیات اور اسلوبیات کے حوالے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (لسانیات میں ایم اے اور پی ایچ ڈی یہاں سے مکمل کی) بعد ازاں دکن کالج، پونا کے Advance Summer Institute in Linguistics میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کے بعد امریکہ کی معروف یونیورسٹی آف ناکس وِل (University of Knozville) میں سے تحصیل علم کا بھرپور موقع ملا جس کی بدولت آپ نے اس نئے ڈسپلن میں قابلِ قدر اضافے کیے۔ آپ کی تربیت میں جہاں مسعود حسین خان کا بڑا اہم کردار رہا وہاں غیر ملکی اساتذۂ کرام سے بھی آپ نے مقدور بھر کسبِ فیض کیا۔ ان تمام مراحل سے گزر کر آپ نے اسلوبیات کے خصوص میں جو کام کیا ہے وہ اردو زبان و ادب میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ آپ نے اپنی کتاب میں اسلوبیات پر بات کرنے سے پہلے لسانیات کی تاریخ اور اس کے ارتقا پر جو معلومات بہم پہنچائی اس کی مدد سے اسلوبیات کی تفہیم میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ آپ نے ایک اہم تاریخی صداقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ادبی تواریخ کے مطالعے اور لسانیات کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادبی مطالعہ و تنقید اور لسانیات کے درمیان کشیدگی کی جو صورتِ حال اب ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ ادب و لسانیات کے درمیان نہ تو اس طرح کے اختلافات موجود تھے اور نہ ان کے مطالعے میں دو رنگی (Dichotomy) پائی جاتی تھی۔ دونوں علوم کے ماہرین مل جل کر کام کرتے تھے۔ علمی میدانوں میں اس ہم آہنگی کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ زبان و ادب کے مطالعے میں بہت سی باتیں مشترک تھیں اور ان کے بیشتر مسائل ایک دوسرے کے ساتھ Overlap کرتے تھے۔ انگریزی مطالعہ و تنقید کے میدان میں اس باہمی اشتراک اور ہم کاری کی توثیق آر. ڈبلیو چیمبرز (.R.W Chambers) اور سی ایس لیوس (C.S. Lewis) جیسے عظیم اسکالرز کے علمی کارناموں سے ہوتی ہے جو ادبی مطالعہ و تنقید اور علم السنہ دونوں میں دسترس رکھتے تھے۔‘‘ (۳)
یہ کلیدی نکتہ عموماً ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے جس کی وجہ سے ادب اور لسانیات میں مغائرت کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ماضی میں محققین اور ناقدین دونوں کے ہاں ادب اور زبان یا لسانیات میں یکجائی کا تصور عام تھا۔ حافظ محمود شیرانی جیسے نابغہ روز محقق اپنی ہر تحقیق میں لسانیاتی پہلوؤں کو بالخصوص مد نظر رکھتے تھے۔ تاہم بیسویں صدی میں جیسے جیسے علوم میں وسعت آتی گئی اور ان کے باہمی افتراقات کے تحت الگ الگ ڈسپلن بنانے کا چلن عام ہوا تب سے ادب، لسانیات اور اسلوبیات کے دائرہ کار بھی اپنی اپنی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئے۔ یہ تبدیلی بھی کئی لحاظ سے فاہدہ مند ہی رہی کیوں کہ ہر شعبے کو اپنی منفرد خصوصیات کی بدولت الگ کرنے سے ماہرین کا نیا طبقہ سامنے آنا شروع ہوا جس نے لسانیات اور اسلوبیات کو وسعت آشنا کیا۔ یہ تمام مباحث ہمارے ہاں انگریزی کے توسط سے متعارف ہوئے جن پر بات کرتے ہوئے مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں:
’’انگریزی میں اسلوبیات کے آغاز و ارتقا، اس کی سمت و رفتار، اور ادبی مطالعہ و تنقید کے میدان میں مغربی عالموں کے کارناموں اور خدمات میں مڈلٹن مرے کی The problem of style (آکسفرڈ، 1922)، لوکس کی Style (لندن، 1955) ہر برٹ ریڈ کی English Prose Style (لندن، 1928) ، بیٹسن کی English poetry and English Language (آکسفرڈ، 1934) اور رینی کی The elements of Style (لندن 1915) اور اس قبیل کی بعض دوسری تصانیف کا حوالہ نہیں پیش کیا گیا ہے کہ یہ تمام کتابیں خالص ادبی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں۔۔۔۔ اور مطالعۂ اسلوب کے ادبی موقف کو سمجھنے میں ان کتابوں سے بڑی مدد مل سکتی ہے‘‘ (۴)
انگریزی میں ہمیں جو حوصلہ افزا صورتِ حال دکھائی دیتی ہے وہ اردو میں نظر نہیں آتی کیوں کہ یہاں ایک طویل مدت تک اسلوب کی حکمرانی رہی ہے جس کے اثرات تا حال دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود مرزا صاحب نے ان معدودے چند اسلوبیاتی نقادوں کا تذکرہ شامل کیا ہے جن کی وجہ سے اردو میں لسانیات اور اسلوبیات کی راہیں ہموار ہوئیں، ان میں ان شا اللہ خان انشا (دریائے لطافت) سر سید احمد خان (قواعد صرف و نحوِ زبانِ اردو) مولوی عبدالحق، وحید الدین سلیم، سید محی الدین قادری زور، پنڈت برجموہن دتاریہ کیفی، عبدالستار صدیقی، عبدالقادر سروری، مسعود حسن رضوی ادیب، سید احتشام حسین، شوکت سبزواری، اور سہیل بخاری کے نام شامل ہیں۔ اگرچہ مرزا صاحب نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اردو میں بھی اسلوب پر لکھا گیا ہے لیکن یہاں بھی انداز فکر زیادہ تر ادبی ہی رہا ہے۔ اردو میں نئی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مرزا صاحب نے دکن کالج، پونا کے لسانیاتی سمر سکول کی افادیت کو سامنے لایا کیوں کہ یہی وہ اہم سنگ میل نے جس نے آگے چل کر لسانی اور اسلوبیاتی طریقِ کار کو اپنایا۔ بیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں
جن ادبی اکابرین نے اس حوالے سے باقاعدگی دکھائی ان میں مسعود حسین خان، گیان چند جین، گوپی چند نارنگ، عبدالستار دلوی، مغنی تبسم، عبدالغفار شکیل، ان کے بعد آنے والی نسل میں حامد اللہ ندوی سے لے کر علی رفاد فتیحی اور پھر مرزا خلیل احمد بیگ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ ان لسانیاتی، توضیحی اور اسلوبیاتی مطالعے کی نمایاں خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے مرزا صاحب نے لکھا ہے:
’’ادب کا لسانیاتی یا دوسرے لفظوں میں زبان کے حوالے سے مطالعہ کرتے وقت سائنسی اور معروضی طریقِ کار اختیار کیا جاتا ہے اور صرف ادبی فن پارے ہی کو خود مکتفی مان کر اور اس کی مخصوص صوتی، لغوی، اور نحوی ترتیب و تنظیم کے حوالے اور تجزیئے سے اس کے تاثر کی توجیہ کی جاتی ہے اور نتائج مرتب کیے جاتے ہیں۔ ادبی فن پارے کے بارے میں تاثراتی یا اقداری فیصلوں سے قطعاً گریز کیا جاتا ہے اور فن کار کی داخلی و خارجی ماحول اور اس کی ذات کو غیر اہم تصور کرتے ہوئے صرف فن پارے ہی پر ساری توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔‘‘ (۵)
گویا یہ ایک طرف روایتی تنقید کی توسیع ہے اور دوسری جانب ہئیتی طریقِ تنقید میں نئی روح پھونکنے کا عمل بھی ہے۔ روایتی تنقید نے متن کے داخلی مظاہر سے زیادہ مصنف اور اس کے ماحول کو توجہ دی ہے جس کی وجہ سے متن کی جلوہ گری کہیں سماجی و سیاسی پس منظر میں دب کر رہ جاتی تھی۔ لسانیاتی اور اسلوبیاتی تنقید نے متن مرکز اظہارات کو عام کیا تاکہ متن اور مصنف دونوں کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔
اردو اسلوبیات میں چوں کہ شعری تجزیات زیادہ ہوئے ہیں اس لیے لوگوں کا یہ عمومی تاثر قائم ہو گیا کہ یہ طریقِ تنقید صرف شاعری تک محدود ہے۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے اس تاثر کو زائل کرنے کی خاطر اور اسلوبیات کی ہمہ گیریت کو نمایاں کرنے کے لیے نثری فن پاروں کے عمدہ تجزیات پیش کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے اسلوبیات میں اب نظم و نثر کا بہترین توازن دکھائی دیتا ہے۔ اس خصوص میں ان کے مضامین ابو الکلام کی نثر، نیاز فتح پوری: لسانی مزاج اور تشکیلِ اسلوب، رشید احمد صدیقی کا اسلوب: مرکباتِ عطفی کا مطالعہ و تجزیہ، رشید احمد صدیقی کا طنزیہ و مزاحیہ اسلوب، ذاکر حسین: زبان اور اسلوب، بیدی کی زبان اور معاصر اردو افسانہ: زبان اور اسلوب انتہائی وقعت کے حامل ہیں۔ ان نثر نگاروں پر بات کرتے ہوئے زبان کے تنیوں اہم اسالیب کا تذکرہ بھی ہوا جس میں اطلاعی ((Informative، ہدایتی (Directive) اور اظہاری (Expressive) اسالیب شامل ہیں۔ مرزا خلیل احمد بیگ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لسانیاتی اور اسلوبیاتی نتائج مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ قارئین کو اپنے اخذ کردہ نکات کے بارے میں آگاہ بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے قاری کی ادبی تربیت بھی ہوتی چلی جاتی ہے۔ نیاز فتح پوری والے مضمون میں آپ لکھتے ہیں:
’’کسی شخص کا لسانی مزاج نہ تو پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے اور نہ خلقی و موروثی ہوتا ہے، تو پہلے ہے۔ بلکہ یہ کلیتہً اکتسابی اور ماحول کا زائیدہ ہوتا ہے جس کی تحصیل پہلے غیر رسمی پھر رسمی (جب وہ پڑھنا لکھنا سیکھتا ہے) طور پر عمل میں آتی ہے۔ کسی شخص کے لسانی مزاج کی تشکیل میں اس کا عہد، معاشرہ، تہذیب، ماحول، علمی و ادبی روایات، تعلیمی پس منظر، گرد و پیش کے افراد، نیز ثانوی زبانیں (جو وہ شعوری طور پر سیکھتا ہے) اہم رول ادا کرتی ہیں۔‘‘ (۶)
یہ بحث بہت دل چسپ اور معلومات افزا ہے کیوں کہ یہاں انسانی شخصیت اور اس کے لسانی مزاج کو اسلوبیاتی ارتقا کے ساتھ جوڑ کر سمجھانے کی سعی ملتی ہے۔ آگے چل کر یہ لسانی عمل، علمِ نفسیات، سماجیات اور انسانیات کے زیر اثر اپنے باقی مدارج طے کرتا نظر آتا ہے۔ سماج کا کون سا واقعہ یا نفسیات کا کون سا پہلو کس وقت اسلوب پر اثر انداز ہوتا ہے اس کا کھوج لگانا از حد مشکل ہے۔ انسانی رویوں میں تغیر و تبدل کے جملہ عناصر اسلوب نگارش کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقی دنیا کے سنگین مسائل اور مثالیت پسندی اسلوب کی ارضیت کو مستحکم کرنے کے بڑے اہم ذرائع ہیں اور کم و بیش ہر تخلیق کار کو ان تجربات سے گزر کر آگے نکلنا ہوتا ہے۔ یہ کہنا بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اسلوب میں پیدا ہونے والی تہہ داری، تاثیر، برجستگی، ارفعیت، ذومعنویت، درد مندی، تاثیر اور تخلیقی حسن ارتقائی عمل سے نکلنے کے بعد ایک کُل کی شکل میں اسلوب اور اسلوبیات دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مرزا خلیل احمد بیگ نے اردو ادب میں جس سلیقے اور علمی رکھ رکھاؤ کے ساتھ اسلوبیات کے نظری، عملی، تشریحی یا توضیحی مباحث کے ساتھ ساتھ نقد الانتقاد کے حوالے سے کافی و شافی مواد فراہم کیا اس سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ مرزا صاحب جہاں اپنے موضوع کے تخلیقی مظاہر سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں نقد و نظر کے جملہ مسائل پر بھی ان کی خاص توجہ ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے اسلوبیاتی کام پر جامعات کی سطح پر اس نوعیت کا تنقیدی/ تحقیقی کام کرایا جائے جو نہ صرف ان کے تجزیاتی محاکموں کی مزید گرہ کشائی کرے بلکہ اسی اسلوبیاتی منہاج کو مزید وسعت آشنا بھی کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱) مرزا خلیل احمد بیگ، اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، بھٹی سنز پبلشرز، لاہور، ص۱۳۶، طبع۲۰۱۸ء
۲) وزیر آغا، تنقید اور جدید اردو تنقید، انجمن ترقی اردوپاکستان، کراچی، ۱۹۸۹،ص ۹۵
۳) اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، ص۲
۴) اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، ص۱۳
۵) اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، ص۱۴
۶) اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، ۲۳۷
٭٭٭