مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔۔۔

 

قارئینِ سمت کو نیا سال مبارک ہو۔

پچھلا سال  جاتے جاتے بھی برِ صغیرِ ہند و پاک کو کئی زخم دے گیا۔ہندوستان کے سیاسی حالات بطور خاص مسلمانانِ ہند کے لئے باعث تشویش رہے تو ادھر پاکستان میں پشاور کے آرمی سکول کے سانحے نے دونوں ملکوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ اس سانحے کے لئے مرحوم بچوں کی یاد میں ہندوستانی طلباء بھی یہاں کے ہر شہر میں سڑکوں پر نکل آئے اور موم بتیاں جلا کر ان معصوموں کے غم میں شریک ہوئے۔

سال کے ختم ہوتے ہوتے جہاں علم و ادب کے میدان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر  سید حامد جیسی نابغۂ روزگار شخصیت بھی ہم سے جدا ہو گئی تو کرکٹ کے میدان میں فل ہیوز کی کھیل کے میدان میں حادثاتی موت نے ساری دنیا کو جیسے سن کر دیا۔

البتہ یہ بہت خوش آئند رہا  کہ عالمی سطح کا نوبل انعام مشترکہ طور پر ہند و پاک کے حصے میں آیا۔

دعا ہے کہ آنے والا سال  پر مسرت اور پُر امن ہو دونوں ملکوں ہی نہیں، سارے عالم کے لئے۔آمین۔

اس کے ساتھ ہی قارئین کی ایک اور مبارکباد بھی دینی ضروری ہے۔ آپ کی نظروں کے سامنے یہ پچیسواں شمارہ ہے، سلور جوبلی نمبر۔  نومبر ۲۰۰۵ میں یہ بلاگ سپاٹ کے بلاگ کی صورت میں  نکلا تھا، اور ان نو سالوں سے زائد عرصے میں یہ اپنے مختلف ویب کے پتوں کے ساتھ  عدم تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔  یہ ’سمت‘ کے لئے خوش آئند سہی، لیکن اردو کے لئے اب بھی مایوس کن ہے کہ اردو تحریر، یونی کوڈ، میں اب بھی  جرائد قبول نہیں کئے جا رہے ہیں، یا شاید مدیران کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ  ادبی جریدے صرف ادیب اور شاعر حضرات ہی پڑھتے ہیں، اور ان کو اس سے کیا سروکار کہ تخلیق اردو تحریر میں پڑھی جا رہی ہے یا تصویری شکل میں۔ اس میں شک نہیں کہ ادباء اور شعراء   سے یہ امید کم ہی ہے کہ وہ نستعلیق فانٹ اپنے کمپیوٹروں پر انسٹال کریں گے۔ اگر پرانا کمپیوٹر ہو گا، تو کسی پرانے سسٹم کی موجودگی میں اردو  پڑھنے کی سپورٹ بھی انسٹال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔  لیکن اردو   کی یہ تصویری شکل  پڑھنے بلکہ دیکھنے کی وقتی آسانی   ضرور مہیا کرتی ہے لیکن اردو زبان کو سالوں پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئےسال میں  مزید اردو تحریری رسائل منظر عام پر آئیں گے۔

سلور جوبلی نمبر کی خاص اشاعت کے پیش نظر اس بار دو گوشے شامل ہیں۔

ایک پاکستانی اور ایک ہندوستانی  شاعر، رفیق سندیلوی اور عالم خورشید کے نام ادبی دنیا کے لئے جانے پہچانے ہیں۔    امید ہے کہ قارئین پر ان دونوں کے فکر و فن کے تازہ گوشے وا ہوں گے۔

آئندہ شماروں میں دو اہم گوشوں  کو شامل کرنے کا ارادہ ہے۔ ایک تجزیہ نگاری اور تجزیات پر،  اور دوسرا افسانچہ/ منی کہانی/ پوپ کہانی/ یا اس مختصر مختصر کہانی کو جو بھی نام دیا جائے، پر۔ ان دونوں گوشوں کے لئے مضامین بھیجنا شروع کر دیں۔

آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

ا ع

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے