مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔۔۔۔۔

مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔۔۔۔۔

اس نئی آب و تاب کے "سمت” میں خوش آمدید!

مجھے نہایت افسوس ہے کہ احباب کی فرمائش کے باوجود میں اس جریدے کی نستعلیق شکل قائم نہیں رکھ سکا ہوں۔ خبر ملی تھی کہ فروری میں ہی ادارہ مقتدرہ زبانِ اردو پاکستان ایک تیز رفتار فانٹ ریلیز کر رہا ہے لیکن یہ اب تک سامنے نہیں آ سکاہے۔ چناں چہ میں نے ایک فارسی فانٹ کا استعمال کیا ہے۔ یہ فانٹ اگر آپ نے ونڈوز میں اردو کی سپورٹ انسٹال کر لی ہے تو آپ کو دستیاب ہو گا ہی اور  یہ صفحات پڑھ سکیں گے ، اور کچھ حد تک نستعلیق کا لطف اٹھا سکیں گے۔ موجودہ فانٹ میں کاف کی ملحقہ شکل (گول کاف) ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح ‘گاف’ کی بھی۔ امید ہے کہ قارئین اس کو قبول کر لیں گے۔ قارئین (یا ملاقاتی زیادہ بہتر ہو گا انٹر نیٹ پر) کو یہ یقین دلا دوں کہ جیسے ہی یہ فانٹ ریلیز ہو گا، اس کی شکل بدل دی جاۓ گی، نہ صرف اس شمارے کی، بلکہ پچھلے شماروں کی بھی۔ انٹر نیٹ بلکہ کمپیوٹر کا یہی کمال ہے کہ محض کچھ سیٹنگ بدلنے سے سارا روپ بدل جاتا ہے۔ اس سے پہلے ادارہ مرکزِ تحقیقات اردو پاکستان کے جس نفیس نستعلیق فانٹ کا استعمال کیا گیا تھا، وہ نہ صرف سست تھا اور صفحات لوڈ ہونے میں وقت لیتے تھے ، بلکہ اس میں ایک طرف کچھ حروف صارف کے انٹر نیٹ استعمال کرنے والے پروگرام (براؤزر) میں گڑبڑ کرتے تھے جیسے چھوٹی ‘ی’ اور دوسری طرف بہت سے حروف تھے ہی نہیں ، جیسے ‘ۂ’ اور اگر ان پیج کی طرح ‘نالۂ دل’ کو ‘نالۂدل’ لکھا جاتا تو یہ مجھے املا کی غلطی محسوس ہوتی تھی۔ پھر بھی نفیس نستعلیق فانٹ اب بھی دوسری ترجیح میں شامل ہے۔ یعنی اگر آپ نگار فانٹ ڈاؤن لوڈ کریں تو یہ صفحات اسی میں نظر آئیں گے ، اور اگر پہلے ‘نگار’ نہ کر کے نفیس نستعلیق انسٹال کریں تو یہ صفحات نستعلیق میں دکھائی دیں گے۔۔۔جو مزاجِ یار میں آۓ۔ اور اگر کچھ بھی انسٹال نہ کریں ، تو پھر ٹاہوما فانٹ تو تیسرا متبادل ہے ہی، غرض آپ کو پڑھنے میں دقّت تو نہیں ہونی چاہئے۔ کیوں کہ جب یونی کوڈ کنزورٹیم نے یہ حرف مقرّر کر دیا ہے تو بہتر ہے کہ اسی کو استعمال کیا جاۓ۔ اسی شمارے میں میں نے کمپیوٹر پر اردو ٹائپ میں املا کے کچھ سوالات اٹھاۓ ہیں۔ امید ہے کہ قارئین اس سلسلے میں اپنی آراء سے نوازیں گے۔

عید میلاد بھی اسی ماہ اپریل میں ہے اور اس موقعے پر اگر رسول اکرم کو مزید خراجِ عقیدت پیش کیا جاۓ تو بے حد مناسب ہے ویسے سچّے مسلم کو تو چاہئے کہ ہر وقت آں حضرت پر درود و سلام بھیجتا رہے۔

‘گا ہے گا ہے باز خواں۔۔” کے تحت کرشن چندر کی ایک کہانی اور عدم کی ایک غزل شامل کی  جا رہی ہے۔ مجھے اکثر احساس ہوتا ہے کہ کرشن چندر کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ کچھ یہی بات افسانے کے سلسلے میں ہی رام لعل، عوض سعید وغیرہ کے لۓ بھی کہی جا سکتی ہے۔ شاید یہ معاملہ کچھ ایسا رہا کہ "زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا، اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں "۔ اس کے علاوہ اس بار "کتابوں کی باتیں ” کا حصّہ اہم ہے۔ دوسری مشمولات پر بھی آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

اعجاز عبید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے