غزلیں ۔۔۔ نوید ناظم

اس لیے اب بھی راستے میں ہوں

کہ میں چلتا ہی دائرے میں ہوں

 

یہ مِرا عکس ہے جو باہر ہے

دیکھ میں خود تو آئینے میں ہوں

 

میں عناصر بکھیر دوں اپنے

تیرے کہنے پہ ضابطے میں ہوں

 

رک سکوں اور نہ چل سکوں آگے

کیا کروں سخت مرحلے میں ہوں

 

بات تجھ سے کروں تو لگتا ہے

جیسے خود سے ہی رابطے میں ہوں

 

تُو کسی اور طرح سے دیکھے

میں کسی اور زاویے میں ہوں

 

تجھ سے باہر نکل نہیں پایا

آج تک تیرے حاشیے میں ہوں

 

’کُن‘ سے پہلے بھلا کہاں تھا میں

تُو بتا، میں تو مخمصے میں ہوں

 

میں ازل سے نوید اُس کا تھا

دیکھ لے آ کے،  زائچے میں ہوں

٭٭٭

 

 

 

جو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اک آنسو نکل آئے

تو ممکن ہے تِرے غم کا نیا پہلو نکل آئے

 

اندھیروں نے مجھے ایسا شرف بخشا کہ اب بھی میں

جو مُٹھی کھول دوں تو اس میں سے جگنو نکل آئے

 

مِرے دل کو غموں نے ہر طرف سے گھیر ڈالا ہے

کسی بھی طرح اس دلدل سے بس اب تُو نکل آئے

 

اگر وہ گل بدن اک بار چھو لے پیار سے ان کو

انہی کاغذ کے پھولوں سے بھی پھر خوشبو نکل آئے

 

ذرا سچ بولنے کی دیر تھی آگے نہ پوچھو بس

ہزاروں لوگ تھے، پتھر لیے ہر سو نکل آئے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے