عالم خورشید سے ایک بے تکلف گفتگو ۔۔۔ رحمان شاہی

 

عالم خورشید سے ایک بے تکلف گفتگو

 

                   رحمان شاہی

 

رحمان شاہی:پچھلے دنوں ہم نے ڈاکٹر عبد الصمد سے ان کی افسانہ نگاری اور ناول کے حوالے سے ایک تفصیلی گفتگو رکارڈ کی تھی جس میں بہت سارے اہم نکات سامنے آئے تھے۔ اشاعت کے بعد اس گفتگو کو عام طور پر بہت پسند کیا گیا۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ ہم اس سلسلے کو برقرار رکھیں۔ اتفاق سے ہم چاروں آج پھر یکجا ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آج ہم عالم خورشید سے ان کی شاعری کے حوالے سے کچھ گفتگو کریں۔ آپ لوگ مناسب سمجھیں تو بات آگے بڑھائی جائے۔

عالم خورشید:یعنی آپ چاہتے ہیں کہ تین افسانہ نگار مل کر ایک شاعر کا تیا پانچہ کریں !

عبد الصمد:نہیں ایسا بھی کیا! اور اگر ایسا ہے بھی تو اس میں حرج ہی کیا ہے! اسی بہانے شاعری پر کچھ کارآمد گفتگو ہو جائے گی۔

اختر واصف:رحمان شاہی کی یہ تجویز بالکل مناسب ہے۔

عبد الصمد:بہتر ہو گا کہ ہم لوگ گفتگو شروع کریں۔ چلئے! میں ہی اس سوال سے آغاز کرتا ہوں کہ سب سے پہلے عالم خورشید یہ بتائیں کہ وہ شاعری کیوں کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:ظاہر ہے میں اپنے احساسات ہو خیالات دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ خصوصاً وہ احساسات و خیالات جو کسی طور پر باہر نہیں نکل پاتے اور میرے شعور و لاشعور میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ مجھے پریشان کرتے ہیں۔ جب یہ کاغذ پر منتقل ہو جاتے ہیں تو میری پریشانی کچھ کم ہو جاتی ہے اور میں قدرے عافیت محسوس کرتا ہوں۔

رحمان شاہی:اچھا عالم خورشید صاحب! اب آپ یہ بتائیں کہ آپ کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی؟ کیا آپ نے بھی بیشتر شاعروں کی طرح چھ سات سال کی عمر ہی سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا؟

(قہقہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )

عالم خورشید:ارے نہیں بھائی! میں اس سلسلے میں بے حد بدنصیب ہوں۔ کالج کے زمانے تک میرا شعر گوئی سے دور دور تک بھی واسطہ نہ تھا۔ میں اسکول میں سنسکرت پڑھتا تھا اور کالج میں کامرس۔ اردو سے بس اتنی ہی واقفیت تھی جو ابتدائی دنوں میں اردو کہ پہلی دوسری کتاب پڑھ کر حاصل ہوتی ہے۔ میں تو اسپورٹس کا شوقین تھا۔ بلکہ با ضابطہ فٹ بال اور کرکٹ کے لیگ میچ کھیلا کرتا تھا۔ شاعری واعری مجھے کارِ زیاں محسوس ہوتی تھی۔ البتہ میں اپنے شریر دوستوں کے ساتھ کبھی کبھی مشاعروں یا نشستوں میں چلا جاتا تھا مگر شعر سننے نہیں بلکہ شاعروں کا مذاق اڑانے یا انہیں ہوٹ کرنے۔ شعر سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اب حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ کچھ عرصہ بعد میرا سابقہ ایسے دوستوں سے ہوا جنہوں نے شعر و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔

رحمان شاہی: ان میں سے ایک شاید یہاں بھی موجود ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

عالم خورشید:جی ہاں !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں اختر واصف صاحب بھی شامل تھے۔ ہم جب بھی ملتے بات کا رخ شعر وا دب کی طرف مڑ جاتا۔ افسانوں پر گفتگو ہوتی ، غزلیں سنائی جاتیں۔ پھر ان کا پوسٹ مارٹم ہوتا ، بحث و مباحثے ہوتے۔ مگر ان میں میری حیثیت سامع کی ہوتی  یا شعر کی ایسی تشریح کرنے والے کی۔ ۔ ۔ ۔ جس کی طرف شاعر کا کبھی دھیان بھی نہ گیا ہو۔ خوب قہقہے لگتے۔ رفتہ رفتہ مجھے ان کی گفتگو میں لطف آنے لگا اور میں ادبی رسائل بھی پڑھنے لگا۔

اختر واصف:اور چپکے چپکے اشعار بھی کہنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:جی ہاں ! یہ بھی درست ہے۔ لیکن میری تک بندیاں میری ڈائری تک ہی محدود رہتی تھیں۔ شاید مجھے اپنے آپ پر اعتماد نہیں تھا۔ لہٰذا دوستوں کو بھی کبھی کچھ سنانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ البتہ میرے مطالعے کا شوق بڑھ گیا۔ فکشن پڑھنے کا شوق تو مجھے بچپن ہی سے تھا۔ ہمارے محلے میں ایک اچھی خاصی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ جس میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جو میں نے نہ پڑھی ہو۔ وہاں موجود گلشن نندا سے لے کر قرۃالعین حیدر تک کی ساری کتابیں میں پڑھ چکا تھا۔ لیکن ابن صفی میرے محبوب رائٹر تھے۔ اب تبدیلی یہ آئی کہ خاص طور پر خالص ادب پڑھنے پر توجہ دینے لگا اور فکشن کے ساتھ ساتھ شاعری کا مطالعہ بھی سنجیدگی سے کرنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان پر غور کر نے لگا۔ مطالعہ نے میرے اندر کچھ اعتماد پیدا کیا۔ پھر دو تین سالوں کے بعد میں نے اپنی ایک غزل ــ ’شب خون‘ اور دوسری غزل ’ شاعر‘ کو چپکے سے بھجوا دی۔ اتفاق سے دونوں رسالوں سے مثبت جواب آیا اور غزلیں شائع ہو گئیں۔ ہاں ! ان غزلوں کو بھیجتے وقت میں نے اپنے نام کی ترتیب الٹ دی تاکہ اگر غزلیں شائع ہو جائیں تو کسی کو کچھ نہ پتہ چلے کہ یہ کون صاحب ہیں۔ اس طرح میں خورشید عالم سے میں عالم خورشید بن گیا۔

رحمان شاہی:شعر گوئی ایک مشکل فن مانا جاتا ہے۔ بحر و اوزان اور عروض کی بھول بھلیاں تو اچھے کو اچھوں کو بھٹکا دیتی ہیں۔ آپ نے ان سب سے کس طرح واقفیت حاصل کی؟

عالم خورشید:بھائی! ان سب کے لئے سب سے پہلی شرط موزوں طبع ہونا ہے۔

اختر واصف:جو آپ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:جی شاید!لیکن میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میں نے اس سفر یعنی چھپنے چھپانے کے سلسلے کا آغاز ہی کیا ہی تھا کہ میری ملاقات شاہد کلیم صاحب سے ہوئی جو گیا سے ٹرانسفر ہو کر پٹنہ آئے تھے۔ ہم روزانہ ٹرین سے آرہ سے ٹرین کے ذریعہ ایک ساتھ پٹنہ آتے تھے۔ دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے شام ٹرین کے اس سفر میں ہماری گفتگو کا مرکز عام طور پر ادب ہی ہوتا۔ موصوف ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور شعر و ادب پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔ فن کی باریکیاں اور شعر گوئی کے اسرار رموز کی مشکلیں آسان کرنے میں انہوں نے میری بڑی مدد کی اور میرے کلام کی اصلاح بھی کی۔ میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور انہیں بلند درجات سے نوازے۔

یہ سلسلہ چھ سات برسوں تک چلا پھر میں آرہ سے پٹنہ منتقل ہو گیا۔ بقیہ راستہ مطالعہ نے ہموار کر دیا۔

عبد الصمد:۸۰ کے بعد ادبی منظر نامے پر ابھرنے والے شاعروں اور ادیبوں کو ما بعد جدید نسل کہا جا رہا ہے۔ آپ کا تعلق بھی اسی نسل سے ہے۔ ما بعد جدیدیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:سب سے پہلے میں یہ عرض کروں کہ میں ادب میں کسی لیبل یا برانڈ کے خلاف ہوں۔ یہ مسئلہ ناقدین کا ہے، فن کاروں کا نہیں۔ میں ادب کو خانوں میں بانٹ کر نہیں دیکھتا۔ اگر ناقدین اپنی سہولت کے ۸۰ کے بعد تخلیق کئے گئے ادب کو ما بعد جدیدیت کا نام دیتے ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے ، ہمارا نہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ ما بعد جدیدیت ناقدین کی اس کوشش کا نام ہے جو ۸۰ کے بعد تخلیق کئے گئے ادب میں در آئی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنا چاہتی ہے۔

عبد الصمد: تو کیا اس ما بعد جدیدیت کا تعلق بھی مغرب کی ما بعد جدیدیت سے ہے؟

عالم خورشید:جی نہیں ! اس کا تعلق مغرب کی اس ما بعد جدیدیت سے قطعی نہیں ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں نے کسی برانڈیڈ  نظریئے یا فارمولہ کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کرنے کا کام نہیں کیا۔ ۲۵۔ ۲۰ برسوں میں تخلیق ہوئے ادب میں اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف حالات کی تبدیلی ہے۔ اس سلسلے سے متعلق ایک بات اور بتاؤں کہ ۱۹۹۷ء میں منعقد ہونے والے سیمینار میں بھی ہم لوگوں نے نارنگ صاحب سے اس موضوع پر صاف صاف یہ باتیں کہی تھیں کہ ہم لوگ کسی لیبل کو پسند نہیں کرتے۔ اس سے پھر فارمولائی ادب کی انڈسٹریاں قائم ہونے خطرہ ہے۔ ہم لوگوں کو اس نام پر بھی اعتراض تھا۔ نارنگ صاحب نے ہمارے خیالات سے اتفاق کیا اور کہا کہ اس ما بعد جدیدیت کا مغربی ما بعد جدیدیت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ اس کا مقصد اسی تبدیلی کا محاسبہ کرنا ہے جو ۸۰ء کے بعد کے حالات کے سبب اور یہاں کی مٹی سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کئی مضامین میں یہ باتیں لکھیں بھی۔ مگر تازہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سینئر ناقدین کو یہاں کے ادب میں آئی تبدیلیوں کا پتا کرنے کے دریدا اور فلاں چلاں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ جو نتیجہ سامنے آ رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اب تو ہر ناقد اپنے لواحقین کو مابعد جدید شاعر اور افسانہ نگار ثابت کرنے پر تلا ہے۔ اس میں عمر یا زمانے کی بھی قید نہیں۔ عجب نہیں کہ یہ تنقیدی لن ترانیاں میرؔ، غالبؔ کو بھی ما بعد جدید ثابت کر دیں۔

اختر واصف:مجھے یاد آتا ہے کہ ما بعد جدیدیت سیمینار سے تقریباً دس سال پہلے آپ کا مجموعہ  ’ نئے موسم کی تلاش‘ شائع ہوا تھا۔ اس کے دیباچے میں آپ نے واضح طور پر لکھا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی شاعری کہ ترقی پسندی یا جدیدیت سے منسوب نہ کیا جائے۔ اس وقت جدیدیت کا بول بالا تھا۔ آپ کا یہ قدم ایک طرح سے اینٹی ویو تھا۔ آپ نے کیا سوچ کر یہ باتیں لکھی تھیں ؟

عالم خورشید:جہا تک مجھے یاد ہے میں نے اس دیباچے میں یہ بھی لکھا تھا کہ میری دانست میں ادب وقت اور زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ اور وقت اور حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے وقت کے ساتھ

ساتھ زندگی اور اس کے نظامِ حیات میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ اس تبدیلی کے سبب ہمارے سوچنے ، سمجھنے کے انداز، حالات اور واقعات کو دیکھنے کا زاویہ اور رد عمل میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے۔ ترقی پسندی اور جدیدیت کو ہم اپنی نظروں سے پرکھ رہے تھے۔ ان کی خوبیوں اور خامیوں کا  جذباتی یا شدت پسندی کے ساتھ نہیں بلکہ معروضی انداز میں اپنا ورثہ سمجھ کر جائزہ لے رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے رویئے میں جو تبدیلیاں آ رہی تھیں وہ کسی تحریک یا رجحان میں مکمل طور پر فٹ نہیں ہو رہی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ کہ اس صورتحال میں ہماری تخلیقات کے ساتھ انصاف نہیں ہو پائے گا۔ اس لئے مجموعے کے دیباچے میں ان محسوسات کا میں نے اظہار کیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کہ میرا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔ کیونکہ بعد میں بہت سارے احباب اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔

رحمان شاہی:اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کسی بھی تحریک ، رجحان یا نظریے کو نہیں مانتے! انہیں رد کرتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ کی شاعری کا کوئی نظریہ ہی نہیں ؟

عالم خورشید:بھائی!  ہر شخص کا کوئی نہ کوئی نظریہ ، نظامِ فکر ضرور ہوتا ہے۔ چاہے اس پر اس نے غور کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ کسی شاعر یا ادیب کا نظریہ آپ کو معلوم کرنا ہو تو اس کی تخلیقات کا بغور مطالعہ کیجئے ! اس کا نظریہ ڈھونڈنے میں آپ کو  زیادہ دشواری نہیں ہو گی۔ کسی تحریک یا رجحان کو سے آپ قربت محسوس کرتے ہیں تو اسی نظریئے کی مماثلت کی وجہ سے۔

رحمان شاہی:تو پھر ناقدین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہیں اور جس خانے میں چاہیں آپ کو فٹ کر دیں ؟

عالم خورشید:میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ دیکھئے ! یہاں معاملہ الٹا ہے۔ بیشتر لوگ کسی رجحان یا تحریک سے اس لئے جڑتے ہیں کہ وہ اسے سکۂ رائج ا لوقت سمجھ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔ اس فیشن پرستی کے چکر میں وہ اپنی انفرادیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ترقی پسندی کے زمانے میں کیا ہوا! آپ کے سامنے ہے۔ بیشتر لوگوں نے ہوا کی تقلید میں نعرے بازی کو ادب کا اہم عنصر سمجھ لیا۔ جدیدیت کو بھی انہیں فیشن پرستوں نے نقصان پہنچایا جو فرار اور مایوسی ہی کو جدیدیت کی روح سمجھ بیٹھے اور اس کے دائرے کو محدود کر دیا۔ اس دائرے کے باہر کی چیزیں انہیں بے کار لگتی تھیں۔ یہ سب ان معصوم لوگوں کی شدت پسندی ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی بھول کر بیٹھے تھے کہ ادب کا سلسلہ ان پر ختم ہو گیا۔ اگر یہ شدت پسندی نہ ہوتی تو جدیدیت میں اتنی سوعت تھی کہ آنے والے ہر عہد کو وہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتی۔

رحمان شاہی:گویا آپ جدیدیت کو رد کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:بھائی! میں کسی تحریک یا رجحان کو رد کیسے کر سکتا ہوں۔ میں تو تمام تحریکوں کو تسلسل کے طور پر دیکھتا ہوں اور ان کو ایک ہی زنجیر کی کڑیاں مانتا ہوں۔ کیا ہماری نسل کا کوئی بھی فن کار اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ وہ جدیدیت کی گود میں پلا بڑھا ہے !

رحمان شاہی: آپ اپنی بات کریں !

عالم خورشید:میں اپنی ہی بات کر رہا ہوں۔ کیا جدیدیت سے قبل لکھا گیا ادب ہمارا ورثہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ گزشتہ تحریکوں کی جو باتیں ہمیں کار آمد لگیں انہیں ہم اپنا لیں اور جو کارآمد نہیں لگیں ان سے دامن بچائیں ؟

اختر واصف:کیا آپ کی اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ کی شاعری کے ڈانڈے روایت ، ترقی پسندی اور جدیدیت تینوں سے ملتے ہیں یا ان تینوں کے اثرات آپ کی شاعری پر ہیں۔ یعنی آپ کی شاعری تین نکتوں کے درمیان کنفیوزڈ شاعری ہے!

عالم خورشید:آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ جو چاہیں نتیجہ اخذ کریں۔ مگر میں اس بات کو اس طرح کہوں گا کہ میں نے بلکہ ہماری نسل نے ان تینوں کے مثبت عناصر کو اپنے خون میں شامل کر لیا ہے اور آگے کے سفر پر مائل ہیں اور ہمارا یہ عمل بالکل فطری بھی ہے۔ کیونکہ زندگی کے مختلف رنگ ہیں۔ انسان کی تشکیل بھی کئی عناصر سے مل کر ہوئی ہے اور وہ مختلف کیفیات کا حامل ہے۔ آپ ہنستے بھی ہیں اور روتے بھی ہیں ، پیار ، محبت بھی کرتے ہیں اور لڑتے جھگڑتے بھی ہیں ،  اداس بھی ہوتے ہیں اور فطرت کے مناظر سے لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ بیزار بھی ہوتے ہیں اور جوش و ولولے سے بھر بھی جاتے ہیں۔ یعنی یہ تمام کیفیات آپ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ان تمام کیفیات اور تجربات کا اظہار ہی تو ادب ہے! بشرطیکہ وہ اظہار خوبصورتی سے ہو، سلیقے سے ہو، فن کے پیرائے میں ہو اور یہ تبھی ممکن ہے جب کوئی تجربہ، کوئی واقعہ، کوئی خیال آپ کو اندر سے پریشان کرے۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح بیچین کرے کہ آپ اس کے اظہار پر مجبور ہو جائیں۔

عبد الصمد:اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ نئی نسل لکھتی زیادہ ہے، پڑھتی کم ہے اور سوچتی اس سے بھی کم ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:ادب میں  ’ نئی نسل” کی اصطلاح مضحکہ خیز ہے۔ آپ کو لکھتے ہوئے ۳۵۔ ۳۰ سال ہو گئے ہوں گے۔ آپ کی اتنی کتابیں شائع ہو گئیں۔ آج بھی بعض ناقد آپ کا نام نئے فن کاروں کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم لوگوں کو لکھتے ہوئے بھی ۳۰۔ ۲۵ سال ہو گئے مگر تمام لوگ نئی نسل میں شامل ہیں۔ بہر کیف! یہ اضافی بات ہو گئی۔

عبد الصمد:میرا سوال مطالعے سے متعلق تھا!

عالم خورشید:جی! میں اسی طرف آ رہا ہوں۔ یہ فقرہ بھی خوب ہے! میں نہیں سمجھتا کہ کوئی باشعور فن کار یا اچھا فنکار مطالعے کی اہمیت سے انکار کر سکتا ہے۔ مطالعہ تو کسی فن کا ر کے لئے غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بغیر تو فن کار زیادہ دنوں تک زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ آپ کے کے وہ مشاہدے اور تجربے بھی تو مطالعے کے توسط ہی سے یا مطالعہ کے دوران ہی ذہن ودل میں جھماکے پیدا کرتے ہیں جو آپ کے لاشعور میں دبے پڑے ہوتے ہیں۔ ایک بات سے دوسری بات نکلتی

ہے اور ایک مضمون دوسرے مضمون کو جنم دیتا ہے۔ میرے دوستوں میں تو ایسا کوئی نہیں۔ البتہ آپ کے ہم عصروں میں ایسے کئی لوگوں کو میں ضرور جانتا ہوں جو فخریہ انداز میں یہ کہتے پھرتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ میں کسی دوسرے فن کار کی تخلیق نہیں پڑھتا۔ یا تو وہ جھوٹ بول رہے ہیں یا آپ ان کی تخلیقات پڑھ کر دیکھ لیجئے! یقینی طور پر وہ اپنے آپ کو دہرا رہے ہوں گے یا مکھی پر مکھی چپکانے

کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے ہوں گے۔

رحمان شاہی:مگر غور و فکر والی بات ادھوری رہ گئی!

عالم خورشید:اس سلسلے میں یہ عرض کرون گا کہ میں مجذوب کی بڑ کو شاعری نہیں مانتا بلکہ شعوری کوشش اور غور و فکر کا نتیجہ مانتا ہوں۔ آپ کو خود کبھی کبھی ایک اچھا سا جملہ لکھنے کے لئے گھنٹوں پریشان ہونا پڑتا ہو گا۔ اس جملے کو شعر بنانے میں اور بھی کتنی مشکلیں پیش آ سکتی ہیں اس کا اندازہ آپ بھی کر سکتے ہیں۔ ہاں ! یہ بات قابلِ قبول ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے یا اس سے بھی قبل لوگ جس طرح مطالعہ کرتے تھے اس طرح آج کے فن کار مطالعہ نہیں کر پاتے۔ لیکن اس کی بھی وجوہات ہیں۔ آج نہ تو شعر و ادب کے لئے ماحول سازگار ہے اور مطالعے کے لئے فضا موافق۔ آج آپ میرؔ، غالبؔ کی طرح ہول ٹائمر نہیں ہو سکتے۔ آپ کو زندہ رہنے کے لئے معاشی مسائل جھیلنے ہیں ، روزگار کی تلاش کرنی ہے، دفتروں میں آٹھ دس گھنٹے غیر ادبی کام کرنے ہیں۔ چار چار پانچ پانچ گھنٹے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر تک پہنچنے میں ضائع کرنے ہیں ، گھریلو ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ ان کے علاوہ آئے دنوں سیاست کی پیدا کی ہوئی نئی نئی مصیبتیں جھیلنی ہیں۔ پھر آپ کے پاس وقت ہی کتنا بچتا ہے؟ ہمارے یا آپ کے پاس مطالعے کے لئے یا شعر ادب کے لئے اتنی گنجائش نہیں ہے جو ہمارے بزرگوں کو حاصل تھی۔ اس کے باوجود اچھی خاصی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس معاشی حرص و ہوس کے دور میں بھی غیر منافع بخش جنون میں مبتلا ہیں اور اپنی افتاد طبع سے مجبور ہو کر مطالعہ کر رہے ہیں ، شعر و ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے نہ کہ دل شکنی۔

رحمان شاہی:ہماری نسل کے کچھ فن کاروں کو یہ شکایت ہے کہ ہمیں سینیئر فن کار اور نقاد دونوں نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

عالم خورشید:یہ شکایت ہر نسل کے فن کاروں کو اپنے پیش رو فن کاروں یا ناقدین سے رہی ہے۔

رحمان شاہی:گویا آپ نئی نسل کے اس الزام کو پورے طور پر تسلیم کرتے ہیں ؟

عالم خورشید:دیکھئے! جب میں اس امر پر غور کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب صورتحال پہلے سے بہتر ہے۔ کیونکہ تحریکوں کے ٹکراؤ کی وجہ سے پہلے جو شدت پسندی تھی اس میں بہت کمی آ گئی ہے۔ ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے یا رد کرنے کا رویہ جو پہلے تھا وہ اب بہت حد تک ختم ہو چکا ہے۔ نئے ادب پر خوب گفتگو ہو رہی ہے، مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ مضمون نگاروں میں سینیئر لوگوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ آپ اگر مجھ سے ذاتی طور پر یہ سوال پوچھیں تو میں آپ کو بتاؤں

کہ میں خود کو اس معاملے میں بے حد خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے دوستوں کے ساتھ ساتھ ہمیشہ بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزائیاں اور دعائیں حاصل رہی ہیں۔

اختر واصف:اب ایک آخری سوال یہ کہ نئے موسم کی تلاش، زہرِ گل اور خیال آباد یعنی آپ کے تینوں شعری مجموعوں کی شاعری میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ یہ فرق موضوعاتی سطح پر بھی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی۔ کہیں یہ فرق شعوری کوشش کا نتیجہ تو نہیں ؟

عالم خورشید:ہاں ! کچھ حد تک۔ ۔ ۔

اختر واصف:گویا۔ ۔ ۔ ۔

عالم خورشید:بھائی! آپ نے میرے تینوں مجموعوں کی شاعری کے درمیان جو فرق محسوس کیا وہ فرق کچھ تو شعور کی پختگی اور ریاضت کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ مجھے اپنی شاعری کبھی مطمئن نہیں کرتی۔ میں ایک ڈگر پر بہت دنوں تک نہیں چل سکتا، بیزار ہو جاتا ہوں۔ لہٰذا سال دو سال تک چپ بیٹھ جاتا ہوں۔ پھر جب یہ سفر شروع ہوتا ہے تو کوشش یہیں ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر کچھ نیا پن پیدا ہو۔

رحمان شاہی:کیا یہ عمل درست ہے؟

عالم خورشید:اب مجھے پتا نہیں کہ یہ عمل درست ہے یا نہیں۔ مگر میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ میرا نیا مجموعہ کارِ زیاں ترتیب پا چکا ہے۔ اس میں تبدیلی کچھ اور واضح نظر آئے گی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے