سفرِ عشق ۔۔۔ طارق محمود مرزا، چوتھی قسط

وادیِ مزدلفہ میں شب بسری

 

غروبِ آفتاب کے بعد ہماری یہاں سے روانگی تھی۔ ہماری اگلی منزل انہی پہاڑی سلسلوں میں سے ایک وادیِ مزدلفہ تھی۔ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ایک دوسرے سے بہت زیادہ دور نہیں ہیں۔ خاص طور پر مزدلفہ اور منیٰ تو بہت قریب ہیں۔ یہ ایک ہی پہاڑی سلسلہ ہے جو مکہ معظمہ کے نواح میں واقع ہے۔ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ان پہاڑوں میں گھری وادیاں ہیں۔ ویسے تو مکہ شہر بھی ایک وادی ہی ہے۔ ان وادیوں کے چاروں طرف پہاڑ ایستادہ ہیں۔ منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں کچھ من چلے دوڑ کر ان پہاڑوں پر چڑھ جاتے تھے۔

غروب آفتاب کے بعد ہم عرفات سے چل دئیے۔ اس وقت سڑکیں اتنی زیادہ مصروف نہیں ہوئی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم مزدلفہ پہنچ گئے۔ اس وقت میدان کھلا کھلا اور خالی خالی لگ رہا تھا۔ لیکن اگلے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی۔ عرفات سے روانگی کے وقت ہی ہمیں ایک پتلا سا گدا، چھوٹا ساتکیہ اور ایک چادر دی گئی۔ یہی ہماری شب بسری کا کل سامان تھا۔ اسی میں رات گزارنا تھی۔ پلنگ کی جگہ اللہ کی کھلی زمین تھی جہاں دل چاہے وہاں بستر لگا لو۔ آج زمین بھی اپنی اور آسمان بھی اپنا تھا کیونکہ ہمارے اُوپر کوئی چھت نہیں تھی۔ یہ کوئی صاف ستھرا اور گھاس والا میدان نہیں تھا بلکہ مٹی، ریت اور پتھروں سے بھرا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے ہر طرح کے پتھر اِدھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ زمین ناہموار اور اونچی نیچی تھی۔ اس میں ٹیلے اور پہاڑیاں بھی تھیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بڑے بڑے کھمبے نصب تھے۔ جس پر طاقت ور برقی لیمپ روشن تھے۔

ہم نے پتھر ہٹا کر جگہ بنائی اور گدّے بچھا کر کھلے آسمان کا نظارہ کرنے لگے۔ اتنی دیر میں مؤذّن نے اذان دی۔ ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کیں۔ مزدلفہ میں کھانے کا بندوبست نہیں تھا۔ ہم عرفات سے تھوڑا بہت کھا کر نکلے تھے اِس لیے فکر بھی نہیں تھی۔ ہمارے بستروں سے تھوڑی دور ایک سعودی خاتون نے پتھر جوڑ کر چولہا بنایا۔ لکڑیاں جلائیں اور ایک بڑی سی کیتلی میں پانی گرم کرنے لگی۔ جب پانی اُبل گیا تو اس نے ایک ریال فی کپ کے حساب سے چائے بنا کر بیچنا شروع کر دی۔ ساری رات اس کا چائے خانہ خوب چلا۔ دو تین دفعہ تو ہم نے بھی چائے لی۔ سعودیہ میں تازہ دودھ کی کمی ہے۔ وہاں ڈبے میں بند گاڑھا دودھ چائے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دودھ وہاں بہت زیادہ مقبول ہے۔

اس طرح کی کچی پکی چائے دورانِ حج ہر جگہ ملتی ہے۔ تقریباً ہر جگہ اس کی قیمت ایک ریال ہے۔ تھکے ماندے حاجی چائیسے اپنی تھکن اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ان کی قسمت اچھی ہو تو کسی جگہ اچھی چائے بھی مل جاتی ہے۔ ورنہ عموماً گرم پانی میں چائے کا ایک بیگ اور تھوڑا سا دودھ ڈال کا پکڑا دیا جاتا ہے۔

مزدلفہ میں جہاں ہم مقیم تھے وہاں کے بیت الخلاء اور غسل خانے حال ہی میں تعمیر کئے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے۔ کچھ غسل خانوں میں ٹونٹیاں بھی نہیں لگی تھیں۔ مزدلفہ کے ان غسل خانوں میں پانی کم آتا تھا۔ کچھ ٹونٹیوں میں قطرہ قطرہ آتا تھا باقی خشک تھیں۔ جن بیت الخلاؤں میں پانی آتا تھا ان کے آگے لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش تھی۔ اسی کے فضل سے ہم اس آزمائش سے بھی گزر گئے۔

رات کے پہلے حصے میں لوگ اپنے اپنے بستروں اور جگہوں پر اس طرح قابض ہوئے جیسے یہ بستر اور یہ جگہ ان کے نام ہو گئی ہو۔ اگر کوئی بیچ میں سے گزرنا چاہتا تواسے منع کر دیا جاتا۔ چونکہ بستروں کی کوئی ترتیب نہیں تھی اس لیے ادھر ادھر جانے کے راستے بھی بند ہو گئے۔ اگر کسی کو باتھ روم جانا ہوتا تو اس کے لیے مشکل کھڑی ہو جاتی۔ دوسروں کے بستر پر پاؤں رکھ کر گز رنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ کچھ خواتین و حضرات اپنے بستروں پر پاؤں رکھنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر چل نہیں سکا۔ وہاں موجود ہر شخص کو احساس ہو گیا کہ بستر پھلانگے بغیر گزارہ نہیں۔ لہٰذا یہ جھگڑے جلد ہی ختم ہو گئے۔ ساری رات لوگ ایک دوسرے کے او پر سے پھلانگتے آتے جاتے رہے۔

میری اہلیہ باتھ روم گئیں تو واپسی پر اپنا ٹھکانہ بھول گئیں۔ یہ غلطی یا مسئلہ وہاں عام تھا۔ کھلا میدان تھا اور چاروں طرف ایک جیسے بستر نظر آتے تھے۔ لوگ اپنی اپنی جگہ پر لیٹے ہوئے تھے۔ ایسے میں اپنے ساتھیوں کو پہچاننا اور بھی مشکل تھا۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور انہیں دیکھنے زنانہ بیت الخلاء کی طرف چل دیا۔ شکر ہے کہ وہ راستے میں ہی نظر آ گئیں۔ انہوں نے بھی خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ اگر میں نہ جاتا تو انہیں سمت کا ہی اندازہ نہیں تھا۔

دوران حج اگر حاجی اپنے ساتھی اور اپنے گروپ سے بچھڑ جائے تواس سے بڑا مسئلہ کوئی نہیں ہے۔ خاص طور پر منیٰ، عرفات، مزدلفہ، جمرات میں اپنے ساتھیوں سے الگ ہو جائیں تو ایک دوسرے کو دوبارہ ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ ان میں سے سب سے مشکل مقام رمی کا ہے۔ دس ذوالحج کی صبح وہاں بے تحاشا رش ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ حادثے اور بچھڑنے کے واقعات بھی وہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

مزدلفہ میں خواتین اور مردوں کے واش روم تو الگ تھے لیکن میدان میں مردوں اور خواتین کے سونے کے لیے الگ جگہیں نہیں تھیں۔ بلکہ ایک ہی خاندان کے تمام لوگ جن میں مرد اور خواتین شامل تھے اکٹھے ہی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ ہمارے ایک طرف جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ تھیں۔ دوسری طرف سڈنی کے دوست زاہد جمیل صاحب اور ان کی اہلیہ فروکش تھیں۔ زاہد جمیل صاحب آسٹریلیا میں جنوبی ایشیا کے بزرگ مسلمانوں کے لیے ایک انجمن چلا رہے ہیں۔ ہمارے دوسرے دوست بھی قریب قریب ہی موجود تھے۔

باتھ روم کی طرف جاتے ہوئے سڈنی کے بہت پرانے دوست حنیف مقدم صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ یہ محض اتفاقی ملاقات تھی۔ مجھے علم نہیں تھا کہ وہ بھی حج پر آئے ہوئے ہیں۔ حنیف مقدم صاحب پاکستان پیپلز پارٹی آسٹریلیا کے صدر ہیں اور انتہائی متحرک سماجی کارکن ہیں۔

تیس لاکھ حاجیوں میں کسی دوست یا عزیز کو ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ میرے عزیز و اقارب میں سے میرا ایک بھتیجا اور اس کی بیوی حج پر آئے ہوئے تھے۔ ان سے ہماری اچانک کیسے ملاقات ہوئی اس کا ذکر آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ میری ایک تایا زاد بہن اپنی بیٹے اور بہو کے ساتھ حج کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ان کا بیٹا ذوالفقار مرزا سعودیہ میں ہی کام کرتا ہے اس نے ماں اور بیوی کو حج کے لیے سپانسر کیا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ حج کر رہا تھا۔ حج کے تیسرے دن ہم منیٰ سے واپس عزیزیہ ہوٹل میں منتقل ہو چکے تھے۔ اسی شام میں اپنے ہوٹل کے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ مجھے شک سا ہوا کہ ایک خاتون جو میرے سامنے سڑک پر جا رہی ہیں وہی میری تایازاد بہن ہیں۔ انہوں نے برقعہ پہنا ہوا تھا۔ صرف تھوڑا سا چہرہ کھلا تھا۔ مجھے ان کے چہرے کی ایک جھلک ہی نظر آئی تھی۔ یہ جھلک دکھا کر وہ آگے گزر گئیں۔ میری زبان سے بے اختیار نکلا۔ ’’آپا‘‘

میں نے بہت آہستہ سے کہا کیونکہ یقین نہیں تھا۔ ہمارا درمیانی فاصلہ بھی کافی تھا۔ میں اونچائی پر تھا اور سڑک خاصی نیچے تھی۔ وہ خاتون فوراً رُک گئیں اور میری طرف مڑتے ہوئے کہا ’’طارق‘‘

اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے آگے چلنے والے مرد اور عورت کو آواز دی جو در اصل ان کا بیٹا اور بہو تھے۔ وہ بھی رک گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے بیٹے کو میں نہیں پہچان سکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اس سے تقریباً بائیس برس کے بعد ملا تھا۔ میں آسٹریلیا سے پاکستان جاتا تھا تو وہ سعودی عرب میں ہوتا تھا۔ وہ کافی صحت مند اور پہلے سے مختلف لگ رہا تھا۔ جب کہ اس کی والدہ سے میری ملاقات ہر مرتبہ ہوتی تھی اور ان میں کوئی بڑی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔ اس لیے میں انہیں پہچان گیا تھا۔ وہ لوگ ہوٹل کے اندر آ گئے۔ یہ اتفاقیہ اور خوشگوار ملاقات تھی۔ آپا اور ان کا خاندان اس دن جمرات کی رمی کر کے مکہ واپس جار ہے تھے۔ اس سال ہماری برادری سے ہمارے علاوہ یہی دو خاندان حج کرنے گئے تھے۔ اللہ نے ان دونوں سے ہماری ملاقات کروا دی تھی۔

قیامِ مزدلفہ میں کچھ لوگ عبادت میں مصروف تھے۔ کچھ آرام کر رہے تھے۔ کیونکہ اگلا دن جو در اصل حج کا دن تھا سب سے زیادہ مصروف اور سب سے زیادہ تھکا دینے والا تھا۔ مزدلفہ میں ہمارا قیام محض چند گھنٹے کا تھا۔ اگلی صبح بعد نمازِ فجر یہاں سے منیٰ کیمپ میں واپسی تھی۔ اس رات وادی مزدلفہ کے طول و عرض میں اللہ کی حمد و ثناء بیان ہو رہی تھی۔ بڑے بڑے کھمبوں پر نصب لیمپوں کی روشنی میں کچھ لوگ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ کچھ سعودی خاتون کی چائے پی رہے تھے۔ ہر کوئی اپنے اپنے شغل میں مصروف تھا۔ یہاں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔ خانہ کعبہ میں دورانِ طواف مرد اور عورتیں اکھٹے ہوتے ہیں۔ جمرات آتے جاتے اور دیگر کئی جگہوں پر بھی مرد اور عورتیں اکھٹے ہوتے ہیں۔ تیس لاکھ کے مجمع میں کوئی مرد کسی عورت کی طرف نظرِ غلط نہیں ڈالتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت وہ سب اللہ کے گھر سوالی بن کر آئے تھے۔ ان کا مطمحِ نظر صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ ایسے میں شیطان وہاں پھٹک بھی نہیں سکتا۔ وہاں کسی بھی عورت کو دیکھ کر سوائے جذبہ احترام کے کچھ اور محسوس نہیں ہوتا۔ نظریں خود بخود جھک جاتی ہیں۔ اللہ کا خوف اور اس کی موجودگی کا احساس ہر دم ہر جگہ دامن گیر ہوتا ہے۔

منیٰ، عرفات، حرمین شریفین اور دوسری جگہوں پر حاجیوں کا قیمتی سامان ان کے بٹوے اور ان کے موبائل فون ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں۔ منیٰ میں کسی کے پاس سوٹ کیس نہیں ہوتا اور نہ ہی سامان کو لاک رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کس حاجی نے کبھی یہ شکایت نہیں کی کہ اس کا سامان یا نقدی چوری ہو گئی ہے۔ خواتین کا احترام کرنے کی درخواست کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ یہ سب حاجیوں کے منشور میں شامل ہوتا ہے۔ ان کے دل میں ایسا خیال ہی نہیں آتا۔ وہ کسی کو آزار نہیں پہنچاتے۔ کسی کو دکھ نہیں دیتے۔ کسی کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھتے۔ کسی سے حسد نہیں کرتے اور نہ کسی کی غیبت کرتے ہیں۔ وہاں منفی سوچیں اور منفی خیالات دل میں ابھرتے ہی نہیں کہ انہیں دبانا پڑے۔ کیونکہ اللہ ان کی انگلی پکڑ کراپنے راستے پر چلا رہا ہوتا ہے۔

حج کے دنوں میں عموماً اور حج کے علاوہ بھی پورا سال حرمین شریفین میں لاکھوں خواتین حاضری دیتی ہیں۔ وہاں مردوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ یہ خواتین مردوں کی بُری نظروں سے ایسے ہی محفوظ ہوتی ہیں جیسے وہ اپنے گھر میں ہوں۔ یہ اسلامی تعلیم، تقویٰ، اللہ کا خوف اور ان مقدس مقامات کی برکت کا کمال ہے۔ دنیا میں کہیں اور اتنا بڑا اجتماع ہو تو نہ جانے کیسے کیسے واقعات پیش آ جائیں۔

یہ تمام برکتیں حرمین شریفین کی ہیں۔ مکہ اور مدینہ کی ہیں۔ منیٰ، مزدلفہ اور عرفات کی ہیں۔ یہ وہ مقدس جگہیں ہیں جہاں اللہ کی رحمت برستی رہتی ہے۔ یہاں جو اخلاقی معیار ہوتا ہے وہی اصل اسلام ہے۔ جس کے معنی امن اور سلامتی کے ہیں۔ جہاں اسلام ہو گا وہاں بے امنی، بے سکونی، زیادتی اور بد اخلاقی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ اسلام کی تعلیمات اور اس کی روح کے خلاف ہیں۔ اگر اسلام کی اصل تعلیمات عام ہو جائیں تو دنیا امن اور سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔

مزدلفہ میں ہم نے وہ کنکریاں چن کر جمع لیں جو اگلے تین دن شیطان کو مارنا تھیں۔ دوسرے حاجی بھی یہاں سے کنکریاں جمع کر رہے تھے کیونکہ یہاں سے کنکریاں جمع کرنا سنت ہے۔ کسی کی آواز آئی ’’ارے بھئی! ذرا موٹی موٹی کنکریاں چنو۔ بھلا ان چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے شیطان کا کیا بگڑے گا۔‘‘

اس کی بیوی نے کہا ’’بگڑنا تو اس کا ان سے بھی کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنا کام کرتا رہے گا جب تک اللہ کا حکم ہے۔‘‘

’’ہم بھی اللہ کے حکم سے ہی اُسے مارنے جا رہے ہیں۔ کچھ توہوتا ہو گا اُسے اس مار سے‘‘ خاوند نے کہا

خاتون بولی ’’شرم تو آتی ہو گی اس لعین کو۔ مگر اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا‘‘

’’میں تو اسے خوب ٹکا ٹکا کر ماروں گا‘‘ مرد نے اپنا ارادہ ظاہر کیا

خاتون نے کہا ’’اب اتنا بھی نہیں مارنا، آپ کا پرانا دوست ہے‘‘

سب لوگ ہنس پڑے۔

میرے قریب جاوید صاحب لیٹے یہ مکالمہ سن رہے تھے۔ کہنے لگے ’’کنکریاں وغیرہ بے کار ہیں۔ اسے گولیوں سے بھون دینا چاہیے۔ ہر حاجی کو رائفل میں سات سات گولیاں ڈال کر دینی چاہیں۔ بندوق کا نشانہ بھی پکا ہو گا اور شیطان کو بھی سمجھ آ جائے گی‘‘

میں نے کہا ’’وہ تو پہاڑیاں ہیں۔ گولیوں سے اُن کا کیا بگڑے گا سوائے پتھر اُڑنے کے۔‘‘

جاوید صاحب کہنے لگے ’’تو پھر وہاں بمباری کرنی چاہیے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری‘‘

اب بیگم جاوید کی باری تھی۔ انہوں نے بھی دوسری خاتون کی طرح میاں کو جھاڑا ’’اب بس بھی کریں۔ بہت مار لیا شیطان کو۔ سو جائیں۔ کل بہت زیادہ چلنا ہے‘‘

جاوید صاحب نے کہا ’’تم کیوں شیطان سے ہمدردی جتا رہی ہو؟ کہیں وہ میرا سسرالی رشتہ دار تو نہیں ہے‘‘

’’توبہ توبہ! بیگم جاوید نے کہا ’’کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہو۔ شیطان کا تو نام ہی بدنام ہے۔ ورنہ کچھ لوگ اس کے بھی باپ ہیں‘‘

’’ہاں تو ہم اس سے ڈرتے ہیں کیا؟ دیکھ لیں گے کل اُسے بھی‘‘ جا وید صاحب نے کہا

ہم سب ان میاں بیوی کی باتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔

 

دس ذوالحج

 

نماز فجر کے بعد ہم نے اپنے گدے تکیے وہیں چھوڑے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے تھیلے گلے میں ڈالے اور اپنے رہنما کے جھنڈے کے پیچھے پیچھے منیٰ کی جانب چل دے۔ ہمیں بتایا گیا کہ مزدلفہ اور منیٰ کی درمیانی سڑک اتنی مصروف ہے کہ بس کی نسبت پیدل جلدی پہنچ جائیں گے۔ یہ آج کا پہلا پیدل سفر تھا۔ آج ایسے کئی بلکہ اس سے بھی طویل سفر اور کرنے تھے۔ واقعی سڑک انتہائی مصروف تھی۔ بسیں ایک دوسرے کے پیچھے جڑی کھڑی تھیں کیونکہ چلنے کی جگہ نہیں تھی۔ تاہم ان کے انجن آن تھے۔ وہ دھواں اُگل اُگل کر ماحول کو مزید کثیف اور ناقابلِ برداشت بنا رہی تھیں۔ اسی حالت میں سفر کرتے تقریباً پون گھنٹے میں ہم اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ناشتہ تیار تھا۔ جس کو موقع ملا اس نے جلدی جلدی نہا لیا، جس کو نہیں ملا اس نے منہ ہاتھ دھونے پر اکتفا کیا۔ کیونکہ غسلا خانوں کے آگے ہر وقت لمبی قطار رہتی تھی۔ سب لوگ جلدی جلدی ناشتہ کر رہے تھے۔ کیونکہ اس کے بعد دو لمبے سفر کرنے تھے۔ ایک منیٰ کیمپ سے جمرات تک اور دوسرا جمرات سے عزیزیہ میں اپنے ہوٹل تک۔

اُس دن عید تھی۔ لیکن حاجی عید نہیں منا سکتے۔ نہ سویاں۔ نہ نئے کپڑے۔ نہ عید کی نماز۔ نہ عید ملنا اور نہ دوستوں اور رشتہ داروں کی محفلیں۔ قربانی کی اس عید میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ لیکن حاجی اس سب سے محروم رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس وقت بہت بڑا اور اہم فریضہ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس وقت ان کی سنت ادا کر رہے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے عید منائی جاتی ہے۔ یعنی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی سنت ادا کرتے ہوئے اسی جگہ پر طواف، سعی اور قربانی دیتے ہیں جہاں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ نے قربانی کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ عید کے بدلے میں اللہ تعالیٰ حاجیوں کو اس سے بڑی مسرّت، سعادت اور صلہ عطا کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی بارہ گاہ میں حج قبول ہو جائے (جسے حجِ مبرور کہتے ہیں) تو حاجی کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ وہ نومولود بچے کی طرح گناہوں سے پاک اور صاف ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا حقدار اور دوزخ کی آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ ہماری اس کاوش کو اپنے دربار میں منظور و قبول فرمائے۔

ناشتے کے بعد ہم رمی کے لیے روانہ ہوئے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہمارا کیمپ جمرات سے مخالف سمت میں تقریباً ایک کنارے پر واقع تھا۔ اس لیے جمرات تک پہنچنے کے لیے ہمیں سب سے زیادہ چلنا تھا۔ ہمیں اس کا علم تو تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ کتنا زیادہ چلنا پڑے گا۔ اس وقت پورا منیٰ کیمپ جمرات کی طرف رواں دواں تھا۔ رنگ برنگے جھنڈے اٹھائے ہوئے بے شمار قافلے محوِ سفر تھے۔ یہ جھنڈا معلم کا نائب اُٹھا کر آگے آگے چلتا تھا۔ پورا گروپ اس کی رہنمائی میں اس کے پیچھے چلتا تھا۔ آگے چل کر بہت سے گروپوں کے جھنڈے بالکل ایک جیسے لگنے لگے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کون سا جھنڈا ہمارے گروپ کا ہے اور کون سا کسی اور کا۔ پیدل چلنے والوں کے بیچ میں بیماروں، ضعیفوں اور معذوروں کی وھیل چیئرز بھی تھیں۔ ان چیئرز کی وجہ سے کم از کم دو دفعہ میرا پاؤں زخمی ہوا تھا۔ اس وقت تمام مرد احرام میں اور خواتین برقعے میں ملبوس تھیں۔ احرام کے ساتھ بوٹ یا بند چپل نہیں پہنا جا سکتا۔ لہٰذا ہم ہوائی چپل یا سینڈل ہی پہنتے تھے۔ ہوائی چپل پہن کر پیدل چلنا آسان نہیں تھا۔ اسی کی وجہ سے میرا پاؤں نہ صرف بار بار زخمی ہو رہا تھا بلکہ میرے پاؤں کے تلووں میں کریک بھی آ گئے تھے۔ اس میں سے خون رِستا تھا اور ٹیس اُٹھتی رہتی تھی۔

جمرات کی طرف چلتے میں سوچ رہا تھا کہ اب منزل دور نہیں ہے۔ آج رمی اور قربانی کے بعد ہم نے احرام اُتار دینے ہیں۔ قربانی کے لئے ہم نے پہلے سے رقم جمع کروائی ہوئی تھی۔ یہ قربانی سعودی حکومت کے زیر انتظام ہونی تھی۔ اس قربانی کا گوشت مناسب طریقے سے تقسیم کرنا یا ٹھکانے لگانا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ ہمیں اس میں سے کوئی حصہ نہیں مل رہا تھا۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ ہماری طرف سے بروقت یہ فریضہ ادا کر دیا جائے۔ قربانی کے بعد احرام اُتار نا تھا اور بال کٹوانے تھے۔ اس کے بعد اللہ کے فضل سے ہمارا حج مکمل ہو جاتا۔ حالانکہ طوافِ زیارت اور منیٰ کیمپ میں دو راتوں کا قیام ابھی باقی تھا۔ لیکن حج کے بنیادی ارکان آج مکمل ہو جانا تھے۔ انشاء اللہ۔

لیکن ابھی مسافت جاری تھی۔ ہم سخت گرمی، تیز دھوپ اور بے پناہ رش میں تار کول سے بنی چمکتی سڑک پر چلتے ہوئے جمرات کی طرف چلے جا رہے تھے۔ منیٰ سے نکل کر لوگوں کے ریلے بڑی بڑی سڑکوں پر ایک ہی سمت میں چل رہے تھے۔ اس رش میں ایک دوسرے سے بچھڑنے کا قوی احتمال تھا۔ اس لیے کئی لوگوں نے خود کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ کچھ نے صرف ہاتھ پکڑنے پر اکتفا کیا ہوا تھا۔ میری اہلیہ نے میری کمر سے لپٹے بیلٹ کو تھاما ہوا تھا۔ یہ بھی اس کی بڑی ہمت تھی کہ سخت رش اور دھکم پیل کے باوجود اس نے کہیں بھی یہ بیلٹ نہیں چھوڑا۔ ورنہ یہاں ایک ریلے میں انسان دوسرے سے الگ ہو سکتا ہے۔ اس وقت آپ کے اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہوتا۔ بعض جگہوں پر ہجوم کی وجہ سے پاؤں زمین سے ہی اُٹھ جاتے ہیں۔ ایسے میں خدانخواستہ کوئی نیچے گر جائے تو اُس کا اٹھنا محال ہے۔ اُسے بچانے کی کوشش کرنے والا بھی نیچے آ کر کچلا جا سکتا تھا۔ اتنے ہجوم میں آپ کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ہجوم کے ساتھ ساتھ اور اسی رفتار میں سنبھل سنبھل کر آگے بڑھتے رہیں۔ وہاں نہ آپ سمت تبدیل کر سکتے ہیں اور نہ رفتار کم یا زیادہ کر سکتے ہیں۔ جہاں رمی کی جاتی ہے وہ جگہ اب کئی منزلہ ہے۔ لوگ مختلف سمتوں سے آ رہے ہوتے ہیں۔ مگر ان کا نقطہ اجتماع ایک ہی مقام یعنی رمی والی پہاڑیاں ہوتی ہیں۔ یہاں سارے گروپ تقریباً گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اب چلنا نہیں بلکہ رُکنا اور رمی کرنا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کھڑے ہو کر تسلی سے کنکریاں مارنا چاہتے ہیں۔ کچھ چلتے چلتے یہ فریضہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کا بہاؤ چلتا، رُکتا، ٹوٹتا، گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔

اس مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی ہمارے گروپ کی خواتین اور بزرگ تھکن کا شکار ہو گئے تھے۔ ہمیں اس طرح گھسٹتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا تھا۔ پاؤں زخمی تھے اور درد کر رہے تھے۔ گرمی عروج پر تھی۔ پیاس تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ ہر دس منٹ بعد پیاس سے جان نکلنا شروع ہو جاتی تھی۔ میرے پاس پانی کی چھوٹی چھوٹی (تین سو ملی لیٹر) کی کافی بوتلیں تھی۔ جو اب خالی ہوتی جا رہی تھیں۔ پانی پینے کے بعد میں خالی بوتلیں اپنے بیگ میں ڈال رہا تھا کیونکہ راستے میں کوئی بن نظر نہیں آئی۔ لوگوں کی اکثریت یہ بوتلیں سڑک پر پھینک رہی تھی۔ ان بوتلوں کی وجہ سے پیدل چلنے میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی۔ چپل کے نیچے آ کر کرِچ کرِچ کی آواز آتی اور پاؤں میں درد کی لہر اُٹھتی۔ وہ خواتین و حضرات جنہیں پیدل چلنے کی عادت نہیں تھی سخت تھکن کا شکار نظر آ رہے تھے جب کہ ہمارا رہنما کہیں رُکے بغیر مسلسل چلتا جا رہا تھا۔ بہت سے لوگ یہ چاہتے تھے کہ کہیں رک کر دم لے لیا جائے۔ لیکن رُکنے کی کوئی جگہ بھی نہیں تھی اور ہمارے رہنما کا ارادہ بھی نہیں تھا۔

سخت دھوپ میں چلتے چلتے اچانک راستے میں ایک سرنگ آ گئی۔ اس میں ایئر کنڈیشنر اور پنکھے چل رہے تھے۔ تیز دھوپ اور گرمی سے اچانک اس جان فزا مقام پر پہنچ کر بہت راحت ملی۔ لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ آگے چل کر یہ سرنگ ختم ہو گئی اور ہم پھر تپتی دھوپ میں آ گئے۔ اب ہم جمرات کے قریب پہنچ تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگلا کام آسان تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں۔ ہم ایک پل پر پہنچ چکے تھے جس پر کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ وہاں جا کر ہماری رفتار بہت کم ہو گئی۔ بہت مشکل اور زور آزمائی سے ایک ایک قدم اٹھتا تھا۔ پل کے اُوپر، نیچے، دائیں، بائیں، دُور اور نزدیک لوگ ہی لوگ نظر آ رہے تھے۔ یہاں سے منیٰ کا کیمپ دور تک نظر آتا تھا۔ سفید رنگ کے ایک جیسے بڑے بڑے خیموں پر مشتمل دنیا کاسب سے بڑا سفری کیمپ ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ اتنے بڑے کیمپ کا نظارہ بھی ایک انوکھا نظارہ تھا۔ اس انوکھے کیمپ میں تقریباً تیس لاکھ لوگ مقیم تھے۔ ان میں سے بہت سے اس پہاڑی پر چڑھ کر شیطان کو کنکریاں مارنے آئے ہوئے تھے۔ آج شام تک ہر حاجی نے یہ سنت ادا کرنا تھی۔ آج اس پہاڑی پر سنگ باری کرنا تھی جسے عرفِ عام میں جمرات الا ولیٰ یا بڑا شیطان کہتے ہیں۔

اس پہاڑی اور لوگوں کے درمیان ایک فاصلہ رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس کے بہت قریب کوئی نہیں جا سکتا۔ لوگ دور سے ہی تاک تاک کر اُسے پتھر مار رہے تھے۔ کچھ منچلے پیچھے ہٹ کر اور دوڑ کر نشانہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ محض رسمی طور پر کنکر پھینک کر اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔ کچھ تو باقاعدہ شیطان پر غصہ اُتار رہے تھے۔ میں نے خود کئی ایک کو اُردو اور پنجابی میں گالیاں دیتے ہوئے سنا۔ ایک نے غصے میں آ کر اپنی چھتری دے ماری تھی۔ اب باہر جا کر کر اُسے دھوپ میں بغیر چھتری کے چلنا تھا۔ میرے بائیں جانب دو لوگ شاید دوست ہوں گے۔ ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا ’’یار ہاتھ ہولا رکھ تیرا تے پرانا بیلی اے۔ (یار ہاتھ ہلکا رکھو تیرا تو پرانا دوست ہے)‘‘

دوسرا کہہ رہا تھا ’’مینوں سمجھ نہیں آ رہی پہلاں کیہڑے شیطاننوں ماراں۔ انوں یا تینوں (مجھے سمجھ نہیں آ رہی پہلے کون سے شیطان کو ماروں اسے یا تمہیں)۔

ویسے یہ مسئلہ تو مجھے بھی درپیش تھا۔

میری سمجھ میں بھی نہیں آ رہا تھا کہ کس شیطان کو نشانہ بناؤں۔

شیطان کا علامتی مجسمہ میرے سامنے تھا۔

اس سے بڑا شیطان میرے اندر موجود تھا۔

میں سوچ رہا تھا یہ پتھر میں کسے اور کیوں مار رہا ہوں۔

ساری زندگی میں نے اُسے اپنے اندر چھپا کر رکھا ہے۔

اسے اپنا دوست بنا کر رکھا ہے۔

اسی کی سنتا اور اسی کے پیچھے چلتا رہا۔

میں نے اپنا آپ اسے سونپا ہوا تھا۔

اس کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی تھی۔

اس کے بتائے ہوئے راستے پر آنکھیں بند کر کے چلتا رہا۔

یہ پتھر تو مجھے خود کو مارنے چاہیے۔

جس نے مجھے سب کچھ دیا تھا اسی کو فراموش کر بیٹھا۔

جو میرا سب کچھ چھین کر میرا اندر باہر خالی کر رہا تھا میں اُس کا ہو کر رہ گیا تھا۔

میں راہِ راست سے بھٹک کر کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔

لیکن کیا واقعی یہ بھٹکنا تھا؟

یہ راستہ تو میں نے دانستہ طور پر خود اختیار کیا تھا۔

یہ شیطان کوئی اور نہیں تھا۔

میں خود تھا۔

میرا نفس تھا۔

اس وقت میں آئینہ دیکھتا تو سامنے والے شیطان میں اور مجھ میں کوئی فرق نہ ہوتا۔

یہاں ایک نہیں دو شیطان آمنے سامنے موجود تھے۔

کنکر کم تھے اور شیطان زیادہ۔

اس لیے وہ پٹنے سے بچ گیا۔

وہ ہمیشہ بچ جاتا ہے۔

کیونکہ اس تک کوئی پتھر نہیں پہنچتا۔

جب تک وہ اس جگہ موجود ہے وہ محفوظ ہے۔

لیکن جس کے اندر وہ چھپا ہے وہ قطعی غیر محفوظ ہے۔

رمی کے بعد ہم دوسری طرف باہر نکلے۔ وہاں بھیک مانگنے والے، بال کاٹنے والے اور حاجیوں کو لے کر جانے والے موجود تھے۔ میں نے حجام کا لفظ دانستہ استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ بہت سے حاجی ایک دوسرے کی حجامت کر رہے تھے۔ وہاں بے حد شور و غل تھا۔ ہم عزیزیہ میں واقع اپنے ہوٹل جا رہے تھے جہاں دن گزار کر رات واپس منیٰ پہنچنا تھا۔ ہم نے یہ احرام کئی دنوں سے پہنے ہوئے تھے جو سخت میلے ہو چکے تھے۔ شیو بڑھی ہوئی تھی۔ اتنے دنوں سے صابن یا شیمپو استعمال نہیں کیا تھا لہٰذا جسم پر میل جمی ہوئی تھی۔ ہوٹل میں جا کر ان سب سے نجات حاصل کرنا تھی اور نہا دھوکر صاف ستھرے کپڑے پہننے تھے۔ اس تصور سے ہی حاجی خوش تھے۔ کیونکہ آج حج کا اہم مرحلہ طے ہو گیا تھا۔ لیکن ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ابھی عشق کے کئی اور امتحان باقی ہیں۔ ہمیں رہنماؤں نے بتایا کہ ہوٹل وہاں سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ چونکہ اتنے رش میں گاڑیاں نہیں چل سکتیں۔ لہٰذا یہ سفر بھی پیدل ہی کرنا پڑے گا۔

ہم صبح مزدلفہ سے منیٰ تک پون گھنٹہ چلے تھے۔ تقریباً دو گھنٹے منیٰ سے جمرات تک لگ گئے۔ اُوپر سے سورج جیسے آگ برسا رہا تھا۔ اس حالت میں مزید چلنے کی سکت کسی میں بھی نہیں تھی۔ ادھر سے رش اور حبس بھی بہت زیادہ تھا۔ ان حالات میں لوگوں نے پیدل چلنے سے معذوری ظاہر کر دی۔ رہنما نے کہا ’’ہمارے پاس کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ سڑکوں کی حالت آپ لوگوں کے سامنے ہے۔ یہاں پیدل چلنے کی جگہ نہیں ہے گاڑی کیسے آئے گی۔ یہاں سے ہمارا ہوٹل منیٰ کیمپ کی نسبت قریب ہے۔ لہٰذا ہوٹل جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہاں شام کو واپس جانے کے لیے ہم بسوں کا بندوبست کر لیں گے۔ لہٰذا ہمت اور صبر سے یہ فاصلہ طے کرنے کی کوشش کریں‘‘

ناچار لوگ پھر سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر گھسٹ گھسٹ کر چلنے لگے۔ گھسٹ کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ چلنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ قدم اٹھانا دوبھر ہو رہا تھا۔ مجھے خواتین پر ترس آ رہا تھا۔ سخت تھکن کا شکار نظر آ رہی تھیں۔ پھر بھی برقعے میں ملبوس گرمی اور پسینے میں تر مردوں کے شانہ بشانہ چلی جا رہی تھیں۔ وھیل چیئرز بھی حسب معمول ہمارے درمیان موجود تھیں۔ انہیں چلانے والے دوہری ڈیوٹی نبھا رہے تھے۔

ہمارے بیگ میں پانی کی بوتلیں ختم ہو چکی تھیں۔ اس شدید گرمی میں پانی کے بغیر چند منٹ گزارنا دشوار تھا۔ دوسری طرف ہمارا رہنما رُکے اور پیچھے دیکھے بغیر تیز تیز چلا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ سے ہمیں رُکنے، دم لینے یا کسی دُکان سے پانی خریدنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ میں نے اہلیہ سے کہا ’’آپ اپنے گروپ کے ساتھ چلتی جائیں۔ میں دُکان سے پانی لے کر بھاگ کر آپ لوگوں تک پہنچ جاؤں گا‘‘

اس نے خدشہ ظاہر کیا ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پیچھے رہ جائیں۔ آپ کو ہوٹل کے راستے کا بھی علم نہیں ہے‘‘

میں نے کہا ’’اللہ مالک ہے۔ معلوم نہیں ابھی کتنا سفر باقی ہے۔ پانی کے بغیر یہ سفر کیسے طے ہو گا۔ آپ لوگ چلتے جائیں۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ انشاء اللہ آ ملوں گا‘‘

آگے ایک دُکان نظر آئی تو میں اپنے قافلے سے الگ ہو کر اس میں چلا گیا۔ وہاں پہلے ہی کافی گاہک موجود تھے۔ وہ پانی دوسرے مشروبات اور دیگر اشیاء خرید رہے تھے۔ میری باری آنے اور پانی خریدنے میں کافی وقت لگ گیا۔ باہر نکلا تو میرے گروپ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ مجھے پریشانی نے آ گھیرا۔ اپنے گروپ تک پہنچنا مشکل لگ رہا تھا۔ کیونکہ اتنے ہجوم میں بھاگا بھی نہیں جا سکتا۔ اگر آگے جا کر وہ کسی سڑک یا گلی میں مڑ گئے تو مجھے کیسے پتہ چلے گا۔ اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈے بغیر ہوٹل پہنچنا مشکل تھا۔ میرے پاس تو اس کا پتہ بھی نہیں تھا۔ یہ بھی میری غلطی تھی۔ مجھے اس ہوٹل کا نام، پتہ اور فون نمبر اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے تھا۔ اب یہ بعد کا مسئلہ تھا۔ فوری طور پر اپنے گروپ تک پہنچنا ضروری تھا۔

اگلے دس منٹ جس طرح میں نے میراتھن دوڑ لگائی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ لوگوں کے بیچ میں راستہ بناتا ہوا کسی کو دھکیلتا اور کسی کے دھکے سے بچتا ہوا ہر ممکن تیزی سے آگے بڑھتا رہا۔ میری نظریں اپنے گروپ کا جھنڈا تلاش کر رہی تھیں۔ پسینہ سر سے پاؤں تک بہہ رہا تھا۔ احرام کی اوپر والی چادر میں نے اکٹھی کر کے کندھے پر ڈالی ہوئی تھی۔ اسی بھاگ دوڑ میں میرے پاؤں میں چھالے بھی پڑ گئے۔ لیکن میں نے گوہر مقصود پا لیا۔ میں اپنے قافلے والوں کو ڈھونڈنے اور ان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

جتنی خوشی مجھے ہوئی اس سے زیادہ اہلیہ کو ہوئی۔ وہ پچھلے بیس منٹ سے ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔ وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ قافلے کے اکثر لوگوں کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں ہیں۔ ایک بوتل اہلیہ کے پاس بھی تھی۔ اس نے بتایا آپ کے الگ ہونے کے بعد آگے ایک ٹرک کھڑا تھا۔ وہ لوگ حاجیوں میں پانی کی بوتلیں تقسیم کر رہے تھے۔ بہت سارے حاجیوں نے ان سے پانی کی بوتلیں لے لیں۔ میری نظر اپنے بیگ پر پڑی جس میں میری خریدی ہوئی بوتلیں میری بے صبری کا منہ چڑا رہی تھیں۔

آگے چل کر ایسے کئی ٹرک، وین اور دوسری گاڑیاں سڑک کنارے کھڑی نظر آئیں جو پانی کھجوریں اور روٹی وغیرہ تقسیم کر رہی تھیں۔ حاجیوں کی تعداد اتنی تھی کہ ہر ایک کو یہ سب کچھ نہیں مل رہا تھا۔ تاہم جس کو مل جاتا وہ خدا کا شکر ادا کر کے لے لیتا۔ جس کو نہ ملتا وہ بھی صبر اور شکر کرتا۔ عام حالات میں حاجیوں کے پاس پانی موجود ہوتا ہے۔ لیکن آج انہیں بہت زیادہ چلنا پڑ رہا تھا۔ گرمی بھی بہت زیادہ تھی۔ اس لئے ہر شخص کو پانی کی طلب تھی۔

میں جب اپنے گروپ سے جا کر ملا تو اس کے چند منٹ بعد ہی ہمارا قافلہ بڑی سڑک سے ایک چھوٹی سڑک میں مڑ گیا۔ اگر ان سے ملنے میں تھوڑی تاخیر ہو جاتی تو میں انہیں نہیں ڈھونڈ سکتا تھا۔ اللہ نے مدد کی اور مجھے اس آزمائش سے بچا لیا۔ آگے چل کر تنگ گلیوں کا جال سا پھیلا ہوا تھا۔ کبھی ہم دائیں مڑ رہے تھے اور کبھی بائیں۔ کبھی ایسا لگتا تھا کہ واپس اسی سمت جا رہے ہیں جہاں سے آئے تھے۔ ان تنگ راہوں پر چلنا مزید مشکل ہو گیا۔ یہاں حبس بہت زیادہ تھا۔ ہمیں چلتے ہوئے ایک گھنٹے سے بھی زائد ہو چکا تھا۔ جبکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ کُل آدھے گھنٹے کی مسافت ہے۔ ہمارے رہنما کے چہرے پر بھی ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ لگتا تھا کہ وہ راستہ بھول چکا ہے۔ اب تو وہ لوگوں کی باتوں کا جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ سب لوگ تھک کر چور ہو چکے تھے۔ ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ کوئی شخص بات تک نہیں کر رہا تھا۔ شروع دن والی شوخیاں اور دوستیاں دم توڑ چکی تھیں۔ ہر ایک کی آنکھ میں ایک ہی سوال تھا اور کتنا چلنا پڑے گا؟ہمارا ہوٹل کب آئے گا؟ اب ہمیں چلتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹا ہو چکا تھا۔

ان گلیوں میں ٹریفک بھی رواں دواں تھی۔ ہم ایک ون وے گلی میں چلے جا رہے تھے کہ ہماری مخالف سمت جہاں سے داخلہ ممنوع تھا، ایک بڑی سی موٹرکار گلی میں داخل ہو گئی۔ یہ گلی زیادہ کھلی نہیں تھی۔ ہمارا چارسو لوگوں کا قافلہ بھی اسی میں چل رہا تھا۔ ڈرائیور رفتار کم کئے بغیر اور یہ دیکھے بغیر کہ مخالف سمت جو اصل میں گاڑیوں کے داخلے کی درست سمت تھی وہاں سے کوئی گاڑی آ گئی تو کیا ہو گا، بڑھا چلا آ رہا تھا۔ وہی ہوا۔ دوسری طرف سے بھی ایسی ہی گاڑی اندر آ گئی۔ آگے چل کر دونوں گاڑیاں آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں کیونکہ وہاں کراسنگ کی جگہ تھی ہی نہیں۔ غلط سمت سے آنے والی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکا تھا جس کی عمر بارہ تیرہ سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ معلوم نہیں اُس کو ڈرائیونگ آتی تھی یا نہیں لیکن ٹریفک کے قواعد بہرحال اُسے معلوم نہیں تھے۔ ورنہ یوں ون وے سٹریٹ میں نہ آ پھنستا۔ اس کی وجہ سے اس سٹرک میں ٹریفک جام ہو گئی۔ پیدل چلنے والوں کو بھی سخت مشکل درپیش تھی کیونکہ اس گلی میں فٹ پاتھ بھی نہیں تھا۔ ہم گاڑیوں کے بیچ میں سے گزر رہے تھے۔ پہلے ہارن بجنے شروع ہوئے۔ پھر ڈرائیور گاڑیوں سے باہر نکل آئے۔ زبانی تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ ہم یہ تماشا دیکھتے ہوئے وہاں سے گزر گئے۔

میرے ذہن سے سعودی عرب کے بارے میں دوستوں کی اس بات کا بھی رعب جاتا رہا جب وہ کہتے تھے کہ سعودیہ میں ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ وہاں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ لائسنس صرف اس کو ملتا ہے جو بہت اچھا ڈرائیور ہو۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی گاڑی نہیں چلا سکتا۔ ہمارا تجربہ اس کے برعکس ثابت ہوا۔ ہم نے مکہ مکرمہ جیسے انتہائی مصروف شہر میں عین حج کے دنوں میں بارہ تیرہ سال کے بچوں کو گلیوں میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل دوڑاتے دیکھا۔ منیٰ اور جمرات کے بیچ سڑکوں پر انہیں ایک پہیے پر موٹر سائیکل دوڑاتے دیکھا۔ دھوئیں اور شور سے حاجیوں کو حیران اور پریشان ہوتے دیکھا۔

ایک پاکستانی حاجی کا مضمون میری نظر سے گزرا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے تحریر کیا کہ سعودی عرب میں پیدل چلنے والوں کا بے حداحترام کیا جاتا ہے۔ جونہی کوئی پاپیادہ شخص سٹرک پر قدم رکھتا ہے دونوں طرف کی ٹریفک اس وقت تک رکی رہتی ہے جب تک وہ شخص سٹرک پار نہیں کر لیتا۔ یہ مضمون میں نے کافی عرصہ پہلے پڑھا تھا اور اس سے سعودیہ میں ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کے بارے میں میرے ذہن میں ایک اچھا تاثر قائم ہوا تھا۔ لیکن جب میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں کی ٹریفک دیکھی تو وہ سارا تاثر زائل ہو گیا۔ حج کے دنوں میں ٹریفک کا رش تو فطری عمل ہے لیکن ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد اور پیدل چلنے والوں کا وہ احترام میں نے یہاں کہیں نہیں دیکھا جس کا صاحبِ مضمون نے تذکرہ کیا تھا۔

شاید دیکھنے والی نظر کا فرق تھا۔ وہ صاحب پاکستان سے سعودیہ گئے تھے جب کہ میں آسٹریلیا سے آیا تھا۔ دونوں کا تجربہ الگ الگ تھا۔ پاکستان کے باسی دنیا میں جہاں بھی جائیں ٹریفک کا نظام پاکستان سے بہتر ہی پائیں گے۔ کیونکہ وطنِ عزیز کی سٹرکوں پر ٹریفک جس طرح بے لگام چل رہی ہوتی ہے دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ و ہاں ڈرائیوروں کی اکثریت کو ٹریفک کے قوانین کا علم نہیں ہوتا۔ ان قوانین پر عمل درآمد تو بہت بعد کی بات ہے۔

دوسری طرف آسٹریلیا میں انتہائی ماہر ڈرائیور کو بھی اس وقت تک لائسنس نہیں ملتا جب تک وہ ٹریفک کے قوانین نہیں سیکھ لیتا۔ بلکہ اس کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ آسٹریلیا میں ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لیے پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اس طرح سرگرم عمل رہتے ہیں جیسے وہ جرائم پیشہ افراد کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔ اس لیے وہاں ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ زیبرا کراسنگ پر ڈرائیور کا پاؤں خود بخود بریک پر پہنچ جاتا ہے چاہے وہاں کوئی سڑک کراس کرنے والا ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح شہروں میں پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کی حفاظت کے لیے بہت سے قوانین موجود ہیں۔ جن کی وجہ سے حادثے بہت کم ہوتے ہیں۔

دوسری طرف سعودی عرب میں بھی ڈرائیوروں کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ وہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بلا ضرورت ہارن بجاتے ہیں اور پیدل چلنے والوں کو گالیاں بھی دیتے ہیں۔

مدینہ منورہ کے جس ہوٹل میں ہم مقیم تھے اس کے عقب میں ایک بڑی اور مصروف سٹرک تھی۔ اس سڑک کے درمیان ایک قدرے اونچا فٹ پاتھ تھا۔ جس کے دونوں اطراف میں ٹریفک مخالف سمتوں میں چلتی رہتی تھی۔ اس سڑک کے دوسری طرف آبادی تھی۔ جس میں درمیانے اور چھوٹے درجے کے ہوٹل دکانیں ریستوران اور رہائشی مکانات بنے ہوئے تھے۔ وہاں بہت سے حاجی بھی رہائش پذیر تھے جو دن میں کئی بار نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبویؐ جاتے تھے۔ ان سب کے لیے اور دوسرے لوگوں کے لیے جو کسی کام کے لیے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آتے تھے یہ سڑک کراس کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ نہ تو وہاں کوئی زیبرا کراسنگ تھی اور نہ ہی ٹریفک کی بتیاں تھیں۔ حالانکہ وہاں ہر وقت درجنوں لوگ سٹرک عبور کرنے کے لیے دونوں اطراف کھڑے نظر آتے تھے۔ اپنے کمرے کی بالکونی میں بیٹھ کر میں اکثر یہ نظارہ دیکھتا تھا۔

ان لوگوں نے سڑک عبور کرنے کا انوکھا طریقہ اپنایا ہوا تھا۔ وہ سڑک کے کنارے رک کر انتظار کرتے۔ یہ انتظار گاڑیاں رُکنے یا پولیس کا نہیں ہوتا تھا بلکہ مزید لوگوں کا ہوتا تھا۔ جب یہ تعداد معقول ہو جاتی تو وہ سارے مل کر سڑک پر آ جاتے۔ اتنے سارے لوگوں کو سٹرک پر آتے دیکھ کر بریکیں چرچرا اُٹھتیں۔ ہارن بج اٹھتے۔ ڈرائیوروں کی کھڑکیاں کھل جاتیں۔ وہ مغلظات بکتے۔ یہ لوگ ان کی پرواہ کیے بغیر مزے سے سڑک عبور کر کے دوسری طرف پہنچ جاتے۔ یہ طریقہ ہر روز سینکڑوں مرتبہ دہرایا جاتا تھا۔ میں حیران ہوتا کہ اتنی مصروف سٹرک، اتنے سارے پاپیادہ لوگ اور وہاں پولیس کا ایک سپاہی بھی متعین نہیں ہے۔ ٹریفک کے قوانین کے مطابق اور محفوظ انداز سے سڑک کراس کرنے کا وہاں کوئی بندوبست نہیں تھا۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی وہاں جو حالت ہے اس کا ذکر پہلے ہی ہو چکا ہے۔ یہ بھی ٹریفک اور عوامی خدمات کے زمرے میں آتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور اور کرائے کی گاڑیوں والے منہ مانگا معاوضہ لیتے ہیں۔ ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایک اور بات جو ہم نے نوٹ کی کہ مقامی لوگوں کے لیے اور زائرین کے لیے الگ الگ قوانین ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہو یا دکاندار مقامی لوگوں سے مختلف نرخ طلب کرتے ہیں اور غیرملکیوں سے الگ۔ ان ڈرائیوروں کی شکایت درج کرنے کے لیے ٹیکسی یا بس میں کوئی فون نمبر دیا ہوتا ہے اور نہ ہی ڈرائیور کا شناخت نامہ چسپاں ہوتا ہے۔ ایسے میں زائرین جائیں تو جائیں کہاں۔ کس سے شکایت کریں۔

جمرات سے عزیزیہ کے سفر کی روداد بیان کرتے کرتے میں نے سعودیہ کی ٹریفک کی صورت حال پر روشنی ڈال دی۔ در اصل لکھنے والے کے خیالات بھی ٹریفک ہی کی طرح رواں دواں ہوتے ہیں۔ ان خیالات کے راستے میں کوئی سپیڈ بریکر آ جائے تو خیالات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ سلسلہ اسی شکل میں دوبارہ بحال ہو سکے۔ لہٰذا کسی اہم موضوع پر کوئی اہم نقطہ ذہن میں آئے تو اسے اسی وقت احاطہ قلم میں لانا بہتر ہے۔ ورنہ یہ بیان ہونے سے رہ سکتا ہے۔

اس ون وے گلی کے اختتام پر ہم نسبتاً ایک کشادہ سڑک پر نکل آئے جس کے دوسری طرف پہاڑی تھی۔ اس سڑک پر ہی ہمارا ہوٹل تھا۔ ہم پورے دو گھنٹے میں جمرات سے یہاں تک پہنچے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم آنکھیں بند کر کے جس رہنما کی رہنمائی پر بھروسہ کر رہے تھے وہی غلط راستے پر جا نکلا تھا۔ وہ ہمیں عزیزیہ کے طول و عرض میں گول دائرے کی شکل میں گھماتا رہا۔ اور ہم اس امید پر کہ بس منزل آیا ہی جاتی ہے اپنے آپ کو اس کے پیچھے گھسیٹتے رہے۔

کیا کِیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

صبح سے اب تک ہم مسلسل پانچ گھنٹے چلے تھے۔ بہت سے لوگ یہی کہتے سنے گئے کہ آج سے پہلے وہ کبھی اتنا نہیں چلے۔ گویا یہ ہم سب کا نیا ریکارڈ تھا۔

ہوٹل پہنچ کر اپنے اپنے کمروں میں جا کر لوگ بستروں پر گر گئے۔ ٹھنڈے کمرے، ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈا بستر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت تھی۔ کچھ دیر کے لئے اس نعمت سے سب نے استفادہ کیا۔ لیکن ان ٹھنڈے کمرے سے مردوں کو بہرحال نکلنا پڑا۔ اس کی وجہ حج کی ایک اور شرط تھی۔ ہماری طرف سے قربانی دی جا چکی تھی۔ اب حجامت کرانا باقی تھا۔ جمرات سے آتے ہوئے ہم نے دیکھا۔ سڑک کے کنارے، فٹ پاتھوں پر، دُکانوں میں، ہوٹلوں کے سامنے جگہ جگہ حاجی حجامت بنوا رہے تھے۔

اس سے پہلے میں نے تسلی سے غسل کیا۔ کافی دنوں بعد صابن اور شیمپو کا استعمال کیا تو بدن پر جمی میل اور پسینے سے نجات ملی۔ میرا سر اور جسم ہلکا پھلکا ہو گیا۔ کیمپ کی نسبت یہاں پانی ٹھنڈا تھا لہٰذا اس غسل کا بہت سرور آیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ اسی سے کھیلتا رہوں لیکن ساتھیوں کی آواز آئی ’’ہم باہر جار ہے ہیں جلدی نکلو‘‘

ہمارے ہوٹل کے دونوں اطراف میں بہت سی باربر شاپ تھیں۔ ان میں شاید کچھ اصلی باربر شاپ بھی ہوں۔ تاہم زیادہ تر ایسی تھیں جو صرف آج کے دن کے لیے کھولی گئی تھیں۔ یہ صبح کھلی تھیں اور ات بند ہو جائیں گی۔ کل پرسوں اِس دکان میں کچھ اور بک رہا ہو گا۔ ہو سکتا ہے سبزی بک رہی ہو۔ پھل برائے فروخت ہوں۔ کپڑے کی دکان کھلی ہو یا پھر موٹرسائیکلوں کی مرمت ہو رہی ہو۔ لیکن آج ان دُکانوں میں ایک ہی کام ہو رہا تھا۔ آج وہاں درجنوں نائیوں کے آگے درجنوں حاجی سر جھکائے ہوئے تھے۔ جبکہ سینکڑوں قطار میں کھڑے انتظار کر رہے تھے۔

یہ نائی پیشہ ور یا کل وقتی نہیں ہوتے۔ پورا سال کچھ اور کام کرتے ہیں لیکن حج والے دن نائی بن جاتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں کسی تربیت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حاجیوں کے سروں پر مشین یا اُسترا پھیرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے کسی کاریگری کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مشین یا اُسترا چلانا آتا ہو اور بس۔ وہ جانتے ہیں اگر اکا دکا بال کٹنے سے رہ جائے یا کسی کو کٹ لگ جائے تو حاجی ان پر کیس نہیں کریں گے۔ وہ تو مہمان ہیں۔ فرض ادا کرنے آئے ہیں۔ فرض ادا ہو جائے گا تو اپنے اپنے ملکوں میں لوٹ جائیں گے۔

ہم کوئی ایسی باربر شاپ ڈھونڈ رہے تھے جہاں ہجوم کم ہو۔ ایسی دُکان مل نہیں رہی تھی۔ جہاں تک حجامت بنوانے کے معاوضے کا تعلق تھا اس کا انحصار گاہکوں کی قطار کی لمبائی پر تھا۔ دس ریال سے لے کر سو ریال تک بھی لیے جا رہے تھے۔ اگر قطار لمبی ہو تو معاوضہ سو ریال یا اس سے بھی اوپر چلا جاتا تھا۔ اگر قطار کم لمبی ہو یا ختم ہونے والی ہو تو یہ فیس گھٹتے گھٹتے دس ریال تک آ جاتی ہے۔ ہم دُکانیں دیکھتے اور نرخ دریافت کرتے کرتے کافی دور تک نکل آئے جہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ وہی سوال جواب دہراتے ہوئے ہم واپس ہوٹل کی طرف چل پڑے۔ ہر دکان کا نرخ دوسری سے مختلف تھا۔ کسی کا جاتے ہوئے زیادہ تھا اور آتے ہوئے کم اور کسی کا جاتے ہوئے کم تھا اور واپسی پر بڑھ گیا تھا۔ جتنی تیزی سے ان کے بھاؤ تبدیل ہو رہے تھے اتنی تیزی سے سٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی قیمت بھی نہیں بدلتی۔ بالآخر ایک دکان میں ہجوم قدرے کم دیکھ کر ہم وہاں رک گئے۔

دکان میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں تھی۔ کیونکہ کرسیاں ساتھ ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔ جہاں درجنوں نائی بیک وقت حاجیوں کی بڑھی ہوئی فصل تیزی سے کاٹ رہے تھے۔ جب میرا نمبر آیا تو میں ایک کرسی پر جا بیٹھا۔ اس کرسی کے ارد گرد منوں کے حساب سے بال جمع تھے۔ کرسی کے ہتھے اور پشت پر بھی بال ہی بال تھے۔ دکان میں درجنوں نائی، دو تین خزانچی اور تین چار لوگ آوازیں لگانے کے لیے کھڑے تھے۔ یہ گاہکوں کو پکڑ پکڑ کر اندر لا رہے تھے۔ ان میں سے کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ فرش پر پڑے بال دھکیل کر ایک طرف کر دے۔ یہ تمام لوگ میرے ہم وطن یعنی پاکستانی تھے۔ صفائی سے زیادہ انہیں گاہکوں کو قابو کرنے اور جلدی جلدی فارغ کرنے کی فکر تھی۔

کچھ عرصہ پہلے مجھے نیوزی لینڈ کے ایک فارم میں ایک کسان کا ایک بھیڑ کی اُون اتارنے کا عمل دیکھنے کا موقع ملا۔ اُون سے بھری اس بڑی سی بھیڑ کی اون اتارنے میں کسان نے پانچ منٹ بھی نہیں لگائے تھے۔ میرے سر پر مشین پھیرنے میں اس نائی نے نیوزی لینڈ میں بھیڑوں کی اُون اتارنے والے سے زیادہ پھُرتی دکھائی۔ چند منٹوں کے اس عمل کو میں دیکھنے سے قاصر تھا کیونکہ میرے سامنے آئینہ موجود نہیں تھا۔ درجنوں نائیوں اور درجنوں کرسیوں والی اس دکان میں آئینہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

آخر میں کسان نے بھیڑ کو آئینہ دکھا کر اس سے داد بھی چاہی۔ جبکہ میرا حجام داد و دہش سے بے نیاز تھا۔ لہذا اس نے آئینہ دکھانے کا تکلف نہیں کیا۔ حجام نے اس کسان سے کم وقت میں حجامت بنا کر عالمی ریکارڈ بنانے کی کوشش کی۔ نیوزی لینڈ کے اس کسان نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم کسان روزانہ دو سو سے اڑھائی سو بھیڑوں کی اُون اتار لیتے ہیں۔ ایک بھیڑ کی اون اتارنے کا معاوضہ ڈیڑھ سے دو ڈالر تک ہے۔ سعودی عرب میں نائیوں کی بال کاٹنے کی رفتار نیوزی لینڈ کے کسانوں سے کہیں تیز اور سروں کی تعداد ان بھیڑوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کا معاوضہ بھی نیوزی لینڈ کے کسان سے کہیں بہترتیس ریال فی کس ہے جو بڑھ کر سوریال تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ یوں یہ نائی اس کسان سے کہیں زیادہ کماتے ہیں لیکن سال میں صرف ایک دن یعنی حج کے موقع پر۔

دکان سے واپسی پر میں نے کچھ پھل خرید لیے کیونکہ آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ ہوٹل پہنچتے پہنچتے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ عصر کے بعد منیٰ واپسی تھی۔ اس دفعہ بسوں کا انتظام تھا۔ لیکن کچھ لوگوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ بستر سے اٹھنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ خاص طور پر گھریلو اور عمر رسیدہ خواتین کی حالت بہت خستہ تھی۔ ہوٹل کے یخ بستہ ماحول میں سب کو اتنا آرام ملا تھا کہ کسی کا بھی واپس جانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن دس اور گیارہ ذو الحج کی راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری تھیں۔ جبکہ بارہ ذوالحج والی رات اختیاری تھی۔ یعنی اگر چاہیں تو یہ رات وہاں گزاریں اور اگر نہ چاہیں تو یہ لازمی نہیں ہے۔

ہم سب نے دوبارہ غسل کیا۔ بلکہ جب تک وہاں سے روانگی نہیں ہوئی بار بار غسل کیا۔ ہم قیامِ منیٰ کی کسر پوری کر رہے تھے۔ اہلیہ نے بتایا کہ جاوید صاحب کی بیگم کی طبیعت کافی خراب ہے اور ان کا منیٰ واپس جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ میں اپنے کمرے میں واپس آیا تو جاوید صاحب نے بھی تصدیق کی کہ وہ واپس منیٰ نہیں جا رہے۔ بیگم جاوید کی ٹانگوں میں درد تھا اور بخار بھی ہو گیا تھا۔ جاوید صاحب خود بھی بے انتہا تھکے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ وہ بال کٹوانے بھی نہیں گئے۔ میں نے سمجھایا ’’جاوید صاحب ہمت کریں۔ آپ کو منیٰ واپس جانا پڑے گا۔ قیامِ منیٰ حج کا حصہ ہے‘‘

بولے ’’ہم دونوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ہم نہیں جا سکیں گے‘‘

مجھے بہت افسوس ہوا۔ اتنے دور آسٹریلیا سے آ کر اور اتنی محنت مشقت سے گزر کر آخری مرحلے میں انہوں نے ہمت ہار دی تھی۔ دوسرے ساتھیوں نے بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود۔ بیگم جاوید تو بیمار تھی لیکن جاوید صاحب نے بھی صاف انکار کر دیا۔ در اصل آج کے سخت دن، سخت گرمی اور مشکل سفر نے انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر شکستہ دل اور شکستہ جان کر دیا تھا۔ بقیہ لوگ باہر کھڑی بسوں میں سوار ہونا شروع ہو گئے۔ بسیں کم تھیں اور سواریاں زیادہ۔ اس کی وجہ سے ہمیں کافی انتظار کے بعد آخری بس میں جگہ ملی۔ در اصل یہی بسیں لوگوں کو منیٰ چھوڑ کر واپس آئی تھیں۔ اس لیے اتنی تاخیر ہوئی تھی۔

لبیک کی انتظامیہ کو بھی علم ہو گیا کہ جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ منیٰ واپس نہیں جا رہے۔ ہمارا معلم جاوید صاحب کے کمرے میں گیا اور انہیں سمجھایا کہ منیٰ کا قیام ضروری ہے۔ جاوید صاحب نے ان کی بات بھی نہیں مانی۔ ان کا عذر تھا کہ ہم جسمانی طور پر منیٰ یا کہیں اور جانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ معلم نے شرعی حکم بتانا تھا سو بتا دیا۔

اس کے بعد لبیک کا مالک جو اچھا منتظم ہونے کے علاوہ اچھا عالم بھی ہے وہ جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ کو سمجھانے گیا۔ ابتدا میں اس نے شرعی نقطہ نظر سے منیٰ کے قیام کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح بات نہیں بنی تو اس نے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور کہا ’’آپ ویسے بھی آج رات اس ہوٹل میں نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ آج رات کے لیے ہم نے اسے بک ہی نہیں کرایا ہے۔ اگر آپ اپنا کرایہ دے کر بھی یہاں رہنا چاہیں تو آپ کو نہ رات کا کھانا ملے گا اور نہ صبح کا ناشتہ۔ اس کے لیے آپ کو خود بندوبست کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف آپ بس میں بیٹھ کر منیٰ جائیں گے۔ وہاں آپ نے صرف آرام کرنا ہے۔ کم از کم وہاں آپ کو وقت پر کھانا ملتا رہے گا۔ جب کہ یہاں آپ کو دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ یہ دو راتیں رات وہاں گزار لیں اور بعد میں کسی وقت طواف کعبہ کر لیں تو آپ کا حج ہر لحاظ سے مکمل ہو جائے گا۔ ورنہ آپ کی ساری محنت اور پیسہ ضائع جائے گا۔ کیا آپ چاہیں گے کہ اتنا لمبا سفر کر کے اور اتنی رقم لگا کر بھی آپ حج کیے بغیر واپس چلے جائیں۔ زندگی کا کیا بھروسہ کہ آئندہ یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ آپ واپس جا کر اپنے بچوں، عزیز اقارب اور دوستوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ کیا کہیں گے کہ ہم وہاں جا کر بھی حج کیے بغیر واپس لوٹ آئے۔ کل قیامت والے دن خدا کو کیا جواب دیں گے کہ ہم تھک گئے تھے اس لیے حج ادھورا چھوڑ دیا‘‘

ہم آخری بس میں سوار تھے۔ یہ بس چلنے والی تھی کہ ہم نے دیکھا جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ سیڑھیاں اُترتے نظر آئے۔ وہ تھکے تھکے لیکن پر عزم لگ رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں نے تالیاں بجائیں تو بس میں سوار سبھی مسافر تالیاں بجانے لگے۔ جاوید اور بیگم جاوید ان تالیوں کی گونج میں اس طرح سوار ہوئے جیسے کوئی وی آئی پی شخصیت جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ان کے بیٹھتے ہی بس کے دروازے بند ہوئے اور ہم سنت محمدیﷺ کی پیروی کرنے سوئے منیٰ روانہ ہو گئے۔

 

گیارہ ذوالحج

 

کیمپ میں پہنچے تو حجاج نے آج کے طویل، پر مشقت لیکن کامیاب دن کے اختتام پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ شدید تھکاوٹ کے بعد فرشی بستر مزہ دینے لگے۔ اگلے دن یعنی گیارہ ذوالحج والے دن ایک ہی اہم کام انجام دینا تھا۔ یہ تینوں شیطانوں کی رمی تھی۔ اس دن ہم نے تینوں شیطانوں پر سنگ باری کرنا تھی۔ ان تینوں میں سے کم از کم ایک شیطان کچھ زیادہ ہی شیطان تھا۔ اس مار کا انتقام اس نے اس طرح لیا کہ ہمیں اپنے قافلے سے الگ کر کے راستے سے بھٹکا دیا۔ جس کی وجہ سے ہمیں بہت دقت اُٹھانی پڑی۔

گیارہ ذوالحج والے دن بعد نمازِ عصر ہمارا قافلہ رمی کے لئے روانہ ہوا۔ وہی قافلہ، وہی راستہ اور وہی علم بکف رہنما تھا۔ لیکن آج ہجوم کل کی طرح نہیں تھا۔ آج کے دن حاجی صبح سے شام کسی بھی وقت رمی کر سکتے تھے۔ اس لئے مختلف لوگ مختلف اوقات میں رمی کے لئے جا تے ہیں۔ جبکہ دس ذوالحج والے دن تقریباً سب لوگ بیک وقت وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اس لئے ہجوم ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔

جبکہ گیارہ ذوالحج والے دن کچھ لوگ صبح، کچھ دن چڑھے، کچھ دوپہر اور کچھ سہ پہر کے وقت رمی کے لئے نکلتے ہیں۔ اس کی وجہ رش تقسیم ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ رش بالکل نہیں ہوتا۔ جمرات کے ارد گر وہی عالم ویسے ہی رہتا ہے جیسا پہلے دن تھا۔ وہاں ہر وقت لاکھوں لوگ موجود ہو تے ہیں۔

آج بھی سڑکوں پر وہی عالم تھا۔ تپتی ہوئی سڑک، چلچلاتی ہوئی دھوپ، آنکھوں میں گھستا ہوا سورج، سڑکوں پر بکھری بوتلیں، علم بردار قافلے، ایک دوسرے سے بندھے ہوئے حاجی اور فضا میں اللہ اللہ کی صدائیں۔ یہ سب اللہ کے سپاہی تھے جو اللہ کے حکم پر یہاں جمع ہوئے تھے۔ اسی کے حکم کی بجا اور ی کے لئے پاپیادہ چلے جا رہے تھے۔

راستے میں ہجوم کم تھا لیکن جمرات کے قریب بہت بڑھ گیا۔ چاروں طرف سے آئے ہوئے قافلے یہاں یکجا ہو گئے۔ مختلف گروپوں کے جھنڈے آگے پیچھے ساتھ ساتھ دکھائی دینے لگے۔ آج تینوں شیطانوں کی رمی کرنا تھی۔ پہلے شیطان کی حد تک تو ہم اپنے گروپ کے ساتھ تھے۔ دوسرے شیطان کی تلاش کرتے کرتے گروپ سے کافی پیچھے رہ گئے۔ جب کہ تیسرے شیطان کی تلاش ہمیں مہنگی پڑی۔ ہمارا قافلہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔

ہم نے تینوں شیطان کو کنکریاں مار لی تھیں۔ اگلا کام اپنا قافلہ ڈھونڈنا تھا۔ جب کہ وہ انسانوں کے سمندر میں کسی طرف مڑ کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ وہاں بہت سے راستے مختلف سمتوں میں جا رہے تھے۔ ہمیں بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کون سا راستہ اختیار کریں۔ اہلیہ گھبرا گئیں اور کہنے لگیں ’’ا ب کیا ہو گا۔ ہم انہیں کیسے ڈھونڈیں گے۔ معلوم نہیں کس طرف گئے ہیں‘‘

میں نے تسلی دی ’’گھبرائیں نہیں اللہ مالک ہے۔ ہم انشاء اللہ اپنا کیمپ ڈھونڈ لیں گے۔‘‘

میں نے انہیں تسلی تو دے دی لیکن ان بھول بھلیوں سے نکلنے کاراستہ ہی نہیں مل رہا تھا۔ جس راستے سے ہم آئے تھے وہ صرف آنے والوں کے لیے مخصوص تھا۔ واپس جانے کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا تھا۔ جو ہم نے خود ڈھونڈنا تھا۔ کیونکہ وہاں صرف زائرین تھے۔ عملے کا کوئی شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہم نے کوشش جاری رکھی۔ بالآخر ایک راستے سے باہر نکل کر منیٰ کی طرف آ گئے۔ کیمپ کے مختلف حصوں میں جانے کے لیے مختلف راستے تھے۔ وہاں پر بتانے والا کوئی نہیں تھا نہ ہی کوئی نقشہ تھا۔ مجبوراً ہمیں جو راستہ دکھائی دیا اسی پر چل پڑے۔ یہ منیٰ جانے کے لیے غالباً سب سے لمبا راستہ تھا کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ آبادی بھی نظر آ رہی تھی۔ وہیں ایک مسجد میں مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ ہم نماز کے لیے اس مسجد میں چلے گئے۔ نماز کے بعد باہر نکلے تو کھمبوں پر روشنیاں جل اٹھی تھیں۔ اب موسم بھی بہتر ہو گیا تھا لہٰذا اب ہم خراماں خراماں شامیانوں کی جانب چل پڑے۔

ایک چھوٹے سے پل پر کچھ پاکستانی نوجوان بیٹھے نظر آئے۔ یہ خدام الحجاج تھے۔ ان سب کا تعلق سرائیکی علاقے سے تھا۔ میں نے ان سے اپنے کیمپ کا راستہ پوچھا تو انہوں نے کہا ’’آپ کے کیمپ کا نمبر کیا ہے؟‘‘

میں نے انہیں بتایا کہ یہ کیمپ آسڑیلیا سے آئے ہوئے حاجیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے سامنے ہی برطانیہ سے آئے ہوئے حجاج کا کیمپ ہے۔ وہ سمجھ گئے۔ ایک نے بتایا ’’آپ نے اپنے کیمپ جانے کے لیے سب سے لمبے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ بہرحال اب یہاں سے سیدھا اسی سڑک پر چلتے جائیں۔ جہاں یہ سٹرک ختم ہوتی ہے آپ کا کیمپ اس کے بالکل قریب ہے۔ وہاں جا کر کسی سے پوچھ لینا‘‘

منیٰ اور عرفات میں ایسے بہت سے خدام سے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ یہ سب انتہائی غریب گھروں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے۔ لہٰذا انگریزی تو دور کی بات ہے اُردو بھی ٹھیک سے نہیں بول سکتے تھے۔ وہ بہاولپور کے علاقے کی مخصوص زبان بولتے تھے۔ بھوک اور افلاس ان کے چہروں پر تحریر تھی۔ بھوک، بیماری اور سخت زندگی کی وجہ سے ان کے رنگ جھلسے ہوئے تھے۔ چہرے مرجھائے ہوئے اور بدن گوشت سے عاری ہڈیوں کے پنچر کی طرح نظر آتے تھے۔ حاجی دل کھول کر خدام کی مدد کرتے رہتے تھے۔ کھانا اور دوسری چیزیں بھی لا لا کر انہیں دیتے رہتے تھے۔ لیکن یہ چند لوگ تھے جو یہاں آئے تھے۔ ان کے پورے علاقے بلکہ پاکستان کے دیگرپسماندہ علاقوں کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہی غربت کا شکار تھی۔ کاش ان سب کے لیے کچھ کیا جا سکتا۔

ہم اپنے اہل وطن احباب کے مشورے پر اسی سڑک پر چلتے گئے۔ جانے سے پہلے میں نے کچھ رقم ان دوستوں میں بانٹ دی۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا اور دعائیں دیں۔ ان میں سے ایک نے پیش کش کی کہ وہ ہمیں کیمپ میں چھوڑ کر آ سکتا ہے۔ یہ غالباً ان کے آرام کا وقت تھا جسے وہ اکھٹے بیٹھ کر گزار رہے تھے۔ میں نے اس نوجوان کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا اور شکریے کے ساتھ اس کی پیش کش قبول نہیں کی۔

مختلف کیمپوں کے بیچ سے گزرتے بالآخر ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں پر سڑک ختم ہوتی تھی۔ اس وقت تک ہم سخت تھک چکے تھے۔ تقریباً تین گھنٹے سے مسلسل پیدل چل رہے تھے۔ ابھی بھی اپنے کیمپ کا علم نہیں تھا۔

وہاں جا کر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ یہ جگہ میری دیکھی ہوئی ہے۔ شاید اس جگہ میں گھومتا رہا تھا۔ لیکن ایک جیسے محرابوں والے دروازوں پر مشتمل ایک جیسے کیمپوں میں ہمارا کیمپ کون سا تھا اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ہم نے کچھ لوگوں سے دریافت کیا۔ وہ بھی لاعلم تھے۔ ایک خوبصورت باریش نوجوان سے جب میں نے پوچھا تو پہلے تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ پھر کہنے لگا ’’آپ کے کیمپ کا نمبر کیا ہے؟‘‘

یہ نوجواں رواں انگریزی میں بات کر رہا تھا۔ میں نے جب اسے بتایا کہ ہمیں کیمپ کا نمبر معلوم نہیں تو اس نے موبائل فون نکالا۔ کسی کا نمبر ملایا اور عربی میں گفتگو شروع کر دی۔ بیچ بیچ میں وہ آسٹریلیا کا ذکر کر رہا تھا۔ بالآخر اس نے فون بند کیا اور ہمیں بتایا ’’آپ کے کیمپ کا نمبر147 ہے۔ اب یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ وہ کس سمت میں واقع ہے۔ اس نے اپنے آئی فون میں سے کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اس

طرح بیس پچیس منٹ تک وہ ہماری مدد کے لیے رُکا رہا۔ اتنی دیر میں ایک پاکستانی صاحب بھی ہمارے پاس آ کر رک گئے۔ انہوں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے؟

میں نے بتایا ’’ہم رمی کرنے گئے تھے۔ وہاں اپنے قافلے سے بچھڑ گئے اور اب اپنا کیمپ نہیں مل رہا‘‘

بولے ’’یہ مسئلہ یہاں عام ہے۔ بہت لوگوں کے ساتھ ایسا ہو جاتا ہے‘‘

میں نے کہا ’’جی ہاں شیطان کو مار کر آئے ہیں۔ وہ بھی کچھ نہ کچھ تو کرے گا‘‘

وہ ہنسنے لگے ’’آپ نے اُسے زیادہ زور سے تو نہیں مارا کہ وہ انتقامی کاروائی پر اُتر آیا ہے‘‘

’’جی ہاں! نہ ہم نے کسر چھوڑی ہے اور نہ اس نے‘‘ میں نے جواب دیا

وہ صاحب بولے ’’آپ لوگوں کا کیمپ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں کینیڈا سے آیا ہوں۔ ہمارے کیمپ ایک دوسرے کے قریب ہی ہیں۔ وہ اپنے کسی ساتھی کو فون کر کے پوچھنے لگے۔ اس دوران اس باریش نوجوان نے شاید ہمارے کیمپ کا محل وقوع دریافت کر لیا تھا۔ وہ ہمیں اُردو میں باتیں کرتا دیکھ کر خاموش کھڑا تھا۔ اس نے پوچھا ’’کیا یہ صاحب آپ کو وہاں پہنچا دیں گے‘‘

میں نے کہا ’’ہاں وہ معلوم تو کر رہے ہیں‘‘

اس نوجوان نے کہا ’’تو مجھے اجازت ہے کیا؟‘‘

میں نے اس خوبصورت اور اس نیک سیرت نوجوان کا شکریہ ادا کیا۔ کسی اچھے خاندان کا ہونہار اور نیک فرزند تھا۔ دورانِ گفتگو اس نے بتایا کہ اس کا تعلق مصر سے ہے اور وہ سعودیہ میں تعلیم حاصل کرنے آیا ہوا ہے۔

ادھر کینیڈا والے صاحب پہلے تو کافی پراعتماد نظر آ رہے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کے اعتماد کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور کہنے لگے ’’سوری پتا نہیں چل رہا کہ آپ کا کیمپ کس سمت میں ہے۔ مجھے اجازت دیں میری بیوی انتظار کر رہی ہو گی‘‘

ہم نے پھر گھومنا شروع کر دیا کہ شاید خود ہی ہمارا کیمپ نظر آ جائے۔ کیمپ تو نظر نہیں آیا لیکن انفارمیشن سنٹر (معلومات کا مرکز) کا سائن نظر آ گیا۔ ہم نے اسے غیبی مدد سمجھا اور اور سائن کی مدد سے کچھ دفاتر پر مشتمل کیبن کے سامنے پہنچ گئے۔ انفارمشن سنٹر میں پہلے ہی درجنوں لوگ موجود تھے جنہیں ہماری طرح اپنا کیمپ نہیں مل رہا تھا۔ خوش قسمتی سے ایسے شخص سے بات کرنے کا موقع ملا جسے انگریزی سمجھ آتی تھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کا رویہ بھی دوستانہ تھا۔ اس نے ہمارے گلے میں لٹکے شناختی کارڈ کی مدد سے آسانی سے ہمارا کیمپ معلوم کر لیا اور ہمیں وہاں چھوڑ کر آیا۔

اس دفتر سے ہمارا کیمپ پانچ سات منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔ لیکن ایک جیسی گلیوں اور ایک جیسے شامیانوں کی وجہ سے اس کا تعین نہیں ہو رہا۔ خیر اب تو ہم نے کیمپ کا نقشہ بھی حاصل کر لیا تھا لیکن آئندہ اس کی ضرورت نہیں پڑی۔ ہم اپنے کیمپ میں پہنچے تو عشاء کی نماز ہو چکی تھی اور رات کا کھانا بھی کھایا جا چکا تھا۔ میرے ساتھیوں کو میری فکر ہو رہی تھی۔ انہوں نے ہمارا کھانا لے کر رکھا ہوا تھا۔ ایک ساتھی نے کہا ’’کس نے کہا تھا شیطان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارو۔ وہ بھی تو جوابی وار کرے گا‘‘

دوسرا بولا ’’شیطان ان تین دنوں میں اتنا پٹتا ہے لیکن باز پھر بھی نہیں آتا‘‘

ایک اور صاحب بولے ’’شیطان کو اللہ نے کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ وہ انسان پر کہیں اور کوئی بھی وار کر سکتا ہے۔ اس لیے اس سے بچ کر رہنا چاہیے۔ جس دن شیطان بند ہو جائے گا اس دنیا بھی ختم ہو جائے گی۔ وہ قیامت تک انسان کا امتحان لیتا رہے گا‘‘

دیر تک ایسی ہی ہلکی پھلکی باتیں ہوتی رہیں۔

میں نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے آج11ذوالحج کے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ وہ اگر نہ چاہے تو انسان ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اے اللہ تو کتنا رحمن اور کتنا رحیم ہے۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

 

12 ذوالحج

 

ہمارے گروپ کے معلمین کے مطابق 12 ذوالحج والے دن رمی کرنا تھی اور بس۔ ان کے مطابق اس دن اور کوئی قابل ذکر کام نہیں تھا۔ لیکن حاجیوں کے درمیان ایک بحث چل رہی تھی۔ در اصل ہماری انتظامیہ مصری اور لبنانی عربوں پر مشتمل تھی جو امام شافعی رحمۃ اللہ کی پیروی کرتے ہیں۔ جبکہ ہم پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش والوں کی اکثریت امام ابو حنیفہؒ کی مقلد تھی۔ یوں تو ان اماموں کی فقہ میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے۔ نہ ہی دوران حج ہمیں کوئی مسئلہ پیش آیا۔ لیکن اب ایک مسئلہ سامنے آ گیا تھا۔

امام ابو حنیفہؒ کے مطابق قربانی کرنے، احرام اتارنے اور بال کٹوانے کے بعد 12 ذوالحج تک طوافِ زیارت کرنا ضروری ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک بھی یہ طواف زیارت لازمی ہے لیکن انہوں نے اس میں 12 ذوالحج تک کی پابندی نہیں رکھی تھی۔ امام شافعیؒ کے مطابق یہ طواف 13 ذوالحج یا اس کے بعد کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے گروپ کے منتظمین نے ہمیں طواف پر لے جانے کا انتظام نہیں کیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ 13ذوالحج کے بعد جب منیٰ کا قیام ختم ہو جائے گا اور ہم مکہ واپس جائیں گے تو یہ طواف کیا جا سکتا ہے۔ امام شافعیؒ کے مطابق یہ درست تھا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے حاجیوں میں سے کچھ 10 ذوالحج اور کچھ 11 ذوالحج والے دن اپنے طور پر جا کر یہ طواف کر آئے تھے۔ تاہم حاجیوں کی اکثریت ابھی تک یہ طواف نہیں کر سکی تھی جن میں ہم بھی شامل تھے۔

مجھے اطمینان نہیں تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ جس امام کی ہم پیروی کرتے ہیں یہاں بھی انہی کی تشریحِ فقہ کی پابندی کرتے ہوئے 12ذوالحج تک طوافِ زیارت کر لینا چاہیے۔ اس طواف سے پہلے جمرات کی رمی کرنا ضروری تھی۔ پھر وہاں سے مکہ مکرمہ جا کر طواف کرنا اور رات کو منیٰ کیمپ میں واپس آنا خاصا مشکل کام تھا۔ اس رات منیٰ میں قیام ضروری نہیں تھا۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کر لیا 12ذوالحج کی صبح ہم منیٰ سے روانہ ہو جائیں گے۔ پہلے رمی اور پھر طواف کے لیے جائیں گے اور وہاں سے رات عزیزیہ میں واقع اپنے ہوٹل واپس آئیں گے۔ یہ سب کچھ ہم نے بغیر کسی رہنمائی یا مدد کے اکیلے کرنا تھا۔

یہ فیصلہ کرنے میں پاکستان میں میرے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا نے بھی مدد کی۔ میرا یہ بھائی الحمد للہ نماز روزے بلکہ شریعت کا پابند اور دینی علوم سے بخوبی واقف ہے۔ وہ اللہ کے فضل سے دو حج بھی کر چکا ہے۔ ایک حج اس نے اپنا کیا تھا اور دوسرا ہماری والدہ صاحبہ کے لیے حجِ بدل کیا تھا۔ اس نے بذریعہ فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے حج کی تمام شرائط اور تفصیل بتائیں اور 12ذوالحج تک حجِ زیارت کرنے کی تلقین کی۔ کہنے لگا ’’بھائی جان آپ کسی بحث میں پڑے بغیر حج کی یہ آخری شرط یعنی طواف زیارت12ذوالحج تک پوری کر لیں تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے‘‘

میری اہلیہ نے بھی اس کی تائید کی۔ ہم نے 12 ذوالحج والی صبح منیٰ سے رخصت ہونے کا پروگرام بنا لیا۔

صبح ناشتے کے بعد ہم نے اپنا مختصر سامان اٹھایا اور پیدل ہی منیٰ کیمپ سے باہر نکل کر نزدیکی شاہراہ تک جا پہنچے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بس آئی جس کا کنڈکٹر عزیزیہ عزیزیہ کی آوازیں لگا رہا تھا۔ ہم بسم اللہ پڑھ کر اس میں سوار ہو گئے۔ میں نے کنڈیکٹر اور ڈرائیور کو بتا دیا کہ ہمیں عزیزیہ میں اتار دیناکیونکہ ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔ لیکن ان دونوں نے ہمیں خبر نہیں دی اور بس عزیزیہ سے آگے آخری سٹاپ تک پہنچ گئی۔ وہاں جا کر ڈرائیور نے جو اردو بولتا تھا ہمیں بتایا ’’عزیزیہ تو پیچھے رہ گیا ہے لیکن زیادہ دور نہیں ہے‘‘

مجبوراً ہم نے ٹیکسی روکی اور اسے ہوٹل کا نام بتایا۔ ڈرائیور خاصا ہوشیار تھا۔ کہنے لگا ’’مجھے معلوم ہے آپ کا ہوٹل کہاں ہے‘‘

میں نے پوچھا ’’کرایہ کتنا ہو گا؟‘‘

کہنے لگا ’’سو ریال‘‘

یہ ٹیکسی بھی پرائیویٹ کار تھی۔ جس میں کوئی میٹر، کرایہ نامہ، ڈرائیور کا اتا پتا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک کر پوچھا تو ہمیں علم ہوا کہ یہ کرائے کے لیے دستیاب ہے۔ ان کاروں کے ڈرائیور جو کرایہ طلب کرتے ہیں وہ اس طرح ہوتا ہے کہ انہیں چینچ نہ دینا پڑے۔ مثلاًچارسو ریال، تین سو ریال، دو سو ریال یا سو ریال۔ مسافر بھی کرایہ کم کرانے کے لیے جو رقم آفر کرتے ہیں وہ بھی سو یا پچاس میں تقسیم ہونے والی ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ڈرائیور چار سو ریال طلب کرے تو مسافر کہے گا ’’دو سو لو گے؟‘‘

اب یہاں طلب اور رسد والا معاملہ آ جاتا ہے۔ اگر وہاں مزید سواریاں موجود ہوں تو ڈرائیور قبول نہیں کرے گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ کرایہ کم کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ ہمارا ڈرائیور پچاس ریال میں تیار ہو گیا۔ کیونکہ وہاں ہمارے علاوہ دوسری کوئی سواری نہیں تھی۔ صرف پانچ منٹ میں اس نے ہمیں ہوٹل کے سامنے اتار دیا۔ اگر ہمیں راستوں کا علم ہوتا تو دس پندرہ منٹوں میں پیدل ہی وہاں پہنچ جاتے۔

ہم اپنے کمرے میں گئے جو خالی پڑے ہوئے تھے۔ نہا دھو کر لباس تبدیل کیا۔ نیچے لابی میں آ کر چائے بنائی اور ہوٹل کے سامنے والی پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ اس پہاڑی کے اوپر لاری اڈہ بنا ہوا تھا۔ جہاں سے وقفے وقفے سے ایک بس جمرات کی جانب جاتی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں بس آ گئی۔ بس میں کھڑے ہونے کی جگہ ملی۔ اس بس نے صرف دس منٹ میں ہمیں جمرات کے بہت قریب پہنچا دیا۔ وہاں سے تقریباً پندرہ منٹ کی مسافت پر جمرات واقع تھا۔ اس طرح ہم بہت کم وقت میں اور آسانی سے وہاں پہنچ گئے۔

یہی وجہ تھی کہ ہم منیٰ سے براہ راست جمرات نہیں گئے تھے۔ منیٰ سے جمرات کا فاصلہ زیادہ تھا اور ہمارے ہوٹل سے کم تھا۔ ہم حیران تھے کہ 10 ذوالحج والے دن ہمارا رہنما ہمیں کہاں کہاں گھما کر ہوٹل لے کر گیا۔ جس میں پورے دو گھنٹے لگ گئے تھے۔ جب کہ جس راستے سے

ابھی ہم جمرات گئے تھے وہاں سے یہ فاصلہ آدھے گھنٹے سے زائد کا نہیں تھا۔ آج تو ہمیں بس سے بھی مدد ملی تھی۔ لیکن اگر بس نہ بھی ہوتی تو

یہ راستہ اتنا طویل نہیں تھا۔

آج شیطان سے دو دو ہاتھ کرنے کا آخری موقع تھا۔ لہٰذا ہم نے خوب بھڑاس نکالی۔ لیکن وہ بھی شیطان تھا۔

ایسے مسکراتا رہا جیسے کہہ رہا ہو کچھ بھی کر لو ہوں تو میں تمہارا ہی ہمزاد۔

مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے۔

میں سوچتا ہوں اور تم عمل کرتے ہو۔

تم تو میرا دست و بازو ہو۔

میرا مشن تو تم ہی مکمل کرتے ہو۔

مجھے کہیں جانے کی بھی ضرورت نہیں مجھے تم اپنے اندر چھپا کر رکھتے ہو۔

اوپر سے پارسا بنے پھرتے ہو اور اپنے من میں مجھے پناہ دے رکھی ہے۔

مجھ سے دوستی کر رکھی ہے۔

تم ساری زندگی میری ہی تو سنتے رہے۔

گھر، باہر، کام کے دوران، محفل میں، تنہائی میں، حتیٰ کہ عبادت کا ڈھونگ رچاتے وقت بھی تمہارے اندر میں ناچتا پھرتا تھا۔

تم نماز کی نیت کرتے ہو لیکن سوچتے مجھے ہو۔

نام اللہ کا لیتے ہو لیکن تصور میرا ہوتا ہے۔

ارے مجھے کیوں مارتے ہو۔

مارنا ہے تو خود کو مارو۔

سنگسار کرنا ہے تو خود کو کرو۔

اتنا نقصان میں نے تمہیں نہیں پہنچایا جتنا تم نے خود کو پہنچایا ہے۔

ارے تم ان شیطانوں کو چھوٹا اور بڑا کہتے ہو۔

سب سے بڑا شیطان تمہارا نفس ہے۔

جس کے تم غلام ہو۔

غلام اپنے آقا کا حکم مانتے ہیں۔

اس کی پیروی کرتے ہیں۔

اسے پتھر نہیں مارتے۔

جاؤ جاؤ یہاں سے چلے جاؤ۔

اور میں وہاں سے چلا آیا۔

جمرات سے ہم سیدھا مکہ جا رہے تھے۔ لہٰذا مکہ کے سائن کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کے ریلے میں شامل ہو گئے۔ جمرات سے بہت سی سڑکیں مختلف سمتوں میں نکلتی ہیں۔ مکہ کی طرف جانے والی شاہراہیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس دفعہ ہمیں راہ میں کوئی بس نظر نہیں آئی لہٰذا پیدل ہی چلتے رہے۔ یہ شاہراہیں آگے جا کر سمٹتی اور شاخوں میں تقسیم ہوتی جا رہی تھیں۔ ہم سڑکوں پر لگے سائن بورڈ کو دیکھتے ہوئے بالآخر ایک ایسی سڑک پر پہنچ گئے جس پر بسیں ٹیکسیاں کاریں اور دوسری گاڑیاں ایک ہی سمت میں چلی جا رہی تھی۔ یہ وہ سمت تھی جس کی جانب رخ کر کے ہر مومن نماز ادا کرتا ہے۔ ان گاڑیوں کی منزل وہی تھی جو دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کا مرکز و محور ہے۔ ہم بھی ایک بس میں سوار ہو گئے۔ کنڈکٹر نے بیس ریال فی کس کے حساب سے چالیس ریال لئے اور ہمیں بس کے آخری حصے میں ایک سیٹ پر بٹھا دیا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس کی سیٹ کی پشت پیچھے کی طرف جھک گئی۔ میں نے اسے کھینچ کر سیدھا کیا۔ ٹیک لگا کر بیٹھا تو وہ پھر کسی سے راز و نیاز کرنے پیچھے کی طرف جھک گئی۔ میں نے جان لیا کہ اس میں کوئی خرابی ہے۔ میں اس پر ٹیک لگا کر نہیں بیٹھ سکتا۔ ورنہ پیچھے بیٹھے تینوں مسافروں کو تکلیف ہو گی۔ لہٰذا میں اگلی سیٹ پر سر ٹکا کر سو گیا۔ آدھ پون گھنٹے بعد آنکھ کھلی تو بس ابھی وہیں کھڑی تھی۔ اہلیہ نے بتایا سڑک پر ٹریفک اتنی زیادہ ہے کہ گاڑیاں اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں رہیں۔ مجھے فکر ہوئی۔ اگر یہی حال رہا تو ہم شام تک خانہ کعبہ نہیں پہنچ پائیں گے۔ میں نے سوچا ہمیں ٹیکسی لینی چاہیے شاید وہ ہمیں جلدی پہنچا دے۔ میں نے کنڈکٹر کو بلوایا اور کرایہ واپس کرنے کے لیے کہا کہنے لگا ’’کیا مسئلہ ہے کیوں اترنا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا ’’جس رفتار سے آپ لوگ چل رہے ہیں اس طرح تو ہم بہت لیٹ ہو جائیں گے۔ ہم ٹیکسی لینا چاہتے

ہیں‘‘

اس نے باہر اشارہ کیا اور کہا ’’ٹیکسی بھی اسی رفتار سے جائے گی۔ پورے مکہ میں ٹریفک کی یہی حالت ہے‘‘

میں نے کہا ’’آپ کرایہ واپس کر دیں ہم کوئی بندوبست کر لیں گے‘‘

در اصل بس بالکل رکی ہوئی تھی۔ اس کا ایئر کنڈیشنر بھی صحیح کام نہیں کر رہا تھا اور سخت گرمی تھی۔ اس گرمی میں نہ جانے کتنے گھنٹے یوں گزارنے مشکل تھے۔ مجھے امید تھی کہ ٹیکسی والا شاید کوئی بہتر راستہ ڈھونڈ کر ہمیں جلدی پہنچا دے۔ بس کا کنڈکٹر غصے میں چلانے لگا ’’نہیں نہیں! کرایہ واپس نہیں ملے گا۔ اُترنا ہے تو اُتر جائیں۔ میں کرایہ واپس نہیں کروں گا‘‘

میں کھڑا ہو گیا لیکن اہلیہ نے ہاتھ تھام کر کہا ’’صبر کریں اور بیٹھے رہیں۔ اللہ بہتر کرے گا‘‘

دوران حج جب بھی گروپ کی سطح پر، حکومتی یا انفرادی سطح پر کوئی بد انتظامی یا مسئلہ سامنے آتا تو حاجیوں کو ایک ہی بات کہی جاتی ہے۔ ’’صبر کریں‘‘

یہ لفظ کبھی انتظامیہ کہتی ہے اور کبھی ہم ایک دوسرے سیکہتے ہیں۔ لہٰذا اس سفر میں ہر بد انتظامی اور ہر بد اخلاقی کے جواب میں صبر کرنا ہم اچھی طرح سیکھ گئے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

اس وقت دن کے دو بجے تھے جب ہم بس میں سوار ہوئے۔ تین بجے تک بس وہیں کھڑی ہوئی تھی۔ بس اس کا انجن غرا رہا تھا۔ دھواں اگل کر ماحول کو مزید کثیف بنا رہا تھا۔ اس کے اندر بھی گرمی اور ڈیزل کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ بس میں مختلف ملکوں سے آئے ہوئے زائرین صبر سے بیٹھے راستہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔

میرے پیچھے والی سیٹ پر سوڈان سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام زائرین بیٹھے ہوئے تھے۔ خاتون نے تو حسب رواج برقعہ پہنا ہوا تھا۔ دونوں مرد سفید لباس کے اوپر بڑی بڑی سفید پگڑیوں میں پنجاب کے زمیندار لگ رہے تھے۔ میں نے بے خیالی میں اپنی سیٹ کی پشت پر وزن ڈالا تو وہ پیچھے کی طرف جھک گئی۔ بڑی پگڑی والے صاحب گرم ہو گئے اور سیٹ کو دھکے دینے لگے۔ وہ عربی میں کچھ کہہ رہے تھے جو میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تاہم یہ ظاہر تھا کہ وہ میری سیٹ سے ناخوش تھے۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے سیٹ کو سیدھا کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد سیٹ پھر پیچھے کی طرف جھک کر پگڑی والے صاحب کے غضب کو آواز دینے لگی۔ اس دفعہ وہ کھڑے ہو کر زور زور سے چلانے لگے۔ کنڈکٹر آیا تو میں نے اسے بتایا ’’یہ سیٹ خراب ہے۔ بار بار پیچھے کی جانب لڑھک جاتی ہے‘‘

اس نے پگڑی والے صاحب کو عربی میں سمجھایا تو وہ ٹھنڈے ہوئے۔

ان کے ساتھ برقع میں ملبوس خاتون انہیں کچھ سمجھا رہی تھی۔ جس میں صبر، شکر، اللہ اور اجر کے الفاظ شامل تھے۔ اس خاتون کے سمجھانے سے یا ان کو یاد آ گیا کہ وہ حج کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ وہ آگے جھکے اور مجھ سے معافی مانگنے لگے۔ انہیں اپنے رویے پر پشیمانی تھی۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا اور پھر میری سیٹ کھینچ کر خود پیچھے کی اور کہنے لگے ’’النوم! النوم! یعنی سو جاؤ۔ سو جاؤ۔‘‘

وہ بار بار معافی مانگ رہے تھے اور میرا ہاتھ چوم رہے تھے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ میں ان سے ناراض نہیں ہوں۔ اس لیے پریشان نہ ہوں۔ لیکن وہ بار بار پشیمانی کا اظہار کرتے رہے اور معافیاں مانگتے رہے۔ حتیٰ کہ میں اپنی سیٹ سے اٹھا۔ انہیں بھی اٹھایا اور گلے لگایا تو پھر جا کر ان کی تسلی ہوئی۔ ہم دونوں کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔

یہ اس شہر کا کمال تھا۔ اس شہر میں بنے اللہ کے گھر کا فیض تھا۔ اس گھر میں حاضری کا سرور تھا کہ لوگ پگھلے جا تے تھے۔ ہر طرف نرمی، محبت، بھائی چارے اور جذبہ قربانی کا راج تھا۔ اگر کسی بات پر غصہ آتا بھی تھا تو رب کی قربت کا،اس کے گھر کا خیال آتا تو یہ غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا تھا۔

میرے مقابل والی سیٹ پر شلوار قمیص میں ملبوس ایک افغانی بزرگ تنہا سفر کر رہے تھے۔ یہ عمر رسید بزرگ بہت تھکے ہوئے اور گرمی سے بے حال لگ رہے تھے۔ میں نے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی تو انہوں نے آب کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں نے وہ بوتل انہیں تھما دی۔ ہمارے پاس ایک چھوٹی بوتل رہ گئی تھی جس سے ہم نے اگلے چار گھنٹے گزارے۔ اس بزرگ سے اگلی سیٹ پر ایک سعودی نوجوان اپنی اہلیہ سمیت سفر کر رہا تھا۔ ایک جگہ پر جب ہماری بس ٹریفک میں رکی ہوئی تھی تو وہ بھاگ کر گیا اور سامنے والی دُکان سے ایک اور نج جوس کا ڈبہ اور ایک پانی کی بوتل لے کر آیا۔ بابا جی نے اس کی طرف بھی ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نوجوان نے جوس کا ڈبہ بابا جی کو دے دیا اور پانی کی بوتل اہلیہ کو۔ بابا جی نے مزید دو مسافروں سے بھی پانی لے کر پیا۔ وہ پوچھتے نہیں تھے بلکہ آب کہہ کر ہاتھ آگے بڑھا دیتے تھے جس کا جواب سب نے مثبت انداز میں دیا اور اپنے حصے کا پانی بابا جی کو دے دیا۔

لوگوں کا جذبۂ اخوت اور جذبۂ قربانی تازہ تھا۔ وہ بخوشی اپنے حصے کا کھانا اور اپنے حصے کا پانی دوسروں کو دے دیتے تھے۔ دوسری طرف بابا جی کی پیاس تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ لگتا تھا کڑھائی گوشت کھا کر بس میں بیٹھے ہیں۔ میں نے آنکھیں موندی ہوئی تھیں کبھی آنکھ لگ جاتی کبھی کھل جاتی۔ یہ جگہ سونے کے قابل نہیں تھی۔ لیکن نیند تو ہر جگہ آ جاتی ہے۔ میری اہلیہ ایسی جگہوں پر بالکل نہیں سو سکتی۔ لہٰذا اس کا سفر ہمیشہ سخت اور دشوارہوتا ہے۔ اس بس میں اس کی طبیعت کافی خراب تھی۔ وہ تو شکر ہے گرمی رش اور بدبو کے باوجود اسے قے نہیں آئی۔ ورنہ معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتا۔

خدا خدا کر کے ہم چھ بجے کے قریب خانہ کعبہ کے قریب پہنچ گئے۔ جہاں ہمیں اتارا گیا وہاں سے خانہ کعبہ نظر نہیں آتا تھا۔ کافی دیر چلنے کے بعد وہ سیاہ پوش گھر ہمارے سامنے آ گیا جو ہماری منزل تھی۔ اس گھر کے لیے ہم نے طویل سفر کیا تھا۔ یہاں آنے کے لیے لمبا انتظار کیا تھا۔ اس گھر کو دیکھنے کی خواہش ہماری سب سے بڑی خواہش تھی۔ اس گھر میں اتنی کشش ہے کہ یہ آنکھوں میں کھب جاتا ہے۔ اس پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم آج دوسری دفعہ یہاں آئے تو یوں لگا کہ صدیوں سے یہیں تھے۔ یہ گھر ہمارے دلوں میں بسا ہوا تھا۔ آج ہمارا دل اور ہماری آنکھیں ایک ہی منظر پر مرکوز تھے۔ آج ہم اس کا طواف کر رہے تھے۔ اس کے دیدار اور اس کے قرب سے جسم و جاں کو معطر کر رہے تھے۔

ہم نہ جانے کون سے گیٹ سے اندر داخل ہوئے کہ تیسری منزل والے مطاف پر پہنچ گئے۔ اُوپر سے نیچے کا منظر دیکھا تو وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ شاید اسی وجہ سے ہمیں نیچے کئی گیٹ بند ملے تھے اور ہمیں اوپر کا راستہ دکھایا گیا تھا۔ درمیان والی منزل پر صرف ویل چیئرز والے زائرین طواف کرتے ہیں۔ سب سے اوپر والے مطاف کا فاصلہ سب سے طویل ہے۔ اگرچہ یہاں رش قدرے کم تھا لیکن یہاں ایک چکر میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ یوں طواف ختم کرنے کے لیے تقریباً تین گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ ہم نے وضو کر کے عصر کی نماز ادا کی اور اللہ کا نام لے کر طواف شروع کر دیا۔ اس اوپر والی منزل میں طواف میں یہ آسانی تھی کہ اس کے اوپر چھت ہے اور براہِ راست دھوپ نہیں پڑتی تھی۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ یہاں رش قابل برداشت تھا۔ اگر ہم لوگوں کے ریلے سے ہٹ کر چلتے تو اپنی رفتار سے چل سکتے تھے۔ اتنی دھکم پیل بھی نہیں تھی۔ علاوہ ازیں ایک دوسرے سے بچھڑنے کا بھی خطرہ نہیں تھا۔ بس یہاں ایک ہی مسئلہ تھا کہ اس کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔

ہم نے حجر اسود کے سامنے جا کر اپنا طواف شروع کیا۔ واپس وہاں آنے تک آدھا گھنٹہ لگ گیا تھا۔

میں طواف کے دوران دعائیں مانگتا رہا۔ جتنا قرآن پاک یاد تھا پڑھتا رہا۔ جب عربی میں یاد کی ہوئی ساری دُعائیں اور سورتیں کئی دفعہ پڑھ لیں تو پھر اُردو میں دُعا مانگنی شروع کر دی۔ اس دُعا کا بہت مزا آیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ براہ راست اللہ سے رابطہ قائم ہے۔ وہ دیکھ اور سن رہا ہے۔ میں نے اس کے گھر پر نظریں جمائی ہوئی تھیں۔ اس گھر کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ اس گھر کے مکین سے براہ راست ہم کلام تھا۔ وہ مجھے

سن رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔ یہ مسکراہٹ مجھے دکھائی دینے لگی۔ جدھر دیکھتا تھا یہ مسکراہٹ مجھے نظر آتی تھی۔ زمین سے آسمان تک مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھی۔ میں نے جی بھر کر تسلی سے خانہ کعبہ دیکھا۔ اس کے مکین سے جی بھر کر باتیں ہوئیں۔ میں نے اپنا حالِ دل صاف صاف بیان کر دیا۔

من کے اندر پھیلی کالک دھونے آیا ہوں

تیرے گھر کے اندر تیرا ہونے آیا ہوں

نیکی کہاں میرے پاس میزان میں رکھنے کو

میں تو آنسو اور فریادیں ڈھونے آیا ہوں

طواف کے دوران ہم نے بوتلوں میں آب زم زم بھر لیا بلکہ بار بار بھرتے رہے اور پیتے رہے۔ حرم شریف میں آبِ زمزم جگہ جگہ پر با آسانی دستیاب ہے۔ یہ آب زم زم طاقت، توانائی اور تازگی جیسے عطا کرتا ہے۔ جتنا جی چاہے پیتے جائیں۔ نہ صرف یہ آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے بلکہ جو کچھ کھایا پیا ہو اُسے بھی ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ گرمی کا زور کم کر دیتا ہے۔ انسان کے اندر ویسے ہی انرجی آ جاتی ہے جو کافی یا انرجی ڈرنک پینے سے آتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کافی یا انرجی ڈرنک ایک خاص مقدار سے زائد پی لیں تو موت کا سامان بن سکتے ہیں جب کہ آبِ زمزم جتنا پی لو یہ صرف شفا دیتا ہے۔ اسے پینے سے ذہنی جسمانی اور روحانی بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس سدا بہار معجزے پر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔

ہم ہرچکر کے بعد حجر اسود کے اوپر جلتی ہوئی روشنی کے سامنے رُکتے۔ دونوں ہاتھ بلند کر کے اللہ اکبر کہتے اور نیا چکر شروع کر دیتے۔ ابھی صرف چار چکر ہی مکمل ہوئے تھے کہ مغرب کی اذان ہو گئی۔ نماز شروع ہوئی تو طواف کرنے والے جہاں موجود تھے وہیں قبلہ رخ ہو گئے۔ سب کا رخ مطاف کے مرکز میں واقع خانہ کعبہ کی طرف ہو گیا۔ یہ بھی عجیب منظر تھا۔ ساری زندگی نمازیوں کو ایک رخ کر کے نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ سمت ظاہر ہے خانہ کعبہ کی ہوتی تھی۔ اب جب کہ ہم خانہ کعبہ کے چاروں طرف کھڑے تھے تو نمازیوں کا رخ ایک طرف نہیں بلکہ چاروں طرف تھا۔ جو شمال کی طرف تھے ان کا رخ جنوب کی طرف تھا۔ اسی طرح مغرب اور جنوب والوں کا رخ مخالف سمت کی طرف تھا۔ چاروں طرف کھڑے نمازیوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف تھا۔ جو بالکل انوکھا منظر تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ خانہ کعبہ ان سب کے درمیان اور مرکز میں موجود تھا۔ زمین پر اللہ کایہ پہلا گھر جو دنیا بھر کے مسلمانوں کا محور و مرکز ہے وہ جدید تحقیق کے مطابق کرّہِ ارض کا بھی مرکز ہے۔

مسلمان جہاں بھی نماز ادا کرتا ہے پہلے یہ یقین کرتا ہے کہ اس کا رخ اللہ کے اس گھر کی طرف ہے۔ اس کے لیے وہ پرانے زمانے کے آزمودہ طریقوں سے لے کر آج کے جدید قطب نماجو موبائل فونوں میں بھی موجود ہیں استعمال کرتا ہے۔ اسے جب تک یہ تسلی نہیں ہو جاتی کہ وہ قبلہ رو ہے وہ نماز شروع نہیں کرتا۔ جنگل ہو یا پہاڑ، خشکی ہو یا سمندر، گھر پر ہو یا باہر، عمارت ہو یا میدان، مسلمان ہر جگہ اللہ کے اس گھر کا رخ کر کے ہی رکوع و سجود کرتا ہے۔ یہ اللہ کے اس گھر کی فضیلت ہے۔ فضیلت والا یہ گھر ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ ہمارے سجدوں اور رکوع کا خود گواہ تھا۔ نماز کا یہ مزا کہیں اور نہیں آئے گا۔ اس نماز اور ان سجدوں کا ذائقہ اور تسکین ہی الگ تھی۔ قیام، رکوع، سجود، درود، سلام، ان سب کا یہاں الگ ہی مزا تھا۔ سجدے میں جاؤ تو سر اٹھانے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ خانہ کعبہ نظروں کے سامنے ہو تو ایسے سجدے پر تو ہزاروں سجدے قربان کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی سجدہ تھا جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کی تسکین اور اس کا مزا آج تک میرے دل و دماغ میں نقش ہے۔ ویسے تو خانہ کعبہ میں پڑھی ہوئی ساری نمازیں، تلاوت قرآں، رکوع و سجود، اذان کی آواز اور وہاں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ میری زندگی کے حسین ترین لمحات میں سے ہیں۔ یہ لمحات میرا اثاثہ ہیں۔ ان لمحات نے میری زندگی میں رنگ اور خوشبو بھر دی ہے۔ یہ رنگ اور یہ خوشبو میری آخرت کا بھی توشہ ہے اور میری دنیا بھی اسی سے رنگین ہے۔

سات چکر مکمل ہوئے تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ بیٹھ کر تسلی سے آب زمزم پیا تو اس وقت محسوس ہوا کہ ہماری ٹانگیں ٹخنوں کے اُوپر سے سوج چکی ہیں۔ اُن میں درد بھی ہو رہا تھا۔ یہ اللہ کے گھر کی برکت تھی، احساس فرض تھا یا ماحول کا اثر تھا کہ اس درد کی وجہ سے ہمارا طواف متاثر نہیں ہوا۔ یہ طواف مکمل ہونے میں تین گھنٹے لگ گئے تھے۔ ان تین گھنٹوں میں ہماری رفتار کم نہیں ہوئی۔ بلکہ اللہ کے فضل سے ایک ہی رفتار سے چلتے رہے۔ اس سے پہلے صبح جمرات سے عزیزیہ تک بھی پیدل چل کر آئے تھے۔ تین چار گھنٹے بس کے دھکے کھائے تھے۔ اس بھاگ دوڑ سے تھک کر چور ہو چکے تھے۔ دل یہ چاہتا تھا کہ وہیں کہیں پڑھ کر سو جائیں لیکن ابھی سفر باقی تھا۔ ابھی ہم نے سعی کرنا تھی۔ اس کے بعد عزیزیہ واپس جانا تھا۔

لہذا ہم بلا توقف صفا اور مروہ کی طرف چل پڑے۔ اب ہماری رفتار پہلے سے بھی بڑھ چکی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ ہمارے جسم میں نئی توانائی آ گئی ہے۔ پتا ہی نہیں چلا اور ہم نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر مکمل کر لئے۔ اس کے لئے ہم ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل چلے تھے۔ آج ہم مجموعی طور پر سات آٹھ گھنٹے سے کم نہیں چلے تھے۔

سعی کے بعد باہر نکلے تو یاد آیا صبح سویرے ہلکے پھلکے ناشتے کے بعد سارا دن ہم نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ اس دوران صرف پانی سے ہی کام چلتا رہا۔ اس بھاگ دوڑ میں کھانے کا وقت ہی نہیں ملا۔ اب اللہ کے فضل سے حج کی آخری شرط بھی پوری ہو گئی تھی۔ اگرچہ ہم بہت زیادہ تھک چکے تھے۔ لیکن ایک احساس طمانیت اور احساس مسرت تھا کہ ہمارا حج پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔

اس احساس طمانیت کے ساتھ ہی بھوک بھی جاگ اٹھی تھی۔ جب ہم خانہ کعبہ کی حدود سے باہر نکلے تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ اکثر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ چند ایک کھلی ہوئی تھیں۔ میں کوئی ریستوران یا پاکستانی تنور ڈھونڈ رہا تھا۔ ترجیح یہ تھی کہ کوئی ایسا ریستوران مل جائے جس کے اندر بیٹھ کر کھانا کھانے کی جگہ ہو۔ دوسری طرف عزیزیہ جانے کی بھی فکر تھی۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ عزیزیہ یہاں سے کتنا دور ہے اور رات کے اس وقت وہاں جانے کے لیے کس قسم کی ٹرانسپورٹ دستیاب ہے۔ یکدم مجھے خیال آیا کہ سعودی کرنسی بھی ہمارے پاس ختم ہو چکی ہے۔ اس کے بغیر نہ ہم کھانا خرید سکتے تھے اور نہ ٹیکسی لے سکتے تھے۔ لہٰذا منی ایکس چینج والے کی تلاش میں چل پڑے۔ دو دفاتر نظر آئے جو بند ہو چکے تھے۔ خوش قسمتی سے ایک دفتر کھلا ہوا مل گیا۔ حسب معمول وہاں بہت ہجوم تھا لیکن اب ہم عادی ہو چکے تھے۔ وہاں سے میں نے آسٹریلین ڈالرز کو سعودی ریالوں میں تبدیل کرایا۔ اس دوران ہم نے کئی ریستوران بھی دیکھے لیکن وہ پسند نہیں آئے۔ ہم

بہتر ریستوران کی تلاش میں آگے سے آگے چلتے گئے۔ ایسا ریستوران تو نظر نہیں آیا لیکن ہم بازار سے باہر بڑی سڑک پر ضرور پہنچ گئے۔ اہلیہ اتنی تھکی ہوئی تھی کہ اس نے کھانے سے ہی معذوری ظاہر کر دی۔ اسے اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا۔

مجبوراً میں نے ریستوران کے بجائے ٹیکسی کی تلاش شروع کر دی۔ دو ٹیکسی ڈرائیوروں سے پوچھا۔ ایک نے چار سوریال اور دوسرے نے تین سو ریال مانگے۔ ظاہر ہے یہ کھلی لوٹ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں بہت سے لوگ ٹیکسی کو تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ بالآخر ایک کار ڈرائیور نے عزیزیہ کی آواز لگائی۔ میں اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ کار میں دو سواریاں پہلے سے موجود ہیں۔ اسے دو مزید سواریاں درکار تھیں۔ اس نے سو ریال فی سواری کے حساب سے دو سو ریال طلب کیے تو ہم اس ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔

چلنے سے پہلے میں نے ڈرائیور کو ہوٹل کا نام بتایا اور کہا کہ ہمیں ہوٹل کے آگے اُتارنا ہے کیونکہ ہم اس علاقے سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ یہ عربی ڈرائیور اُردو جانتا تھا۔ کہنے لگا ’’آپ فکر نہ کریں میں آپ کو وہیں اتاروں گا‘‘

صبح بس سے مکہ جاتے ہوئے ہمیں چار گھنٹے لگ گئے تھے۔ اس لیے ہمیں غلط فہمی تھی کہ عزیزیہ سے مکہ کافی دور ہے۔ رات کے وقت ٹریفک بہت کم تھی اور ڈرائیور بہت تیز تھا۔ صرف بارہ منٹ بعد اس نے گاڑی روکی اور بولا ’’یہاں سے آپ کا ہوٹل قریب ہی ہے۔ آپ یہاں اُتر جائیں‘‘

میں نے ارد گرد نظر دوڑائی تو ہوٹل کے کوئی آثار نہیں آئے۔ میں نے پوچھا ’’کہاں ہے ہوٹل؟‘‘

’’آپ سڑک پار کر کے ادھر جائیں۔ دائیں مڑیں اور وہاں سے تیسری گلی میں مڑ جائیں۔ اس گلی میں چلتے جائیں تو ایک سٹرک پر پہنچ جائیں گے۔ اس سڑک پر دائیں مڑیں تو آپ کا ہوٹل سامنے ہی ہے‘‘

میں نے کہا ’’مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی نہ ہم یہاں اتریں گے۔ آپ ہمیں ہوٹل اتار کر آئیں۔ آپ نے یہی وعدہ کیا تھا‘‘

ڈرائیور اکڑ گیا ’’میں ادھر گلی میں نہیں جا سکتا۔ آپ لوگ یہیں اتر جائیں۔‘‘

میں نے کہا ’’دیکھیں ہم یہاں غیر ملکی ہیں اور حج کرنے آئے ہیں۔ آپ کا منہ مانگا کرایہ دے رہے ہیں۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ ہمیں ہماری منزل تک پہنچائیں۔ آپ اس طرح ہمیں راستے میں نہیں اُتار سکتے‘‘

ڈرائیور پر کوئی اثر نہیں ہو۔ وہ اسی طرح اسٹیرنگ پر سر رکھ کر بیٹھا رہا اور کہنے لگا ’’ہم سیدھا آگے جا رہے ہیں اگر آپ نہیں اُترے تو میں گاڑی چلا دوں گا‘‘

’’میں پولیس میں شکایت کروں گا۔۔۔‘‘ میں کہہ ہی رہا تھا کہ اہلیہ نے روک دیا۔ کہنے لگی ’’چلیں اُتر جاتے ہیں۔ اللہ مدد کرے گا‘‘

ظاہر ہے وہ جھگڑے سے بچنا بلکہ مجھے بچانا چاہ رہی تھی۔ میں بھی جھگڑا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن غصہ بہت آیا۔ پندرہ منٹ کی مسافت کے دو سو ریال لوٹ کے زمرے میں آتے تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ ہمیں منزل پر پہچانے کے بجائے راستے میں دھکا دے رہا تھا۔ اُوپر سے دھمکیاں بھی دے رہا تھا۔ ناچار میں نے دو سو ریال اس کی طرف پھینکے اور نیچے اُتر آیا۔ اس نے دو سو ریال پکڑے اور یہ جا وہ جا۔ اگر وہ آسٹریلیا جیسے ملک میں ایسا کرتا تو اس کا لائسنس بھی منسوخ ہو سکتا تھا اور جیل بھی جا سکتا تھا۔

ہم وہ شاہراہ پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے۔ وہاں سے دائیں مڑے اور ڈرائیور کی ہدایت کے مطابق تیسری گلی میں داخل ہو گئے۔ چلتے چلتے ایک اور سڑک پر نکل آئے۔ وہاں ہمارا ہوٹل نہیں تھا۔ تاہم وہاں ایک شاپنگ سنٹر نظر آیا۔ اسے دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ کل حج والے دن ہم یہاں آئے تھے۔ شاپنگ سنٹر سے ملحق ایک گلی پیچھے کی طرف جاتی تھی۔ اس گلی میں جا کر پہلے بائیں اور پھر دائیں مڑیں تو سامنے سڑک آتی ہے۔ جس پر ہمارا ہوٹل واقع ہے۔ رات کے اس پہر مجھے سو فیصد یقین تو نہیں تھا۔ تاہم ہم اندازے سے آگے بڑھتے رہے۔ آخر ہم اس سٹرک پر نکل آئے جس کے سامنے پہاڑ تھا اور جمرات جانے والی بسوں کا اڈہ تھا۔ دائیں مڑتے ہی چند گز کے فاصلے پر ہمارا ہوٹل واقع تھا۔

ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اہلیہ کو کمرے میں چھوڑ کر میں کھانا لانے کے لیے باہر جانا چاہتا تھا لیکن اس نے منع کر دیا۔ وہ اتنی تھکی ہوئی تھی کہ بمشکل اپنی ٹانگوں پر کھڑی تھی۔ ورنہ اتھرائٹس کی مریض ہونے اور ٹانگوں میں شدید درد ہونے کے باوجود تقریباً سارا دن چلنا آسان نہیں تھا۔ اس کی حالت اتنی ابتر تھی کہ وہ فوراً سونا چاہتی تھی۔ ظاہر ہے میں بھی اتنا ہی تھکا ہوا تھا۔ میں نے بھی کھانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور بستر پر جا گرا۔ اس وقت یہ ٹھنڈا کمرہ اور آرام دہ بستر دنیا کی سب سے بڑی نعمت محسوس ہوئی۔ خالی پیٹ ہونے کے باوجود ہم کسی نہ کسی طرح سو ہی گئے۔

صبح نماز فجر کے بعد میں کھانے کی تلاش میں نکل پڑا۔ ادھر ادھر گھومنے کے بعد میری تلاش ایک پاکستانی تنور پر جا کر ختم ہوئی۔ وہاں سے میں نے دو ترکاریاں اور گرم نان لیے اور ہوٹل آ کر تسلی سے ناشتہ کیا۔

دوپہر تک ہمارے دوسرے ساتھی بھی آ گئے۔ ان کے آنے سے ہوٹل ایک دم بھر گیا۔ ہر طرف رونق ہی رونق ہو گئی۔ ہر شخص خوش دکھائی دیتا تھا۔ اس مسرت اور شادمانی کی وجہ یہ تھی کہ حج جیسی اہم اور مشکل عبادت کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ گئی تھی۔ کچھ حاجیوں کا طوافِ زیارت ابھی باقی تھا۔ جو اگلے چند دنوں میں کیا جا سکتا تھا۔ ہماری طرح کئی حاجیوں نے یہ فریضہ پہلے ہی سرانجام دے دیا تھا۔ آج کے بعد جو وقت حجاز مقدس میں باقی تھا وہ عبادت میں اور اللہ کے گھر میں بسر کرنا تھا۔

حج کا فریضہ الحمد للہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تھا۔ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم تھا۔ یہ اس کی دی ہوئی توفیق اور ہمت تھی جس کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچ پائے تھے۔ اس کا اذن نہ ہوتا تو یہاں تک پہنچنا ہی ممکن تھا۔ پھر حج جیسی عبادت تمام مناسک اور شرائط کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق اسی نے دی تھی۔ اس کی قدرت کے آگے انسان کی کیا بساط ہے۔ یہ سب اس کا کرم تھا۔ اس کی مہربانی تھی۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا تھی۔ ہم جیسے کتنے دِل میں یہ حسرت لے کر مر جاتے ہیں۔ اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

 

بیت اللہ کی کشش

 

عزیزیہ میں ہمارے ہوٹل کے تہہ خانے میں با جماعت نماز کا بندوبست تھا۔ سب لوگوں کی آمد پر ہمیں وقت پر ناشتہ اور کھانا بھی ملنے لگا۔ ہماری شدید خواہش تھی کہ ہمیں جلد از جلد مکہ مکرمہ کے ہوٹل میں شفٹ کیا جائے۔ جہاں ہم اپنی نمازیں ہوٹل میں نہیں بلکہ خانہ کعبہ میں ادا کر سکیں۔ اللہ کے اس مقدس ترین گھر میں ادا کر سکیں جو اس کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیمؑ نے بنایا تھا۔ جو ہمارے نبی پاکﷺ کا کعبہ تھا۔ جہاں آپ نے سجدے کیے تھے۔ طواف کیے تھے اور اپنے ہاتھوں سے حجر اسود نصب کیا تھا۔ یہ سیاہ پوش گھر ہمیں بلاتا رہتا تھا۔ جی چاہتا تھا اس گھرکے سامنے بیٹھ کرا سے دیکھتے رہیں۔ اس کے مکین کو دیکھتے رہیں۔ وہ بھی کیا لمحات ہوتے ہیں جب آپ اس سیاہ پوش گھر کو اور اس کے مکین کو دیکھتے ہیں۔ وہ آپ کو دیکھتا اور مسکراتا ہے اور یہ مسکراہٹ زمین سے آسمان تک پھیل جاتی ہے۔ پوری کائنات مسکرانے لگتی ہے۔ یہ اس چھوٹے سے سیاہ پوش گھر کا کمال ہے کہ وہ دیکھنے والے کو اپنا اسیر کر لیتا ہے۔ ایسا اسیر کر لیتا ہے کہ ہزاروں میل دور جانے کے بعد بھی یہ آپ کے دل میں گھر بنائے رکھتا ہے۔ آپ کو بلاتا رہتا ہے۔ خود کو بھولنے نہیں دیتا۔ جتنا وقت گزرتا جاتا ہے اس کی دید کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ اس کی طلب فزوں تر ہوتی جاتی ہے۔ دل کرتا ہے کہ پر لگ جائیں اور اڑ کر اس گھر تک پہنچ جاؤں۔ پھر وہ گھر ہو اور میری آنکھیں۔ بیچ میں کوئی حائل نہ ہو۔ یوں ہی زندگی تمام ہو جائے۔ یہ گھر سامنے ہو تو دیکھنے والے کو کسی اور منظر کی حاجت نہیں رہتی۔ وہ ساری زندگی اس ایک منظر کے سہارے گزار سکتا ہے۔ کیونکہ اس منظر میں ہزاروں منظر چھپے ہیں۔ اس منظر میں وہ خود بھی چھپا ہے جو اس منظر کا خالق ہے۔ یہ منظر دیکھنے والے کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔

اس لیے ہم لبیک والوں سے اصرار کر رہے تھے کہ اتنے قریب رہ کر ہمیں اس مقام خاص سے دور نہ رکھیں۔ ہمیں وہاں لے چلیں جہاں ایک ایک نماز، ایک ایک سجدہ اور ایک ایک دعا اتنی تاثیر رکھتی ہے کہ اس کا متبادل کچھ نہیں ہے۔ نہ صرف ان نمازوں اور ان عبادتوں کا بے شمار اجر ہے، اس میں سکون اور مسرت کا بے پایاں اح0ساس بھی ہے۔

(پانچویں اور آخری قسط اگلے شمارے میں)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے