تلاشِ ہند ۔۔۔ اعجاز منگی

کیا یو پی میں بی جے پی کی جیت

ابو الکلام آزاد کی شکست ہے!؟

یہ سوال تاریخ کے گال پر ایسا طمانچہ ہے

جیسے طمانچے کا تذکرہ کرتے ہوئے

ایک یورپی شاعر نے لکھا تھا

’’کیا تم نے کبھی کسی مردے کو چانٹا مارا ہے؟‘‘

آؤ! اور اس تاریخ کی تدفین کرو

جو مرزا رسوا کی گلیوں میں

بوڑھی امراؤ جان ادا کی طرح بھٹک رہی ہے!

وہ تاریخ جو ’’آگ کے دریا‘‘ میں اڑتی ہوئی راکھ ہے

وہ تاریخ جس کا جنم کرشن چندر کے قلم سے ہوا

وہ تاریخ جو بیدی کے افسانوں میں بڑی ہوئی

وہ تاریخ جس سے منٹو نے غیر مشروط محبت کی!

وہ تاریخ جو مخدوم کے گیتوں کا ترنم تھی

وہ تاریخ جو قبل از تقسیم ایک بلیک ان وائٹ فلم تھی

وہ تاریخ جو لتا اور رفیع کا دوگانہ تھی

وہ تاریخ جو اب ایک ساز کی ٹوٹی ہوئی تار ہے!

وہ تاریخ جو کل غالب کی غزل تھی

وہ تاریخ جو آج مودی کی تقریر ہے

وہ تاریخ جو ایک امید تھی

وہ تاریخ جو اقبال کی نظم ’’نیا شوالہ‘‘ تھی

وہ تاریخ جو ایک امیر پارسی لڑکی کے تن پر

سجی ہوئی سوتی ساڑھی تھی

وہ تاریخ اب اروندھتی رائے کی

آخری تقریر بن چکی ہے!

وہ تاریخ جو جغرافیہ کے جیل میں

اس وقت سے قید ہے

جس وقت زبان کی چابی

تالو کے تالے میں

روانی کے ساتھ چلتی تھی!

اب تاریخ ایک گونگے گواہ کی طرح

وقت کے کٹہرے میں خاموش کھڑی ہے

اب ہمیں سمجھ میں آ گیا ہے

کہ گنگا کے گھاٹ اور جمنا کے کنارے پر

تاریخ ایک ٹوٹی ہوئی کشتی ہے

شکستہ تختوں سے نظر آتا ہوا پانی

اور حالات کی بے حیا روانی

کیا خواب صرف بکھرنے کے لیے بنتے ہیں؟

کیا تاریخ بننے کے لیے نہیں

صرف بگڑنے کے لیے جنم لیتی ہے؟

اس سانولے سے سپنے کا کیا ہوا؟

جو بنگلہ بھاشا میں سنگیت کو سجانے والے

رابندر ناتھ ٹیگور نے دیکھا تھا!

کیا’’ وندے ماترم‘‘ کے بول

جمہوری سوچ کی بازگشت نہیں؟

کیا یہ گیت ایک فاشسٹ پکار ہے؟

ایک مطلق العنان ریاست کا تصور

ایک مقبول آمر کی زہر آلود تقریر!

اور وہ شانتی نکیتن

وہ شام کے سائے

وہ سمپا نامی نیا میں بیٹھی

خوبصورت بنگالن

اور وہ برہم پترا کی لہریں

اور ملاح کی بند آنکھیں!!

وہ میلے پانی پر گرنے والا اجلا پھول

وہ نیند میں مسکراتا ہوا بچہ

وہ صبح کے سوتے ہوئے تارے

اور نیلگوں فضاؤں میں فرار ہونے والا پرندہ!!

اب ’’گیتانجلی‘‘ کوئی بنگالن بچی نہیں پڑھتی

اور ’’مالی‘‘ تو کسی کو یاد نہیں

اب کون سنتا ہے؟

’’تومار گھورے باتی

تومار گھورے شاتھی

امار تورے راتی

امار تورے تارا

تو مار اچھی ڈونگا

امار جولا جول‘‘

یعنی:

’’تمہارے گھر میں روشنی بھی ہے

تمہارے گھر میں ساتھی بھی ہے

میرے پاس رات ہے

میرے پاس تارے ہیں

تمہارے پاس پختہ زمین ہے

اور میرے مقدر میں پانی پر سفر‘‘

یہ گیت اب بوڑھوں کی لوری ہے

یہ گیت نئی نسل کے لیے عجیب ہے

وہ دھیان کی امرت دھارا

اب آلودہ ہو چکی ہے!!

اب رابندر ناتھ ٹیگور

چڑیوں کی چہکار سن کر کیا کرے گا؟

اب بر صغیر کی بے ترتیب تاریخ

کسی پروفیسر کے لیکچر سے نہیں سلجھ سکتی

اب ایک ’’این جی او‘‘ کا پراجیکٹ

اس ادھڑے ہوئے اتہاس کو

رفو کرنے کی طاقت نہیں رکھتا!

تم کھجوراہو کے مندر نما میوزم دیکھو

اور سوچو ’’وقت ایک وہم ہے‘‘

مگر اس سے کیا ہوگا؟

کیا سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ سے

وہ سب تبدیل ہو جائے گا

جو جمود کو مزید مضبوط کر رہا ہے!!

وہ لڑکی جس کا نام گر مہر کور تھا

وہ لڑکی جو اپنے نام سے زیادہ خوبصورت ہے

اور جس کا پیغام اس کے نام سے زیادہ حسین ہے

وہ لڑکی کہا ں چلی گئی؟

وہ یتیم لڑکی جس کا والد

کارگل کی جنگ میں کام آیا

جس نے جوان ہو کر دنیا کو بتایا

’’میرے پاپا کو پاکستان نے نہیں

جنگ نے قتل کیا!!‘‘

وہ لڑکی مودی کی نیو فاشسٹ ماحول میں

اپنی فیر نک کی طرح چھپ گئی

اپنے آپ میں!!

وہ ادیب اب خاموش ہیں

جو ادیب مودی کے خلاف

تاریخ کی پکار بن کر ابھرے تھے!

وہ ادیب اب کہاں ہیں؟

جو ادیب طوفان میں

امید کی تیلی بن کر جلے

جو چراغ نہ بن سکے

اور بجھ گئے

سینے میں دل کے سفینے کی طرح!!

وقت کی اسپرنگ ارتقاء

نشیب کی نہایت چھو رہی ہے

وہ وعدے اب کسی کو یاد نہیں

جو وعدے اجنبی لوگوں نے

اجنبی لوگوں کے ساتھ کیے

تاریخ کی سٹیم انجن اب رک چکی ہے

اس سٹیشن پر جہاں کوئی مسافر موجود نہیں

’’عام آدمی پارٹی‘‘ دلی کے گملے تک محدود ہے

’’کانگریس‘‘ نہرو کا بجھتا ہوا سگرٹ بن چکی ہے

’’سی پی آئی‘‘ سرد جنگ کی سسکی کے سوا اور کچھ نہیں

’’بی جے پی‘‘ ایک امر بیل ہے

اور بھارت زرد ہوتا ہوا درخت!!

اب تم ٹیپو کو یاد کر کے کیا کرو گے؟

اب جھانسی کی رانی مٹتی ہوئی نشانی ہے

روی شنکر کے ستار اور بسم اللہ خان کی شہنائی

اب سروں کو سنگم کی علامت مت بناؤ!!

اب سیاست ایک شور ہے

ایک شدید ترین شور!!

اور اس شور سے دور

گولڈن ٹیمپل کے چاندی جیسے حوض میں

ایک گلابی آنچل کا سایہ

بغاوت کا پرچم نہیں بن پایا

’’ست سری اکال‘‘ والا وہ سکھ سلام

اب سوچتا ہے :

’’کیا وہ جنون کی آگ اس لیے جلی تھی

کہ گلزار کچھ گیت لکھ پائے!!؟‘‘

اور خامشی پوچھتی ہے

اس شور کا کیا ہوا؟

وہ شور جو چمن میں شہد کی مکھیاں مچاتی تھیں

وہ شور جو اس وقت پیدا ہوتا تھا

جب لڑکیاں امیر خسرو کا گیت گاتی تھیں

وہ شور اب ہندوستانی مسلمانوں کی خاموشی میں

ختم ہو رہا ہے!!

ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی مشہور نظم

"The Hollow Men”

میں کتنی بے رحمی سے لکھا تھا کہ

’’اسی انداز سے دنیا ختم ہوتی ہے

اسی انداز سے دنیا ختم ہوتی ہے

اسی انداز سے دنیا ختم ہوتی ہے

کسی بہت بڑی گونج کے ساتھ نہیں

بلکہ’’ ریں ریں‘‘ کی ہلکی اور شکستہ آواز کے ساتھ!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے