تبصرہ ’تم کیسر ہم کیاری‘ ۔۔۔ مجاہد الاسلام

نام کتاب (مجموعہ گیت): تم کیسر ہم کیاری

شاعر: سوہن راہی

ملنے کا پتہ: مکتبہ عمران ڈائجسٹ، اردو بازار، کراچی، پاکستان۔

قیمت : 200 روپے

مبصر : ڈاکٹر مجاہد الاسلام

اسسٹنٹ پروفیسر (اردو) مانو لکھنؤ کیمپس، لکھنؤ

 

سوہن راہی کا وطن مالوف پھگواڑہ، ضلع کپورتھلہ، پنجاب ہی ہے۔ مگر وہ کم و بیش پانچ عشرے سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اور آرکیٹکچر کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ راہی کا اصل میدان تو گیت نگاری ہی ہے۔ مگر انہوں نے غزلوں اور نظموں میں بھی اپنے محسوسات کو سمویا ہے۔ جن میں ان کا ایک الگ امتیاز و اختصاص ہے جو انہیں اپنے ہمعصر شعراء میں اہم مقام دلاتا ہے۔

زیر تبصرہ مجموعہ ‘تم کیسر ہم کیاری’ ان کا آٹھواں شعری مجموعہ ہے جو 75 دلکش و دلآویز گیتوں پر مشتمل ہے۔ ان گیتوں میں جہاں انہوں نے تصوف، فنا و بقا جیسے موضوع پر طبع آزمائی کی ہے۔ وہیں ان میں حسن و جمال، فراق و وصال، مظلوم و محنت کشوں اور بنیادی ضرورتوں سے محروم انسانوں سے غمخواری کے جذبات بھی شروع سے آخر تک محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ کہیں بھی سوقیانہ پن، مذہبی و سیاسی بندشوں کی آلائش نام کو بھی در آئی ہو۔ ان کے ان گیتوں میں طہارت، پاکیزہ جذبے کی سر مستی و سرشاری نمایاں نظر آتی ہے۔

جہاں تک رہا ان گیتوں میں زبان و بیان کا معاملہ تو چونکہ راہی اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی پنجابی پر بھی بدرجہ اتم قدرت ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان زبانوں میں بھی کئی کئی کتابوں کے خالق ہیں۔ جن جہاں انہیں بیان میں ایک طرح کی وسعت نصیب ہوئی ہے، وہیں ان کا ابلاغ بھی خوب سے خوب تر ہو گیا ہے۔ پوری کتاب پڑھ جائیے تعقید اور الجھاؤ نام کو نہیں ہے۔ بلکہ ہر جگہ موسیقیت، نغمگی، درد و اثر، سوز و گداز کا سوتا پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیں:

رنگ برنگی چنری لے کر

سانجھ سویرے پوجا تجھ کو

پھول بنے کبھی پات بنے ہم

ڈالی ڈالی ڈھونڈا تجھ کو

نین جھروکے رات بنے ہم

مانگ سجی پربھات بنے ہم

مکھ جیوتی کا بھیس بنا کر

درپن درپن دیکھا تجھ کو

(رنگ برنگی چنری لے کر)

لاج کی چنری میں تھی مکھ کی دھنک

سر سجاتی تھی وہ پائل کی جھنک

سانس کچھ اکھڑی ہوئی تھی

تن کلی چٹکی ہوئی ہوئی تھی

میری بانہوں میں تھی جوبن کی بہار

گا رہا گیت ہر دھڑکن کا تار

(جل کنی نینوں سے اتری)

وہ روٹی کے کاج کے کارن

چھوٹی بہن کے داج کے کارن

مات پتا کے دکھی نین میں

کل کے کارن آج کے کارن

ہم نس دن ہی کر لائے

ہم نے کیوں دکھ اپنائے

(ہم نے کیوں دکھ اپنائے)

بیتے یگ کے دو نینوں میں

کچھ چنچل رنگ تھے بچپن کے

تن ڈالی کے پھولوں میں

سندیش نئے تھے مدھوبن کے

چپ کے کالے سناٹے میں

دو دیپک راگ تھے جوبن کے

سانسوں کی بہتی ندیا میں

انسوون گاگریا چھلکی تھی

(کچھ رینا بھیگی بھیگی تھی)

یہ کتاب اردو دنیا کے لئے بیش بہا تحفہ ہے امید واثق ہے کہ اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔

جناب راہی کی شخصیت اس لحاظ بھی ممتاز و ممیز ہے کہ انہوں نے دیار غیر میں بھی اردو شعر و ادب کی شمع روشن کی ہوئی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے