آزادانہ شناخت کی شہرت کا ڈائناسور– اور زہر گل ۔۔۔ شمیم قاسمی

آزادانہ شناخت کی شہرت کا ڈائناسور– اور زہر گل

 

                   شمیم قاسمی

 

گزشتہ چند برسوں میں جو شعری مجموعے بازار کی مٹھائی کی طرح ہمدست ہوئے اور میرے مطالعے میں آئے ان میں بیشتر غزلوں پر ہی مشتمل تھے۔ اس طرف ۱۹۷۰ء کے بعد کے شعری سفر کے منظرنامہ پر ایک ہلکی سی دھند چھائی رہی لیکن اس دھند اور کہا سے میں بھی پس منظر سے متوازن اور نپے تلے قدموں کی چاپ صاف سنائی دیتی رہی البتہ ۱۹۸۰ء کے بعد کی شاعری وائری پر کافی شور شرابے ہوئے۔ کچھ شعرا نے تو الٹے سیدھے بیانات دے کر اور اپنی عملی حرکتوں سے بھی سنسنی پھیلانے کی ناکام کوشش کی۔ نئی نسل کے  تازہ اذہان نے خود کو اوروں سے بالکل الگ تھلگ ثابت کرنے کے لئے نہ صرف اودھم مچائی بلکہ اپنے پیش رو ادبی و شعری سرمائے پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان بھی لگایا۔ ان کا زیادہ تر وقت خلعت ودستارکو روندنے اور اپنے ’’مختلف‘‘ ہونے اور ’’نیا کچھ‘‘ کر دکھانے کا نگاڑا پیٹتے ہوئے غزل کی نئی بازیافت کے اعلانیہ پر صرف ہوا۔ انہوں نے غزل گو شعراء کی بھیڑ بھاڑ میں خود کو ہر حالت میں اپنے ماقبل عہد کے شعراء اور ان کے شعری سفرسے انحراف کرنے اور خود کو مختلف ثابت کرنے کے لئے سرجوڑلیا۔ ان کے اس طرح ’’مختلف‘‘ ہونے کا باوا آدم ہی نرالا ہے وہ تو چھٹنکی بھر لکھ کر قبل از وقت ال بل ہوئے جاتے ہیں ۔

برنارڈ شاہ کا قول ہے کہ ’’ لوگ سچ بات پر سب سے زیادہ چونکتے ہیں ‘‘ اب اس  سے اتفاق کرتے ہوئے مجھے بھی واضح طور پر یہ کہنا چاہئے کہ نئی نسل کے غز ل گو شعرا ء کی ایک بڑی ٹولی نئی صدی کی دہلیز پر اپنی پہچان کا دمامہ بجانے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے لمحۂ زور آزمائش سے دو چار نظر آ رہی ہے  — کوئی خود افکاریت اور خود پسندی کے لاف و گزاف کے حصار میں قید ہے تو کوئی سرکش اور ضدی سمندر جیسالہجہ اختیار کئے، ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی اپنے اجداد کی تردید کرتا ہوا تخت عالمگیر کی عظمت کو نکارتا ہے تو کوئی آزادی کے نام پر غزل کی زندہ روایات کی توانا دیوار میں بھونڈے طریقے سے سیندھ کرتا اور جا بجا اپنے مختلف ہونے کے دعویٰ کا سُنبہ۔ ٹھونکتا نظر آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کوئی اپنے پیش رو شعری سرمایوں سے صاف انکار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ (یہاں مصلحتاً ان کے اشعار کوڈ نہیں کئے گئے ہیں )۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان کے اس طرح مختلف ہونے کے الار کو پیش رو شعراء نظرانداز کر دیں گے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میر ی ایسے شعراء سے بھی واقفیت رہی ہے جو پلان اینڈ پروجیکٹ کے تحت لکھ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شب خون، ایوان اردو، شاعر، کوہسار، اثبات اور نیا ورق وغیرہ میں لکھتے وقت چہرے بدل لیا کرتے ہیں ۔ فرسٹ کلاس T.A.اور ’’مرغن‘‘ ملے تو ان چہروں کو گرگٹانی بنتے دیر نہیں لگتی۔ بہر حال ! انہیں چہروں کی بھیڑ میں نئی ادبی تھیوری کا Fruitfulبازار گرم ہے او ر بقول    ظفر اقبال   ؎

ہم بھی گئے تھے گرمیِ بازار دیکھنے

وہ بھیڑ تھی کہ چوک میں تانگا الُٹ گیا

نئی نسل سے بد د ل ہو کر اپنے عہد کے معتبر شاعر اسعد بدایونی نے اپنا ادبی بیان کچھ یوں درج کرایا تھا  –’’شور مچانے اور بزرگوں کا مذاق اڑانے سے تو کچھ ہوتا نہیں ہے۔ مطالعے اور مشاہدے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بصیرت سے جدید تر نسل یا بالکل نئے شعراء میں سے بیشتر لوگ خالی ہیں ۔ دو چار سالوں میں پکی روشنائی سے اپنا نام چھپ جانے کی وجہ سے خود کو بہت سمجھنے والے یہ معصوم کیا جانیں کہ ادب کیا ہوتا ہے اور شاعری کسے کہتے ہیں ؟۔ ہنگامے اور بکواس کی بجائے کاش یہ لوگ اپنا وقت ادب کو خوب پڑھنے اور سمجھنے میں صرف کریں ۔ (سہ ماہی عہد نامہ، رانچی، شمارہ جنوری تا مارچ ۱۹۹۹ء)

’’آگے بڑھے چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘کا زوردار نعرہ بلند کرتے ہوئے نئی نسل کے چند مخصوص شعراء (آپ مطمئن رہیں ) نے ہم زباں ہم قدم ہو کر ادبی پریڈ کرنے کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے معاصرانہ چشمکوں سے حتی الامکان احتراز ہی نہیں کیا بلکہ ان اطراف میں اپنا کلون بھی ایجاد کر لیا جہاں انہیں پھلنا پھولنا ہے اور جہاں انہیں گرفت میں آنے کا اندیشہ بھی۔ یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا کہ متذکرہ نسل کے شعراء (ایک بار پھر آپ مطمئن رہیں ) نے ایک دوسرے پر من ترا حاجی بگویم تُو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کو زندہ رکھنے کے لئے خوب جم کر لکھا۔ ’’ایسے لکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے لکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو یوں شناخت بنے گی۔ بزرگوں کی پگڑیاں اچھالو تو یوں ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر اپنی الگ بالکل الگ پہچان چاہتے ہو تو یوں لٹکو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے سانس لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ویسے گنو۔ ‘‘ وغیرہ پر خوب ریہرسل کی گئی۔ کیا اپنی تعریف میں اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے آپ نے کبھی کسی کو دیکھا ہے اگر نہیں تو شہر ادب میں آپ کب آرہے ہیں ؟ مختلف ناموں سے اپنی مدح سرائی میں فرضی خطوط چھپوا کر یہ اپنی الگ تھلگ شناخت کا لوہا منوا لیں گے اور منائیں بھی کیوں نہیں کہ اسی ’’مختلف ‘‘ شناخت کے نام پر دلی کا فرست کلاس ٹی۔ اے دینے والوں کی کمی نہیں اور ایسا ہوا بھی اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب ایسے لوگوں کے بارے میں کچھ کہنے سے بہتر ہے کہ چپ رہوں جنہیں دلی کی ریوڑی بھی پسند ہے اور الٰہ آباد ی امرود بھی اس میں عظیم آباد کی ادبی خانقاہ کے لکم دانہ ( تبرک) کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر انہیں (مخصوص شعراء) اپنے کسی خود پسند ’’فرمان‘‘ کی ناپختگی اور پکڑے جانے کا اندیشہ لاحق ہو گا تو وہ اپنے لکھے کو خود ہی چاٹیں گے یا پھر اپنے بڑبولے پن کو کسی فرضی پبلیشر کی طرف سے نمایاں طور پر شائع کرا دیا جائے گا، اپنی مدح سرائی کا یہ ہنر بھی خوب ہے۔ لیجئے صاحب، اس طرح اپنے جداگانہ عہد، نظرئیے اور اپنی الگ تھلگ پہچان کا ڈنکا بجانے کے لئے انہوں نے اپنا ناقد بھی پیدا کر لیا۔ اب اگر ایسے میں عیسیٰ لکھیں تو بیچارے موسیٰ جی لگا کر کیوں نہ پڑھیں اور پڑھیں تو واہ۔ ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں نہ کریں ۔ ادھر عیسیٰ نے چھینکا تو موسیٰ نے فوراً رومال ہوا میں لہرایا یوں موسم کے غیر معتدل اور مختلف ہونے کا  اعلان کرتے ہوئے کوزے کو سمندر بنا دیا۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جھیل کو جھیل ہی رہنے دے سمندرنہ بنا۔ پچھلی دو دہائی میں تازہ فکری کا جو شعری سرمایہ اردو شاعری میں بطور خاص اضافہ کا باعث ہوا اس میں بھی صنف غزل کو اولیت دی گئی اور وقار بخشا گیا۔ غزل گو شعرا اور با شعور قارئین نے پیرایۂ غزل کو ایک مضبوط لیکن لچکدار وسیلۂ اظہار مانا۔ ہر چند کہ   ؎

غزل کا شعر کوئی ہم نے کب کہا عالم

انڈیلتے ہیں فقط دل کا زہر کاغذ پر

زیر مطالعہ عالم خورشید کا زہر گل (۱۹۸۸ء)بھی مجموعۂ غزل ہے۔ اب یہ کہنا ضروری نہیں کہ عالم بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہے۔ اس کے مندرجہ بالا شعر کو اس کی شاعرانہ شکست کا اعترافی لہجہ نہ سمجھیں تو میں عرض کروں کہ بظاہر یہ عام سا خیال ہے لیکن صنف غزل کے حوالے سے اس کے اس تخلیقی اظہار کی سادگی میں بھی جو معنوی تہہ داری ہے وہ اس بات پر دلالت ہے کہ شاعر نہ صرف غزل شناس ہے بلکہ غزل جینا اور غزل بھوگنا بھی خوب جانتا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ انسانی جسم کے پورے نظام میں نہ صرف دل کی حیثیت مرکزی رہی ہے بلکہ یہ پورا جسمانی سسٹم دل ہی کا مرہون منت ہے۔ اس کی حد درجہ کو ملتا اور ناز کی گل سے مشابہ ہے۔ اس طرح زیر غور شعر میں زہر بہ معنیٰ آگ، دل بہ معنی گل(زہر+گل=آتش گل) بطور استعارہ استعمال ہوا ہے وہیں کاغذ کی حیثیت دماغ کی ہو گئی ہے اسے آپ واردات قلب اور در پیش وقوعوں کے اظہار کا با معنی ارگن بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ آگ اور زہر کی ایک جیسی خاصیت سے کون واقف نہیں ۔ نتیجہ تو ہر حالت میں خاکسترہی ہونا ہے۔ اب اگر اس شعر کے اخراج معنی پر ہم ایک ذرا غور کریں تو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زہر گل دراصل شاعر کے تخلیقی اظہار کا طاقتور استعارہ بن گیا ہے اور وہ اس کا سپر بنا کر اپنی خار خار نا آسودہ زندگی کی بے پناہ تلخیوں ، محرومیوں اور مصورانہ یادوں کو آفاقی بنانے کے لئے ایک ایسا اچھوتا بصری پیکر عطا کرنا چاہتا ہے جس کا دائرہ عمل وسیع ہو لیکن حیف صد حیف کہ اس کی دسترس میں جو شعری کینوس آیا ہے اس کی تنگ دامانی نے نہ صرف اسے کچوکے لگائے ہیں بلکہ بے دست و پا اور لہولہان بھی کیا ہے اور اس کی فن کارانہ انگلیوں سے دھنک رنگ برش جیسے چھین ہی تو لیا ہے اور وہ بلبلا ہی تو ہو اٹھا ہے۔ کیا اسی تخلیقی سفرکے پڑاؤ اور بلبلانے کے اس مقام پر غالب نے غزل کی تنگ دامنی کا اظہار کر کے صنف غزل کو معنی خیز بنا دیا تھا۔ زہر گل کے خالق کے یہاں تو اپنی آزادانہ شناخت کے لئے رونے دھونے کا ایک لمبا سلسلہ ہے:

 

طلب کچھ اور تھی ہے اپنی دسترس میں کچھ

جو سچ کہوں تو نہیں ہے کسی کے بس میں کچھ

 

جاؤں کہیں بھی ہر جگہ تعزیر ایک ہے

اہل جنوں کے واسطے زنجیر ایک ہے

 

حقیقت پسندانہ یا اشتراکی لب و لہجے کے ساتھ رونے دھونے کے ابھی کئی مقامات اور پڑاؤ آنے باقی ہیں ۔ غزل ہر عہد میں ہمارے شعراء کی ڈارلنگ رہی ہے۔ سفید کاغذ پر انڈیلے گئے ’’زہر گل ‘‘ کا ذائقہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے خالق کا ہر پل اور ہر لمحہ جو اپنی ڈارلنگ (غزل) کے ساتھ گزرا ہے اس میں گہری ریاضت بھی شامل ہے۔ اب فنی اقسام یا خامیِ اظہار سے کس کی شاعری پاک ہے؟ اس نے غزل کی تسبیح کے ایک ایک دانے کا بوسہ لیا ہے، آنکھوں سے لگایا ہے یوں بصیرت سے بصارت تک کاسفر طے کیا ہے۔ شکر ہے کہ اس کا یہ سفرجاگتی آنکھوں سے عبارت ہے اور جس کا ہمسفر ایک متحرک دماغ ہے جو دل کے ہاتھوں بہر حال بے بس دکھائی نہیں دیتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ کسی مراقباتی عمل کے بغیر اس کے اس شعری سفر کا ظاہر و باطن روشن ہے۔ وہ اپنے اطراف رونما ہونے والی خوشگوار، ’حیران کن اور نمایاں تبدیلیوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہیں دیکھتا وہ تو اپنے عہد کے ’’ادبی کلچر‘‘سے پوری طرح واقف ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر پل ہر لحظہ اپنے ہوش وحواس بحال رکھتا ہے اور یوں عقل و خرد کی انگلی تھامے عہد صارفیت کے چیلنجز کو قبول کرتا ہوا اپنے شعری تشخص کے لئے ایک نئی ڈگر کی تلاش و جستجو میں سرگرداں ہے۔ اسے اس کا بھی احساس ہے    ؎

 

برا کیا جو نئے راستے بناتا ہوں !

تمام شہر کو کوشش مری کھٹکتی ہے

 

ہمارے خون سے شاداب ہے زمیں لیکن

ہمیں کو اس نے کبھی معتبر نہیں جانا

 

زہر گل سے قبل عالم خورشید’’ نئے موسم کی تلاش‘‘ (۱۹۸۶ء) کا دف بجا چکا ہے۔ جس میں اس نے اپنا مطمح نظر پیش کیا ہے’’ زہر گل‘‘ کے پیش لفظ میں بظاہر وہ ا پنی آزادانہ شناخت کے لئے ڈھنڈورچی نہیں بنا ہے اور خود کو مختلف ثابت کرنے کے لئے اس نے کوئی واضح اشارہ تو نہیں دیا لیکن عالم خورشید کا یہ بیان بہت واضح ہے۔ ۔ ’’ ہمارا مقصد تو یہی ہونا چاہئے کہ ہم نئی نسل کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں ۔ ان کی فکر میں وسعت پیدا کریں اس کے بعد جس میں جتنی انرجی ہو گی جتنا دم ہو گا آگے جائے گا۔ اگر ہم یہ کام نہ کر پائے تو ہمارا خدا حافظ۔ ‘‘(مطبوعہ اثبات و نفی، شمارہ نمبر ۷)

یہی وجہ ہے کہ اس کے اس طرح کے بیان سے کچھ لوگ چونکے ضرور ہیں ۔ اس کے اس بیان نے اس کے معاصرین کو تقویت بھی پہنچائی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں اس کے لہجے کا تیور، اس کی اٹھان اور فکری اڑان دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ اس نے اپنی آزادانہ شناخت کے لئے ایک الگ ہی گڈی اُڑائی ہے۔ اب اس میں کون سی دم لگ گئی با ذوق قاری ہی جانیں

؎

کسی ساحل پہ جاؤں ایک ہی آواز آتی ہے

تجھے رکنا جہاں ہے وہ کنارہ اور ہے کوئی

 

دست و گریباں حال سے ہیں ہم، فردا روشن ہو

ماضی میں رخشندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

 

زمانے کی روش ہم کو کبھی اچھی نہیں لگتی

زمانے سے ہمیشہ ہم کنارہ کرتے رہتے ہیں

 

ہمارے ہاتھ میں فردا کی ڈور ہے لیکن

ہمارا رابطہ ماضی سے ہے نہ حال سے ہے

 

ہرچند کہ زیر نظر مجموعۂ غزل کی بیشتر غزلیں پیش رو تناور غزل درخت کی چھاؤں اور رمیدگی لئے معاصر شعری حسیت کی نمائندہ ہیں لیکن اسے نکارتے ہوئے ایک ایسی بے سمت فکری اڑان کا حوالہ دیا گیا ہے جو دوران سفر کسی بھی طرح کی حد بندی کی قائل نہیں جس کے پیش نظر اپنا ایک الگ ہی آسمان ہے۔ یہاں شاعر کے باطن میں ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کی صدائے بازگشت ایک سیال بن کر دوڑ رہی ہے۔ ڈھیر ساری اور ایک جیسی آوازوں کی بھیڑ میں اسے اپنے شعری تشخص اور اپنی آواز کے دب جانے کا شدید خدشہ لاحق ہے اس لئے اس کے لہجے میں وقتی طور پر ہی سہی ایک طرح کی جھنجھلاہٹ اور جلد بازی صاف مترشح ہے۔

تازہ کار نسل کے نمائندہ اور فن شناس ناقد آفاق عالم صدیقی کا بھی ایسا ماننا ہے کہ  — ’’نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے یہاں آج بھی بھیڑ بھاڑ والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ افراتفری کا یہ عالم ہے کہ بعض شاعروں کا نام بار بار لیا جاتا ہے۔ تو کچھ شاعروں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ ابھی تک مطلع ہی صاف نہیں ہوا ہے کہ اس بھیڑ میں اپنے لب و لہجے، اپنے اسلو ب اور اپنے طرز فکر کی توانائی و انفرادیت کی وجہ سے کن لوگوں کو امتیاز حاصل ہے۔ یا یہ کہ وہ کون لوگ ہیں جو اپنے محاسن کلام اور شاعرانہ اوصاف کی وجہ سے اپنے ہمعصروں میں اولیت کا حق رکھتے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ جب اس نسل کے فعال ہونے کی تصویر دکھانی ہوتی ہے تو درجنوں نام سامنے آ جاتے ہیں اور مضمون ووٹر لسٹ بن جاتا ہے۔ میں نے اس بدعت کو اس لئے دہرایا ہے کہ اس نسل کی اجتماعی تخلیقی صورتحال کا کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا۔ ‘‘(تنقیدی کتاب ’’مقال ‘‘، ص ۲۱۰)

نئے موسم کی تلاش میں زہر گل کا خالق تقریباً ۱۲؍برسوں تک صحرا صحرا جنگل جنگل دربدری کا شکار رہا۔ یکسانیت اور کلیشے کے اس دور سے نکلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ برسوں انتظار کے بعد جب ایک نیا یا صارفیت زدہ ادبی ماحول تیار ہوا تو اس نے نئے بال و پر نکالے۔ اس کا تازہ شعری مجموعہ بلاشبہ اس کے شعری سفراور شعری زمان میں ایک ٹھہراؤ ہے:

کوئی چراغ ہوا میں جلا کے دکھلائے

ہر ایک شخص ہے مہر سپہر کاغذ پر

اس اعتراف کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتا کہ اسے ایک ہی جیسے موسم اور ماحول میں پروان چڑھنا اورکسی کا طوطا رام بننا قطعی پسندنہیں جبھی تو اس کے لہجے میں ایک طرح کی جھنجھلاہٹ در آئی ہے اور وہ کر بھی کیا سکتا تھا کہ اس کے عہد اور صور ت حال کا تقاضہ بھی یہی ہے:

 

کھول ساری کھڑکیاں ایک اک دروازہ ہوا

میری بستی کی طرف بھی آ! کبھی تازہ ہوا

 

توڑ کر بند کواڑوں کو میں باہر آؤں

کوئی دستک نہ سہی شور و شغب کچھ بھی ہو

 

اس کے لہجے کا یہ تازہ ضدی پن، فکری سطح پر یہ اٹھان یہ تیور نہ صرف دبنگ ہے بلکہ جان جوکھم میں ڈالتا ہوا اظہار و بیان کی عمومی سطح سے ایک ذرا اٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نہ تو اسے ماضی محبوب و محترم ہے اور نہ ہی وہ حال کی بھول بھلیوں میں اپنے شعری تشخص اور اپنی آزادانہ شناخت پر ضرب لگانا چاہتا ہے۔ وہ تو اپنی راہ میں حائل کسی بھی آہنی دیوار یا طلائی زنجیر کو توڑ کر اپنے الگ تھلگ ہونے کی تمام تر سچائیوں کے ساتھ بہت تیزی سے باہر آنا چاہتا ہے۔ وہ زمین پر تو ہے لیکن خواہش مہتاب بھی رکھتا ہے اور اپنے اس شعری سفر کی آزادانہ شناخت کے لئے کمربستہ بھی ہر قیمت پر یعنی:

 

بھول جاؤں میں ترا نام و نسب کچھ بھی ہو

چاہتا ہوں مری دنیا میں عجب کچھ بھی ہو

 

گھر سے باہر کی ہوا کا کچھ تو اندازہ لگے

کھول کر سارے دریچے اور روشندان رکھ

 

ایک مدت سے ہوں محبوس عجب زنداں میں

صبح روشن نہ سہی ظلمت شب کچھ تو ہو

 

مجھ کو پروا نہیں منزل کی ملے یا نہ ملے

میں ہوں موجوں کے مخالف میں رواں کچھ بھی ہو

 

زہر گل کے خالق کے یہاں اس قبیل کے اشعار کی کمی نہیں جن کا مطالعہ جہاں ہمیں ایک طرف تازہ دم کرتا ہے تو دوسری جانب ایک انجانے خوف اور اندیشہ سے بھی دوچار کرتا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر اس کے یہاں StabilityاورOwn Identityکے نام پر ایک عہد سازادبی منظر نامے کو  سبوتاژ کرنے کا جو میکنیکل پورسس ہے وہ ہماری تہذیبی وراثتوں اور زندہ روایات کے لئے خوشگوار نہیں ۔ میں یہ مانتا ہوں کہ ’’نئے پن‘‘ اور ’’مختلف ‘‘ کے نام پر وہ کلی طور پر جگالی نہیں کرتا لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ جا بجا اپنی علیٰحدہ پہچان اور ’’آزادانہ شناخت‘‘ کے جواز میں اس کے یہاں ایک طرح کی جلد بازی، جھنجھلاہٹ اور بوکھلاہٹ غالب نظر آتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اس کے عہد (۱۹۸۰ء کے بعد) کی شاعری کے موڈ اور خاصے کا پتہ دیتی ہو لیکن وقتی طور پر یہ ہمیں سوچنے اور پھر چونکنے پر ضرور اکساتی ہے۔ یہاں تک کہ زبان کا ذائقہ بیک وقت بناتی  اور بگاڑتی ہوئی صاف دکھائی دیتی ہے۔ مندرجہ بالا اشعار اور اس طرح کے دوسرے اشعار میں وقتی طور پر ہم ان کی تخلیقی معنویت سے انکار کر بھی دیں تو بھی غزل گو شعرا کی نہ ختم ہونے والی اور ٹیڑھی میڑھی قطار میں ان اشعار کے خالق کو تو ڈھونڈھ ہی نکالا جاسکتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی کسی گھوڑے کو نکیلیں اور پگہا توڑ کر اصطبل سے سرپٹ اور بدحواس بھاگتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر دیکھا ہے تو یہ بھی غور کیا ہو گا کہ وہ بھاگتے وقت سمتوں اور منزل کا قطعی تعین نہیں کرتا بس جدھر سینگ سمائی لہولہان سرپٹ بھاگتا ہی چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔ بھاگتا ہی چلا گیا کہ آزادانہ شناخت کے لئے یہ عمل لازمی جو ٹھہرا۔ زہر گل کے خالق کا اشہب بھی بے سبب اور نتیجہ کی پروا کئے بغیر بیشتر مقامات پر سرپٹ دوڑ لگاتا اور حد نظر سرسبز علاقوں کو روندتا چلا گیا ہے بس یونہی خواہ اس سفر میں نتیجہ کچھ بھی نکلے کچھ بھی ہو۔ وہ تو اپنی شعری شخصیت اور اپنے قد پہ حاوی ہو رہی پیش رو شاعری کی آہنی فصیل میں در اور دروازہ وا کرنا چاہتا ہے تاکہ تازہ ہوا کا بھرپور جھونکا اس کے پھیپھڑوں میں براہ راست پہنچ کر اسے توانائی دے، اس پہ مسلط حبس اور گھٹن دور ہو اور اس کے ٹخنوں میں نئی جان آئے اور پھر وہ کسی سہارے کے بغیر مکمل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اسے کسی کی انگلی پکڑ کر چلنا گوارہ نہیں ۔

زہرہ گل کے مطالعہ کے دوران قد آور شاعر ڈاکٹر مظفر حنفی کا یہ شعر بطور خاص یاد آیا جو غالباً تین دہائی سے بھی قبل کتاب لکھنو میں شائع ہوا تھا:

دروازہ ہی ہو گا نہ کوئی نام کی تختی

آئندہ مرے گھر کی یہ پہچان رہے گی!

یہاں پر اس شعر کی یوں بھی اہمیت ہے کہ اس میں کیاسلیقے اور تخلیقی معنویت ہنر مندی کے ساتھ بغیر کسی شور شرابے اور توڑ پھوڑ کے اپنی پہچان کے مختلف ہونے کا متوازن، بامعنی اور سنجیدہ جواز بھی شامل ہے اور یہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے( تازہ دم بھی) کہ تقریباً ۳۵۔ ۳۰ سا ل قبل ایک مخصوص تیور کے ممتاز شاعر اور ہمارے ادبی بزرگ  حنفی صاحب کے یہاں بھی فکری اور تخلیقی جماؤ نہیں تھا بلکہ اپنے شعری تشخص کے حوالے سے ان کے اظہار بیان میں دریا کی سی روانی اور شاہین کی سی طاقت پرواز ہے۔ ۔ اس کے برعکس زہر گل کے خالق کے یہاں اپنی آزادانہ شناخت کو لے کر ایک طرح کی عجلت صاف جھلکتی ہے۔ اس کی ایک طرح سے فقیری فکر کا پرندہ اپنے شکستہ پروں کی پروا نہیں کرتا اسے اس کی بھی پروا نہیں کہ باہر تند ہوائیں چل رہی ہیں اور وہ کسی بھی پل کہیں بھی اُڑا لے جاسکتی ہیں ۔ اسے تو اپنی آزادانہ شناخت کی اتنی جلد بازی ہے کہ وہ ہواؤں کے رحم و کرم پر کسی نامعلوم سمت کا سفرکرنے کو تیار بیٹھا نظر آتا ہے۔ ساتویں دہائی کے معروف و ممتاز شاعر پروین کمار اشک کا یہ شعر دیکھئے   ؎

نہ پکڑی قافلے کی جس نے انگلی

وہ بچہ سب سے آگے چل رہا ہے

اشک کے یہاں جو بچہ بغیر کسی کی انگلی تھامے سب سے آگے چل رہا تھا وہی بچہ زہر گل کے خالق کے یہاں Consumer Cultureکا ایک حصہ بن جاتا ہے اور جو بڑا میکانیکی نظر آتا ہے۔ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے میں بھی ایک ہنر ہے۔ عالم کا یہ شعر دیکھئے   ؎

نہ جانے کتنی مدت میں وہ طے ہو گا سواروں سے

سفر جو پل میں میں نے پا پیادہ کر لیا ہے

یہاں ’’پاپیادہ سفر کی معنوی جہت کو سرسری مت لیجئے۔ اس میں آزادانہ شناخت کی پھسپھساہٹ (Whispering)  کو محسوس کیجئے اور۔ ۔۔

دراصل عالم خورشید کی شاعری میں ایسے کئی مقامات صاف جھلکتے ہیں جہاں اس کے خود پسند لہجے کا تیکھا پن زبان کا ذائقہ بدلتا ہے۔ اس میں ایک طرح کا کسیلاپن بھی شامل ہے۔ اسے ہم مان کر چلتے ہیں کہ وہ اپنے لئے ایک الگ راہ منتخب کرنا چاہتا ہے۔ ایک ایسی راہ جہاں قبل سے قدموں کے نشانات نہ ہوں ۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ عالم کے بیشتر اشعار میں منزل کو پا لینے کی بیتابی میں ایک اشتراکی پہلو بھی شامل ہیں لیکن اس کی کوئی تخلیقی معنویت نہیں کہ اس کے خالق کے باطن میں لاشعوری طور پر ہی سہی رد تشکیل کا عمل موجزن رہا ہے۔ زہر گل کا خالق تو محض اپنی ذات کے زندان سے بس باہر آنا چاہتا ہے۔ ایک ایسے زندان سے جو خود کا تیار کردہ ہے۔ اور اب اپنی آزادانہ شناخت کے حوالے سے اپنے مختلف ہونے کے پر زور اظہار اور خود افکاری لہجے کے ساتھ سفر پر گامزن ہے چاہے پیش نظر شعری سفر کا حاصل صفر ہی کیوں نہ ہو ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب اسے زندان سے باہر آنا ہی مقصود ہے تو پھر دستک اور شور میں تمیز کیسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صبح کی روشن پیشانی ہو کہ شب کا گھنا اندھیرا اگر کشتی کو جلانے کی ضد ہو تو پھر پتوار بچانے سے کیا فائدہ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے تو بس کسی بھی صورت کسی بھی شکل میں چاک سے باہر آنے اور ایک الگ پہچان یا آزادانہ شناخت قائم کرنے کی جلد بازی ہے۔ زہر گل کا خالق غزل کی جدید شعری روایات سے برسرِ پیکار نظر آتا ہے۔ اسے انجام کی قطعی پروا نہیں یعنی   ؎

پانی پانی ہو جانے کے بعد مجھے

اپنی رو میں بہنے کی آزادی ہے

(غلام مرتضیٰ راہی)

زہر گل کا خالق اس کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کے یہاں جو فکری تبدیلی آئی ہے اور اس نے جو آزادانہ رویہ اختیار کیا ہے وہ کسی ادبی تھیوری کو پڑھ کر نہیں بلکہ بالکل فطری  ہے زہر گل کے خالق کا کہنا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’چونکہ نیا عہد اپنے ساتھ نئے مسائل بھی لے کر آتا ہے اس لئے ان نئے مسائل کی پیش کش کے لئے نئے فن کاروں کو نئے اور نامانوس الفاظ کے استعمال پر بھی زور دینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں نئے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے وہیں طرز اظہار بھی نیا ہو جاتا ہے اور نئے فن کار اپنے پیش رو فنکاروں سے مختلف نظر آنے لگتے ہیں ۔ ‘‘

اب ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ نئی نسل کی اپنی شعری لفظیات اور نئی شعری تراکیب کیا ہیں ؟اپنی آزادانہ شناخت کے لئے جو ’’نئی شاعری‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے اس کی شعریات کیا ہے؟؟

تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ میرا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ ہر عہد اپنے سیاق وسباق میں نیا ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر لفظیات ومسائل کے ساتھ۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ غزل میں فکری، موضوعی اور لسانی سطح پر بھی نئی تبدیلیوں نئی صورتوں ، نئی جہتوں اور نئے امکانات کی رسائی بالکل ممکن ہے لیکن عہد ماقبل کے پرچم کو پیروں تلے روند کر، خلعت ودستار کو نقش پا بنا کر اپنی ایک الگ پہچان ہرگز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر گز ممکن نہیں ابھی جبکہ سفرکی ابتدا کو جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن ہوئے ہیں اور ایک پوری نسل شناخت کے پورسس سے گزر رہی ہے تو پھر ایک لمبے اور آزمائش بھرے سفر میں آزادانہ شناخت کے لئے اس اڑان کا کیا حاصل۔ سفر کے پہلے ہی پڑاؤ پر شارٹ کٹ جمپ کا کیا سبب آخر۔ اس سفر میں اپنی تازہ پہچان کے چند مخصوص شعرا نے جو بیج بوئے ہیں ان کا ابھی پورے طریقے سے مٹی میں گھلنا ملنا باقی ہے۔ انہیں ابھی ٹھہر ٹھہر کر سیراب ہونا پڑے گا۔ بدلتے موسموں کے تھپیڑے کھانے ہوں گے، کئی رنگ بدلنے ہوں گے تبھی ان کا رنگ چوکھا ہو گا۔

مجموعی تاثر کے طور پر مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ عالم خورشید نے محض نئے پن اور آزادانہ رویے کے نام پر اپنی مختلف پہچان کے لئے نئے ہتھ کنڈے استعمال نہیں کئے ہیں اور نہ ہی اپنے مختلف ہونے کے جواز میں کوئی نئی لفظیات، تراکیب یا اچھوتا ڈکشن خلق کیا ہے۔ البتہ جادہ عام سے ہٹ کرپانی بساط بھر ایک جست لگائی ہے اور مخالف سمت میں بہنے کی بہت حد تک اس نے شعوری کوشش ضرور کی ہے۔ اب لاشعوری طورپر ہی سہی اپنی آزادانہ شناخت کے لئے  ایک سنسنی پھیلانے کا جال ضرور بنا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ عالم کے اس شعری سفر میں انحراف و اختلاف کے کئی اہم موڑ اور مرحلے آئے ضرور ہیں لیکن وہ شدت پسند، باغی اور سرکش نہیں ہے۔ اس نے شاعری کی مروجہ دیواروں میں اظہار کے تازہ دریچے اور در وا کرنے پر زور ڈالا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے دوسرے معاصرین کی طرح دیوار کی عظمت سے مکمل انکار کرتا نظر آیا ہو۔ دراصل یہ در، دیوار اور دریچے وغیرہ اس کے شعری سفر کو مزید وسعت دینے اور نئے امکانات سے جوڑنے میں کارگر ثابت ہوئے ہیں اور اس کے شعری سفرکو تازہ دم کرتے ہیں ۔ زندہ شعری روایت کے گلوں سے شمشیر کا کام لینا اور جدید شعری رجحانات کے زیر اثر کشادہ فکری کے نیلگوں آسمان میں قلابازیاں بھرناپھراسے اپنی جداگانہ شعری فکر کا آسمان ثابت کرناتواسے خوب آتا ہے۔ زمین کے ازلی رشتہ سے وہ انکار تو نہیں کرتا ہاں ایک چھوٹے سے دائرہ کو توڑ کر ایک بڑے دائرے میں داخل ہونا اور پھر مزید دائرے بنانے اورحسب ضرورت  توڑنے کے عمل سے گزرنا اور اپنے سخن سفر کی راہ میں حائل شجر سایہ دار کو کاٹ کر آزادانہ شناخت کے لئے بونسائی کی آبیاری کرنا تو اس کی سرشت میں شامل ہے۔

عالم کے یہاں مصلحت سے زیادہ خود پسندی جھلکتی ہے۔ اس کی لفظیات اس کا طرز اظہار کثیر المفہومی نہیں ۔ وہ فکری سطح پر کسی نظریاتی وابستگی سے انکار تو کرتا ہے لیکن سچائی چھپائے نہیں چھپتی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اپنے شعری سفر کے دوران وہ کسی بھی طرح کی حد بندیوں سے متصادم نظر آتا ہے۔ اس کے یہاں ایک طرح کی سہل پسندی اور راست بیانی صاف جھلکتی ہے۔ وہ گھما پھرا کر کہنے کا عادی نہیں ۔ اس کی غزلوں میں اس کا مکالمہ بطور خاص خدا، کائنات اور نظام جمہور میں انسانی اقدار کی شکست و ریخت اور صارفی معاشرت کے نت نئے مسائل سے ہے۔ کہیں کہیں اس کے لہجے میں جھنجھلاہٹ اور تلخی میں شدت ضرور آ گئی ہے لیکن اسے سنبھلتے دیر نہیں لگی ہے کہ اس کے یہاں جدیدیت کے عقب سے پھوٹتی ایک خاص قسم کی باسمتی خوشبو کے حوالے سے اس کے باطن کے خلاء تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے    ؎

 

وہ ایک شخص سبھی منزلیں اسی کی ہیں

میں ایک شخص مری کوئی رہ گزر ہی نہیں

 

رنگ بہت سے ہیں تصویر نہیں کوئی

میرے دھندلے خوابوں کی تعبیر نہیں کوئی

 

دروں کو صورت دیوار کرنا چاہتے ہیں

نہ جانے کیا مرے معمار کرنا چاہتے ہیں

 

لیکن اپنے اس قنوطی لہجے پر وہ بہت جلد قابو بھی پا لیتا ہے کہ اچانک حد نظر بکھرے ہوئے ڈھیرسارے رنگوں کی آمیزش سے ایک نئی لکیر، ایک نیا رنگ، ایک نئی آواز اور ایک خط ابھارنے کی اسے بشارت ہوتی ہے تو وہ جیسے اپنے تخلیقی سفرکی گہری نیند سے چونک پڑتا ہے۔ اس کے دھندلے خوابوں کی تعبیر اس کی پکڑ اور دسترس سے باہر ہی کب تھی۔ بس اسے اپنے شعری سفر کی راہ میں حائل اور حد نظر بکھری بکھری سی دھند اور کہاسے کی دبیز چادر کو جالی دار ہی تو بنانا تھا پھر کیا تھا۔ اسے تازہ دم ہونے اور جست لگانے میں دیر ہی کتنی لگی۔ وہ پلگ جھپکتے ہی تیور بدل لیتا ہے اس کے اس تیور اور رویے میں شاید اس کے’’ مختلف ‘‘ہونے کا جواز بھی شامل ہے   ؎

گم نہ ہو پہچان تیری نت نئے بہروپ میں

میر مٹّی! کوزہ گر کے چاک سے باہر نکل

ہمیں یہ تسلیم کہ زہر گل کی شاعری میں بیک وقت دل اور دماغ کا پورا دخل اور انسلاک شامل ہے یہی سبب ہے کہ اس کے شعری لہجے میں کہیں کہیں دراکی، توانائی اور توازن ہے۔ اس کی رواجی اور ذاتی سوچ کی پیش کش میں بھی کاریگری اور جدت پسندی ہے اور شاید یہی اس کے آزادانہ رویے اور کسی حد تک مختلف ہونے کا جواز بھی ہے۔ وہ ماضی پرست نہیں لیکن بزرگوں کے اس خیال سے اس کی گہری آشنائی اور وابستگی ہے کہ پاسبان عقل کو کبھی کبھی تنہا چھوڑنا بھی لازمی قرار پایا ہے۔

عقل سے کب سر ہوئے ہیں یہ جنوں کے معرکے

تو بھی عالم حیطۂ ادراک سے باہر نکل

نئی نسل کے غزل گو شعراء کی بھیڑ بھاڑ میں زہر گل کے خالق کا اپنے مختلف ہونے کا شور انگیز اظہار تو بہت آسان ہے لیکن اسے ثابت کرنا بھی کیا بہت آسان ہے؟ کچھ دیر کے لئے زہر گل کی شاعری کو ہم چاک سے باہر نکلی ہوئی (سی) تسلیم کر بھی لیں تو بھی کئی سوالات بیک وقت سرابھارتے ہیں ۔

کیا زہر گل کی شاعری اپنے مختلف ہونے کے جواز میں چاک سے مکمل طور پر باہر نکل کر اپنی انفرادی اڑان بھر رہی ہے اور کیا اس کی یہ اڑان صدائے بازگشت سے پیچھا چھڑاسکی ہے؟ زہر گل کے خالق نے اپنے عہد ماقبل اور پیش روؤں کے شعری لہجے کا شعوری یا لاشعوری طورپر اتباع  تو نہیں کیا ہے؟

اس کی اس آزادانہ اڑان میں جو توانائی در آئی ہے اس میں پیش رو شعری سفر کی غذائیت کیا شامل نہیں ہے؟ کیا اس کی اس اڑان کے دوران پیش رو شعری سفرکا کوئی علاقہ نہیں آیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ؟۔ ۔ ۔ ہمیں تو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ معاصر یا قریبی پیش رو شعرا ء سے اس کا آزادانہ شعری رویہ کس کس سطح پر مختلف ہے، اس کی نامانوس لفظیات کیا کیا ہیں ؟

اس کی آزادانہ شعری اڑان کا نقطۂ آغاز اور اس کے مختلف ہونے کا طریقہ کار کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا وہ غزل کے منظور شدہ محاورے، لفظیات اور شعری ڈکشن سے یکسر اختلاف کرتا ہوا نظر آتا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آخر اس کے آزادانہ رویے اور شناخت کے مختلف ہونے کی اساسی بنیاد کیا ہے؟

ان سارے سوالات کا ’’ہاں ‘‘ یا ’’نہیں ‘‘ ابھی وقت کی گربھ میں ہے کیا اس پر کسی بھی حالت میں صاد بنانا قبل از وقت ہو گا؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں کیوں نہیں تسلیم کر لینا چاہئے کہ زہر گل کی شاعری واقعی چاک سے باہر نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہے؟ کوئی کچھ نہیں بولتا۔ کیا ہم میں سے کوئی سقراط نہیں ؟ اگر ہاں تو اس کی خدمت میں زہر گل کا جام حاضر ہے اور اگر نہیں تو کیوں ؟ اب اس ’’ہاں ‘‘ اور ’’نہیں ‘‘ کے درمیان شمس الرحمن فاروقی صاحب کا یہ شعر جو میری اس تحریر کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوا، آپ کی نذر کرتے ہوئے رخصت ہوا چاہتا ہوں   ؎

ربط کا زہر گل زرد سا صحن دل میں

موت کی طرح سے اترا مرے اندر وہ شخص

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب مزید کچھ لکھنے سننے کو رہ گیا ہے کیا؟۔ ۔ ہاں ! ٹھہریئے کہ عالم خورشید کے تازہ مجموعۂ غزل سخن آباد (۲۰۰۳ء )، صفحہ ۱۲ کے اس اعترافیہ بیان پر ہمیں تو غور کرنا رہ گیا ہے۔ فی الحال با ذوق قارئین ادب اسے بغور پڑھیں :

’’ میری شاعری میں ایک ساتھ کئی طرح کی آوازیں اور  کیفیات گڈ مڈ دکھائی دیتی ہیں ۔ ‘‘

٭٭٭

One thought on “آزادانہ شناخت کی شہرت کا ڈائناسور– اور زہر گل ۔۔۔ شمیم قاسمی

  • ماشا اللہ ! بہت اسٹرائکنگ مضمون ہے اور مباحث کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ شمیم قاسمی صاحب کو میری جانب دلی مبارکباد
    آپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ مضمون مجھے فراہم کر دیا۔ یہ مضمون کلکتہ سے نکلنے والے رسالے "اثبات و نفی ” میں بہت پہلے شائع ہوا تھا ۔ مجھے کچھ بدلا بدلا سا لگا شایدقاسمی صاحب نے اسمیں کچھ ترمیم و اضافہ کیا ہے۔ بہر کیف! ان کا بہت بہت شکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے