آخری بند ۔ ۔ ۔ صفدر علی حیدری

’ابا! سیلاب کا خطرہ کب ٹلے گا؟‘

’بیٹا! جب دریا کا زور ٹوٹے گا‘

’ابا یہ دریا کو ہوا کیا ہے؟ اتنے غصے میں پہلے تو کبھی نہیں دیکھا؟‘

’بہت ناراض ہے ہم سے‘

’وہ کیوں ابا؟‘

’ہم اس کے بچوں کی قدر جو نہیں کرتے‘

’دریا کے بھی کوئی بچے ہوتے ہیں‘

وہ حیرت زدہ سا تھا۔

’دریا کا پانی دریا کا بچہ ہی تو ہوتا ہے، میرے بچے۔ ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ جبھی تو یہ زمینوں تک پہنچ پاتا ہے نہ ہونٹوں تک اور جب غصے میں ہو تو گاؤں کے گاؤں بہا لے جاتا ہے‘

’ابا تیری باتیں، میری سمجھ میں نہیں آتیں‘

یہ سادہ باتیں تو بڑے بڑوں کی سمجھ میں آتیں، تو، پھر بھی بچہ ہے میرے بچے‘

’بس تو یہ بتا دریا کا زور کب ٹوٹے گا؟‘

’بہت جلد میری جان، بہت جلد۔ ایک نہ ایک کو تو ٹوٹنا ہی ہے آخر‘

’کیا مطلب؟‘

’یا دریا کا زور ٹوٹے گا، یا بستی کا آخری بند‘

باپ نے بچے کی آنکھوں میں جھانکا تو اسے یوں لگا جیسے سیلابی ریلا بیٹے کی چمکدار آنکھوں میں سمٹ آیا ہو. پہلی بار احساس ہوا کہ دریا کی سیلابی لہروں کے آگے بند باندھنا آسان ہے، مگر انسانی پلکوں کے آگے بند باندھنا بہت مشکل پھر یہ بند ٹوٹ گیا

اور بوڑھے باپ کو بہا لے گیا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے