پانچویں خانے کی بندِش ۔۔۔ شموئل احمد

 

پانچویں خانے کی بندش

 

                   شموئل احمد

 

 

آپ کسی پر فریب وادی سے گزر رہے ہوں جہاں ہر طرف گہری خامشی ہو… دور دور تک نہ کوئی آدم ہو نہ بوئے آدم زاد…پرندے بھی چپ…ہوائیں ساکت…پیڑ سر نگوں …! گہرے سکوت میں ڈوبی ایسی وادی سے گزرتے ہوئے ڈھلان کے کسی تیکھے موڑ پر ادھر سے آتا ہوا کوئی شخص اچانک اوٹ سے سامنے آ جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے…؟

میں نے کچھ ایسا ہی محسوس کیا جب پہلی بار ’زہر گل‘ کے شاعر کو دیکھا۔ میرے ساتھ صدیق مجیبی بھی تھے۔ میں نے حیرت سے پوچھا…

’’یہی عالم خورشید ہے…؟”‘

’’ہاں !”‘

’’زہر گل والا شاعر…؟‘‘

’’ہاں بھئی ہاں …!‘‘  مجیبی کو میری حیرت سے چڑ ہو رہی تھی۔

’’یہ تو چھٹ بھیوں کے ساتھ رہتا ہے…‘‘

رہتا ہے لیکن خود ایسا نہیں ہے۔ ۔ ۔

یہی تو حیرت ہے اتنا اچھا شاعر اور اتنے گھٹیا لوگوں کی صحبت!سب کے سب سازشی ہیں …کسی کو بھی منچ پر بے عزت کر دیں گے۔ ۔ یہ لوگ اسی طرح دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔”‘

’’آخر اپنے ہم عصروں کے درمیان ہی رہے گا نا…ہم عصر  اگر گھٹیا ہیں تو یہ کیا کرے؟‘‘  مجیبی مسکرائے۔

’’زیادہ وقت نہ دے…ان کی سازشوں میں شریک نہ ہو…مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بھی سازش کرتا رہتا ہے۔”‘

’’چندن وش ویاپت نہیں …”‘ مجیبی نے دوہا پڑھا۔ میں نے سعدی کی حکایت سنائی…مٹی کے ایک ڈھیلے میں خوشبو آ گئی، وہ گل کی صحبت میں رہتا تھا۔

’’ان میں بھی خوشبو آ جائے گی…‘‘  مجیبی چھٹ بھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔

’’لیکن گل کی پتیاں بھی تو گرد آلود ہوں گی…ان میں بھی زہر پھیلے گا ؟”‘

’’یہی تو وہ زہر گل ہے جسے وہ اپنے شعروں میں بیان کرتا ہے…ایک بڑا شاعر معاشرے کے زہر کو اپنی داخلیت کی گہرائیوں میں جذب کرتا ہے۔”‘ مجیبی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرائے۔

’’ نہیں !… یہ وارث شاہ نہیں ہے۔ یہ بھی ان کے ساتھ سازش میں ملوث رہتا ہے۔”‘ … میں چڑ گیا۔

اس دن اس سے زیادہ باتیں نہیں ہوئیں۔ بس علیک سلیک پر معاملہ ختم ہوا۔

اس نے کچھ رسمی  باتیں کیں۔ ۔ ۔ ۔ مثلاً۔ ۔ ۔ ۔ آپ بہت اچھی کہانیاں لکھتے ہیں۔ آپ کی نثر شاعری کے بہت قریب ہے۔ تشبیہات اور استعارے کا جواب نہیں۔  سنگھاردان لا جواب ہے۔

میں پہلے سامنے والے کو سنتا ہوں …پھر اس کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے اس کی داخلیت میں اترتا ہوں …نہ جانے کیوں میں یقین کرنا نہیں چاہتا تھا کہ وہ میرے تئیں مخلص ہے۔  لیکن مجھے اس  کے دو اشعار یاد آئے …

 

نغمہ چھیڑیں ساز بجائیں اپنے دل کا ہم

موسم کا سازندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

 

اک پل کو ہی چمکیں لیکن بجلی سی لہرائیں

راکھ تلے پائندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

 

یعنی اس کے اندر ایک عزم تھا…میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ یہ برساتی شاعر نہیں ہے۔ ۔ برسات کے سازندوں کے ساتھ زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکے گا…اور اپنی راہ الگ بنائے گا۔

لیکن ہر سیڑھی کے مقدّر میں ایک سانپ ہوتا ہے۔ آدمی جب زمین پر چلتا ہے تو سانپ بلوں میں ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے وہ سیڑھیاں چڑھتا ہے ،سانپ سرسراتے ہیں اور آخری سیڑھی پر تو ڈس ہی لیتے ہیں۔ زہرِ گل کا شاعر اگر معصوم ہے تو ڈسا جائے گا اور اگر جال بننا سیکھ گیا تو آخری سیڑھی بھی پھلانگ جائے گا۔ میری دلچسپی اس کے زائچے میں ہوئی۔

زائچہ داخلیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ علمِ نفسیات کی حد جہاں سے شروع ہوتی ہے ،علمِ نفسیات کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ زندگی کے خارجی پہلو کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ آدمی کو سمجھنا ہو تو اس کا زائچہ دیکھو۔ طالع میں سرطان …برج کواکب کا سب سے حساس برج…بورژوا،متحرک اور آبی…خوبی یہ کہ طالع کا مالک خود اپنے گھر کو دیکھتا ہے۔ لیکن میری توجہ پانچویں خانے پر گئی۔ پانچواں خانہ محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں زحل اور راہو کا اتصال تھا…وہ بھی برج عقرب میں مریخ کی نظر تھی۔ کسی بھی زائچہ میں خانۂ پنچم سالک کے ذہن سے عبارت ہے یعنی ذہانت…فکر و تخیل…سوجھ بوجھ…اور یہاں راہو اور زحل دونوں براجمان تھے۔ زحل،غم کااستعارہ ہے…انسانی دکھوں کا منبع…اور راہو شک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ دونوں چھپ چھپ کر کام کرتے ہیں اور راز کو  راز رکھتے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ غم و غصہ کی ایک خاموش لہر اس کے اندر ہمیشہ موجود رہے گی۔ یہ  اندر  ہی اندر گھٹے گا مگر کسی پر کچھ ظاہر نہ کرے گا۔ اس کی کارگزاریاں مخفی رہیں گی۔ اس کے منصوبے کا پہلے سے علم مشکل ہے۔ صرف اخبار کی رپورٹ سے معلوم ہو گا کہ کس مشاعرے میں گیا اور کہاں سیمینار میں شرکت کی۔ لیکن مریخ کی نظر بھی تھی۔ مریخ آگ ہے اور زحل برف…آگ پگھلا  دے گی۔ پہلے وہ گھٹے گا اور پھر اچانک مشتعل ہو جائے گا۔ اور ایک دن یہی ہوا…

وہ چھٹ بھیوں کی محفل تھی۔ ان میں جو دقاق تھا، نظامت کر رہا تھا۔ دقاق نے حسبِ معمول اوقات دکھائی اور چھینٹا کشی شروع کی…زہر گل کے شاعر نے پہلے برداشت کیا پھر اچانک پھٹ پڑا۔ اس نے پاؤں سے چپل نکالی…

حرام زادہ !…یہ چپل دیکھتا ہے…دقاق سٹک گیا…لوگوں نے بیچ بچاؤ کیا…

مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو میں خوش ہوا۔ گویا شعر و ادب کے ان جیدوں سے اس نے کنارہ کشی شروع کر دی تھی…اور یہی وہ دن تھے جب وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ  رہا تھا اور سانپ سرسرا رہے تھے۔

عبد الصمد کہتے ہیں وہ ایروگینٹ ہے۔ میں صمد سے اتفاق کرتا بھی ہوں اور نہیں بھی کرتا…انانیت تھوڑی بہت  سب میں ہوتی ہے۔ شاعر و ادیب میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اس میں بھی انا ہے لیکن کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نہیں ہے۔ وہ ضدی ہے لیکن اڑیل نہیں ہے۔ صمد کہتے ہیں …اس کے کچھ اپنے تعصبات ہیں …میں چپ رہتا ہوں کہ راہو اور زحل کا اتصال ہے۔

ایک دن رات دس بجے صمد کا فون آیا کہ عالم دفتر سے لوٹ کر اب تک گھر نہیں گئے۔ گھر والے پریشان ہیں …وجہ …؟  معمولی سی تکرار… میں نے  اس بات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ چھوٹے موٹے جھگڑے ہر گھر میں ہوتے رہتے ہیں لیکن صمد نے کہا اسے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ صمد ہمارے روحانی پیر ہیں۔ جب وہ اس طرح کہتے ہیں تو بات گمبھیر ہو تی ہے۔ میں چاہتا تھا اسے ریستوراں میں بلانا… اصل میں صمد نے ایک کہانی لکھی تھی اور سنانا چاہتے تھے۔ ان کی کہانی میں گھر پر نہیں سنتا… ریستوراں میں سنتا ہوں۔ گھر پر صمد کی کہانی سنتے ہوئے لگتا ہے…وعظ سن رہے ہیں۔  میں نے انہیں ممتا ریستوراں میں بلایا لیکن عالم سے رابطہ قائم نہیں ہو رہا تھا…اس کا فون ڈیڈ تھا اور موبائل بے آواز…صمد نے کسی طرح پیغام بھجوایا…

میں نے دونوں کے لئے سافٹ ڈرنک منگوائی۔ صمد نے اسپرائٹ کی چسکی لی اور میں نے ووڈکا سپ کی۔ وہ ایک پیراگراف پڑھتے تھے اور اسپرائٹ پیتے تھے۔ کہانی جیسی بھی ہو لیکن کھانا ختم ہوا تو میں صمد کی دروں بینی کا قائل ہوا۔ عالم اٹھ کر باتھ روم کی طرف گئے تو میری طرف جھک کر وہ آہستہ سے بولے…

’’دیکھا…؟ عالم نے کس طرح کھانا کھایا ؟‘‘

’’کس طرح…؟”‘

’’آپ نے اسے اس طرح کھاتے نہیں دیکھا ہو گا…؟‘‘

’’ پھر بھی …؟‘‘

’’ یہ دو نان کھا گیا…”‘

’’یہ کیا بات ہوئی…؟ میں نے تین نان کھایا…؟‘‘

’’ارے  آپ تو کھاتے ہی رہتے ہیں صاحب ! …لیکن عالم کا یہ طریقہ نہیں نہ ہے…‘‘

’’ اس کا کوئی طریقہ نہیں ہے…یہ نہ سگریٹ پیتا ہے نہ شراب پیتا ہے نہ عورتوں کو گھورتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی بھوک نہیں ہے۔ اس کی آنکھوں میں صرف ایک دھند ہے…‘‘  میں مسکرایا۔

لیکن صمد سنجیدہ تھے۔ انہوں نے مجھے سمجھا یا…عالم کھانے پینے کے معاملے میں بے حد سو فسٹی کیٹیڈ ہے۔ اس کی خوراک کم ہے …ہر چیز نہیں کھاتا اور جو کھاتا ہے…کم کم کھاتا ہے…یہاں دو نان اس لئے کھا گیا کہ گھر پر کھانا نہیں کھا رہا ہے۔ حضرت منہ پھلائے گھوم رہے ہیں۔

شاید غزل کو خود کلامی راس آتی ہے۔ لیکن عالم کے لہجے میں کہیں کہیں بلند آہنگی بھی ہے جو عصری تقاضہ بھی ہے اور ان کی انا کا پرتو بھی۔ ان کے لہجے میں ، آہنگ میں ایک طرح کا تیکھاپن ہے۔ ہم عصر انسانی زندگی کو بے رنگ کر دینے والے عناصر کے خلاف عالم موثر ڈھنگ سے احتجاج کرتے ہیں۔ زندگی کے تئیں ان کے تنقیدی روئیوں کا بہت تخلیقی اظہار ان کی غزلوں میں ہوا ہے۔ مثلاً ایک غزل کے یہ چند اشعار…

 

مل کے رہنے کی ضرورت ہی بھلا دی گئی کیا

یاں محبت کی عمارت تھی گرا دی گئی کیا

 

بے نشاں کب کے ہوئے سارے پرانے نقشے

اور بہتر کوئی تصویر بنا دی گئی کیا

 

منہ اٹھائے چلے آتے ہیں اندھیروں کے سفیر

وہ جو اک رسمِ چراغاں تھی، اٹھا دی گئی کیا

 

ایک بندے کی حکومت ہے خدائی ساری

ساری دنیا میں منادی بھی کرا دی گئی کیا

 

بہتے پانی میں نظر آتی ہے سرخی کیسی

اب کے دریا میں کوئی چیز ملا دی گئی کیا

 

پوری غزل امریکی سامراجیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اصل میں عالم کی شاعری مختلف رنگ، مختلف لہجے اور مختلف اسالیب کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری ذاتی بھی  ہے اور داخلی بھی …اور غنائی بھی۔ ان کے اشعار اپنے زمانے سے وابستگی کا پتہ دیتے ہیں۔ سماج کی کثافتوں کو یہ خورد بین سے دیکھتے ہیں۔ ایک حقیقت وہ ہوتی ہے جو نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے اور نظر نہیں آتی۔ عالم کی شاعری اس نا دیدہ حقیقت کی بازیافت ہے۔ ذات کے نہاں خانے میں چھپی اندیکھی حقیقت کو ڈھونڈ نکالنے کی ان میں تڑپ بھی ہے

اور تجسس بھی۔ ان کا ایک شعر ہے:

 

اک دوسرے سے ٹوٹ کے ملتے تو ہیں مگر

مصروف سارے لوگ ہیں ایک سرد جنگ میں

 

اور یہ شعر بھی کہ

 

شیشہ مزاج میں ہوں مگر یہ بھی خوب ہے

اپنا سراغ ڈھونڈتا ہوں سخت سنگ میں

 

عالم کی شاعری سے گزرتے ہوئے میری نظر پانچویں  خانے  کی بندش پر پڑتی ہے جہاں برج عقرب میں زحل اور راہو کا اتصال ہے۔ سیارگان میں زحل زمین سے سب سے زیادہ دوری پر واقع ہے اور سب سے سست رفتار سیارہ ہے۔ اس  کے چاروں طرف دھند کی ایک زنجیر سی ہوتی ہے جسے زنجیرِ زحل کہتے ہیں۔ پانچویں خانے میں اس کا ارتعاش اگر ذہن کے افق سے ہم آہنگ نہیں ہے تو تعطل پیدا کرے گا۔ عالم اکثر تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں سرد ہو جاتی ہیں …لحد میں منہ چھپا لیتے ہیں …مشاعرے سے بلاوا بھی آتا ہے تو نہیں جاتے…لیکن یہ کیفیت زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہتی۔ اصل میں زحل پر مریخ کی نظر ہے اور شمس کی بھی۔ زحل اگر برف ہے تو شمس اور مریخ آگ ہیں …آگ برف کو پگھلا دیتی ہے…پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے اور تعطل زائل ہو جاتا ہے۔ عالم نئی تخلیقی توانائی کے ساتھ شعر گوئی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں جو گہرائی ہے اس کی وجہ بھی زحل کا ارتعاش ہے۔ مشتری نے انہیں شاعر بنایا جو دوسرے خانے میں واقع ہے لیکن گہرائی زحل نے دی۔ ادب اور فن میں عطارو کی حیثیت کرافٹ مین کی ہے۔ زہرہ سے جمالیات آتی ہے،زحل گہرائی پیدا کرتا ہے، مریخ لہجے کو دھار دار بناتا ہے اور شمس وقار عطا کرتا ہے۔ چونکہ زحل پر مریخ اور شمس کی نظر ہے اس لئے لہجہ دھار دار بھی ہے اور پر وقار بھی۔

ہمارے ایک شیطانی پیر بھی ہیں …

مجھے جب کسی کی غیبت کرنی ہوتی ہے تو ان سے رجوع کرتا ہوں۔ اللہ نے شیطان کو آگ سے بنایا …شیطان کاکام ہے جلنا اور جلانا۔ ہمارے پیر میں جلانے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن جلتے خوب ہیں۔ جلانے کے لئے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں اور جلنے کے لئے سینے میں بغض چاہیئے…پس معلوم ہوا کہ بغض شیطان کا ایندھن ہے۔ ہمارے  پیر کو ایندھن کی کمی نہیں ہے۔ وہ ہر جگہ ایندھن بٹورتے رہتے ہیں۔ کچھ میں بھی فراہم کراتا رہتا ہوں … اصل میں ایک شیطان میں بھی ہوں۔

ان دنوں عالم کا گراف مائل بہ عروج ہے۔ وہ ہر جگہ مشاعرے میں بلائے جا رہے ہیں۔ میں نے سوچا شیطانی پیر کی خیریت معلوم کروں۔ ان سے رابطہ قائم کیا …

’’عالم کیا بہت بڑے شاعر ہیں …؟”‘

’’ کیوں …؟‘‘  پیر نے ناگوار نظروں  سے مجھے گھورا۔

’’ہر جگہ مشاعرے میں بلائے جا رہے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے علی گڑھ گئے تھے…پھر ممبئی گئے…اب بھوپال گئے ہیں …‘‘

ایندھن نے کام کیا…پیر اٹھ کر بیٹھ گئے…

’’وہ بہت بڑا سیٹر(Setter) ہے …‘‘

’’ سیٹر…؟”‘ میں نے مسکراتے ہوئے پیر کی آنکھوں میں جھانکا…

’’ جی ہاں  سیٹر!…  اس کی نٹ ورکنگ دور تک پھیلی ہوئی ہے۔”‘

’’ لیکن شاعری تو اچھی کرتا ہے…‘‘ میں مسکرایا۔

’’ نٹ ورکنگ کرتا ہے…‘‘ پیر کو غصہ آنے لگا تھا۔ میں نے سوچا …تھوڑا ایندھن اور ڈالوں۔

’’یہ نٹ ورکنگ نہیں ہے۔ یہ ایلٹ کلاس میں اس کی پہچان ہے۔”‘

’’ کوئی پہچان وہچان نہیں ہے …سب سیٹنگ ہے۔”‘

’’ سیٹنگ کے لئے بھی اعلیٰ شاعری کی ضرورت ہے۔ تب ہی ادب کا طبقۂ اشرافیہ اس کو خود میں ضم کرتا ہے اور  عالم اب تو خود ہی ایلٹ ہو گئے ہیں …‘‘

پیر کی مٹھیاں تن گئیں …وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگے…

شیطانی پیر کے جلنے کا عالم دیدنی ہوتا ہے…میں بھاگ کھڑا ہوا۔

عالم بھوپال سے لوٹے تو میں نے واقعہ  سنا یا…عالم کی آنکھیں چمکیں …انہوں نے زور کا قہقہ لگایا …مگر ہنسی رکی تو پھر دھند چھا گئی۔ میں نے ایک لمحے کے لئے دھند سے پرے جھانکنے کی کوشش کی  تو مجھے ان کا ایک شعر یاد آ گیا ۔ ۔ ۔ ۔

 

مری آنکھوں کی ویرانی میں اترو گے تو جانو گے

کہ ہر صحرا کسی دریائے امکانی سے ملتا ہے

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے