زہرِ گل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک مطالعہ
امتیاز احمد
بات اس زمانے کی جب شعر ادب کے انعامات تقسیم ہونے شروع نہیں ہوئے تھے اور شعر کہتے کہتے لوگ ڈپٹی کلکٹر بھی نہیں ہوتے تھے۔ کلاسیکی شعریات میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی تھی جسے لوگ سہلِ ممتنع کہتے تھے۔ اس کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ ایسا کلام جو بظاہر اتنا آسان معلوم ہو کہ ہر شخص یہ کہنے لگے کہ ایسا شعر تو میں بھی کہہ سکتا ہوں لیکن جب کہنے بیٹھے تو لوہے کے چنے چبانے پڑ جائیں ۔ ظاہر ہے خون تھوکنے اور لوہے کے چنے چبانے کے محاورے یوں ہی نہیں بن گئے۔ ان کے پیچھے استادی اور شاگردی کا وہ پورا تصور کار فرما ہے جس میں شعرا کو تلمیذ الرحمٰن کہا گیا ہے۔ استادِ ازل کی قدرتِ کاملہ جب کسی شعر پر اثر انداز ہوتی اور اسے اس کا عشر عشیر بھی مل جاتا ہے تو وہ بھی استاد کہلانے لگتا اور شاعری کے تمام اسالیب اور اصناف پر قدرت حاصل کر کے مشکل سے مشکل زمینوں کو پانی کر دکھاتا۔ یہی پانی کر دکھانا سہلِ ممتنع کہلاتا تھا۔ اس کے لئے عربوں کے یہاں یہ روایت تھی کہ شاعری شروع کرنے سہ پہلے ہر متوقع شاعر قصیدہ کے بیس ہزار اشعار یاد کرتا اور پھر جب یاد کا مرحلہ طے ہو جات تو انہیں بھلانا شروع کرتا۔ اس مرحلہ کی تکمیل کے بعد وہ شاعری شروع کرتا تھا۔ اس کے نتیجے کے طور پر وہ جانتا تھا کہ اس سے پہلے کے شعرا کیا کچھ کہہ چکے ہیں اور کیسے کہہ چکے اور اگر اپنے بعد اسے اپنے کلام کو زندہ رکھنا ہے تو کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے۔ عربی اور فارسی سے ہوتی ہوئی یہ روایت ہمارے یہاں پہنچی اور ہمارے کلاسیکی شعرا نے سہلِ ممتنع کی وہ روایت قائم کی جو اب ہمارے سامنے ہے۔ بعد کے شعرا نے اس سے انحراف کی کوشش میں گرمبے بنانے شروع کئے اور جنہوں نے گرمبے نہیں بنائے وہ سرخ سویرا کی نذر ہو گئے۔ ان دونوں کے بعد کچھ لوگ ایسے بھی آئے جو سرخ سویرا اور گرمبے دونوں سے محفوظ رہے۔ انہیں لوگوں میں ایک نام عالم خورشید کا بھی ہے۔ عالم خورشید اور ان کی نسل کے بعض دوسرے شعرا نے کلاسیکی شعریات اور شعری روایت سے اپنا رشتہ استوار رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کے یہاں اس طرح کے اشعار بہ کثرت ملتے ہیں :
سیاہ رات کے بدن پہ داغ بن کے رہ گئے
ہم آفتاب تھے مگر چراغ بن کے رہ گئے
کسی کو عشق میں بھی اب جنوں سے واسطہ نہیں
یہ کیا ہوا کہ سارے دل، دماغ بن کے رہ گئے
وہ شاخ شاخ نیلے پیلے لال رنگ کیا ہوئے
تمام دشت کے پرند زاغ بن کے رہ گئے
جس دن کے منتظر تھے ہم شب کی مثال ہو گیا
جینا کہاں کہ چین سے مرنا محال ہو گیا
گملوں میں سبز کیکٹس، میزوں پہ سنگ سج گئے
حیرت میں ہوں کہ کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا
صحرا کے بود و باش کی آتی تھی یاد اس طرح
کاغذ پہ دشت دیکھ کے میں بھی غزال ہو گیا
کبھی موتی، کبھی تارے بنا لیتے ہیں اشکوں سے
خوشی کو ہم الم کا استعارہ کرتے رہتے ہیں
خلقت تمام شہر کی مجھ پر ہے مہربان کیوں
میں نے تو آج تک کوئی کارِ جفا کیا نہیں
ایک ایک گل تری تصویر ہمیں لگتا ہے
پھول کا ہار بھی زنجیر ہمیں لگتا ہے
ساری دنیا سے تعلق ہے اسی کے دم سے
رشتۂ درد جہانگیر ہمیں لگتا ہے
سیاہ بخت وہی لوگ کہہ رہے ہیں ہمیں
مرے چراغ سے جو اپنا گھر اجالتے ہیں
دئے جلانے پڑیں گے کئی زمانوں تک
سحر تو آئی مگر صرف پاسبانوں تک
ٹوٹتی محراب، گرتے بام و در دیکھے گا کون
ہم نے دیکھی ہے حویلی تو کھنڈر دیکھے گا کون
کلاسیکی شعریات کے زائیدہ عالم خورشید کے یہ اشعار کلاسیکی اسلوب، آہنگ اور انداز کے ساتھ ساتھ سہلِ ممتنع کی اس کیفیت کا بھی پتا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر مصرعہ اپنی اپنی جگہ پوری طرح گٹھا ہوا، انتہائی آسانی سے کہا گیا اور بغیر کسی بلند آہنگی اور اظہار کی شدت کے اپنی جگہ تاثر کی شدت رکھتا ہے۔ عالم خورشید کے کلاسیکی شعریات سے شدید طور پر جڑے ہونے کا احساس ان کے اشعار دے دوسرے مصرعوں کے مطالعہ سے بھی ہوتا ہے۔ کلاسیکی شعرا پہلے دوسرا مصرعہ کہتے تھے اور اس کے بعد اس پر مصرعہ اولیٰ لگاتے تھے۔ اسی لئے عام طور سے ان کے دوسرے مصرعے بہت بھرپور ہوا کرتے تھے اور بعض اوقات یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ پہلے مصرعے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اسی لئے کلاسیکی شاعری کی تفہیم کا بھی یہی طریقہ قرار پایا کہ پہلے مصرعہ ثانی کی تفہیم کی کوشش کی جائے اور بعد میں مصرعہ اولیٰ سے اس کا ربط تلاش کیا جائے۔ یہ خصوصیت عالم خورشید کے یہاں بھی ملتی ہے۔ چند مصرعے دیکھئے!
ہمیں خبر ہی نہیں ہجر کیا، وصال ہے کیا
ہوا کے رخ پہ بھی چلنا کوئی کمال ہے کیا
کھلیں کے پھول بھی، پھولوں کی آرزو تو کریں
کوئی چراغ ہواؤں کے روبرو تو کریں
اب یہاں میرے سوا خوابِ سحر دیکھے گا کون
بتوں کے شہر میں یہ کامیابی کم نہیں ہے
سیاہ رات کو خطرہ اسی کمال سے ہے
اپنی آنکھوں میں کوئی مہتاب کہاں رکھتے ہیں ہم
اس خرابے میں کوئی خطۂ شاداب بھی ہے
لیکن ان معروضات کے معنٰی یہ نہیں ہیں کہ عالم خورشید کلاسیکی شاعر ہیں یا عظیم شاعر ہیں یا بہت بڑے شاعر ہیں یا آؤٹ آف ڈیٹ شاعر ہیں ۔ عالم اپنے عہد کے شاعر ہیں اور اس عہد کی ساری جھلّاہٹ، تشنگی، بیچارگی، مہابیانیہ کی گم شدگی ان کے کلام میں در آئی ہے۔ اس میں احتجاج کی ایک زیریں لہر بھی ہے، عشق کی آگ بھی ہے اور زندگی کی ناہمواریوں کو ہموار کرنے کا حوصلہ بھی۔ ان کے یہ اشعار دیکھئے جو ان کے اپنے عہد اور ان کے اپنے مزاج کی پہچان ہیں :
ہمارے عہد کا محبوب ہی کچھ ایسا ہے
ہمارا کام نہیں چلتا ہے کنائے سے
گفتگو رمز کنایہ ہیں فقط وصل کے خواب
عشق اب لفظ کی جاگیر ہمیں لگتا ہے
شکم کی آگ بجھانے میں ہم پریشاں ہیں
ہمیں کہاں ہے سعادت گناہ کرنے کی
میں کس کے حق میں اٹھاؤں اب اپنے ہاتھوں کو
میری نظر میں کوئی شخص معتبر ہی نہیں
اسی لئے تو یہ سارا جہاں ہمارا ہے
کہ اس زمیں پہ کہیں اپنا کوئی گھر ہی نہیں
ہر ایک شئے ہے میسّر بس اک سکوں کے سوا
دکھا رہے ہو مجھے کیسا دہر کاغذ پر
لیکن یہ پہچان کبھی شاعری بنتی ہے کبھی نہیں ۔ جب یہ شاعری بنتی ہے تو اس طرح کے اشعار وجود میں آتے ہیں :
صحرا کو جل تھل کر ڈالا قطرہ قطرہ پانی نے
ہم کو کیا کیا خواب دکھائے آنکھوں کی ویرانی نے
تیرا میرا روح کا رشتہ جنم جنم کا بندھن ہے
کیسے کیسے لفظ تراشے شہواتِ نفسانی نے
لہروں کی سرگم پر جھومیں بیچ بھنور میں رقص کریں
کتنا سرکش بنا دیا ہے تنکوں کو طغیانی نے
یا پھر وہ اشعار وجود میں آتے ہیں جو کلاسیکی شعریات کے سلسلہ میں پیش کئے گئے ہیں ۔ اور جب یہ پہچان شاعری نہیں بنتی ہے تو اس طرح کے اشعار وجود میں آتے ہیں :
تمہارا سچ ہمارا سچ نہیں ہے شہریارو
تمہارے سچ سے ہم انکار کرنا چاہتے ہیں
بھروسہ اٹھ گیا ہے اب ہمارا ناخدا سے
ہم اپنے ہاتھ کو پتوار کرنا چاہتے ہیں
خدا کے خوف نے تم کو کہاں انساں بنایا
خدا کی ذات سے ہم پیار کرنا چاہتے ہیں
لیکن ایسے اشعار اس مجموعہ میں کم ہیں ۔ عام طور سے زہرِ گل کی شاعری ۱۹۷۰ء کے بعد کی نسل کی شاعری کی خوشگوار نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن اس کے خد و خال پوری طرح واضح ہونا ابھی باقی ہیں ۔ اس بات پر ضرور حیرت ہوتی ہے کہ یہ شاعر اتنی آسانی سے نک سک سے درست اتنے اچھے اشعار کیسے کہہ لیتا ہے۔ اور اسی وجہ سے قاری اس سے توقعات کی ایک دنیا وابستہ کر لیتا ہے۔ خدا کرے عالم خورشید کے آنے والے مجموعے قاری توقعات پر پورے اتریں ۔ (آمین)
٭٭٭