ایمان قیصرانی۔ ’’ میری یاد آئے گی‘‘ کا تنقیدی جائزہ ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

 

ایمان قیصرانی۔ ’’ میری یاد آئے گی‘‘ کا تنقیدی جائزہ

 

                   جلیل حیدر لاشاری

 

ایمان قیصرانی کی شاعری نہ صرف سادگی کا حسن لیے ہوئے ہے بلکہ اس میں فطرت کا جمال بھی شامل ہے۔ وہ اپنے اشعار کو جذبات کی شدت، احساسات کی حدت، خیال کی ندرت، فکر کی گہرائی اور تخیل کی بلند پروازی  سے تو سجاتی ہیں مگر مشکل الفاظ کا سہارا نہیں لیتی۔ لفاظی سے بچتیں اور تراکیب کو دور سے ہی الوداع کہہ دیتی ہیں ۔ یہی ان کی شاعری کی انفرادیت بھی ہے اور خوبی بھی ہے۔ اسی خوبی اور انفرادیت نے ایمان قیصرانی کو ان کی دیگر ہم عصر شاعرات سے منفرد و ممتاز کر دیا ہے۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ  ایمان قیصرانی کے اشعار سیدھے سادے اور پر فطرت ہونے کے سبب سیدھے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں اور ایک اچھے اور سچے شعر کی خوبی بھی یہی ہوتی ہے۔ بقول ِ حسرت

؎ شعر دراصل ہیں وہی حسرت

سنتے ہی جو دل میں اتر جائیں

ایمان قیصرانی کے شعر بھی سہل ممتنع ہونے کے سبب دل میں اترتے چلے جاتے ہیں ۔ ایمان جو بات سیدھے سادے انداز میں کہتی ہیں اس کا دل پر گہرا اور دیرپا اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیں ۔

؎  یہ تم سے ہو کہ مل سکو، نہ مجھ سے ہو کہ وقت دوں

تمہیں بھی کتنے کام ہیں مجھے بھی کتنے کام ہیں

 

؎   یا   پھر  میرے بن  جاؤ

یا  او ر  کسی   کے  ہو جاؤ

 

؎ میرے کاندھے پر سر رکھ کر

اپنا      رونا    رو   جاؤ

 

ایمان قیصرانی نے اپنی شاعری میں اپنے جذبات واحساسات کا اظہار سادگی سے کیا ہے جو خو د بخود نہ صرف سمجھ میں آتا جاتا ہے بلکہ کیف و سرور و لطف بھی دیتا ہے۔ یہی شاعرہ کا اسلوب بھی ہے۔ ان کی کتاب ـ’’ میری یاد آئے گی‘‘ کی تمام شاعری کا مطالعہ کر جائیے آپ کو ایک جیسا لہجہ اور ایک سا  پیرائیہ  ملے گا۔ یہی اسلوب ہوتا ہے اور کسی بھی تخلیق کار کے جینوئن ہونے کا ثبوت بھی۔ ایمان قیصرانی کو اپنی فطری شاعری کے سبب قارئین ِ شعروادب کے دلوں تک رسائی حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئی ہیں کیونکہ آج کے دور میں لسانی گورکھ دھندوں اور فکری موشگافیوں کے جھمیلوں سے قارئین کے دل و دماغ الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ تراکیب، ضرب المثال اور کہاوتوں سے مملو شاعری کو طاق پہ رکھ دیتے ہیں مگر ایمان قیصرانی کی شاعری اس سے برعکس ہے۔ ان کے الفاظ مانوس ہیں ، ان کے جذبات و احساسات ایک حساس عورت کے جذبات و احساسات ہیں جو جلد سمجھ میں بھی آ جاتے ہیں اور اپنے  جذبات و احساسات بھی لگتے ہیں ۔ ایمان قیصرانی ایک عورت کے ساتھ ساتھ با کمال شاعرہ بھی ہے۔ اپنے اندر کی عورت کے احساسات کو جب وہ اپنے اشعار میں ڈھالتی ہیں تو وہ نہ صرف عورت کے احساسات کے حقیقی معنوں میں ترجمان ہوتے ہیں بلکہ وہ اشعار ایک شاہ پارہ بن کر امر ہو جاتے ہیں ۔

اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

؎ یہ میری تشنگی مجھ کو تمہارے در پہ لے آئی

وگرنہ پاس چل کر تو کبھی دریا نہیں آتا

 

؎جو اس کے دل کو چھو جائے اور اس کی آنکھ بھر آئے

مرے لفظو، کوئی  جادو  تمہیں  ایسا  نہیں  آتا؟

 

؎کبھی سوچا ہے؟ ممکن ہے جسے تم بے وفا سمجھے

وہ ایک  لڑکی جہاں بھر میں وفا کا استعارہ ہو!

 

؎وہ بارشوں کی مہکتی سی ایک خوشبو ہے

یہ میرا جسم کہ پیڑوں کی نرم چھایا ہے

 

؎یہ لگ رہا ہے تمہارے بدن کے صحرا پر

کسی کی زلف کا بادل اتر کے آیا ہے!

 

؎ تمہارے عشق میں دل نے عجب تمنا کی

کہ مجھ سے بڑھ کے کوئی تم کو چاہتا ہو!

 

ایمان قیصرانی کی شاعری میں ایک بات بڑی شدت سے سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی باتوں سے محرومی کی بو آتی ہے۔ ان کی شاعری یاسیت کی شاعری معلوم ہوتی ہے۔ جیسے ایک شخص اپنی من پسند شے حاصل کرے اور وہ اس سے استفادہ کیے بغیر اس سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ احساس  ان کی شاعری میں جا بہ جا نظر آتا ہے۔ مَیں ان کی ذاتی زندگی سے واقف نہیں ہوں لیکن ان کے کلام میں یہ حسرت، ارمان اور خواہش کہ آواز سنائی دیتی ہے کہ جیسے وہ ادھوری رہ گئی ہوں اور یہ ادھورا پن ان کے اشعار میں بھی ڈھل گیا ہے اور ان کی غزلوں کا حصہ بھی بن گیا ہے۔ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

؎ جس نے کہا تھا وہ نہیں جائے گا چھوڑ کر

اس کے تو لوٹنے کا بھی امکاں نہیں رہا

 

؎وہ نہیں تو اس کے بعد اب اس کتابِ عشق کا

ہم نے  مضمون پھاڑ ڈالا خالی  صفحہ رکھ دیا

اس احساس ِمحرومی سے ہو سکتا ہے ان کا شعری سفر کچھ وقت کے لیے رک سا گیا ہو لیکن ان کی ارتقا پذیر شاعری سے ظاہر ہے کہ ان کے حالات خواہ کچھ بھی رہے ہوں ان کی شاعری کا سفر جاری رہا ہے۔ ان کی مشقِ سخن اس بات کا ثبوت ہے وہ تنہائی میں اپنے جذبات کی آواز کو شعروں کے پیکر میں ڈھالتی رہی ہیں ۔ الفاظ کا پیرہن پہنا کر انہوں نے اشعار کو زینت بخشی ہے اور یہی زینت ان کی غزلوں کا سنگھار ہے۔ وہ کس خوبصورتی سے اپنے دل کی بات کہتی ہیں ملاحظہ فرمائیں

؎    حبسِ غم سے تُو نے انساں کو بچایا، شکریہ

اس مکانِ دل میں آنکھوں کا دریچہ رکھ دیا

 

؎  کسی   مزار  پہ   رکھے  چراغ  کی  صورت

مَیں بجھ رہی ہوں فضائیں دھواں دھواں کر کے

 

؎   دیارِ غیر! تری ہجرتیں سلامت ہوں

کہ اس سفر میں مشکل ہوا ہے گھر رکھنا

 

؎اس کی کشش نے مجھ کو بنایا تھا کہکشاں

بچھڑا تو میرا جسم ستاروں میں بٹ گیا

جہاں تک فکر کی گہرائی اور سوچ کی گیرائی کا تعلق ہے ان کے کلام میں بے شمار خوشگواریت اور جذبات میں لطافت پائی جاتی ہے۔ وہ ایک حساس دل، نرم لہجہ اور حلیم الطبع شاعرہ ہیں ۔ وہ خود کو دُکھ دے کر اوروں کو سُکھ دینے پر ایمان پر رکھتی ہیں ۔ وہ ایک شجرِ سایہ دار کی طرح زندگی کر رہی ہیں جو خود دھوپ میں جل کراوروں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔ بلکہ ایمان تو اس سے بھی آگے جاتی ہیں وہ چراغ بن کر ان کے دروبام بھی منور کرنا چاہتی ہیں جو آندھی بن کر اسے بجھانے پر بضد ہیں

؎ ترا آندھیوں سا مزاج تھا، تو بضد تھا  مجھ کو بجھائے گا

میں  چراغ  تھی  مری روشنی، ترے دروبام کو سجا گئی

ایمان قیصرانی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے غموں میں دوسروں کو شریک کرنا نہیں چاہتی بلکہ دوسروں کے دکھوں کو بانٹ لینا چاہتی ہے۔ وہ ماحول میں تازگی اور شگفتگی بکھیرے کی متحمل ہونا چاہتی ہے نہ کو ماحول کو سوگوار کرنا چاہتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے ورنہ لوگ خود غرض ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وہ  خوشی محسوس کریں تو دنیا خوشی محسوس کرے اور وہ دکھی ہوں تو ساری دنیا غم میں ڈوب کر غرق ہو جائے مگر ایمان قیصرانی کی سوچ ان سب سے ہٹ کر ہے اور اسی سبب سے ان کی شاعری بھی اوروں سے مختلف اور جاذب ہو گئی ہے۔ ایمان قیصرانی کے چند اشعار حاضر ِ خدمت ہیں

؎   پوروں میں انگلیوں کے یہ آنسو سنبھال کے

مَیں نے لکھا نصابِ محبت سہیلیو!

 

؎ ہم پھول  بن  کے ہر سو فضا میں بکھر گئے

جب یہ سنا کہ اس کا  گلستاں  نہیں  رہا

 

؎ تا عمر شمع بن کے جلوں گی مَیں سنگ سنگ

دیپک کوئی جو  رہ  میں فروزاں نہیں رہا

 

؎  اُس نے روتی آنکھوں کو چوم کر قسم دی تھی

اب تو مجھ کو جیون بھر صرف مسکرانا ہے

 

ایمان قیصرانی جہاں رہتی ہیں اور جہاں ان کی پرورش ہوئی ہے وہاں صدیوں سے جاگیر داری نظام قائم ہے۔ مردوں کی حاکمیت کے اس معاشرے میں عورت کی اہمیت جوتی سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی۔ اور تمام فیصلوں کا اختیار مردوں کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان قیصرانی کی شاعری میں ہمیں محرومی اور اس کے نتیجے میں مزاحمت کا رنگ نمایاں ملتا ہے۔ ایمان کی شاعری میں فرسودہ روایات سے بغاوت کا ایک شدید جذبہ ملتا ہے لیکن اس نے اپنے دھیمے اندازِ بیان سے اسے نعرہ بازی میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ اپنے منفرد انداز میں کچھ باتیں کھل کر اور کچھ بین السطور کر دی ہیں ۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

 

؎ اب ان سے کیا بغاوتیں ، مرے جنوں یہ شورشیں

کہ وہ فقیہ شہر ہیں وہ وقت کے امام ہیں

 

؎تمہارے جبر کی مہریں مرے ہونٹوں پہ ہیں لیکن

مری اس چپ میں بھی پنہاں مرا  انکار زندہ  ہے !

 

؎ میری دھرتی رہبروں سے اس قدر بے زار تھی

باقی ماندہ قافلہ کچھ رہزنوں سے جا ملا

 

؎اپنے دوپٹے اپنے گلے سے لپیٹ کر

ہم نے چکائی زیست کی قیمت سہیلیو!

 

ہم سی فاختاؤں کا تم، سے جنگجوؤں سے

آج بھی اُسی طرح نظریہ نہیں ملتا

 

؎ترے پندار کی خاطر، مجھے مصلوب ہونا ہے

وگرنہ کون مانے گا مرا سالار زندہ ہے

 

؎بے چراغ رستوں پر بے شمار جگنو تھے

پھر بھی ایک بلبل کو گھونسلہ نہیں ملتا

 

ایمان قیصرانی کی شاعری میں محبت، ٹوٹ کر محبت کرنے کا جذبہ، اظہارِ محبت، جدائی، بے وفائی، تنہا جینے کا حوصلہ، حالات سے لڑنے کا عزم، اچھے دنوں کی امید غرضیکہ زندگی کا ہر ایک رنگ ان کی شاعری میں ہمیں ملتا ہے لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ بظاہر عام سے لگنے والے موضوعات اور باتیں جب اس کی شاعری کی سان پر چڑھتی ہیں تو ان کا رنگ ہی کچھ اور ہو جاتا ہے جو پڑھنے والے پر ایک حیرت کا تاثر چھوڑ جاتا ہے۔

؎  رات کو اکثر کمروں میں اب چلنے پھرنے لگتی ہیں

کیا جانے یہ تصویریں کیوں البم سے گھبراتی ہیں

 

؎آپ اپنی صورت کو  خود پہ آشکارا کر

شہر کی  فصیلوں  پر  آئینہ  نہیں ملتا

 

؎بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری

مرے خدا! مجھے اتنی بڑی خدائی دے

 

؎چاند کی ٹھنڈی کرنو ! مجھ میں

اس   کا  نام  چبھو  جاؤ

 

؎تری حیات کے اس خوبرو ضمیمے کی

ہمیں کبھی اک کالمی خبر نہیں بننا

ایمان کے اشعار میں ہمیں ایک اچھے سچے اور محبت کرنے والے ساتھی کی خواہش بھی ملتی ہے لیکن وہ کسی فرشتے کی نہیں انسان کی طلبگا ر ہے۔

اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

 

؎گنہ ثواب کے سارے ہی رنگ   ہوں اس  میں

فرشتہ  چھوڑ  کے  مجھ  کو  کوئی بشر دے دے

 

؎کوئی جگنو، کوئی دیپک، کرن ہو یا ستارا ہو

سفر میں رات آ پہنچی، کوئی تو اب ہمارا ہو

 

؎کسی کے ہاتھ ایسے ہوں ، جو مجھ کو تھام سکتے ہوں

یہاں ہر ایک لغزش پر مجھے جس کا سہارا ہو

 

لیکن جب خواب ٹوٹتے ہیں تو وہ شور نہیں مچاتی  بلکہ ان کی کرچیاں اپنی پلکوں سے چن کر تخلیق کے نئے راستوں پر گامزن ہو جاتی ہے اور پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتی۔ وہ  خود کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیتی بلکہ اپنی زندگی کو ایک مسلسل جدوجہد سے عبارت کرکے دوسروں کے لیے عزم کی ایک مثال بن جاتی ہے۔

 

؎ اپنے سر کی چادر کو تھام کر تنہا مجھے

سر اٹھا کے چلنا تھا، ٹھوکریں بھی کھانا تھا

 

؎جس کی سرخ اینٹوں سے ناگ لپٹے رہتے تھے

مجھ کو اس حویلی میں آشیاں بنانا تھا

 

؎  ساحل  پہ  میرا منتظر کوئی نہیں ہے جب تو پھر

پتوار کیا، منجدھار کیا، اُس پار کیا، اِس پار  کیا !

 

عام طور اچھی غزل لکھنے والے اچھی نظم لکھنے پر قادر نہیں ہوتے یا غزل گو شعرا نظم کی طرف کم توجہ دیتے ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایمان جتنی اچھی غزل لکھتی ہیں اتنی اچھی نظم بھی لکھتی ہیں ۔ نظم کا موضوع، بُنت،  کلائمکس اور پنچ لائن پڑھنے والے پر اپنا بھرپور تاثر چھوڑتی ہے۔ ہر نظم ایک شاہکار نظم ہے۔ جذبے کی شدت اور موزوں الفاظ کا بروقت چناؤان کی نظموں کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ نئے اور اچھوتے موضوعات نے اسے ایک بڑی نظم نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایمان کی نظم ’’ کاسنی‘‘ ملاحظہ فرمائیں اورجذبے کی شدت کے ساتھ ساتھ الفاظ کا چناؤ دیکھیں ۔

 

’’کاسنی‘‘

کاسنی دوپٹے کے

ان سنہرے پھولوں پر

تم نے ہاتھ کیا رکھا

ا س کے بعد دنیا نے

جب بھی مڑ کے دیکھا تو

اس نگر کی وہ لڑکی

روشنی لپیٹے بس

چاندنی نظر آئی

کاسنی نظر آئی

 

ایک اور نظم ’’ چلے آنا‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں

 

’’ مرے ہونٹوں پہ کیوں مسکان کی تتلی نہیں مچلی

یہ کیسی چپ کا چہرہ ہے

مرے گرداب جیون میں

کہیں سے پھر صدا آئے

کوئی امید تو جاگے

تمہارے لوٹ آنے کی‘‘

 

ایک اور خوبصورت نظم’’خیرات‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں

 

’’ اپنی بانہوں کی پناہوں میں بسا لو مجھ کو

اس قدر ٹوٹ کے چاہو

کہ مرے جرمِ تمنا کے ازالے کر دو

مجھ کو خیرات میں بس اپنی محبت دے دو

مجھ پہ اتنا سا کرم

اے مرے چاہنے والے کر دو

اے مرے چاہنے والے کر دو

 

اور اس طرح ایک اور نظم’’مجھے سب سے محبت ہے‘‘ میں جذبے کی شدت اور اظہار کے اچھوتے انداز کو ملاحظہ فرمائیں

 

’’ میری دیوانگی کی حد تو ذرا دیکھو کہ مجھ کو تو

ترے ملبوس کے ٹوٹے بٹن سے بھی محبت ہے

’’ مری چاہت کی حد یہ ہے

تمہیں تخلیق کرنے پر خدا سے بھی محبت ہے

مجھے رب سے محبت ہے، مجھے تم سے محبت ہے

تمہارے ہر حوالے سے، مجھے سب سے محبت ہے

مجھے سب سے محبت ہے‘‘

 

ایمان ایک بہت بڑی شاعرہ ہے جس کے ہاں  نہ  نئے موضوعات کی کمی ہے اور نہ انہیں بیان کرنے کی صلاحیت کی لیکن مر کز اور ادبی گرو بندیوں سے دور اس شاعرہ کو مقام نہیں مل سکا جو اس سے کم معیار کی شاعرات کو عطا کیا گیا ہے۔ لیکن جوہر کبھی چھپا نہیں رہ سکتا۔ مجھے یقین ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شاعری جو دراصل جدید شاعری کی آبرو بھی ہے اور عصر حاضر کا بیلغ استعارہ بھی، اردو ادب میں اپنا ایک منفرد مقام  ضرو پیدا کرے گی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ۔ ۔ ۔ آمین

٭٭٭

One thought on “ایمان قیصرانی۔ ’’ میری یاد آئے گی‘‘ کا تنقیدی جائزہ ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے