ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
جاوید اختر چودھری(مرتب)/ تبصرہ نگار :غلام شبیر رانا
ممتاز ادیبہ اور اردو ادب میں تانیثیت کی علم بردار تخلیق کار خاتون محترمہ سلطانہ مہر کی حیات اور ادبی خدمات ’’ہم صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم تصنیف ہے۔ جاویداختر چودھری نے اس مطالعہء احوال میں سلطانہ مہر کی زندگی کے حالات ،اسلوب ،شخصیت،فکری و فنی ارتقااور تصانیف کا فکری و فنی تجزیہ اس خوش اسلوبی سے کیا ہے کہ قاری کو سلطانہ مہر کے ادبی مقام اور مرتبے کے تعین میں مدد ملتی ہے۔ سلطانہ مہر کا اصل نام فاطمہ ہاشم ہے ۔ انھیں اپنے قلمی نام سلطانہ مہر سے شہرت نصیب ہوئی ۔ وہ ۶۔ اپریل ۱۹۳۸کے دن ممبئی کے ایک میمن گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا خاندان علم و ادب سے وابستگی اور تجارت و کاروبار میں دیانت کی وجہ سے نہایت موقر و معتبر حیثیت رکھتا تھا۔ ان کے والد کا نام محمد ہاشم اور والدہ کا نام خدیجہ ہاشم ہے۔ اس ہو نہار بچی کی تعلیم و تربیت پر اس کے والدین نے پوری توجہ دی اور اس کی خدادا صلاحیتوں کو صیقل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ والدین اور اساتذہ کے فیضانِ نظر سے ذرے کو آفتاب بننے کے مواقع میسر آئے ۔ اردو زبان میں تذکرہ نویسی کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جن خواتین نے اہم خدمات انجام دیں ان میں سلطانہ مہر کا نام سرِ فہرست ہے۔ خواتین ادیبوں میں سلطانہ مہر کو تذکرہ نویسی کی بنیاد گزار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنی تذکرہ نویسی کے ذریعے قارئین ادب میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی اور اردو زبان کے سیکڑوں کے حالات ِ زندگی اور اسلوب کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے پیش کر کے اس صنف ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔ اردومیں تذکرہ نویسی کی آٹھ کتب لکھ کر انھوں نے نہ صرف اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا بل کہ ان کی اس فقید المثال ادبی خدمت کی بدولت جریدہء عالم پر ان کادوام بھی ثبت ہو گیا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو تنقید کے قصر عالی شان کی عمارت تذکروں کی اساس پر استوار ہے۔ اردو میں تذکرہ نویسی کے اولین نقوش میر تقی میر کے نکات الشعرا میں دکھائی دیتے ہیں ۔ تاریخِ ادب کے مسلسل عمل کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی رجحانات فتح علی حسینی گردیزی(تذکرہ ریختہ گویاں )،محمد قیام الدین قائم(مخزن نکات)،میر حسن (تذکرہ شعرائے ارد و)،محمد مصطفیٰ خان (گلشن بے خار )غلام ہمدانی مصحفی(ریاض الفصحا)،حمید اورنگ آبادی(گلشن گفتار)،مرزا افضل بیگ(تحفتہ الشعرا)،لچھمی نرائن(چمنستان شعرا)،قدرت اللہ شوق(طبقات الشعرا)اور محمد حسین آزاد (آب ِ حیات)کے ہاں پیہم نمو پاتے رہے اور اردو زبان میں تذکرہ نویسی نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی۔ گزشتہ چھے عشروں میں اردو زبان میں تذکرہ نویسی کے جو اعلا نمونے سامنے آئے ہیں ،ان میں پنجاب میں اردو ،سندھ میں اردو،دکن میں اردو ،بنگال میں اردو اور تذکرہ شعرائے حجازقابلِ ذکر ہیں ۔ سید عاشور کاظمی کاتذکرہ ’’بیسویں صدی کے اردو نثر نگار مغربی دنیا میں ‘‘ اور ڈاکٹر صلاح الدین کا تذکرہ’’دلی والے‘‘موضوع اور مواد کے اعتبار سے بہت اہم ہیں اور افادیت سے معمور ہیں ۔ بر عظیم پاک و ہند کی خواتین نے ہر عہد میں پرورش لوح و قلم میں مثبت اور فعال کردار اد اکیا ہے۔ اردو تنقید میں ممتاز شیریں ، اردو تحقیق میں ڈاکٹر فہمیدہ بیگم،فارسی ادبیات کے خصوصی مطالعہ میں ڈاکٹر رضیہ اکبر ،اردو شاعری میں لطف النسا امتیاز ،اردو ترجمہ نگاری میں زاہدہ زیدی ،ساجدہ زیدی،کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض اور اردو تذکرہ نویسی میں ادا جعفری(غزل نما)،ڈاکٹر عالیہ امام(شاعرِ انقلاب،رفیقِ دل فگاراں )اور سلطانہ مہر کو ان اصناف کی بنیاد گزار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اردو تذکرہ نویسی میں سلطانہ مہر نے سب سے زیادہ کام کیا اور سیکڑوں ایسے ادیبوں کا احوال بیان کیا جن کا نام اور ادبی کام ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو نے کا اندیشہ تھا۔ اردو زبان کے سات سو اکیس شاعروں اور شاعرات کی شخصیت اور اسلوب کو اپنے تذکروں میں محفوظ کر کے سلطانہ مہر نے اردو زبان و ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا ہے وہ ان کا ایسا فقید المثال اعزاز و امتیاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔
سلطانہ مہر کی زندگی سعیء پیہم کی درخشاں مثال ہے۔ بارہ سال کی عمر میں باپ کا سایہ ان کے سر سے اُٹھ گیا ۔ آلام روزگار کے مہیب بگولوں اور گردشِ حالات کی مسموم فضا میں زندگی کی رتوں کو بے ثمر ہونے سے بچانے کے لیے سخت جد و جہد کو اپنا شعار بنایا ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ممبئی سے کراچی منتقل ہو گئیں ۔ ان کی شادی ۱۹۵۶میں ترقی پسند شاعر سعید رضا سعید سے ہوئی۔ ان کے تین بیٹے ہیں جو اب عملی زندگی میں فعال کردار اد ا کر رہے ہیں ۔ سعیدرضاسعید کا ایک شعر ہے:
کمرہ بند کیے بیٹھے تنہائی کا رونا روتے ہو
کھڑکی کھول کے نیچے دیکھوکتنے سارے اپنے لوگ
سلطانہ مہر نے صحافت میں اپنی عملی زندگی کا آغاز ۱۹۶۵میں روزنامہ ’’انجام ‘‘کراچی سے کیا۔ حریت ِ ضمیر سے جینے کی روش اپنانے والی اس جری تخلیق کار نے اپنی محنت لگن اور فرض شناسی سے ادبی حلقوں میں اپنی دھاک بٹھا دی ۔ روزنامہ ’’ انجام‘‘ کی بندش کے بعد وہ روزنامہ ’’جنگ ‘‘کراچی سے وابستہ ہو گئیں اور ۱۹۶۷ سے ۱۹۷۹تک روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں خدمات انجام دیں ۔ ۱۹۸۰میں انھوں نے کراچی سے اپنے ذاتی مجلے’’روپ‘‘کی اشاعت کا آغاز کیا ۔ پاکستانی خواتین میں عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں ان کے ادبی مجلے ’’روپ‘‘ نے اہم کردار ادا کیا۔ اس مجلے کے ذریعے وہ خواتین کو بیدار کرنے کی آرزو مند تھیں ۔ مجلہ ’’روپ‘‘مسلسل دس برس شائع ہو تا رہا اور اسے قارئین کی طرف سے بہت پذیرائی ملی۔ اس کے بعد جب وہ اپنے بچوں کے پاس امریکہ منتقل ہوگئیں تو ’’روپ‘‘کی اشاعت جاری نہ رہ سکی اور یہ رجحان ساز مجلہ تاریخ کے طوماروں میں دب گیا۔
سلطانہ مہر کے شوہر سعید رضا سعید نے ۱۹۹۵میں امریکہ میں داعیء اجل کو لبیک کہا ۔ اس سانحہ نے سلطانہ مہر کی روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ سمے کے سم کے ثمر کے مسموم ماحول سے نجات حاصل کرنے کے لیے سلطانہ مہر نے ۲۰۰۲میں جاوید اختر چودھری سے عقد ثانی کر لیا ۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی تمنائی خواتین کی عزت ،وقار اور حقوق کی خاطر جد جہد کو شعار بنانے والی،گلاب ،مہندی، رات کی رانی اور موتیا کی عطر بیزی کی کی دلدادہ ، کیٹس اور بر نارڈ شا کی شاعری کو پسند کرنے والی سلطانہ مہر کی شاعری میں ان کی دلی کیفیات رچ بس گئی ہیں :
جو دانش ورخزاں کو بانجھ کہتے تھے وہ جھوٹے تھے
خزاں کا آئینہ ٹُوٹا،تو ہر کِرچی میں بُوٹے تھے
جب زباں نے ساتھ چھوڑا بن گئیں یہ ترجماں
ہم جن آنکھوں کو ہمیشہ ترجماں کہتے رہے
کارواں نظروں سے اوجھل تھا اور اوجھل ہی رہا
ہم غبارِ کارواں کو کارواں کہتے رہے
دِل کے اک چھوٹے سے گوشے میں وہ جا کر گُم ہوا
جس کو نادانی میں ہم ،سارا جہاں کہتے رہے
مہربات کرنے سے پہلے سوچ لیں ورنہ
بات لب سے جب نکلی آپ کی نہیں ہوتی
جاوید اختر چودھری نے اپنی تصنیف ’’ ہم صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘میں سلطانہ مہر کی تصانیف کا مختصر جائزہ لیا ہے ۔ اس تجزیاتی مطالعے جاوید اختر چودھری نے قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھایا ہے۔ مصنف کی فکر پرور اور بصیرت افروز رائے پڑھ کر قاری کے دل میں سلطانہ مہر کی وقیع تصانیف کے مطالعہ کی تمنا پید اہوتی ہے۔ سلطانہ مہر کی تصانیف درج ذیل ہیں :
داغِ دل (ناول)،تاجور(ناول)،ایک کرن اجالے کی(ناول)،جب بسنت رُت آئی(ناول)،بند سیپیاں (افسانے)،دھوپ اور سائبان(افسانے)،دل کی آبر و ریزی(افسانے)،اقبال دورِ جدید کی آواز (تالیف)،ساحر فن اور شخصیت (تالیف)،حرفِ معتبر(شاعری)،آج کی شاعرات(پاکستانی شاعرات کا تذکرہ)،سخن ور اول،سخن ور دوم ،سخن ور سوم ،سخن ور چہارم،سخن ور پنجم(سخن ور کی یہ تمام جلدیں اردو شعرااور شاعرات کے تذکرے پر مشتمل ہیں ) ،گفتنی اول ،گفتنی دوم(گفتنی کی یہ جلدیں اردو نثر نگاروں کے تذکرے پر مشتمل ہیں )۔ دنیا بھر میں سلطانہ مہر کی شخصیت اور اسلوب کے لاکھوں مداح موجود ہیں ۔ ہر مکتبہء فکر کے ادیبوں نے اس نابغہء روزگار ادیبہ کے فکر و فن کو قدر کی نگا ہ سے دیکھا ہے۔ اس کتاب میں پچاس ممتاز ادیبوں کے مضامین شامل ہیں ۔ ان مضامین میں سلطانہ مہر کی علمی ،ادبی اور ملی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں شان دار خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اردو کے دس نامور شعرا نے سلطانہ مہر کی شخصیت اور فن کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور تانیثیت کی علم بردار اس زیرک تخلیق کار اور ممتاز ادیبہ کومنظوم خرجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ۱۹۵۳ میں پندرہ سال کی عمر میں پہلا افسانہ لکھنے والی مایہ ناز خاتون افسانہ نگارسلطانہ مہر کی حیات کے افسانے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ان کے انٹرویوز بہت افادیت کے حامل ہیں ۔ سلطانہ مہر سے کیے گئے دس انٹرویو زبھی اس کتاب کی زینت بنے ہیں ۔ سلطانہ مہر سے جن مشاہیر نے یہ انٹرویوز کیے ہیں ان میں پروفیسر اسلم جمشید پوری،افتخار امام صدیقی،اقبال آرتانی،گوہر تاج،قاری حسن جاوید ،محمود شام،مرتضیٰ شریف،منظر امکانی اور یحییٰ ہاشم باوا نی شامل ہیں ۔ ان انٹرویوز کے ذریعے سلطانہ مہر کی زندگی اور اسلوب کے بارے میں کئی گوشے سامنے آئے ہیں ۔
اس دنیا کے آئینہ خانے میں زندگی بسر کرنے کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے یہ دنیا تو اپنی اصلیت کے اعتبار سے کارگہ شیشہ گری کے مانند ہے جہاں سانس بھی آہستہ لینا پڑتا ہے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ مصنف نے اس کتاب میں قارئینِ ادب کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ سعیء پیہم ہی کام یابی کا زینہ ہے۔ سلطا نہ مہر نے اللہ کریم کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے جس طرح حوصلہ مندی،سچی لگن ،شبانہ روز محنت،نیک نیتی ،حب الوطنی،انسان دوستی اور حریتِ فکر کو زادِ راہ بنایا ہے وہ لائقِ صد رشک و تحسین ہے۔ ’’ہم صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘ایک ایسی تصنیف ہے جس میں ایک واضح پیغام موجود ہے کہ ہوائے جورو ستم میں بھی انسان کو یاس و ہراس کا شکار نہیں چاہیے۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں بھی کشتیء جاں کو ساحلِ عافیت تک پہنچانے کی جد و جہد جاری رکھنی چاہیے ۔ ظلمتِ شب کا شکوہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے کی سعی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ فصیل ِ جبرکو تیشہء حرف سے منہدم کرنے کی راہ دکھانے والی اس ادیبہ کا اسلوب دنیا بھر کی خواتین کے لیے خضرِ راہ ثابت ہو گا۔ لفظ اور قلم کی حرمت کو ملحوظ رکھنے والی ایک پر عزم ،با ہمت اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے سر شار ادیبہ کی حیثیت سے سلطانہ مہر کا نام افق ادب پر سدا ضو فشاں رہے گا۔
٭٭٭