غزلیں – ناہید ورک

غزلیں

ناہید ورک

جسم و جاں کے زنداں میں روشنی کی خواہش کی

ہم بھی کیسے ناداں تھے کس خوشی کی خواہش کی

ہر طرف سکوں سا ہے دل ہے بے سکوں لیکن

ہم نے کب بھلا ایسی بے کلی کی خواہش کی

جس کے دل پہ ہر دم ہیں بد گمانیاں چھائی

آج پھر عبث اُس سے دوستی کی خواہش کی

تم نے کیوں جدائی کو لکھ دیا مقدّر میں

ہم  کب تمہارے بن زندگی کی خواہش کی

کیا تجھے بتاؤں میں دل نے کیوں مرے ناہید

ڈوبتے ستارے سے روشنی کی خواہش کی

***

لمحہ بہ لمحہ مجھ کو یہی اک ملال ہے

وہ ہم مزاج ہے نہ مرا ہم خیال ہے

وہ ہجر آشنا نہیں، سمجھے وہ کس طرح؟

جو سانس سانس میں مری کربِ وصال ہے

خوشبو کی تتلیاں تو ہیں اُڑنے کی منتظر

پر چار سُو بچھی ہوئی گردِ زوال ہے

اُس خوشبوئے خیال ہی کا سب کمال ہے

سانسوں سے میرا اب بھی جو رشتہ بحال ہے

خاموش آئینے ہی دکھاتا ہے کیوں مجھے ؟

اے دل! وہ عکس بھی کبھی، جو بے مثال ہے

پرچھائیوں کو میری ہی جو کاٹتا رہا

کیوں منتظر اُسی کی یہ راہِ وصال ہے ؟

اک عمر سے میں رو رہی تھی اپنے وسوسے

پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے رنجِ مآل ہے ؟

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے