عبد السلام عاصم
کچھ نہیں افسوس
عبد السلام عاصم
کچھ نہیں افسوس
بونے اور کاٹنے کی دنیا میں
روز اک سانحہ گزرتا ہے
کچھ نہ کچھ روز کھو رہا ہوں میں
یہ بھی طے ہے یہ سلسلہ اک دن
طول کھینچے گا قبر تک میری
آرزو ہے کہ میرے کتبے پر
یہ لکھا ہو کہ
کچھ نہیں افسوس
***
خبر
میں کہ ہوں اک خبر نگار مجھے
رات دن بس خبر سے ہے مطلب
کیا ہوا؟ کب ہوا؟ کہاں؟ کیسے ؟
کون ہے ؟
بس یہ جستجو ہے مجھے
روز اک موڑ سے گزرتا ہوں
راستے سب مسافت آشنا ہیں
جن پہ پچھلے پچّیس برسوں سے
چل رہا ہوں میں بے تکان مگر
آج یہ کیسا موڑ سامنے ہے
سمت انجان، اجنبی رستہ
دور تک کوئی سنگ میل نہیں
کیا کروں ساتھ کچھ سبیل نہیں
کیا لکھوں کچھ لکھا نہیں جاتا
مجھ سے اب کچھ کہا نہیں جاتا
مہر کر ساتھ میری آکھوں میں
ڈوبتا جا رہا ہے ہر منظر
کیا ہوا؟ کب ہوا؟ کہاں؟ کیسے ؟
کون تھا میں؟
چھپے گی کل یہ خبر
***
اعتراف
تمہارا علم بہتر ہے کہیں ہم سے
کہ تم اس عہد کے فارغ ہو
جو ہے عہد جام جم*
جہاں سب کچھ عیاں ہے
کچھ نہیں نظروں سے پوشیدہ
کہ اب فکر و نظر کے درمیاں
وہ فاصلہ باقی نہیں مطلق
جسے طے کرنے میں ہم نے
کہیں رستہ، کہیں منزل، کہیں سب کچھ گنوایا ہے
مشقت ہم نے بھی کی ہے
مسلسل تجربوں کے بعد کچھ ہم نے بھی پایا ہے
مگر پھر بھی
تمہارا علم بہتر ہے کہیں ہم سے
کہ تم (بالغ نظر ہونے سے پہلے ) خوش نظر ہو
اور ہم میں بیشتر
اسباق رٹتے اور منقولات دہراتے
بصارت کھو چکے ہیں
پھر بھی اپنی ضد پہ قائم ہیں
کہ آنکھیں اور روشن ذہن رکھنے والی نسل نو
انہیں کو رہنما سمجھے
ان اندھوںسے خدا سمجھے
…………