ابھی یاں کوئی تھا؟ کوئی ہے؟
بظاہر تو کوئی نہیں ہے
بس اک میز ہے جس پہ میلا سا کپڑا بچھا ہے
کتاب اور اس پر ٹکا ایک چشمہ
گھڑی جس پہ دو گھنٹیاں بھی لگی ہیں
الارم کی سوئیاں ہیں بارہ بجے پر
خبر ہے؟
یہ دن کے ہیں یا شب کے بارہ
سوئی وقت کی چھ بجے سے کچھ آگے
سحر ہے کہ ہے شام
یہ وقت ہوتا ہے کمرے میں یکساں
جسے دیکھنا ہو وہ دیکھے فلک پر
کہ اتری ہے شب، یا کہ دن چڑھ گیا ہے
ہیں سر درد کی گولیاں ایک پتا
اور آدھا بھرا ہے گلاس ایک رکھا
کہ جیسے کسی نے
ابھی گولی کھائی ہو، پانی پیا ہو
مگر یاں قلم ہے، نہ کرسی ہے کوئی
نہ آثار ایسے کہ کوئی یہاں بیٹھ کر لکھ رہا ہو
مگر کوئی تھا تو!
جو لکھتا نہیں تھا، تو پھر پڑھ رہا
وہ جو کوئی بھی ہے
وہ مانوس ہے پڑھنے لکھنے سے
کُنجِ ورق توڑنا اس کو بھاتا نہیں ہے
وہ جو پڑھ رہا تھا، جہاں پڑھ رہا تھا
وہاں ایک پرچی ٹنگی ہے
سوالوں کے سو سلسلے ہیں یہاں پر
کوئی ہے؟ نہیں ہے؟
اگر ہے، کہاں ہے؟
یہ دن چڑھ رہا ہے؟
کہ، رات آ چکی ہے؟
گھڑی کی یہ ٹِک ٹِک
سوالوں کا حصہ ہے؟
یا وقت کی چاپ ہے؟
جس کی رفتار یکساں ہے
ساری زمیں پر
زمیں کے سبھی باسیوں کے لئے
ہے پیامِ مسلسل کہ
ٹِک ٹِک رکی ہے نہ رکنا ہے اس کو
اگر تم رُکے یا
تمہارے قدم
وقت کا ساتھ دینے سے
قاصر رہے تو
تمہارے عقب میں چلے آ رہے
راستے کو کچلتے ہوئے پاؤں
تم کو کچلنے میں کوئی تأمّل کریں گے؟
نہیں! ایسی خوش فہمیاں
تم سے پہلوں کو بھی
خاک رَہ کا دَنی رِزق بنوا گئی ہیں
یہ جو وقت ہے!
وقت، چلتا بھی رہتا ہے
اور اس کی آنکھیں مسلسل
کسی مردِ پر عزم کی راہ
تکتی بھی رہتی ہیں
اک نابغہ مرد
جو میز پر گو دکھائی نہ دے
اس کے ہونے کے آثار
اِس میز پر، میلے کپڑے پہ رکھے
اس آدھے گلاس اور
میانِ ورق ٹانکی پرچی کی
اور ایک عینک کی صورت
کتابِ حقیقت کو باریکیوں میں
کہیں ڈوب کر
پڑھنے والے کے قدموں کی آہٹ کو
ٹِک ٹِک کا وہ روپ دیتا ہے
جو زندگی کی رواں نبض ہوتی ہے
اے اہلِ ادراک!
یاں کوئی تھا؟ کوئی ہے بھی؟
٭٭٭