مرزا نوشہ کے زمانے میں یہ کمبخت موبائیل فون ایجاد ہو گیا ہوتا تو یقیناً وہ اپنا مشہور مصرع ایسے ہی بدل دیتے جیسے ہم نے بدلا اور شاید اس ناحق پکڑے جانے پر ایسا نالہ ان کے لب پر آتا کہ دوسرا مصرع شعر ہی کو دیوان سے خارج کروا دیتا۔۔۔
اب بھلا بتائیے اگر آپ اپنے کسی سن رسیدہ اور علیل بزرگ کو سالگرہ پر یہ پیغام دیں ’’بہت سی دواؤں کے ساتھ سالگرہ مبارک۔۔۔‘‘ تو کیا وہ آپ کو پلٹ کر دعا دیں گے؟ اب ان کی خدمت میں عرصہ دو سال سے عرض گزار رہا ہوں کہ حضور میں نے ’دعاؤں‘ لکھا تھا جو سب کو لکھا کرتا ہوں۔۔۔ مگر کم بخت موبائیل کی خود تصحیحی سافٹ وئیر نے از خود نوٹس لے کر لفظ بدل دیا۔ مگر بزرگوار ناراض ہی ہیں اور تمام مشترکہ جاننے والوں سے اس بدتمیزی کا ذکر کر چکے ہیں۔۔۔ وہ تو شکر ہے کہ بوجہ رعشہ اسکرین شاٹ نہیں لے سکتے ورنہ ہمارے میسیج کا اسکرین شاٹ بطور ثبوت، وائرل بھی ہو چکا ہوتا۔۔۔
ارے یہ موبائیل صرف ہمارے ساتھ ہی یہ نہیں کیا کرتا بلکہ بڑے بڑوں کو اکثر شرمندہ کرا دیتا ہے۔۔ ایک روز ہماری کمپنی کے صدر کا میسیج انگریزی میں کچھ اس طرح ہمارے فون پر نازل ہوا۔۔۔ ’’میں سیکسی کے ساتھ بیٹھا ہوں فوراً مطلع کرو کہ یہ آگ کیسے بجھائی جائے گی۔‘‘ ہم پہلے ہی ایک ایمرجنسی سے نمٹ رہے تھے گھبرا گئے کہ ان کو کیا ہو گیا کس قسم کے مشورے مانگ رہے ہیں۔۔۔ لا حول ولا۔۔۔ یہ تو بعد کو پتہ چلا کہ ہم جس سرکاری پاور پلانٹ پر لگی آگ کو کنٹرول کرنے میں مدد دے رہے تھے وہ اسی کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ وزارت توانائی کے وفاقی ’سیکریٹری‘ کے پاس طلبی ہوئی تھی اور وہیں سے رابطہ کیا تھا۔ اب سمجھ لیجیے انہوں نے کیا لکھا ہو گا۔۔۔
عیادت ایک فریضہ ہے جو کسی کے بیمار ہونے پر ادا کیا جاتا ہے۔۔۔ مگر ہم نے طے کر لیا ہے کہ یہ فریضہ ہرگز بذریعۂ فون انجام نہ دیا جائے۔۔۔ ہم اب تک ان خاتون سے چھپتے پھر رہے ہیں جن کی علالت پر ہم نے یہ پیغام بھیجا، ’’آپ کی ذلالت کا سن کر بہت افسوس ہوا۔۔۔ اللہ آپ کو جلد ٹھیک کرے، آمین۔‘‘ اب اگر رشتہ سسرالی ہو اور آپ صحتمندی کے زمانے میں ویسے ہی موصوفہ کے ناقد رہے ہوں تو خود ہی اندازہ لگا لیجیے موبائیل کی اس ’ذلالت‘ کا اثر گھر میں کس قدر دور رس اور طویل دورانیے کا رہا ہو گا۔۔۔ اللہ معاف کرے۔
فون پر دعا دینے سے بھی اب ہم کتراتے ہیں۔۔۔ رمضان کے خاتمے پر اس قسم کا پیغام آپ کو ہماری طرف سے ملے تو کیا آپ کو خوشی ہو گی، ’’آپ کے اعمال یقیناً آخرت میں آپ کے لیے باعثِ زحمت ہوں گے۔۔۔ آپ کو ضرور ان کا بدلہ ملے گا۔‘‘ جن حضرت تک یہ میسیج اس گدھے موبائیل نے پہنچایا انہوں نے عید کے دن گلے ملنے سے انکار کر دیا اور بچوں کو عیدی نہ دے کر ان کا دل بھی توڑا۔
ہم نے ایک دوست کے سامنے جب فون کی شکایت کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا، ’’میاں احمد صفی، سارا قصور فون ہی کا نہیں ہے۔۔۔ ذرا اس کا سائز دیکھو اور پھر اپنی موٹی موٹی انگلیاں دیکھو۔۔۔ یقیناً دباتے کچھ ہو گے اور دبتا کچھ اور ہو گا۔۔۔ اب ہم کبھی انگلیوں کو تکتے اور کبھی ان سے ہونے والی غارتگری کا سوچتے:
انگلیاں ’سگار‘ اپنی، فون خونچکاں اپنا
پھر اسی شریف آدمی نے میسیج بھیجنے کے بعد بھی تصحیح کر سکنے والے آپشنز کا بیان شروع کر دیا۔۔۔ ہم نے کہا ارے بھائی، لاکھ نئے آپشن آ جائیں کہ آپ فون پر لکھے ہوئے کو میسیج بھیجنے کے بعد درست کر سکیں مگر پھر بھی ہماری اپنی سافٹ وئیر جو اب اپڈیٹ کے قابل بھی نہیں، ہمیشہ بھیجنے سے پہلے نظر ثانی سے روک ہی دے گی۔ ویسے بھی یہ نظرِ ثانی والا کام بھی عقدِ ثانی ہی کی طرح ہے جو ہم اپنے کسی لاشعوری خوف کے تحت کبھی کر ہی نہیں سکتے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اب ہم اکثر بیٹھے سوچا کرتے ہیں کہ کس ستم ظریف نے اس بدبخت شے کا نام اسمارٹ فون رکھ ڈالا ہے۔۔۔ استغفر اللہ
٭٭٭