پرویز مظفر کا شعری مجموعہ ’’ تھوڑی سی روشنی‘‘ ۔۔۔ سلطانہ مہر

 

پرویز مظفر کا شعری مجموعہ ’’ تھوڑی سی روشنی‘‘

 

                   سلطانہ مہر

 

میں نے جب اپنے لکھے شعراء کے تذکرے’’سخنور چہارم‘‘ کے لئے برمنگھم، برطانیہ میں مقیم پرویز مظفر کو ان کے تعارف کے لئے سوالنامہ بھیجا تو جواب میں مجھے جناب مظفر حنفی کا تعارف معہ ان کی دو کتب کے ملا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ان کے صاحبزادے  پرویز مظفر کتنے نیک اور سعادت مند ہیں کہ بجائے اپنا تعارف بھیجنے کے اپنے والد صاحب کے تعارف کی اشاعت کو ترجیح دی۔ بس اسی روز سے میرے دل میں پرویز کی قدر و قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔

محترم مظفر حنفی کی شاعرانہ عظمت کے سبھی اردو داں معترف ہیں ۔ پرویز مظفر ان ہی کے صاحبزادے ہیں ۔ پرویز کا پہلا شعری مجموعہ’’ تھوڑی سی روشنی‘‘ کچھ عرصہ پہلے کتابی صورت میں شائع ہوا ہے۔ پرویز نے اس کا انتساب اپنے والد محترم مظفر حنفی کے نام کیا ہے اور ان کے اس شعر کے ساتھ،

؎  تھوڑی سی روشنی ہے اسے جو بھی لوٹ لے

جگنو میاں کے پاس خزانہ تو ہے نہیں

اس مجموعے میں ۵۹ ۱نظمیں ۲۳۵ غزلیں کچھ ہائیکو اور قطعات بھی ہیں ۔ ان کے کلام پر محترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری، جناب مظفر حنفی، جناب خالد محمود اور جناب منور رانا نے بڑے دل نشیں انداز میں اظہارِ خیال کیا ہے۔

پرویز کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے کئی اشعار نے میرے دل کو موہ لیا ہے۔ انہوں نے کتنی خوبصورت سچائی کا اظہار کیا ہے جب یہ اشعار کہے،

؎  اتر جائے گا آئینے سے غبار

کبھی اپنے اوپر ہنسا کیجئے

اور

؎  ضروری نہیں ہے گلے بھی ملیں

مگر دوستوں سے ملا کیجئے

ایک ہی دور کے شاعروں کے مسائل بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ اپنے دیس میں رہتے ہوں یا پردیس میں اور اب تو پردیس میں رہنے والوں کے لئے پردیس بھی دیس جیسا ہو گیا ہے کہ یہاں غمِ روزگار نہیں مگر غمِ ہجرت ہے۔ اپنوں سے دور۔ اپنوں کی محبت سے دور۔ یہ غم ہی کیا کم ہے اور ا س کا بھر پور اظہار پرویز مظفر کے اس شعر میں موجود ہے،

؎؎  سکھ میں بھی مجھے دکھ ہے دکھ میں بھی مجھے سکھ ہے

اب آپ اسے سمجھیں دانائی کہ نادانی

اور پرویز کا یہ شعر بھی دیکھئے،

؎  روٹیاں گھر کی چھوڑ کر پرویزؔ

قورمہ اور نان چاہتے ہیں

پرویز مظفر کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی نظمیں اور غزلیں میرے دل میں اتر گئیں ۔ اس کی شاعری میں بڑی ہنر مندی ہے۔ فن کاری ہے۔ جذبے میں سوچ کی آمیزش اور عقلی و شعوری حقیقت موجود ہے۔ پرویز کی یہ غزل اس کے جذبوں کی ترجمان ہے۔

؎  کیوں ہزاروں بے ضرر افراد کے گھر جل گئے

سوچنے بیٹھا تو میری سوچ کے پر جل گئے

آگ تو غصہ تھی انسانوں سے پھر یہ کیا ہوا

مرغیاں ڈربوں میں ، کابک میں کبوتر جل گئے

مسکرا کر لُو کے نیزے جھیلتے ہیں ہم غریب

برف کی صحبت میں تم کمرے کے اندر جل گئے

کیا کہیں ان کو جو دنگے میں نہیں مارے گئے

اور سرکاری پنہ گاہوں میں آ کر جل گئے

بچ گیا پرویزؔ اس کا حوصلہ قائم رہا

آگ کے دریا میں تم جیسے شناور جل گئے

پرویز مظفر کے شعری مجموعے ’’تھوڑی سی روشنی‘‘ میں زبان کی شائستگی، خیالات کی تہذیب اور اظہار کی نفاست ہمارے شعری سرمائے میں قابلِ  قدر اضافہ ہے۔ ان کے اشعار میں زبان کا رچاؤ ہے۔ اس شعر کا حوالہ محترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے بھی دیا ہے۔

؎  بھاگ اس مقبولیت سے جس کو پانے کے لئےسر کو خم کرنا پڑے جو ہے اٹھانے کے لئے

اور

؎  آ گلے مل درد کا رشتہ ہے اپنے درمیاں

اتنی زوروں سے نہ ہندوستان پاکستان کر

پرویز مظفر کی بیگم نسرین پرویز کا اگر میں ذکر نہ کروں تو پرویز کے فنِ شعری کی کہانی ادھوری رہ جائے گی۔ نسرین جیسی شریکِ  حیات سے ایک مکان بلاشبہ ’’ گھر ‘‘ بنتا ہے۔ میں جب بھی ان کے گھر گئی نسرین کے حسنِ سلوک نے میرا دل موہ لیا۔ ان کی ایک بیٹی ہے مدیحہ۔ نسرین اور مدیحہ اپنے مہمانوں کے لئے ہمہ تن گوش و خدمت لگی رہتی ہیں ۔ تب جی چاہتا ہے کہ ان کی دوستی کو ایک خوبصورت رشتے کا سلسلہ مل جائے اور یہ آمد و رفت دیرینہ بن جائے۔ مجھے یقینِ  واثق ہے کہ نسرین کی قربت اور مدیحہ کی محبت نے پرویز مظفر کی شاعری میں ایک رچاؤ پیدا کیا ہے۔

پرویز کی شاعری میں ، اور اس کے کلام میں جو جزئیات نگاری پائی جاتی ہے وہ اسی آب و گل اور ہمارے معاشرے کے جیتے جاگتے اور فطری کردار ہیں ۔ ان میں حرکت اور زندگی کی چہل پہل موجود ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ،

؎  کھل کر جی تو لیتے ہیں سچ کہنے والے لوگ

اپنے ہی گھر میں چھپ کر غداری رہتی ہے

؎  اپنے اشکوں سے نادم مت ہو جانا پرویزؔ

شبنم کے دم سے تازہ پھلواری رہتی ہے

؎  پر نکلنے لگے خموشی کے

اور پھر سر نگوں رہا نہ گیا

؎  اپنی فطرت کچھ اور ہے پرویزؔ

وقت کی دھار پر بہا نہ گیا

؎  ہم اس کی رضا چاہتے ہیں میاں

عبادت سے جنت نہیں چاہتے

؎  اب کوئی غیر نہیں ہے پرویزؔ

درمیاں سے جو ہٹائی دیوار

اور یہ ایک مختصر سی نظم ہے۔

؎  خواب کو خواب ہی

رہنے دو

جو انہیں حقیقت سے جوڑے گا

وہ زندگی کو توڑے گا

خواب اک سہانا سفر

زندگی کے طوفان میں

کسی چٹان پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میری دعا ہے پرویز کا شعری سفر اسی توانائی سے جاری رہے اور وہ اردو ادب میں جناب مظفر حنفی کی جاں نشینی کا شرف حاصل کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آمین

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے