ٹیگور اور اقبال
محمد علم اللہ اصلاحی
ٹیگور اور اقبال دو ایسے فن کار ہیں جن سے بر صغیر میں دور جدید کا آغاز ہوتا ہے۔ ان دونوں نے محض شاعری ہی نہیں کی بلکہ ان کا فکر و فلسفہ فن کے کئی جہات کا احاطہ کرتا ہے۔ شاید اسی بنا پر جہاں ایک طرف ٹیگور کو گرو دیو کہا گیا تو اقبال کو بھی علامہ کے لقب سے ملقب کیا گیا، دونوں کے معنی کم و بیش ایک ہی ہیں یعنی بہت زیادہ جاننے والا، محترم استاد، عالم فاضل اور دانشور وغیرہ۔
دونوں کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے بات کا آغاز۱۹۲۰ء میں ای ایم فاسٹر (بیسویں صدی کے انتہائی اہم ناول نگار) کے اس اقتباس سے کرتے ہیں :۔
” یہ ہمارے شہنشاہانہ طرز حکومت کا ایک کرشمہ ہے کہ اقبال جیسا شاعر، جس کا نام گزشتہ دس برسوں سے ا س کے وطن ہندوستان میں بچے بچے کی زبان پر ہے، ا ±س کے کلام کا ترجمہ اس طویل مدت کے بعد جا کر ہماری زبان میں ہو سکا۔ ہندوؤ ں میں جو مرتبہ ٹیگور کو حاصل ہے، وہی مسلمانوں میں اقبال کو ہے اور زیادہ صحیح طور پر ہے، اس لیے کہ ٹیگور کو بنگال سے باہر ا ±س وقت تک کسی نے نہیں پوچھا جب تک وہ یورپ جا کر نوبل پرائز نہ حاصل کر لائے۔ برخلاف اس کے اقبال کی شہرت یورپ کی اعانت سے بالکل مستثنٰی ہے”
(یہ الفاظ ایڈورڈ مورگن فاسٹر (۱۸۷۹ء-۱۹۷۰ء)نے اے آر نکولسن کے ذریعہ کئے گئے انگریزی ترجمہ اسرار خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھے، جو دسمبر۱۹۲۰ء کے ادبی جریدہ Athanacumمیں شائع ہوا اور پھر بعد میں اسی کو رفعت حسین نے اپنی کتابThe Sword and Scepter میں شامل کیا۔ اس اقتباس کو وہیں سے ماخوذ ہے جس کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا گیا ہے )۔
یہ تو ای ایم فاسٹر کا خیال ہے جو شاید اقبال سے بہت متاثر تھے، اس سے ٹیگور کی اہمیت کم نہیں ہو جا تی یا صرف ان کے کہنے کی وجہ سے اقبال کی اہمیت بڑھ نہیں جاتی، بلکہ اس اقتباس کو پیش کر کے ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مشرق کے دو عبقری شخصیات کو مغرب کس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں نے تمام ہندوستان کو حد درجہ متاثر کیا۔ دونوں نے ادب اور شاعری کے علا وہ سماجی، تعلیمی، اور سیاسی فکر کے شعبوں میں جو خدمات انجام دیے ہیں ان کی قدر و قیمت بیش از اندازہ ہے۔ دونوں عمدہ انسانی صفات کا ایسا مظہر تھے جنھوں نے بعد کی نسلوں کے ذہنوں کو متاثر کیا اور ان کی صحےح سمتوں کی طرف رہنمائی کی، دونوں کا اہم کارنامہ ےہ ہے کہ انہوں نے مشرق و مغرب، جدید اور قدیم، ملک میں جاری قومےت کی لہر اور بین الاقوامیت کے درمیان امتزاج پیدا کیا۔
چونکہ اصولاًدنیا کی کوئی بھی دو چیزیں ظاہر اً یا باطناً یکساں نہیں ہوتیں ، اگر ان میں کچھ قدریں مشترک ہوتی ہیں تو کچھ متضاد بھی، اس لئے ایسی دو چیزوں کا تقابلی مطالعہ اس نقطہ نظر سے کرنا بے سود بلکہ مضر ہے کہ انھیں ایک دوسرے کا مدمقابل ثابت کیا جائے۔ ڈبلیو اسمتھ نے اپنے ایک مضمون ’’اسلام اور عیسائیت ‘‘[موافقت اور عدم موافقت ]میں اس نکتہ کو بہت خوبی کے ساتھ واضح کیا ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دو چیزوں کی ظاہری مشابہت سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے بلکہ ان دونوں کو اپنی اپنی جگہ قائم بالذات مان کر مطالعہ کرنا چاہئے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’’اسلام اور دور حاضر‘‘، مرتبہ مشیر الحق، مکتبہ جامعہ لیمیٹیڈ)
یہی اصول ہمیں ٹیگور اور اقبال کا مطالعہ کرتے وقت بھی اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے۔ دونوں ہم عصر تھے دونوں کا ہتھیار ان کا قلم تھا، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں کے افکار و خیالات میں مطابقت کے ساتھ ساتھ اختلاف بھی ہے۔ اقبال بیسویں صدی کے شاعر، فلسفی اور حکیم الامت تھے۔ انھوں نے قوم مسلم کو ایک نیا انداز فکر دیا، ساتھ ہی بیداریِ نفس اور خودی کی شناخت کا وہ نظریہ دیا جس نے ضمیر کو زندہ کیا اور دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ علامہ اقبال ان احساسات کے نقیب تھے جنھیں اصطلاح کی زبان میں تکوینی اور باطنی آگاہی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ایک ایسا احساس جس میں آدمی خود کو خدا کی معرفت کی خاطر گم کر دیتا ہے، فکر اقبال کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال خدا کے تصور میں اگر ایک طرف بے خود ہونے کی کوشش کرتے ہیں تودوسری طرف خودی کو اعتبار سے حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
وہیں ٹیگور ایک دوسرے کینوس میں جلوہ گر نظر آتے ہیں ، وہ شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، گیت گار، موسیقی ساز (میوزک کمپوزر)، مقالہ نویس، سیاستداں ، ماہر تعلیم، فلسفی اور مصور کے علاوہ ایک اسٹیج اداکار کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں ، انھوں نے ایک اچھے تاجر کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت بنائی۔ انھوں نے اپنے بھائی کی طرح زمینی حقائق سے منھ موڑ لینا پسند نہیں کیا۔ بلکہ اکثر و بیشتر تو ایسا ہوا کہ وہ اپنی تلاش، جستجو اور جد و جہد میں کامیاب رہے اور اپنے تمام تر مقاصد کو پا لیا۔ یہاں تک کہ کبیر کے "انہد ڈھول” جسے اس فن کا آخری شہہ پارہ تصور کیا جاتا تھا اس سے بھی آگے بڑھ گئے۔ انھوں نے غم، مایوسی، امید، آنسو اور خوشی کے نغموں کو نہ صرف لکھنا جاری رکھا بلکہ ان ہی کی زبان میں "انھوں نے جیسا سوچا ویسا ہی کیا، یعنی کلیوں کو پھول بنا دیا "۔
دونوں کے نظریات کو سمجھنے کے لئے یہاں پر میں دو نظموں کے ایک ایک ٹکڑے کو نقل کر رہا ہوں ، اس سے دونوں کے فکروفلسفہ کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ پہلا ٹکڑا علامہ اقبال کی نظم فلسفہ ¿غم سے ماخوذ ہے، جبکہ دوسرا ٹیگور کی نظم "سر تھاکتا” سے۔ دونوں میں محبوب کی موت سے ہونے والے غم اور احساس کا ذکر کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہوں ” فلسفہ ¿ غم” سے اقبال کے یہ چند اشعار :
(۱)
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں
آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں
نغمہ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطفِ خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
2
شام جس کی آشنائے نالہ ¿ یا رب نہیں
جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں
ہاتھ جس گل چیں کا ہے محفوظ نوکِ خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفتِ غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقلِ انسانی ہے فانی، زندہ جاوید عشق
عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پائندہ ہے
اور اب ٹیگور کے چند اشعار کا ترجمہ ملاحظہ کریں جو انھوں نے اپنی جوان بیوی کی موت کے بعد لکھے (پھر انھوں نے دو بارہ کبھی شادی نہیں کی)۔ قارئین ٹیگور کو پڑھتے وقت ایک ذاتی تجربہ محسوس کریں گے کیوں کہ ٹیگور عام طور پر تجربہ کو بنیاد بنا کر بات کرتے ہیں اس لئے اس میں اس کاعکس صاف جھلکتا ہے :
’’تم نے میری زندگی کو موت کی خوبصورت لذت سے آشنا کر دیا ہے۔ تم نے میرے قلب کو ابدی فراق کی روشنی سے معمور کر دیا ہے اور میرے خیالات کو آفتاب کی شعاعوں کی طرح رنگین اور روشن کر د یا ہے۔ زندگی کے افق کو ایسی عظمت بخشی ہے جس کا تصور بھی ممکن نہیں ۔ اشکوں کی طرح شفاف آسمان پر جنت کے نشا ں واضح نظر آ رہے ہیں ۔ تم نے میری زندگی کو موت کی خوبصورت لذت سے آشنا کر دیا ہے۔
تم نے اپنی بانہوں میں میری زندگی اور موت قبول کر لی ہے۔ تم نے موت پر اپنی روح کا انکشاف کر کے موت کو دائمی کر دیا ہے۔ تم نے موت کو زندگی کا محبوب بنا دیا ہے۔ تم نے دروازے کھول دیے ہیں اور ابدی پردہ داری کو ختم کر دیا ہے، تم زندگی اور موت کے بیچ میں خاموش کھڑے ہو۔ تم نے اپنی بانہوں میں میری زندگی اور موت قبول کر لی ہے۔ ‘‘
(سمارا صفحہ ۰۵۲)
ٹیگور کے نظریہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدا اس کے لیے کوئی بیرونی قوت نہیں ہے۔ گیتانجلی کی ایک نظم میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا اپنے تخلیقات کو شاعر کی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے۔ اور وہ شاعر کے کانوں سے ابدی نغموں کوسنتا ہے۔ ایسی منظر کشی ان کی شاعری میں بیشتر مقامات پر ملتی ہے۔ زندگی کی محدودیت کو تسلیم کر کے وہ روح کو اسی زندگی میں آزاد کرانے کی جستجو کرتے ہیں ۔ وہ زندگی اور موت دونوں کی حقیقت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں ۔ حقیقت میں ، ایک نظم میں ، جو ۳۰۰ جولائی۱۹۴۱ء کو لکھی گئی، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس میں قریب الوقوع موت کا سایہ دیکھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ خوف محسوس نہیں کرتے۔ وہ اس کو سلیقے سے لفظوں کا روپ دیتے ہیں ۔ اس کے چند ہی ماہ بعد واقعی ان کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ان کی نظم کا یہ حصہ ملاحظہ کیجئے:
” میں آج اپنی پیدائش والے دن میں کھویا ہوا ہوں ۔ دوستو! میرے قریب آؤ، آؤ مجھے مس کرو، مجھے اس دنیا کو آخری بار چھونے دو آخری بار چھونے دو، زندگی جو مجھے آخری بار دیتی ہے لینے دو، مجھے آخری آشیرواد دو، آج میری جھولی سب خالی ہے۔ جو کچھ مجھے دینا تھا، وہ سب کچھ میں نے دے دیا ہے۔ بدلہ میں جو بھی مجھے جو ملے گا، کچھ پیار، کچھ معافی، وہ سب میں اپنے ساتھ لے چلوں گا۔ جب اس کشتی پہ پاؤں رکھوں گا، جو لے چلے گی مجھے، سب لفظوں کے میلوں کے پار "۔
(سگی، آر (۲۰۰۶ء)، گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور اے بایو گرافی، ڈائمنڈ کتب /اشاعت:1 اکتوبر / ISBN 978-81-89182-90-)
۱قبال کے نزدیک زندگی اور موت دونوں اپنے اندر قوّتِ تسخیر رکھتی ہیں ۔
ہے لحد اس قوّتِ آشفتہ کی شیرازہ بند
ڈالتی ہے گردنِ گردوں میں جو اپنی کمند
( بانگِ درا، نظم ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘، صفحہ ۱۷۸ )
آشکارا ہے یہ اپنی قوّتِ تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
( بانگِ درا، نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘، صفحہ ۱۹۹ )
اقبال اور ٹیگور کے نظریات میں بھی واضح فرق ہے۔ اقبال کے افکار بنیادی طور پر منطقی ہیں ۔ اقبال جرمن فلسفی نطشے کے فلسفہ سے بے حد متاثر ہیں ۔ یہ بات اقبال کے کلام سے اس وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ زندگی کے ابدی حقائق سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں ۔ :
زمین و آسماں را بر مرادِ خویش می خواہد
غبارِ راہ و با تقدیرِ یزداں داور ی کردہ
زبور عجم (اقبال )
(انسان زمین و آسماں کو اپنی مرضی کے مطابق کر نا چاہتا ہے۔ وہ اگرچہ غبارِ راہ ہے لیکن خدائی فیصلوں میں دخل اندازی کرنے چلا ہے۔ )
اقبال ایک دوسرے ہی کردار کے حامل تھے۔ وہ کوئی صوفی سنت نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر ایک متنازعہ کردار کا انتخاب کیا۔ انھوں نے خوابیدہ مسلم قوم کو بیدار کرنے کی ٹھانی۔ انھوں نے دو معروف نظموں شکوہ اور جواب شکوہ میں خدا کے ساتھ مباحثہ کیا۔ مگر اس میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے روایت پر مبنی اسلامی فکر سے ہٹ کر ایک الگ نظریہ پیش کیا۔ جس میں انھوں نے اس رول کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جس میں اسلامی عقائد کو لے کر عجز پسندی کا رویہ اپنایا گیا ہے۔ اس چیز کو اگر گہرائی سے دیکھیں تو اس میں ایک سیاسی مشق یا تمرین بھی دکھائی دیتی ہے۔ اور خدا کے الفاظ میں اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ مسلم قوم کے مسائل کیا ہیں ۔ اس میں وہ اللہ، قرآن، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کعبہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان تو ان تمام چیزوں پر یقین رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ بٹے ہوئے ہیں ، پھر وہ انھیں غیرت دلاتے ہیں اور کہتے ہیں "کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک”۔
ٹیگور بھی سیاست کی اثر اندازی سے نا آشنا نہیں تھے، اگرچہ وہ بنگال کے بٹوارے کے خلاف احتجاج اور سودیشی تحریک کے لئے فعال بھی رہے، پھر بھی وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہی رہے، انھیں محسوس ہوا کہ سیاسی قوتوں سے نمٹنا آسان نہیں ہے، اس لئے سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا، تاہم صلح و مشاورت کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے۔ ٹیگور کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ سیاسی زندگی قومی زندگی کا محض ایک ادنیٰ سا حصہ ہے۔ اگر نظام معیشت اور دانشورانہ صلاحیتوں پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو یہ تمام تحریکیں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ ان کی پوری زندگی ’اپنا کام آپ کرو‘ کا مصداق نظر آتی ہے اور یوں وہ اپنے والد کی معیشت میں خود کو مصروف کرنے اور اولین فرصت میں ان تمام مسائل سے نجات کا راستہ تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں ، وہ اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کے لئے شانتی نکیتن کی بنیاد رکھتے ہیں اور کم و بیش اپنے مقصد میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں ، جس کے نتیجہ کے طور پر وشو بھارتی یونیورسٹی کا قیام اور کم از کم ان کی زندگی میں اس ادارہ میں پوری دنیا سے طالبان علم کی اس علمی مرکز پر آمداس کی حیثیت اور اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
اس تناظر میں دوسری طرف اقبال فعال مسلم لیگی سیاست میں اہم کردار بن کر ابھرے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے نظریہ ¿ پاکستان کو پروان چڑھانے میں نمایا ں رول ادا کیا، انہوں نے صرف ہندوستانی مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ اس زمانے میں جب عالم گیریت نے قدم بھی نہیں رکھے تھے، یہ فیصلہ کیا کہ وہ تمام مسلمانوں کی آواز بنیں ، اس کے لئے فارسی میں فلسفہ پر مبنی بہت سے علمی و تاریخی مقالہ جات تحریر کئے، محض اس امید پر کہ پوری دنیا میں قوم مسلم ایک ہو جائے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا اس تناظر میں فارسی زبان بڑے پیمانہ پر بولی جانے والی زبان تھی؟۔ کیونکہ پورے مسلمانوں کو جوڑنے والی زبان مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ سے عربی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں اردو کی حیثیت کیا ہے یہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ وہ انگریزی میں بھی لکھتے تھے اس کی بہترین مثال "تشکیل جدید الہیات اسلامیہ” نامی کتاب ہے جو انھوں نے پہلے انگریزی میں لکھی تھی۔ اس کے برعکس ہندوستانی رہنماؤں کے اصل نظریاتی دانشور، مولانا ابوالکلام آزاد نے بطور زبان اردو کا انتخاب کیا۔ اردو کو کتنی ترقی نصیب ہوتی اگر اقبال بھی جاوید نامہ اردو میں لکھتے!
ٹیگور نے تجریدی موضوعات پر زیادہ لکھا۔ ان کے اظہار خیال کی زبان بنگالی تھی اور اس وجہ سے اس کے ذریعہ بنگالی زبان کو اعلیٰ معیار و وقار حاصل ہوا۔ اقبال نے اپنے نظریہ کو منطقی نتیجہ تک پہنچایا اور ایک عالمی مسلم قومیت کے نظریہ کے علم بردار بن گئے۔ انہوں نے وطنیت کو اسلام کا دشمن عظیم قرار دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک علیحدہ ملک، پاکستان کی بھی مانگ کی۔ جو ان کی نظر میں غیر اسلامی ملک ہو گا اگر اس کے ایک جانب تمام مسلم ممالک جیسے مراکش اور دوسری جانب ایران نہ ہوں تو۔ انہوں نے کسی بھی قسم کے تضادات کو محسوس نہیں کیا۔ (یہ عبارت واضح نہیں ہو رہی ہے، یا تو ختم کر دو یا مدعا صاف کر دو)
ٹیگور ایک عظیم کہانی کار، موسیقی نواز، مصور اور منتظم تھے۔ اقبال فلسفی شاعر اور کسی حد تک سیاست داں بھی تھے۔ لیکن دونوں کو ایک ہی زاویہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں میں کافی تفاوت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال اقتدار یا بندش کے خلاف سرگرم عمل شخص تھے۔ وہ اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ انسان بطور خاص مسلم نوجوان کی سوچ نئے سرے سے ان کی اپنی سوچ کے مطابق ہو جائے۔ جبکہ ٹیگور کے یہاں ایسا کچھ نہیں پایا جاتا۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ازلی و ابدی شئے کا حصہ ہے جسے دوسرے لفظوں میں لابدی عنصر بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ چیز ذیل کے نمونۂ کلام سے واضح ہوتی ہے۔ پہلا اقبال کا اور دوسرا ٹیگور کا ہے۔
اقبال
اسے صبح ازل انکار کی جرات ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا، وہ راز داں تیرا ہے یا میرا
محمد بھی تِرا جبریل بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
(بال جبریل)
ٹیگور
میں جا رہا ہوں ، غروب ہوتے آفتاب نے کہا
کوئی ہے جو میری ذمہ داریاں اپنے سر لے؟
سارے عالم پر خاموشی چھائی رہی
لیکن ایک زمینی چراغ نے جواب دیا
’میں ہوں نا، میں اپنی پوری کوشش کروں گا‘
(http://www.gutenberg.org/files/33525/33525-h/33525-h.htm)
انھوں نے ۱۹۴۰ء میں درج ذیل نظم لکھی اور اس کے ایک سال بعد ہی ۱۹۴۱ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔
’’ ہر وہ شئے جس کی میں نے شدت سے آرزو کی میری دسترس سے چھوٹ گئی اور کہیں غائب ہو گئی۔ میں ایک آزاد اور ہر ضابطہ سے آزاد شعور محسوس کرتا ہوں ۔ صبح صادق مجھ پر ا ±س کی اصل حقیقت واضح ہوتی ہے، وہ صاف ہے پر خالی نہیں ، تب مجھے ا ُپنشد کے ماہر ایک پنڈت کی بات کا احساس ہوا کہ” اگر آسماں بھی خوشیوں سے خالی ہوتا تو جسم و جاں میں زندگی کا کوئی ہیجان باقی نہ رہتا”
(Celebrating Tagore By Rama D. Datta, Clinton B. Seely صفحہ نمبر 234)
دونوں کے اوپر ان کی زندگی اور موت کے بعد تنقیدیں کی گئیں ۔ دونوں ہی عملاً اپنی زندگی میں ہی اپنے اپنے نظریات کے نمائندہ سمجھے جانے لگے۔ کچھ نوجوانوں نے ان کے خلاف بغاوت بھی کی، نوجوانوں کی فطرت بھی یہ ہے کہ وہ ہر اس نظریہ سے بغاوت کریں جو ان کی نظر میں درست نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں یہاں ٹیگور کا ایک خط نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس سے بہت زیادہ نہ سہی لیکن بہر حال اس کا اندازہ ہو سکے گا کہ ا س وقت ان کے خلاف کیا کچھ کیا جا رہا تھا یا پھر ان کو بدنام کرنے والے کس طرح کا رویہ اپنا رہے تھے، واضح رہے کہ ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور نے یہ خط علی خان لمعہ حیدرآبادی کے نام لکھا گیا تھا۔ ایک عظیم شاعر کا ایک عظیم شاعر کے بارے میں یہ مکتوب بے حد اہم ہے۔ اور چونکہ تنگ نظری سے ہٹ کر وسعت قلب کے ساتھ لکھا گیا تھا اس لئے ہر اقبال اور ٹیگور دوست کو عزیز رکھنا چاہئے۔ اصل خط انگریزی میں تھا اس کا ترجمہ پہلی بار نیرنگ خیال سالنامہ ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا تھا۔ ملاحظہ ہو:
وشو بھارتی۔ شانتی نکیتن، بنگال
7 فروری 1933ٰء
محبی مسٹر خان
آپ کے خط اور نظم نے میرے دل پر خاص اثر کیا۔ یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ میری اور اپنے شاعر اعظم سر محمد اقبال کی نظموں کے درمیان ایک خاص اندرونی تعلق پاتے ہیں ، چونکہ میں ا ±س زبان سے نا بلد ہوں جس میں وہ اپنا کلام فرماتے ہیں اس لئے میرے لئے ناممکن ہے کہ میں ان کی اپج کی گہرائی یا ان کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ لگا سکوں لیکن ان کی عالمگیر شہرت سے مجھے یقین ہوتا ہے کہ ان میں جاودانی علم و ادب کی عظمت ہے۔
بار ہا اس چیز نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے کہ نقادوں کی ایک جماعت میری اور سر محمد اقبال کی ادبی کوششوں کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کرتی ہے یہ رویہ اس ادب کے متعلق بالکل غلط ہے جو انسانی دل و دماغ کے عالمگیر پہلو سے بحث کرتا ہے اور اس طرح تمام ملکوں اور زبانوں کے شعرا اور اہل فن کو ایک برادری میں منسلک کرنے کا سامان پیدا کرتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ سر محمد اقبال اور میں ادب میں صداقت اور ح ±سن کی خاطر کام کرنے والے دو دوست ہیں اور اُس جگہ یک جا ہو جاتے ہیں جہاں انسانی دماغ اپنا بہترین ہدیہ "جاودانی انسان”کے حضور پیش کرتا ہے۔
خیر اندیش
رابندر ناتھ ٹیگور
(ص 440۔ 4/اوراق گ ُم گشتہ (علا مہ اقبال کے بارے میں غیر مدون تحریریں )/بار اول جنوری 1983/مرتبہ: رحیم بخش شاہین ایم اے مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)
اس خط سے ایک تخلیق کار کے صرف کرب کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایک ہم عصر کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس تناظر میں جب دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر علامہ اقبال کو دو وجوہ کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی بابت اول یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کیسے مسلم علیحدہ قومیت کے نظریہ کے بانی اور ہندوستان کے بٹوارے کی بات کرنے والے ہوسکتے ہیں جنھوں نے ایک زمانے میں ‘سارے جہاں سے اچھا ‘ جیسی نظم لکھی، اس بابت گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مشیر الحق مرحوم لکھتے ہیں :
’’جب اقبال کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ سارا جہان مسلمانوں کا وطن نہیں بن سکتا تو انھوں نے الٰہ باد کے خطبہ میں کھل کر یہ بات کہہ دی کہ اسلامی تہذیب و روایات کو باقی رکھنے کے لئے جتنی سر زمین بھی مل سکے اس پر قناعت کر لینی چاہئے اور اسے ایک تجربہ گاہ کی حیثیت سے استعمال کر کے دوسروں کو سوچنے کا موقع فراہم کرنا چاہئے کہ کہیں اس نئی تجربہ گاہ سے فائدہ نہ اٹھا کروہ خود اپنا نقصان تو نہیں کر رہے ہیں ‘‘
(ڈاکٹر مشیر الحق:اقبال ایک مسلم سیاسی مفکر، صفحہ 81.80۔ ناشر :مکتبہ جامعہ نئی دہلی، سن اشاعت 2012)
ایک جماعت نے ٹیگور پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تجربات کی بنیاد پر کمزور اقدار کی بات کرتے ہیں ، وہیں ایک دوسری جماعت ان کے اوپر اس لئے تنقید کرتی ہے کہ ٹیگور اپنے اثر کی وجہ سے دوسروں کے لئے رکاوٹ بن رہے تھے، منصفانہ طور پر دیکھا جائے تو دونوں نظریے اپنی جگہ پر درست ہیں ، انھوں نے ایک نئی زبان کی تخلیق کی اور بول چال والی بنگالی زبان کو اس سے نکال کر ایک ادبی زبان کی حیثیت سے متعارف کرایا، جو سنسکرت اور اس جیسی دوسری زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ مگر ۱۹۳۰ء کے بعد بنگال میں نئے لکھنے والوں کی جماعت آئی اور انھوں نے ایک نئے فن پارہ اور ادب کی بات کہی۔ مہیت لال مجومدار نے ان تمام کو مدعو کیا اور ایک راہ نکالنے کی کوشش کی جو زمینی حقائق سے قاری کے ذہن کو موڑنے کے ہتھکنڈے اپنا رہے تھے۔
جب نئے مقابل یا مدعی ان کی تحریر کو فرسودہ اور بے کار قرار دے رہے تھے، تب بھی ٹیگور نے اس کے رد عمل میں کسی قسم کی جھنجھلاہٹ یا بیزاری کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے کام میں پوری دلجمعی سے جٹے رہے۔ اور بقول ان کے ان کا وجود اپنشد کے روحانی نظریہ سے متاثر تھا، جسے کچھ تو انھوں نے اپنے وجدان اور وژن سے حاصل کیا تھا اور جو کچھ انھیں موروثی طور پر ملا تھا انھوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں :
’’وید، اپنشد اور گوتم کی تعلیمات سے میں روشنی پائی، میں نے ان خزانوں سے اپنی زندگی اور اپنی تعلیمات میں استفادہ کیا ‘‘
(تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں :شمیم طارق، ٹیگور شناسی، ناشر: ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم، شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سن اشاعت ۲۰۱۳ء)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شمیم طارق کہتے ہیں :
’’لیکن وید و اپنشد سے عقیدت کے باوجود انھوں نے روایتی ہندوستان کے ’افسانوی دیوتاؤں ‘کو تسلیم نہیں کیا، ’ادویت واد‘ پر کامل یقین رکھتے تھے جو قدیم ہندو فلسفہ کا بنیادی اصول تسلیم کیا گیا ہے۔ وہ اسی ایک خدا کو مانتے تھے جو کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجود ہے ‘‘۔
وہ خدا جو آگ میں ہے پانی میں ہے
اور جو تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے
میں اسی خدا کو پیہم سجدے کرتا ہوں
(سندھیا (شام )سنگیت /بحوالہ :ٹیگور شناسی، صفحہ نمبر ۳۲۱)
ٹیگور خود کہتے ہیں :
’’مذہب کا لمس بھی اس اندیکھے بے نام و نشان راستے سے مجھ تک پہنچتا ہے جس راستہ سے نظمیں لکھنے کی تحریک میرے پاس آئی ہے، میری مذہبی زندگی نے بھی اپنی نمو کے وہی پُر اسرار راستے اپنائے ہیں جن خطوط پر میری شاعرانہ زندگی چلتی ہے، ایک طرح سے یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں اور اگر چہ ان دونوں کا ملاپ بہت پہلے ہو چکا مگر بہت دنوں تک یہ راز مجھ پر نہیں کھل سکا۔ ‘‘
(رابندر ناتھ ٹیگور، از ہیرن مئے بنر جی۔ صفحہ نمبر۸۱۱۹۱۱)
ٹیگور اور اقبال میں فرق ہے تو بس یہ کہ ٹیگور نے ہندو ہونے کے باوجود کسی جماعت یا نصب العین کے حوالہ سے نہیں بلکہ صرف ہندوستانیت اور انسانیت کے حوالہ سے رنگ و نسل کی رنگا رنگی میں وحدت کے جلوے دیکھے اور عقیدوں ، رنگوں ، نسلوں اور بولیوں کے باوجود ہندوستان کی دھرتی کی آغوش میں عہد بہ عہد سما جانے والے مختلف نسلی، لسانی و مذہبی گروہوں کو ہندوستانی تسلیم کیا ہے۔
وہیں اقبال ایک ملت یا جماعت کے حوالہ سے ایک کلی تصور حیات پیش کرتے ہیں ، ایک طرف اگر وہ ترانہ ¿ ہندی سے ہندوستانیوں کا دل جیتتے ہیں تو دوسری جانب نیا شوالہ پیش کر کے برادران وطن کے جذبات کی عکاسی۔ ان کی شاعری یا تحریروں میں ٹالسٹائی، شیکسپئر، ہیگل، گوئٹے برگساں ، بائرن لینن، آنسٹائن کے علاوہ رام، گوتم، بدھ، شیو، بھرتری، ہری، شنکر اچاریہ اور گرونانک وغیرہ کا ذکر بھی ملتا ہے، لیکن اس کے باوجود اقبال کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اقبال تشدد پسند اور بنیاد پرست تھے جو ادب میں بھی ایک خاص فکر کو ملحوظ رکھتے تھے، ۔ اس بابت گفتگو کرتے ہوئے علی سردار جعفری کہتے ہیں :
’’اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں کشمیری بر ہمن کا دماغ، مسلمان کا دل، قران کریم کی تعلیمات، مغربی علوم، ہندو فلسفہ، جلال الدین رومی اور غالب کی شاعری اور مارکس و لینن کے انقلابی تصورات سب شامل ہیں
خرد افزود مرا درس حکیمان فرنگ
سینہ افروخت مر اصحبت صاحب نظراں
(مغربی مفکروں کے پڑھائے ہوئے سبق نے میری عقل میں اضافے کئے لیکن میرے سینے کو عارفوں کی نگاہ نے روشن کیا ہے)‘‘
(اقبال شناسی /علی سردار جعفری :مکتبہ جامعہ نئی دہلی۔ صفحہ نمبر۹۲)
ہماری ادبی و علمی دنیا کا دستور بھی نرالا ہے کہ عصر حاضر کے لکھنے والوں اور شاعروں کا آپس میں تقابل کرانے کی ریت پڑ گئی ہے، یعنی ان کی عظمت اور وقار کے ساتھ یہ مقدر بن گیا ہے کہ ادبی و علمی اکھاڑوں کو آراستہ کیا جائے اور مصنف یا شاعر کو ایک دوسرے کا حریف ٹھہرا کر ان کے فن اور خیالات بلکہ ان کی ذاتی زندگی میں کچھ اس انداز سے طرح ڈالی جائے کہ صرف تضادات پر بحث ہو اور پھر ان کے ان زاویوں کو تلاش کیا جائے جس سے معاصرانہ چشمک کا نکتہ نکل سکے اور ذاتی پسند یا ناپسند کا معاملہ سامنے آئے، ایسا ہی ایک معاملہ گرو دیو اور علامہ کا ہے جبکہ دونوں شاعر اپنی جگہ پر ہمارے ادبی اعزاز و وقار نشان تھے اور ہیں ۔
علی سردار جعفری نے درست ہی کہا ہے :
’’ہمارے عہد کے شاعر، ادیب اور قومی رہنما اکثر مختلف قسم کی تاویلوں کے شکار ہوتے رہتے ہیں ، اس سے مہاتما گاندھی اور جواہر لال تک محفوظ نہیں ہیں ۔ ۱۹۴۸ء-۱۹۴۹ء میں بنگال کے کمیونسٹ رہنما بھوانی سین نے اپنی انتہا پسندی میں ٹیگور کو رجعت پرست ثابت کر دیا تھا، اور ایک پورا گروہ اس پر ایمان لے آیا تھا، اسی طرح ہندوستان کے ایک گروہ نے سیاست کے نشے میں اقبال پر مسلم فرقہ پرستی کا الزام لگا کر انھیں قابل مذمت قرار دے دیا اور یہ بات پچیس سال تک مستند سمجھی جاتی رہی، اب اس کی تلافی کسی حد تک اندر کمار گجرال کی رہنمائی میں آل انڈیا ریڈیو نے کی ہے لیکن چند سال کے اندر اقبال کے جشن ولادت پر پورے ہندوستان کو اس نقصان کی تلافی کرنی چاہئے ‘‘۔
(علی سردار جعفری، اقبال شناسی، صفحہ نمبر ۲۲۔ ۳۲مکتبہ جامعہ نئی دہلی سن اشاعت ۱۱۰۲ء)
ان دو شخصیتوں کو گذرے ہوئے نصف سے بھی زیادہ صدی گذر چکی ہے، تو اب ہم انھیں کس نظر سے دیکھیں یا کس زاویہ سے ناپیں ، دونوں نے انسان کی روحانی آزادی کے لئے کام کیا، دونوں کے سوچنے کا نظریہ الگ تھا، گرو دیو جس قسم کی آزادی چاہ رہے تھے اور جیسی آزادی اقبال کو مقصود تھی دونوں میں کافی فرق تھا، ہو سکتا ہے کہ جیسا کہ کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ وہ لوگ اپنے معاصرین اور ان کے زمانے کے کامیاب لوگوں کے درمیان حائل رہے ہوں ، لیکن ہم نے گرو دیو اور اقبال کا جو نظریہ تھا اسے پس پشت ڈال دیا تاکہ ہم اپنے طریقہ سے نظریہ کو لاگو کر سکیں ۔
مگر اس کی وجہ سے ان دونوں کی اہمیت ختم نہیں ہو جاتی۔ اقبال کے نظریات سے ہندوستان میں بہت سے لوگ اتفاق نہیں رکھتے ہیں اور ایک بڑا اردو داں طبقہ بھی ان سے دوری اختیار کئے ہوئے ہے اور اسی طرح ٹیگور سے بھی لوگ بہت خوش نہیں تھے اور اب بھی نہیں ہیں ، اہل بنگال جن کو ان کا شکر گذار ہونا چاہئے کہ انھوں نے ان سے منسوب ایک نئی زبان کو متعارف کرایا ان کے ساتھ بھی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک جانب تو انھیں پوجتے تھے اور دوسری جانب رفتہ رفتہ انھیں بھول بھی گئے، مگر محض اہل بنگال پر ہی الزام کیوں عائد کیا جائے ؟ گاندھی جی کو ہی دیکھ لیجئے کہ ان کے ساتھ کیا کیا گیا؟
یہی حال پاکستان میں اقبال اور فیض کے ساتھ روا ہے، ان کی سال گرہوں پر میٹنگیں ہوتی ہیں ، ان کی غزلیں بھی گنگنائی جاتی ہیں ، بہت سارے قوال ان کے کلام پر قبضہ جما کر "خودی کو کر—"، ” خودی کو کر—” کی رٹ لگاتے ہیں مگر انھیں وہ مقام دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کے وہ حقدار تھے، ہم نے گرو دیو اور اقبال کا جو نظریہ تھا اسے پس پشت ڈال دیا تاکہ ہم اپنے طریقہ سے نظریہ کو لاگو کر سکیں ۔
ہم نے ان کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنایایہ ہماری بد نصیبی ہے۔ ان سب کے باوجود ہم اپنے روایتی راستوں پر چلتے ہوئے مطمئن ہیں یا اقبال کی زبان میں تقلید محض کرتے ہوئے کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ زندہ موت ہے جس سے خود کشی بہتر ہے کہ کم از کم اس میں ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے آدمی کوئی فیصلہ تو لیتا ہے۔ علامہ اقبال اور ٹیگور ہوش و حواس پر مبنی زندگی گذارتے تھے اور ویسا ہی رہنا چاہتے تھے اور اس ناگزیر حقیقت کو تسلیم کرتے تھے۔ دونوں ایک ایسا جہان آباد کرنا چاہتے تھے جہاں دلوں میں کوئی خوف و دہشت نہ ہو، ان کا ماننا تھا کہ انسانیت کے وجود کا راز احترام انسانیت میں مضمر ہے۔ ان کی عظمت عبارت تھی اس جذبہ سے جو ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانے کے لئے اپنی فکرو نظر کی پوری سچائی کے ساتھ مصروف عمل رہے جہاں خیر و شر کی جنگ میں خیر کی فتح ہو۔
لیکن ہم اسے یہ کہتے ہوئے درکنار کر دیتے ہیں کہ وہ ان کا نظریہ اور ان کی سوچ تھی لیکن ہمارے لئے قبول کے قابل نہیں ہے، ممکن ہے کہنے والے یہاں یہ کہیں کہ ہم ایسا نہیں کہتے، بلاشبہ ان کی بات با وزن ہو سکتی ہے لیکن ہمارا عمل تو ایسا ہی کہتا ہے، ہم نے انہیں بعد از مرگ دیوتا بنا لیاجس کے سبب وہ انسان نہ رہے اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ امر ہو جانے سے ان پر ان کی نقل یا ان کے فکر و فلسفہ کو آگے بڑھانے کی کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہتی۔ دوسرے لفظوں میں خود بھی سکون سے رہو اور ہمیں بھی چین سے رہنے دو۔ اے پاک روحو، اڑ جاؤ، چاہے جنت میں یا جہنم میں جاؤ، بس چلی جاؤ ہم سے دور۔ ساحر لدھیانوی نے ایسے ہی موقع کے لئے کہا تھا۔
یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے
وفا کچھ نہیں ، دوستی کچھ نہیں ہے
جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے
جلا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
مرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا
تمھاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
نوٹ : ٹیگور کے دستیاب ترجموں کو اصل سے ملانے پر ان میں کافی فرق نظر آتا ہے، اس لئے مضمون میں شامل تمام اشعار کا ترجمہ راقم نے انگریزی زبان سے خود کیا ہے۔
٭٭٭