وفا داری ۔۔۔ جم کاربٹ/ منصور قیصرانی

میل ٹرین اپنی حدِ رفتار یعنی تیس میل فی گھنٹہ سے رواں دواں تھی اور یہ علاقہ میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ اپریل کا مہینہ تھا اور ٹرین دریائے گنگا کے طاس سے گزر رہی تھی اور لوگ علی الصبح اپنی گندم کی فصل کاٹ رہے تھے۔

پچھلا سال ہندوستان کی تاریخ کا بدترین قحط میں گزرا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ پورے دیہات کے لوگ درختوں کی چھال اور زمین کی دراڑوں سے غلے کے دانے چنتا اور جنگلی آلوبخارے کھا کر زندہ رہے تھے۔ شکر ہے کہ موسم بدل گیا اور سرما میں خوب بارشیں ہوئیں اور اب زرخیز زمین پر بہترین فصل کٹنے کو تیار کھڑی تھی۔ اگرچہ صبح ابھی ہوئی تھی مگر پھر بھی لوگ انتہائی جوش و خروش سے فصل کاٹنے میں لگے ہوئے تھے اور ہر بندہ اپنے حصے کا کام کر رہا تھا۔ کٹائی کا کام عورتیں کر رہی تھیں جن کی اکثریت بے زمین مزدوروں پر مشتمل تھی جو جگہ جگہ پکتی ہوئی فصل کاٹنے کے لیے سفر میں رہتی تھیں۔ ان کی محنت صبح سورج نکلنے سے سورج ڈوبنے تک جاری رہتی تھی اور انہیں کاٹی ہوئی فصل کے بارہویں سے سولہویں حصے تک مزدوری ملتی تھی۔

کھڑکی کوئی جنگلا نہیں تھا اور جہاں تک نگاہ جاتی تھی، کسی قسم کی مشینیں استعمال نہیں ہو رہی تھیں۔ ہل چلانے کا کام بیلوں سے لیا جاتا جو ہر ہل کے ساتھ جوڑی کی شکل میں ہوتے تھے اور کٹائی کا کام درانتی سے کیا جاتا ہے جو ڈیڑھ فٹ لمبی ہوتی تھیں۔ کٹی ہوئی فصل کے پولے بنا کر گندم کے پودوں سے باندھ دیے جاتے اور پھر انہیں بیل گاڑیوں پر لاد کر صاف میدان کو لایا جاتا جسے گائے کے گوبر سے لیپا ہوا ہوتا تھا۔ اس میدان پر بیل تیار کھڑے ہوتے جو میدان کے وسط میں موجود کھونٹے سے بندھے ہوتے تھے۔ ان کا کام گندم کے پولوں پر چل کر دانے اور بھوسہ الگ کرنا تھا۔ جب کھیت سے فصل کٹ جاتی تو لڑکے مویشی چھوڑ دیتے جو ٹھونٹھوں کو کھاتے اور ان کے پیچھے بوڑھی عورتیں زمین پر رینگ کر گرے ہوئے دانے جمع کرتی جاتیں۔ ان کا جمع کیا ہوا غلہ نصف زمیندار لے جاتا اور نصف ان عورتوں کو ملتا جو عموماً نصف سے ایک کلو ہوتا تھا۔ اگر سورج کی شدت سے زمی پھٹی ہوئی ہوتی تو اس سے بھی کم غلہ ملتا۔

میرا سفر 36 گھنٹے طویل تھا۔ ڈبے میں میں اکیلا مسافر تھا اور ٹرین ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے رکتی تھی۔ سارا سفر انتہائی دلچسپ مناظر پر مشتمل تھا مگر میں خوش نہیں تھا۔ میری پریشانی کا سبب میری نشست کے نیچے رکھا ہوا فولادی صندوق تھا جس میں دو سو روپے تھے جو میرے نہیں تھے۔ ڈیڑھ سال قبل میں نے ریلوے میں فیول انسپکٹر کی ملازمت کی تھی۔ سکول سے براہ راست میں اس ملازمت میں گیا تھا اور یہ ڈیڑھ سال میں نے جنگل میں گزارے تھے۔ میرے ذمے پانچ لاکھ مکعب فٹ لکڑی کٹوانا تھیں جو ریلوے انجنوں میں بطور ایندھن استعمال ہونی تھی۔ درخت گرانے کے بعد ان کو ڈیڑھ فٹ لمبے ٹکڑوں میں کاٹنا تھا اور پھر اسے دس میل دور ریلوے کی پٹڑی تک پہچانا تھا جہاں انہیں جمع کر کے ان کی پیمائش کی جاتی اور پھر مطلوبہ سٹیشنوں کی جانب بھیج دیا جاتا۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ بہت مشکل تھا مگر میں نے اس سے خوب لطف اٹھایا۔ جنگل میں چیتل، چوسنگھے، سور اور مور بکثرت تھے اور جنگل کے کنارے دریا بھی تھا جہاں کئی اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی تھیں اور بہت سارے مگرمچھ اور اژدہے بھی تھے۔ میرا کام چونکہ سارا دن جاری رہتا، سو شکار کے لیے مجھے صرف چاندنی راتیں ہی ملتیں۔ مور جب درخت پر سوئے ہوتے تو میں انہیں شکار کرتا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ ڈیڑھ سال میں نے اسی طرح ’قتل‘ کر کے گوشت کھایا۔ تاہم جب چاند نہ ہوتا تو وہ راتیں میں سبزی خور رہتا۔

جنگل کی کٹائی سے جنگلی حیات بہت متاثر ہوئی اور مجھے کئی جانوروں اور پرندوں کے بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑی جو میرے ساتھ میرے خیمے میں آ گئے تھے۔ ان دنوں میرے پاس کالے تیتر اور سفید تیتر کے بچے، مور کے چار بچے، خرگوش کے دو بچے اور چوسنگھے کے دو بچے قیام پذیر تھے اور اچانک ایک روز ریکس اژدہا بھی رہائش کے لیے آن پہنچا۔ چوسنگھے کے بچے اتنے چھوٹے تھے کہ بمشکل اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے تھے۔ ایک رات میں مغرب کے ایک گھنٹے بعد پہنچا اور چو سنگھے کے بچوں کو دودھ پلا رہا تھا کہ لالٹین کی روشنی میں ایک کونے سے کچھ چمک دکھائی دی۔ پاس جا کر دیکھا کہ چوسنگھے کے بچوں کے بستر پر ریکس براجمان تھا۔ میں نے بعجلت گنتی تو سارے جانور پورے نکلے، سو میں نے ریکس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اگلے دو ماہ تک ریکس روزانہ دھوپ سینکنے صبح کو باہر جاتا اور مغرب کو واپس لوٹ آتا اور اس سارے عرصے میں اس نے کسی جانور یا پرندے کو نقصان نہیں پہنچایا۔

ان تمام بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے بعد جب وہ اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو گئے تو میں نے انہیں جنگل میں جا کر چھوڑ دیا۔ چوسنگھے کے ایک بچے نے میرا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ جب ہم ریلوے لائن کے ساتھ منتقل ہوئے تو وہ بھی میرے ساتھ آئی۔ چونکہ اس کی پرورش انسانوں کے ساتھ ہوئی تھی، سو اسے انسانوں سے کوئی ڈر نہیں تھا۔ ایک بار جب وہ ایک انسان کے قریب پہنچی تو اس نے اسے جنگلی سمجھ کر مارنا چاہا۔ جب میں خیمے کو لوٹا تو دیکھا کہ وہ میرے بستر کے پاس بیٹھی تھی۔ جب اسے اٹھایا تو دیکھا کہ اس کی اگلی ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں اور ہڈیوں کے نوکیلے سرے کھال سے باہر نکل آئے تھے۔ میں نے اسے دودھ پلایا اور ہمت جمع کرتا رہا کہ اب اسے اس کی تکلیف سے نجات دلانا لازمی تھا۔ میرا نوکر اتنے میں ایک بندے کے ساتھ آیا جس نے اقرار کیا کہ اس نے اسے مارنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بندہ کھیت میں کام کر رہا تھا کہ اسے یہ ہرن دکھائی دیا۔ اس نے سمجھا کہ یہ جانور راہ بھٹک کر آ گیا ہے اور اسے مارنے کی کوشش کی۔ جب یہ جانور بھاگ کر میرے خیمے میں گھسا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میرے ملازم نے اسے میری آمد سے قبل جانے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ بندہ وہیں رکا رہا۔ جب اس نے اپنی پوری کہانی بتائی تو پھر بولا کہ وہ صبح گاؤں سے ایک بندے کو ساتھ لے کر آئے گا جو ہڈیاں جوڑنے کا ماہر ہے۔ چونکہ اس ہرن کے لیے آرام دہ جگہ بنانے کے علاوہ میں کچھ اور نہیں کر سکتا تھا، سو اسے میں وقفے وقفے سے دودھ پلاتا رہا۔ اگلی صبح وہ بندہ اپنے ساتھی کے ہمراہ لوٹا۔

ہندوستان میں کسی کی ظاہری شکل و صورت سے اندازہ لگانا غلط ہے۔ ہڈی جوڑ بندہ بوڑھا اور کمزور تھا اور اس کے پیوند لگے کپڑوں سے غربت صاف جھلک رہی تھی۔ تاہم وہ کم گو اور اپنے کام میں ماہر تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ اس ہرن کو اٹھاؤں۔ چند منٹ تک اسے دیکھنے کے بعد اس نے کہا کہ وہ دو گھنٹے بعد آئے گا۔ چونکہ میں کئی ماہ سے ہر روز کام کر رہا تھا، اس لیے چند گھنٹے آرام کے لے لیے۔ اس بندے کی واپسی سے قبل میں نزدیکی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر کھونٹے بنائے اور خیمے کے گوشے میں ایک جگہ گاڑ کر وہ جگہ الگ کر دی۔ وہ آدمی واپس لوٹا تو اس کے پاس پٹ سن کے کچھ خشک تنے تھے جن سے چھال اتری ہوئی تھی اور اس کے علاوہ دھتورے کے کچھ نئے پتے جو تھالی کے برابر ہوں گے اور پٹ سن کی پتلی رسی کا ایک گولہ بھی ساتھ تھا۔ م بستر کے کنارے پر بیٹھ کر میں نے ہرن کو میری ٹانگوں پر اس طرح بٹھایا کہ پچھلی ٹانگیں زمین سے لگ رہی تھیں اور اگلی ٹانگیں کی بجائے میرے گھٹنے اس کے جسم کو سہارے ہوئے تھے۔ میرے سامنے زمین پر بیٹھ کر اس بندے نے اپنا سامان ساتھ رکھا۔

دونوں ٹانگوں کی ہڈیاں گھٹنوں اور کھروں کے درمیان سے ٹوٹ گئی تھیں اور ٹوٹے ہوئے حصے کئی مرتبہ بل کھا چکے تھے۔ اس بندے نے انتہائی نرمی سے ان ٹانگوں کے بل کھولے اور ان پر گھٹنے سے کھروں تک سبز رنگ کا ملغوبہ سا لگایا اور پھر ان پر دھتورے کے پتے جما دیے اور پھر ان پتوں پر پٹ سن کے تنے لگا دیے اور پھر انہیں پٹ سن کی رسی سے باندھ دیا۔ اگلی صبح اس نے پٹ سن کے مزید کٹے ہوئے تنے آ کر لگائے تو ہرن اپنے گھٹنے موڑنے اور قدم رکھنے کے قابل ہو گئی تھی۔

اس بندے کا معاوضہ ایک روپیہ تھا اور دو آنے اس نے سامان کے لیے کیونکہ اس نے یہ سامان بازار سے خریدا تھا۔ تاہم جب تک پٹیاں اتر نہ گئیں اور ہرن پھر سے اچھلنے کودنے کے قابل نہ ہو گئی، اس بندے نے نہ تو اپنا معاوضہ لیا اور نہ ہی وہ تحفہ قبول کیا جو میں نے اسے دینے کی کوشش کی تھی۔

تاہم میرا کام کہ جس سے میں خوب لطف اندوز ہوتا تھا، اب ختم ہو چکا تھا اور میں صدر دفتر کو روانہ ہو گیا تاکہ اپنے اخراجات کا حساب دے سکوں اور کوئی نئی ملازمت تلاش کر سکوں کہ انجن اب کوئلوں پر چلنے کے قابل بنائے جا رہے تھے اور لکڑی کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔ میرا حساب کتاب بالکل درست تھا اور مجھے علم تھا کہ میں نے اپنا کام بہترین طور پرسرانجام دیا تھا کیونکہ میں نے ڈیڑھ سال میں وہ کام پورا کیا تھا جو دو سال میں ہونا تھا۔ مگر پھر بھی نشست کے نیچے موجود رقم کے صندوق سے مجھے پریشانی ہو رہی تھی۔

صبح نو بجے میں اپنی منزل سماستی پور پہنچا اور انتظار گاہ میں اپنا سامان رکھ کر میں نے اپنے آجر کے دفتر کا رخ کیا اور میرے ساتھ میرے بہی کھاتے اور دو سو روپوں کا تھیلا بھی تھا۔ دفتر پہنچا تو چپراسی نے مجھے کہا کہ صاحب مصروف ہیں اور میں بیٹھ کر انتظار کروں۔ کھلے برآمدے میں گرمی تھی اور ہر گزرتا لمحہ میری پریشانی میں اضافہ کرتا گیا۔ جس پرانے ریلوے ملازم نے بہی کھاتے بنانے میں میری مدد کی تھی، اس نے مجھے ہدایت کی تھی کہ بہی کھاتے پیش کرنے کے بعد جب میں دو سو روپوں کا تذکرہ کروں گا تو میری پریشانیاں بہت بڑھ جائیں گی۔ آخرکار دروازہ کھلا اور بہت پریشان حال بندہ باہر نکلا۔ ابھی دروازہ بند نہیں ہوا تھا کہ اندر سے کسی نے دھاڑ کر مجھے اندر بلایا۔

رائلز بنگال اور شمال مغربی ریلوے کے محکمے کا سربراہ تھا اور اس کا وزن ایک سو کلو سے اوپر ہی تھا اور اس کی آواز مخاطب کے دل میں دہشت بٹھا دیتی مگر اس کا دل سونے کا تھا۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر کے اس نے بہی کھاتے اپنی سمت کھینچ کر ایک کلرک کو بلایا جس نے میرے حساب کتاب کو مختلف سٹیشنوں سے وصول شدہ حساب کتاب سے ملایا۔ اس سے فارغ ہو کر اس نے مجھے بتایا کہ اسے افسوس ہے کہ میری ملازمت ختم ہو چکی اور مجھے فارغ خطی کے احکامات دن کے وقت مل جائیں گے اور یہ ملاقات بھی تمام ہو گئی ہے۔ فرش سے اپنا ہیٹ اٹھا کر میں روانہ ہونے لگا تھا کہ اس نے مجھے بلایا کہ میں اپنا رقم کا تھیلا بھولے جا رہا ہوں۔ میری حماقت سمجھ لیجیے کہ میں دو سو روپے کا تھیلا وہیں میز پر چھوڑ کر آ رہا تھا کہ شاید کوئی اس پر توجہ نہ دے گا۔ عین وقت پر مجھے رائلز نے واپس بلا لیا۔ سو واپس لوٹ کر میں نے اسے بتایا کہ یہ رقم ریلوے کی ملکیت ہے اور مجھے چونکہ علم نہیں تھا کہ بہی کھاتوں میں اسے کہاں رکھوں، اس لیے اس رقم کو الگ سے لایا ہوں۔ رائلز بولا: ’اگر تم نے اپنے حساب میں گڑبڑ نہیں کی ہے تو پھر بتاؤ کہ یہ کہاں سے آئی؟‘ تیواری نامی ہیڈ کلرک کاغذات سے بھری ٹرے لے کر رائلز کے پیچھے کھڑا ہوا اور اس کی مہربان نگاہیں میری ہمت بندھا رہی تھیں۔ میں نے حساب کچھ یوں دیا:

میرا کام پورا ہونے والا تھا کہ پندرہ گاڑی بان میرے پاس رات کو آئے اور بولے کہ انہیں ان کے گاؤں فصلوں کی کٹائی کا پیغام ملا ہے اور انہیں فوراً روانہ ہونا ہے۔ یہ گاڑی بان جنگل سے ریلوے لائن تک ایندھن والی لکڑیاں منتقل کرنے کا کام کرتے تھے۔ چونکہ ان کا منتقل شدہ ایندھن کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور ان کی پیمائش کے کام پر کئی دن لگ جاتے، سو انہوں نے مجھے کہا کہ اندازے سے میں ان کے معاوضے کی ادائیگی کر دوں کہ صبح سویرے انہوں نے روانہ ہو جانا تھا۔ رات تاریک تھی اور میں مکعب میٹروں میں پیمائش کرنے سے قاصر تھا، سو میں نے انہیں کہا کہ ان کا اندازہ مجھے قبول ہو گا۔ دو گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئے اور ان کے بتائے ہوئے اندازے کے مطابق میں نے فوراً ادائیگی کر دی۔ فوراً ہی وہ لوگ روانہ ہو گئے۔ تاہم جب بعد میں پیمائش کی گئی تو پتہ چلا کہ ان کا اندازہ اصل سے دو سو روپے کم تھا۔

میری کہانی سن کر رائلز نے کہا کہ ایجنٹ عزت اگلے روز سماستی پور آنے والا ہے اور وہ میرے بارے فیصلہ کرے گا۔ عزت جو انڈیا کی تین ریلوں کا ایجنٹ تھا، اگلی صبح پہنچا اور دوپہر کو مجھ رائلز کے دفتر پہنچنے کا حکم ملا۔ عزت چھوٹے قد کا اور صاف ستھرا بندہ تھا اور رائلز کے دفتر میں اکیلا ملا۔ اس کی آنکھیں برچھیوں کی طرح تیز تھیں۔ اس نے مجھے اپنا کام چھ ماہ پہلے ہی پورا کرنے پر مبارکباد دی اور بتایا کہ رائلز نے اسے میرے بہی کھاتے دکھا کر رپورٹ دی ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اسے ایک سوال کا جواب چاہیے۔ میں نے یہ دو سو روپے اپنی جیب میں ڈال کر خاموشی کیوں نہیں اختیار کر لی؟ میرا جواب شاید تسلی بخش رہا ہو گا کہ شام کو بے یقینی سے انتظار کرتے ہوئے مجھے دو خط ملے، پہلا خط تیواری کی جانب سے تھا جس میں اس نے ریلوے کی بیواؤں اور یتیموں کے فنڈ کے لیے دو سو روپے کے عطیے کا شکریہ ادا کیا تھا کہ وہ اس کا اعزازی سیکریٹری تھا اور دوسرا خط عزت کی جانب سے تھا کہ میری ملازمت ختم نہیں ہوئی اور یہ کہ میں رائلز سے جا کر ملوں۔

ایک سال تک میں ریلوے پر مختلف نوعیت کی ملازمتیں کرتا رہا اور بعض اوقات مجھے انجن میں کوئلے کے استعمال کی مقدار کا جائزہ لینا تھا اور مجھے یہ کام بہت پسند تھا کہ مجھے انجن چلانے کی اجازت ہوتی تھی، بعض اوقات مال گاڑی پر گارڈ کا کام کرنا ہوتا تھا جو کافی مشکل کام تھا۔ ان دنوں ریلوے میں ملازمین کی قلت تھی اور بعض اوقات مجھے اڑتالیس گھنٹے لگاتار کام کرنا پڑتا۔ بعض اوقات میں اسسٹنٹ سٹور کیپر بنتا تو کبھی اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر۔ ایک دن مجھے حکم ملا کہ موکاما گھاٹ جا کر سٹورر سے ملوں جو وہاں فیری سپرنٹنڈنٹ تھا۔ بنگال اور شمال مغربی ریلوے دریائے گنگا کے طاس سے دریا سے مختلف فاصلوں سے گزرتی ہیں اور بہت جگہوں پر یہ پٹڑیاں اصل لائن سے الگ ہو کر دریا تک جاتی ہے اور پھر کشتیوں کے ذریعے اسے دائیں کنارے کے براڈ گیج سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔

دریائے گنگا کے دائیں کنارے پر موکاما گھاٹ ان میں سب سے زیادہ اہم تھا۔ میں علی الصبح سماستی پور سے نکلا اور لائن کے اختتام پر سماریہ گھاٹ پر جا کر اترا اور ایس ایس گورکھا پور پر سوار ہوا۔ سٹورر کو میری آمد کی اطلاع تو تھی مگر مقصد نہیں بتایا گیا تھا اور مجھے بھی کوئی علم نہ تھا، سو ہم نے بقیہ دن کا کچھ حصہ سٹورر کے گھر اور کچھ حصہ گوداموں کا جائزہ لیتے گزارا جہاں بہت زیادہ سامان ٹھنسا ہوا تھا۔ دو دن بعد مجھے گورکھا پور جانے کا حکم ملا جو ریلوے کا صدر مقام تھا۔ یہاں مجھے موکاما گھاٹ میں سامان کی منتقلی کا انسپکٹر بنا دیا گیا اور میری تنخواہ بھی ایک سو روپے سے بڑھ کر ڈیڑھ سو روپے ماہوار ہو گئی۔ مجھے ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت ملا۔

سو میں موکاما گھاٹ واپس رات کے وقت پہنچا تاکہ ایسی ذمہ داری اٹھا سکوں جس کے بارے مجھے کوئی علم نہیں تھا اور ایسا ٹھیکہ ملا جبکہ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ مزدور کہاں سے لاؤں گا اور میرے پاس کل سرمایہ ڈیڑھ سو روپیہ تھا جو میں نے اڑھائی سال کی ملازمت میں بچایا تھا۔ سٹورر میری آمد کی توقع تو نہیں تھی مگر اس نے مجھے کھانا کھلایا۔ جب میں نے اسے اپنی آمد کا سبب بتایا تو ہم نے برآمدے میں کرسیاں سنبھال لیں۔ سٹورر کی عمر میں مجھ سے دو گنا بڑا تھا اور کئی سال سے موکاما گھاٹ پر کام کر رہا تھا۔ اس کے ذمے بنگال اور شمال مغربی ریلوے (میٹر گیج) کے علاوہ کئی سٹیمر اور بارج بھی تھے۔ مسافروں کو کشتیوں کی مدد سے اور سامان کو بارجوں کی مدد سے سامان سماریہ گھاٹ اور موکاما گھاٹ کے درمیان منتقل کیا جاتا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ طویل فاصلے کی بنگال اور شمال مغربی ریلوے کی ٹریفک کا اسی فیصد موکاما گھاٹ سے گزرتا ہے اور ہر سال مارچ سے ستمبر کے دوران سامان کی منتقلی کا کام رک سا جاتا ہے اور ریلوے کو شدید خسارہ ہوتا ہے۔

موکاما گھاٹ پر سامان کی مختلف گیج والی ٹرینوں میں منتقلی کا کام ایک لیبر کمپنی کے ذمے تھا جو تمام تر براڈ گیج پر سامان کی منتقلی کی ذمہ دار تھی۔ سٹورر کا خیال تھا کہ اس کمپنی کی لاپرواہی کے علاوہ سالانہ فصلوں کی کٹائی کا موسم بھی اس نقصان کا سبب تھا کیونکہ دریائے گنگا کے طاس میں فصلیں اس موسم میں کٹائی کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ یہ سب معلومات دے کر سٹورر نے واضح الفاظ میں پوچھا کہ وہ کام جو لیبر کمپنی اپنے تمام تر سرمائے اوروسائل کے ساتھ نہیں کر سکی، وہ میں کیسے کر سکتا ہوں جبکہ یہ علاقہ میرے لیے نیا ہے اور سرمائے کے نام پر کچھ نہیں (اس نے میری محنت سے کمائی ہوئی ڈیڑھ سو روپے کی رقم کو یکسر بھلا دیا)۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ موکاما گھاٹ میں گودام چھت تک سامان سے بھرے ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ چار سو بو گیاں خالی ہونے کی منتظر کھڑی ہیں اور ایک ہزار بو گیاں دریا کے دوسرے کنارے پر منتقلی کی منتظر ہیں۔ اس نے آخر میں کہا: ’میری نصیحت سمجھو اور کل صبح سماریہ گھاٹ جانے والا سٹیمر پکڑو اور سیدھا گورکھا پور چلے جاؤ اور جا کر ریلوے کو بتاؤ کہ یہ کام تمہارے بس سے باہر ہے۔‘

اگلی صبح میں جلدی روانہ تو ہوا مگر میرا رخ سماریہ گھاٹ والے سٹیمر کی جانب نہیں بلکہ میں گوداموں اور دیگر مقامات کا جائزہ لینے گیا تھا۔ سٹورر نے ہرگز غلط بیانی نہیں کی تھی بلکہ حالات اس سے زیادہ خراب تھے۔ نہ صرف چار سو میٹر گیج بو گیاں خالی ہونے کی منتظر تھیں بلکہ چار سو براڈ گیج کی بو گیاں بھی خالی ہونے کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ کم از کم پندرہ ہزار ٹن جتنا سامان یہاں پھنسا ہوا ہے اور مجھے اس کی صفائی کو بھیجا گیا ہے۔ خیر، میں ابھی بیس سال کا تھا اور بہار کا موسم تھا جب ہم سبھی تھوڑے سے کھسک جاتے ہیں۔ جب رام سرن سے میری ملاقات ہوئی تو میں یہ ذمہ اٹھانے کا فیصلہ کر چکا تھا، نتیجہ چاہے جو بھی نکلتا۔

رام سرن دوسال سے موکاما گھاٹ کا سٹیشن ماسٹر تھا۔ اس کی عمر بیالیس کے لگ بھگ ہو گی اور بہت گھنی کالی داڑھی اور پانچ بچوں کا باپ بھی تھا۔ اسے میری آمد کی اطلاع کا تار مل گیا تھا مگر اسے میری ذمہ داری سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

جب میں نے اسے اپنی آمد کا مقصد بتایا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور بولا: ’واہ، بہت خوب جناب۔ ہم سنبھال لیں گے۔‘ میرا دل لفظ ’ہم‘ پر باغ باغ ہو گیا اور پینتیس سال بعد اس کی وفات تک میرے جذبات نہیں سرد پڑے۔ جب میں نے ناشتے کے دوران سٹورر کو اپنے فیصلے کے بارے آگاہ کیا تو اس کا جواب تھا کہ احمق کبھی مشورہ نہیں مانتے۔ تاہم اس نے ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا اور اس پر پوری طرح کاربند بھی رہا۔ اگلے کئی ماہ تک اس نے دن رات سٹیمروں کو رکنے نہ دیا اور میرے لیے سامان لاتا رہا۔

گورکھا پور سے واپسی کا سفر دو روز کا تھا اور جب میں موکاما گھاٹ پہنچا تو پانچ دن بچے تھے۔ اس دوران مجھے اپنی ذمہ داریاں سمجھ کر ٹھیکے کو سنبھالنا تھا۔ پہلے دو دن تو میں نے اپنے سٹاف سے جان پہچان میں گذارے۔ رام سرن کے علاوہ ایک اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر جو کافی معمر تھا، پینسٹھ کلرک، ایک سو دیگر ملازمین بشمول شنٹر، پوائنٹس میں اور چوکیدار بھی میرے حوالے ہوئے۔ چونکہ میری ذمہ داری دونوں کناروں پر تھی، سو دوسری جانب بھی عملے کی تعداد سو سے کم نہیں تھی۔ ان دو عملوں کو سنبھالنا بذاتِ خود کارِ دارد تھا۔ اس کے علاوہ مجھے اتنے مزدور بھی جمع کرنے تھے کہ ہر سال موکاما گھاٹ سے پانچ لاکھ ٹن سامان کی منتقلی ممکن ہو پاتی۔

لیبر کمپنی کے ملازمین کو کام پر معاوضہ ملتا تھا اور چونکہ کام رکا ہوا تھا، سو یہ ملازمین بیکار بیٹھے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں کیوں آیا ہوں تو بہت سارے ملازمین میرے لیے کام کرنے کو تیار ہو گئے۔ اگرچہ مجھے لیبر کمپنی کے ملازمین کو بھرتی کرنے کی ممانعت نہیں تھی مگر میں نے احتراز ہی کیا۔ البتہ ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھرتی کرنے سے مجھے کوئی تامل نہ تھا۔ سو تیسرا دن میں نے بارہ آدمی چن کر انہیں نگران بنا دیا۔ ان میں سے گیارہ کے ذمے دس دس افراد مہیا کرنا تھا تاکہ سامان کی منتقلی کا کام شروع ہو سکے اور براہویں کو کہا کہ وہ ساٹھ مرد اور عورتیں جمع کرے جو کوئلے کی منتقلی کا کام کر سکیں۔ سامان کی نوعیت مختلف تھی اور مختلف قسم کے سامان کی منتقلی کے لیے مختلف ذاتوں کے افراد بھرتی کرنے تھے۔ سو بارہ نگرانوں میں سے آٹھ ہندو تھے، دو مسلمان اور دو کا تعلق اچھوت ذاتوں سے تھا۔ چونکہ ان میں سے صرف ایک نگران ہی خواندہ تھا، میں نے ان کے بہی کھاتوں کے لیے ایک ہندو اور ایک مسلمان کلرک بھرتی کیے۔

لیبر کمپنی دونوں ریلوے کے درمیان سامان کی براہ راست منتقلی کرتی تھی اور سامان بو گی سے بو گی میں منتقل ہوتا تھا۔ اب دونوں کا سامان بو گی سے گودام اور پھر گودام سے بو گی کو منتقل ہونا تھا۔ مجھے ہزار من سامان کی منتقلی پر ایک روپیہ سات آنے ملنے تھے تاہم بھاری سامان اور کوئلے پر مجھے ایک روپیہ چار آنے فی ہزار من ملتا کیونکہ یہ سامان یک طرفہ ٹریفک تھا اور اسے براہ راست بو گی سے بو گی میں منتقل کیا جاتا تھا۔ ایک من میں اسی پاؤنڈ ہوتے ہیں اور ہزار من پینتیس ٹن سے زیادہ بنتا ہے۔ اگر آپ کو ان نرخوں پر یقین نہ ہو تو آپ ریلوے کے ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں۔ آخری شام کو میں حاضری لگائی تو پتہ چلا کہ گیارہ نگرانوں کے پاس دس دس مزدور اور بارہویں کے پاس ساٹھ مرد و زن جمع ہو گئے ہیں۔ دو کلرک ملا کر میرا عملہ پورا ہو گیا۔ اگلے دن صبح سویرے میں نے گورکھا پور تار بھیجا کہ میں نے سامان کی منتقلی کے انسپکٹر کی ذمہ داری سنبھال لی ہے اور کام شروع ہو گیا ہے۔

رام سرن کے مدِ مقابل دوسرے کنارے پر آئرش بندہ ٹام کیلی تھا۔ کیلی کو موکاما گھاٹ پر کام کرتے کئی برس ہو گئے تھے اور اگرچہ اسے میری کامیابی پر بہت شک تھا مگر اس نے ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا۔ چونکہ گودام سارے سامان سے بھرے ہوئے تھے اور چار سو بو گیاں مزید بھی منتظر تھیں، سو ہمیں بڑا قدم لینا پڑا تاکہ گودام میں جگہ بنے اور سامان کی نقل و حرکت شروع ہو جائے۔ سو کیلی سے طے ہوا کہ میں ایک سمت میں ہزار ٹن گندم گودام سے نکال کر باہر رکھوں گا تاکہ کیلی مجھے ہزار ٹن نمک اور چینی وہاں رکھنے کو بھیج دے۔ پھر کیلی خالی بو گیوں کی مدد سے شیڈز میں میرے لیے جگہ بنائے گا۔ یہ منصوبہ خوبصورتی سے پورا ہوا۔ شکر ہے کہ جتنی دیر میری جانب ہزار ٹن گندم کھلے آسمان تلے پڑی رہی، بارش نہیں ہوئی۔ دس روز میں ہم نے نہ صرف جمع شدہ سامان روانہ کر دیا بلکہ ویگنیں بھی خالی ہو گئیں۔ پھر ہم نے اپنے متعلقہ صدر دفاتر کو تار بھیجے کہ موکاما گھاٹ سے وہ سامان کی بکنگ شروع کر دیں۔ سامان کی منتقلی کو رکے دو ہفتے ہو گئے تھے۔

میں نے گرمیوں کے شروع میں ٹھیکہ لیا جب ہندوستانی ریلوے سب سے زیادہ مصروف ہوتی ہے اور جونہی بکنگ شروع ہوئی، سامان کا سیلاب آ گیا۔ مجھے دیے جانے والا معاوضہ پورے ہندوستان میں سب سے کم تھا اور کام جاری رکھنے کے لیے مجھے مزدوروں کی تعداد ہر ممکن طور پر کم سے کم رکھنی تھی اور انہیں محنت پر آمادہ کرنے کے لیے دوسروں کے برابر یا تھوڑا سا زیادہ معاوضہ دینا تھا۔ موکاما گھاٹ پر کام کا معاوضہ ملتا تھا اور پہلے ہفتے کے اختتام پر یہ جان کر میرا عملہ بہت خوش ہوا کہ حساب کتاب کے مطابق انہیں لیبر کمپنی کے مزدوروں سے پچاس فیصد زیادہ معاوضہ ملنا ہے۔

میرا کام شروع ہوتے وقت ریلوے نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ہفتہ وار ادائیگی کریں گے اور میں نے اپنے عملے سے بھی یہی کہا تھا۔ تاہم وعدہ کرتے ہوئے ریلوے کو یہ بات یاد نہ رہی کہ ایک ٹھیکیدار سے دوسرے کو منتقلی کے نتیجے میں آڈٹ کی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور ان کو حل کرنے میں وقت لگے گا۔ ریلوے کے لیے تو یہ عام سی بات تھی مگر میرے لیے بہت بڑا مسئلہ تھا۔ میرا کل سرمایہ ڈیڑھ سو روپے تھا اور پوری دنیا میں کسی سے ادھار ملنے کی توقع نہیں تھی۔ سو جب تک ریلوے مجھے ادائیگی نہ کرتی، میں اپنے مزدوروں کو ادائیگی نہیں کر سکتا تھا۔

میں نے اس کہانی کا نام ’وفاداری‘ اس لیے رکھا ہے کہ مجھ سے زیادہ شاید ہی کسی کو وفاداری ملی ہو جو نہ صرف میرے مزدوروں کی تھی بلکہ ریلوے کے ملازمین کی جانب سے بھی تھی جو میرے کام شروع ہونے کے ابتدائی تین ماہ میں تھی۔ مجھے یقین ہے کہ کبھی کسی نے اس سے زیادہ محنت سے کام نہیں کیا ہو گا۔ ہفتے میں سات روز کام صبح چار بجے شروع ہوتا اور بغیر کسی وقفے کے رات آٹھ بجے تک جاری رہتا۔ سامان کا حساب کتاب رکھنے والے کلرک مختلف اوقات پر کھانا کھاتے تاکہ کام نہ رکے اور مزدور اپنا کھانا وہیں کھاتے جو ان کی بیویاں، بیٹیاں، مائیں اور بہنیں لاتیں۔ اس دور میں کوئی ٹریڈ یونین نہیں ہوتی تھی اور ہر کوئی اپنی مرضی سے کام کرنے میں آزاد تھا کہ وہ جتنے گھنٹے چاہے، کام کرتا۔ ہر انسان کو کام کے بدلے بہتر معاوضے کی توقع تھی چاہے وہ بہتر خوراک کا حصول ہو، خاندان کے لیے بہتر کپڑے ہوں یا ہل چلانے کے لیے نیا بیل خریدنا ہو۔ بہتر معاوضے کے بغیر کوئی انسان پوری محنت نہیں کرتا۔ دن کے اختتام پر میرا اور رام سرن کا کام جاری رہتا کہ ہمیں خط و کتابت بھی کرنی ہوتی تھی اور اگلے دن کی منصوبہ بندی بھی۔ پہلے تین ماہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی چار گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا۔ میری عمر بیس سال تھی اور سخت جان تھا مگر رام سرن چالیس سے اوپر کا تھا اور اتنا سخت جان نہیں رہا۔ تین ماہ بعد اس کا وزن 14 کلو کم ہو چکا تھا مگر اس کی خوش طبعی جاری رہی۔

رقم کی کمی ہر گزرے ہفتے میرے لیے پریشانیوں میں اضافہ کرتی جا رہی تھی۔ پہلے پہل نگرانوں اور پھر مزدوروں نے اپنے زیورات گروی رکھوائے اور پھر وہ بھی ختم ہو گئے۔ اس دوران لیبر کمپنی کے مزدوروں نے میرے عملے کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ وہ میرے عملے کے بہتر معاوضے سے جلتے تھے۔ کئی بار بمشکل لڑائی ہوتے ہوتے بچی۔ خوراک کی کمی کے باوجود میرے عملے کی وفاداری پر کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ ہر اس انسان سے لڑنے پر تیار ہو جاتے جو انہیں کہتا کہ میں ان کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہوں اور انہیں کبھی ایک پائی بھی نہیں ملے گی۔

مون سون تاخیر کا شکار ہو گئی اور سورج آسمان پر دہکتا گولہ دکھائی دیتا تھا اور لو اتنی گرم ہوتی جیسے کسی بھٹی سے نکل رہی ہو۔ ایک بار طویل اور گرم دن کے اختتام پر مجھے سماریہ گھاٹ سے تار ملا کہ سامان کو موکاما گھاٹ لانے والا ایک انجن پٹڑی سے اتر گیا ہے۔ کشتی سے دریا عبور کر کے میں وہاں پہنچا اور تین گھنٹوں میں دو مرتبہ انجن کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھایا مگر وہ پھر اتر جاتا۔ شام کو جب ہوا کی رفتار کم ہو گئی اور ریت کو چوبی سلیپروں کے نیچے اچھی طرح جما دیا تو پھر تیسری بار انجن کو پٹڑی پر چڑھایا اور کام بحال ہوا۔ تھکن سے بے حال اور ریت اور ہوا کی وجہ سے آنکھیں سوجی ہوئی اور سرخ تھیں، میں اس روز پہلی بار کھانا کھانا اپنے خیمے میں بیٹھا تو میرے بارہ نگران خیمے میں داخل ہوئے اور جب دیکھا کہ نوکر میرے سامنے کھانے کی تھالی رکھ رہا ہے تو رواج کے مطابق باہر نکل گئے۔ پھر میں نے کھانا کھاتے ہوئے یہ گفتگو سنی:

ایک نگران: صاحب کے سامنے تھالی میں کیا ہے؟

نوکر: ایک چپاتی اور تھوڑی سی دال۔

ایک نگران: صرف ایک چپاتی اور تھوڑی سی دال؟

نوکر: کیونکہ اس سے زیادہ کے پیسے نہیں ہیں۔

ایک نگران: صاحب اور کیا کھاتے ہیں؟

نوکر: کچھ بھی نہیں۔

تھوڑی دیر خاموشی رہی اور پھر سب سے معمر نگران کی آواز سنائی دی جو مسلمان تھا اور اس کی لمبی داڑھی مہندی سے رنگی ہوتی تھی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’گھر جاؤ، میں یہیں رک کر صاحب سے بات کرتا ہوں۔‘

جب نوکر نے خالی پلیٹ ہٹائی تو وہ بوڑھا نگران اجازت لے کر اندر داخل ہوا اور میرے سامنے کھڑا ہو کر بولا: ’ہم آپ کو یہ بتانے آئے تھے کہ بھوک سے ہم لوگ نڈھال ہیں اور کل ہم سے کام نہیں ہو سکے گا۔ مگر اب دیکھا ہے کہ آپ کا حال ہم جیسا ہی ہے تو ہم اپنا کام تب تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری ہمت ساتھ دے گی۔ اب آپ سے اجازت چاہوں گا مگر صاحب، خدا کے لیے، ہمارے لیے کچھ کیجیے۔‘

کئی ہفتوں سے میں ہر روز گورکھا پور پیغام بھیجتا کہ رقم کا بندوبست کریں اور ہر روز جواب آتا کہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

جب یہ نگران چلا گیا تو میں نے سیدھا تار گھر کا رخ کیا جہاں تار بابو حسبِ معمول میری جمع کرائی ہوئی روز کے کام کی رپورٹ بھیج رہا تھا۔ میں نے میز سے فارم اٹھایا اور اسے کہا کہ گورکھا پور کے لیے ارجنٹ تار کے لیے لائن خالی کرے۔ نصف شب کو چند منٹ گزرے ہوں گے کہ میرا یہ تار روانہ ہوا: ’اگر صبح کی ٹرین سے بارہ ہزار روپے روانہ نہ ہوئے تو موکاما گھاٹ پر کام آج دوپہر کو روک دیا جائے گا۔‘ تار بابو نے پیغام پڑھا اور مجھے دیکھ کر بولا: ’صاحب اگر آپ اجازت دیں تو میرا بھائی اس وقت دوسری جانب ڈیوٹی پر ہے اور وہ یہ پیغام صبح کی بجائے ابھی بھجوا دے؟‘ تار روانگی کے دس گھنٹے بعد اور میرے دیے ہوئے الٹی میٹم کی میعاد ختم ہونے سے دو گھنٹے قبل میں نے دیکھا کہ تار گھر کا ایک ملازم بھورے رنگ کا لفافہ لیے میری جانب دوڑا آ رہا ہے۔ جہاں جہاں سے وہ گزرتا، لوگ اپنا کام روک کر اسے دیکھنے لگتے کہ پورے موکاما گھاٹ کو پتہ چل چکا تھا کہ میں نے رات کو کیا تار بھیجا تھا۔ جب میں نے تار پڑھ لیا تو اس نے پوچھا کہ اچھی خبر ہے؟ یہ لڑکا میرے دفتری چپراسی کا بیٹا تھا اور جب میں نے تصدیق کی تو وہ خوشی سے دوڑ پڑا اور جہاں جہاں سے گزرتا، لوگ خوشی کے نعرے لگاتے جاتے۔ رقم اگلے روز آنی تھی مگر جہاں کئی مہینے گزر گئے، ایک روز اور بھی گزر ہی جاتا۔

اگلی صبح تنخواہ دینے والا کلرک میرے دفتر پہنچا اور اس کے پیچھے میرے کئی آدمی تھے جنہوں نے بانس سے لٹکی ہوئی تجوری اٹھائی ہوئی تھی اور دو پولیس والے اس کی حفاظت کر رہے تھے۔ یہ بندہ ہندو تھا اور خوش مذاق بھی۔ مجھے وہ ہمیشہ عینک پہنے ہوئے دکھائی دیا۔ دفتر کے فرش پر بیٹھ کر اس نے اپنے گریبان میں رسی سے بندھی چابی نکالی اور تجوری کھول کر بارہ تھیلے نکالے۔ ہر تھیلے میں ایک ہزار روپے کے نئے نکور سکے تھے۔ پھر اس نے میرے دستخط شدہ کاغذ پر تھوک سے ٹکٹ لگائی اور پھر اپنی بہت گہری جیب سے ایک لفافہ نکالا جس میں ساڑھے چار سو روپے کے نوٹ تھے جو میری تین ماہ کی تنخواہ تھی۔

میرا خیال ہے کہ رقم دیتے ہوئے کبھی کسی کو اس سے زیادہ خوشی نہیں ہوئی ہو گی جتنی مجھے اس روز ہوئی۔ میں نے ہر نگران کو ایک ہزار روپے کا تھیلا پکڑایا اور مجھے نہیں لگتا کہ رقم وصول کرتے ہوئے ان سے زیادہ کوئی خوش ہوا ہو گا۔ چونکہ کلرک اور رقم کی آمد سے قبل پریشانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، سو اب کوئی تقریب ضروری تھی۔ سو باقی کا پورا دن چھٹی دے دی گئی اور ہم لوگ پچانوے روز سے بلا ناغہ کام کر رہے تھے۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں میں نے یہ وقت سو کر گزارا۔ اکیس سال تک میری یہ ذمہ داری چلتی رہی اور اس دوران میں نے پہلی جنگِ عظیم کے چار سال وزیرستان اور فرانس میں بھی گزارے مگر ایک بار بھی کام میں خلل نہیں آیا۔ جب میں نے کام سنبھالا تو چار سے پانچ لاکھ ٹن سامان موکاما گھاٹ سے گزرتا تھا اور جب میں نے کام ختم کیا تو یہ مقدار دس لاکھ ٹن سے زیادہ ہو چکی تھی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے