آپ کا عِشق اگر حاصِلِ ایمان ہو جائے
عین مُمکن ہے کہ مُشکِل میری آساں ہو جائے
ہُوں گُنہگار ، پہ اُمید بڑی رکھتا ہُوں
یا رسولِ عربی مُجھ پہ یہ احساں ہو جائے
وقت یہ آپ کی اُمّت پہ بہت بھاری ہے
چاہتے ہیں یہ عدو حشر بہ داماں ہو جائے
’آدمی کو بھی مُیسٌر نہیں اِنساں ہونا‘
گر کرم آپ کا شامِلِ ہو تو اِنساں ہو جائے
واسطہ شانِ رسالت کا خُدا کے محبوب
بس موافِق ہمیں یہ گردِشِ دوراں ہو جائے
ہاتھ اِ س خاک نشیں کے ہیں دعا میں مصروف
ابر رحمت کے اُٹھیں موسمِ باراں ہو جائے
ہو وسیلے سے دعا آپ کے واحِدؔ کی قُبول
رکھ کے سر آپ کے قدموں پہ یہ قُرباں ہو جائے
٭٭٭