اپنی برہنہ وڈیوز اور پرائیوٹ کالز کے وائرل ہونے کا سن کر ثمرہ حسن کا ری ایکشن بہت مختلف تھا!
اس کی سیکرٹری عالیہ نے سخت پریشانی میں وہ تمام وڈیوز اپنے موبائل پر اسے دکھائی تھیں جن کی زیادہ تر عکس بندی عالیہ نے ہی کی تھی۔
ثمرہ یکے بعد دیگرے اپنی تمام وائرل وڈیوز کسی رد عمل کے بغیر دیکھ رہی تھی۔
’’کالز ریکاڈنگز بھی وائرل ہو چکی ہیں۔‘‘
’’اچھا!!کون کون سی باتیں؟‘‘
’’وہ پرائیویٹ باتیں جن میں آپ مد ہوش ہیں!!‘‘
’’اوہ!! ‘‘
’’یہ کس کی حرکت ہو گی؟‘‘
عالیہ نے اسے بت بنے دیکھ کر جھنجلاہٹ سے پوچھا۔
اس کا خیال تھا کہ سینیٹر جبار حسن خان کی بیوی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گی مگر وہ بظاہر نارمل دکھائی دے رہی تھی۔
’’فراز احمد نے یا کسی اور نے اس کا موبائل ہیک کیا ہو گا۔‘‘ ثمرہ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ ’’تم جانتی تو ہو کہ فراز کے علاوہ میں کبھی کسی اور کے سامنے نہیں کھلی ہوں۔ اس کے ساتھ بھی کتنے دن لگے تھے نا!! ‘‘
عالیہ کو یہ بات معلوم تھی۔
’’فراز احمد کے تو اب اتنے ٹکڑے ہوں گے کہ اس کے گھر والے جمع بھی نہ کر سکیں گے۔۔ ہو سکتا ہے جبار حسن خان نے اب تک اسے ٹھکانے لگا بھی دیا ہو۔ میں اسے مسلسل کال کر رہی ہوں، اس کا میسنجر بھی بند ہے۔ افف اب آپ کا کک کیا ہو گا اور میرا!؟‘‘
’’جبار مجھے قتل کر دے گا۔‘‘
ثمرہ نے ٹھنڈی آہ بھر کر ہار ماننے والے انداز میں کہا۔ ’’مگر وہ مجھے آسان موت نہیں دے گا!!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے معروف سیاسی گھرانے کے اکلوتے چشم و چراغ جبار حسن خان نے ثمرہ سے اس کے عین شباب اور ماڈلنگ کیریئر کے عروج پر شادی کی تھی جو بعد میں اس کے سیاسی کیرئیر میں بھی سود مند ثابت ہوئی تھی۔ ثمرہ ڈرامے اور موویز کی آفرز ٹھکرا کر جبار حسن خان کے عاشق مزاج اور والہانہ پن پر فدا ہو گئی تھی۔ جبار بھی ان دنوں اسے شہزادیوں کا درجہ دیتا تھا۔ اس نے شادی سے پہلے ہی ثمرہ کو بنگلہ، گاڑی، بینک بیلنس اور ملازم دے رکھے تھے۔ اسی لیے جب جبار نے اسے شادی کا پیغام دیا تو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ثمرہ انکار نہ کر سکی۔
ثمرہ پنجاب کے نواحی علاقے سے بھاگ کر ماڈلنگ کی دنیا میں اپنی ایک دوست کے بلاوے پر اپنے ماضی کے سب دروازے بند کر کے آئی تھی۔ اس کی قسمت، خوب صورتی اور ٹیلنٹ نے اسے ٹاپ ماڈل بنا دیا تھا۔ وہ جبار حسن کی رعب دار شخصیت سے بے حد متاثر تھی۔ جبار کراچی جیسے بڑے شہر میں اس کا واحد آسرا تھا۔
ایک دن شراب پیتے ہوئے جبار کے جگری دوست نے اسے چھیڑا تھا کہ چڑیا کو ہیروئن بننے کی لت لگ جائے تو دنیا کی طاقت اسے اڑنے سے نہیں روک سکتی!
اسی لیے جبار حسن نے ثمرہ کو ’ہیروئن‘ کی لت ہی نہ لگنے دی۔
شادی کے فوراً بعد ہی جبار کا پہلا الیکشن تھا۔ وہ ثمرہ کی شہرت سے فائدہ اٹھانا جانتا تھا۔ میڈیا پر اس کے عشق اور شادی کے چرچے عام تھے۔
اس نے ہیرے کے قیمتی زیورات گفٹ کرنے کے بعد ثمرہ سے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہلوا دیا کہ وہ شو بز کی چکا چوند سے بیزار آ چکی ہے اور شادی کے بعد وہ صرف سوشل ورک کرے گی اور اپنے شوہر جبار حسن خان کا سیاست اور سماجی امور میں اس کا ساتھ دے گی۔ اس پریس کانفرنس کا بہت دن تک میڈیا پر چرچہ رہا اور ثمرہ کے اس بیان کے بعد جبار نے الیکشن سے پہلے الیکشن جیت لیا تھا۔
جیت کے بعد ثمرہ کو محسوس ہوا کہ جبار بدلنے لگا تھا۔ وہ اس سے بچہ نہیں چاہتا تھا۔ رفتہ رفتہ ثمرہ کو اپنا وجود خالی سا اور ادھورا لگنے لگا تھا۔ پہلے پہل وہ ویک اینڈ پر شراب کے نشے میں دھت آ کر اس سے لپٹ جاتا تھا۔ پھر ویک اینڈ سے ماہانہ اور ماہانہ ملن کے بعد سال ہا سال گزرنے لگے۔
جبار سیاست میں مصروف ہونے کے بعد اسے سونے کے پنجرے میں قید کر کے تقریباً بھول چکا تھا۔
جہاں اس کی حفاظت کے لیے سکیورٹی گارڈز تھے، گھر کا ہر کام کرنے کے لیے ملازم تھے اور اس کی پرسنل سیکریٹری عالیہ تھی۔ جو اسے اور گھر کو مینج کرتی تھی۔
عالیہ کے بنائے ہوئے شیڈول پر وہ جبار کے سیاسی و سماجی کاموں کو آئے دن نمٹاتی رہتی تھی۔ یوں شو بز میں نہ ہوتے ہوئے بھی وہ میڈیا میں مشہور تھی۔ مگر سینئرز فوٹوگرافرز کے بقول اب اس کا حسن ماند پڑتا جا رہا تھا۔
دن بھر شہر میں کسی ہوٹل، کلب، شاپنگ مالز یا کسی پریس کانفرنس میں وقت گزارنے کے بعد ثمرہ کو رات میں بیڈ پر لیٹتے ہی بے چینی ہونے لگی تھی۔
پر آسائش بیڈروم کی تنہائی میں اس کا دل چاہتا کہ کوئی اس کی یہ بے چینی نگل لے۔ اے سی کی کولنگ میں اس کا گرم جسم اسے تنہا تپنے کی اذیت دیتا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کے اندر جذبات کا طوفان کہاں سے امڈا چلا آتا ہے۔ رات کے وقت دل بے چین و بے کل سا کیوں ہوتا ہے۔ اسے اپنے جذبات کی منہ زوری سے مقابلہ کرنا نہیں آ رہا تھا۔ وہ آزاد پرندے کی طرح اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ نا چاہتی تھی۔ نا دیدہ فضاؤں میں اڑنا چاہتی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ کوئی مردانہ وجود اس کا محبوب بن کر آئے اور اس کے تنے ہوئے جسم کو اور اس خود سپردگی کے عالم کو زور زور سے اپنے مضبوط بازوؤں میں بھینچتے ہوئے اس کے ہوا سے بہکتے جسم کو اپنے اندر سمو لے۔ کوئی اسے جھنجوڑ دے یا توڑ دے۔ اسے سر سے لے کر پیر تک اتنا چومے کہ وہ ہلکان ہو جائے۔ جسم کی تپش کو اتنا بھڑکائے کہ اس کے اندر سے شعلے بھڑکنے لگے یا آگ برسنے لگے۔ اس کی خواہش بے قابو ہوتی کہ مردانہ لمس اس کے جسم کو گدگدائے، تھپتھپائے، سہلائے، جھلائے اور اس کو بانہوں میں بھر کر اس قدر گول گول گھمائے کہ یہ دنیا اس کے دماغ سے محو ہو جائے۔
روز تنہائی میں کسی مردانہ وجود کی چاہ اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ اس کے دل و دماغ میں لمس کی چاہت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کا شدت کے ساتھ دل چاہتا کہ اس کے جسم کے خالی پن کو بھر دیا جائے اور مردانہ وجود خود بھی ہلکا ہو کر اس پر گر جائے، لپٹ جائے، چمٹ جائے اور دیر تک اس کے جسم سے چمٹا رہے۔ کبھی اسے لگتا تھا کہ اس کے جسم کو چھوا ہی نہیں گیا ہے۔
اپنے ان جذبات کا ذکر اس نے عالیہ سے بھی کیا۔ زمانہ شناس عالیہ نے اپنے طور پر ثمرہ کی مدد کرنا چاہی مگر ثمرہ اس کے جسم سے لطف کشید نہ کر سکی۔
خوبرو مردانہ وجاہت والا فراز احمد اس کا پرانا عاشق تھا۔ برسوں بعد سوشل میڈیا پر جب وہ ثمرہ کو دوبارہ ملا تو اس کے چار اطراف جیسے گل کھل اٹھے۔ دن رات ہوا بن کر گزرنے لگے۔ وہ گلاب کی طرح کھلتی چلی گئی۔ فراز اس کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا۔ وہ روز اس کے ہوش اڑاتی۔ فراز کے اصرار پر وہ اپنی نیم برہنہ وڈیوز بنا کے اپنے جلوے بکھیرتی اور فراز کی تعریفوں سے مزید کھل اٹھتی۔ وہ دن رات فراز کے حواس پر چھا کر اسے پاگل بنا دیتی اور خود بھی پاگل ہو جاتی۔ فراز سے ملنے کے بعد اس کے دن رات رنگین اور حسین تر ہو چکے تھے۔ دو مرتبہ ہوٹل میں ملنے کا رسک لینے کے بعد وہ ڈر گئی تھی۔
جبار حسن خان کا خوف، محبوب سے وصال کے حسین لمحات برباد کر رہا تھا۔
اسی لیے ثمرہ نے عالیہ کے سمجھانے پر تصوراتی وصال کو غنیمت جانا تھا۔
ثمرہ نے اپنے اندر ہیروئن بننے کی چاہ کو کافی عرصے سے دبا رکھا تھا۔ فراز سے ملنے کے بعد اس کے اندر کی ہیروئن جیسے جاگ گئی۔ اس نے خود کو سجانا، سنوارنا چھوڑ دیا تھا مگر اب وہ فراز کے لیے روز سنورنے لگی۔ وہ باقاعدگی سے بیوٹی سیلون جانے لگی، اپنے جسم کا مساج کرواتی اور اس نے جم جانا بھی باقاعدگی سے شروع کر دیا تھا۔ اس کے اندر زندگی کو دوبارہ جینے کی امنگ لوٹ آئی تھی۔ اس کی زندگی میں جیسے نئی بہار آ گئی تھی۔
وہ اپنے عاشق فراز احمد کی خواہش پر مکمل برہنہ ہو کر اسے جنت کے نظارے کرواتی۔ وڈیو کال پر اسے جام عشق پلاتی۔ فراز اس کی وڈیوز دیکھتا اور کھلے دل سے اس کی تعریفیں کرتا، اس کی ہر ادا پر فدا ہوتا، قربان جاتا اور بے ہوش ہونے کی اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھڑکن رک جانے کی عاشقانہ ادا دکھاتا۔ فراز کے بھرپور رد عمل پر وہ مزید کھل اٹھتی تھی اور اس کی ادائیں مزید دلربا ہو جاتیں۔
عالیہ اس کی ہم راز تھی۔ اس کو وڈیوز بنانے میں، ادائیں دکھانے میں، تڑپنے اور تڑپانے میں اور اس حسین وقت کا مکمل حظ اٹھانے اور لطف کشید کرنے میں اس کا ساتھ دیتی تھی۔
فراز احمد کال پر اسے گانے سناتا اور اس سے رقص کی فرمائش کرتا۔ ثمرہ کا انگ انگ اس کی محبت میں تھرکتا تھا۔ وہ اپنی تصوراتی دنیا کی ہیروئن بن جاتی اور فراز اس کا ہیرو بنا ہروقت اس کے دل و دماغ پر چھایا رہتا تھا۔
فراز اس کے بتدریج متناسب ہوتے جسم کے خد و خال اور حسین نشیب و فراز کی تعریف کرتے نہ تھکتا تھا۔ وہ محبت سے شرابور ہو چکی تھی۔ گلاب کی طرح نکھر چکی تھی۔ اس کا حسن عشق کی شراب میں دو آتشہ ہو چکا تھا۔ وہ خود کو پھر سے تر و تازہ جوان و توانا محسوس کرتی تھی۔
عالیہ کا بھی خیال تھا کہ ثمرہ دماغی اور جسمانی طور پر اپنی نوجوانی میں پہنچ چکی ہے۔ اسے اپنی شادی کے گیارہ برس بعد طوفانی عشق ہوا ہے۔ جو اسے جوان اور حسین تر کیے جا رہا ہے۔ جو اسے دن یا رات کچھ نہیں دیکھنے دے رہا ہے۔
عالیہ نے کئی برس تنہائی میں ثمرہ کو تڑپتے، ترستے اور تباہ ہوتے دیکھا تھا۔ اس لیے وہ اس کی خوشی میں خوش تھی اور اس کے لیے مواقع فراہم کرتی تھی۔ اتنا عرصہ ساتھ رہتے ہوئے اسے ثمرہ سے انسیت ہو چکی تھی۔ ثمرہ نے بھی ہر مصیبت و پریشانی میں اس کا ساتھ دیا تھا۔
ان دنوں جبار حسن خان ملک سے باہر کسی بزنس پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اس لیے وہ بے فکر تھی۔
رات بھر فراز، ثمرہ کو فون پر عشق کے سمندروں میں جھولا جھلاتا تھا۔ وہ اس سے دور رہ کر بھی اس کے احساسات کے تمام تار چھیڑ دیتا تھا۔ ثمرہ بھی بے باک ہوتی چلی گئی تھی۔ وہ کھل کر اپنی کیفیات اور جذبات اپنی بے ربط سانسوں اور کپکپاتی آواز میں اس کے کانوں میں انڈیلتی رہتی تھی اور بظاہر جسمانی دوری پر آہیں بھرتی مگر مکمل لطف کشید کرتی تھی۔
وہ روزانہ جسمانی ملاپ کا پروگرام بناتے اور ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے۔ اس سلسلے میں فراز خود بھی بہت محتاط رہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وڈیوز اور کالز کے وائرل ہونے کے بعد عالیہ نے ثمرہ کا ہر حال میں ساتھ دینے کا دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا۔
اس کے پاس جبار حسن خان کی کال آئی تھی۔ جبار نے عالیہ سے وائرل وڈیوز اور کالز کے متعلق کچھ نہ پوچھا۔ اس نے عالیہ کو پریس کانفرنس کا بتایا اور ہدایات دی کہ ثمرہ کو سوبر انداز میں میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
’’جبار حسن نے پریس کانفرنس کیوں بلائی ہے!! اس بار انتظام میں طعام کا خاص خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
عالیہ کو زندگی میں پہلی بار ڈر لگ رہا تھا۔
’’وہ یقیناً کوئی سیاسی چال چل رہا ہے۔‘‘ ثمرہ نے پژمردگی سے تیار ہوتے ہوئے تبصرہ کیا۔
عالیہ نے چونک کر اس کی تیاری دیکھی۔ ثمرہ کے چہرے پر یکدم بڑھاپا جھلکنے لگا تھا۔ وہ ثمرہ کے سر پر سفید دوپٹہ جمانے لگی۔
وہ دونوں جب شہر کے بڑے ہوٹل میں منعقد پریس کانفرنس پہنچیں تو جبار حسن خان اپنے سیاسی ٹولے کے ہمراہ پہلے ہی موجود تھا۔
سب نے عالیہ اور ثمرہ سے رسمی سلام دعا کی اور اپنے اپنے مذاکرات میں مشغول ہو گئے۔
جبار نے ثمرہ سے نارمل علیک سلیک کی اور تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’تم با وقار ہو اور با وقار ہی رہنا۔‘‘
ثمرہ نے اس جملے پر الجھن محسوس کی مگر اپنا چہرہ سپاٹ ہی رکھا۔ عالیہ نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ سے انتظامات اور دیگر صورت حال کا جائزہ لیا۔ پریس کانفرنس ختم ہونے تک جبار حسن خان اور اس کے سیاسی ساتھیوں نے جو کہانی پیش کی وہ ثمرہ اور عالیہ کے لیے فی الوقت بے حد اطمینان بخش تھی۔ جبار خان اور اس کے ساتھی ان وائرل وڈیوز اور کالز ریکارڈنگ کو جعلی ثابت کرنے پر زور دے رہے تھے جو ثمرہ سے منسوب کر کے وائرل کی گئی تھیں۔
جبار حسن خان کا ماننا تھا کہ وائرل وڈیوز اور کالز اس کے سیاسی دشمنوں کی گندی اور گھناونی چال ہے۔ یہ تمام وڈیوز اور کالز اس کی پاک باز اور نیک شریف بیوی کو بد نام کرنے کی سازش ہے۔ کانفرنس میں شامل جبار حسن کی پارٹی کے وڈیوز ایکسپرٹ نے ثابت کر دیا کہ وہ تمام وڈیوز کسی نوجوان عورت کی بنائی ہوئی ہیں۔ جب کہ ثمرہ ادھیڑ عمری میں ہے۔ ایکسپرٹ کے بقول وڈیوز والی لڑکی کی شکل ثمرہ سے مماثلت رکھتی ہے۔ وڈیوز چونکہ موبائل سے بنائی گئی ہیں اور کیمرے میں فلٹر استعمال کیے گئے ہیں۔ شکل واضح بھی نہیں ہے اور زوم کرنے پر پکسل بھی پھیل رہے ہیں۔ کالز بھی فیک ثابت کر دی گئیں اور ان کو انٹرنیٹ پر بین کرنے کا بھی اعلان کر دیا گیا۔ اپوزیشن پر الزام اور پریس والوں کے ذریعے عوام کی ہمدردی لینے کی خاطر جبار حسن نے روایتی جذباتی تقریر کر ڈالی۔ تقریر کے اختتام پر جبار حسن نے اپوزیشن پر ہتک عزت کا کیس کرنے کی دھمکی بھی دی اور ثمرہ سے سب کے سامنے شرمندہ ہو کر معافی بھی طلب کی۔ ثمرہ کا چہرہ مختلف تاثرات ضبط کرتے کرتے زرد پڑ گیا تھا۔
عالیہ کی جلدی میں لکھی ہوئی جذباتی تقریر پڑھتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو گئے۔ جس کے بعد پریس کانفرنس کامیاب ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر سب سے رخصت لینے کے بعد جبار نے ثمرہ کو بغور مگر قدرے حیرت سے دیکھا۔ وسیع و عریض لاونج میں اس وقت وہ تین ہی صوفے پر بیٹھے رہ گئے تھے۔ ثمرہ، جبار کی نظروں سے بچ کر کہیں چھپنا چاہتی تھی۔ عالیہ، دل ہی دل میں خود کو اطمینان دلا رہی تھی کہ کانفرنس میں جو کچھ جبار نے کہا ہے وہ سچ ہی ہو اور اسے بھی بھروسہ ہو کہ وہ وڈیوز اور کالز ثمرہ کی نہیں ہیں۔
جبار کا خاموشی سے ثمرہ کو تکے جانا عالیہ کا خون خشک کر رہا تھا۔ وہ بھی اس جرم میں پوری طرح شریک تھی۔ جبار جانتا تھا کہ وہ ہر لمحے اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ بھی ثمرہ کے ہمراہ سزا کی مرتکب ٹھہرائی جائے گی۔ وہ جبار سے نگاہ ملانے کی ہمت نہیں کرپا رہی تھی۔
وہ عالیہ کو قطعی نظر انداز کر کے ثمرہ کی سمت منہ کیے صوفے پر پھیل کر بیٹھ گیا اور جھک کرمیز پر رکھا شراب کا گلاس اٹھا لیا۔
’’تم تو اب بھی بہت حسین اور فل آن ہو میری چڑیا۔ میں سمجھتا تھا کہ تم اب ریٹائرڈ ہو چکی ہو گی!!‘‘
جبار ثمرہ کے سفید پڑتے چہرے کو ہنستے ہوئے دیکھا اور شراب اپنے حلق میں انڈیلنے لگا۔
’’اوئے ہوئے میری چڑیا! تم ان وڈیوز میں کسی بھی مرد کو پگھلانے کا سامان لگ رہی ہو۔ وللہ تم تو اب تک قیامت ہو قیامت!‘‘ جبار نے اس کو اپنے پاس بلانے کا اشارہ کیا۔ ثمرہ مردہ قدموں اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔ ’’چلو اس بہانے مجھے تمھارا مصرف تو سمجھ میں آ گیا۔ آخر اتنا پیسہ لگایا ہے تم پر۔‘‘
جبار پھر زور سے ہنسا اور اس کے چہرے پر جھک گیا۔ ثمرہ نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا جیسے ہار مان لی ہو اور خود کو جبار کے ظالم شکنجے میں دے دیا۔
کمرے سے نکلتے ہوئے عالیہ کے ہاتھ میں ایک لسٹ دبی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں نم تھیں۔
جبار نے کمرے سے باہر جاتی عالیہ کو اپنی جیب سے نکال کر ایک لسٹ تھما دی تھی۔ جس میں بڑے بڑے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے نمبرز تھے۔
’’تم اسی طرح کام کرتی رہنا۔ اس لسٹ کے لوگ کبھی اپنی وڈیوز اور کالز وائرل نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
وہ سوچنے لگی کہ ثمرہ نے ٹھیک کہا تھا کہ جبار حسن اسے آسان موت نہیں دے گا!!
٭٭٭