فارورڈیریا Forwarderreah، واٹس اپ فارورڈ کرنے کی بیماری ۔۔۔ ڈاکٹر علیم خان فلکی

ایسے مریضوں کو یہ مضمون پڑھ کر ان شاء اللہ ایک رات میں افاقہ ہو جائے گا۔ یہ بیماری کرونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماری ہے۔ یہ بیماری ڈائیریا یعنی پیچِش ہی کی طرح ہوتی ہے جو بھی پوسٹ آئے اگر فوری پاس آوٹ یعنی فارورڈ کر کے فارغ نہ ہو جائیں مریض کو سکون نہیں ملتا۔ جوں ہی کوئی فساد کی، ہیٹ اسپیچ کی یا اشتعال انگیز پوسٹ آئے گی یہ فرض کر لیتے ہیں کہ پوری قوم غفلت کی نیند سو رہی ہے، اِس پوسٹ کے فارورڈ کرتے ہی جاگ جائے گی، فارورڈ کر کے پھر یہ خود سو جاتے ہیں۔ ہم ایسے فارورڈ کرنے والوں کی اکثریت سے واقف ہیں، اس لئے ایسے پوسٹ ڈیلیٹ کر دیتے ہیں، لیکن بعض اوقات اِن کی جال میں پھنس ہی جاتے ہیں۔ ڈی پی پر سوٹ یا شیروانی میں تعلیم یافتہ چہرہ دیکھ کر مروّت میں میسیج کھولتے ہیں کہ شاید کوئی کام کا میسیج ہو، ابھی آدھا منٹ بھی دیکھ نہیں پاتے کہ ایسے ہی دو تین اور سمجھدار حضرات کے ویڈیوز پہنچ جاتے ہیں۔ اب اگر مروّت میں سارے پوسٹ دیکھنے لگیں تو ہمارا حشر بھی نواب میر عثمان علی خان جیسا ہو سکتا ہے جنہوں نے مروّت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے خطابی نوابوں، رئیسوں، جنگوں اور بہادروں کی بھیڑ کو دربار میں جمع کر لیا، جن کا کام سوائے گپ شپ کے کچھ نہیں تھا۔ بے چارے عثمان علی خان ایسی ہی وقت بربادی میں حکومت گنوا بیٹھے۔

فارورڈ کرنے کی اس بیماری میں اب تو ہر بوڑھا اور جوان مبتلا ہو چکا ہے۔ خود ہی ثواب سمجھ کر ہر ہر پوسٹ چیک کرتے ہیں، اپنے آپ کو تھکا کر خود ہی کہتے ہیں ’’لوگ ایسے فالتو میسیجس کیوں بھیجتے ہیں؟‘‘

واٹس اپ فارورڈ کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو بکری، بیل، ہاتھی اور شیر سب کو ایک ہی چارہ ڈالنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یعنی ایک گروپ بنا کر سب کو فارورڈ کرتے رہتے ہیں چاہے وہ کسی سے متعلق ہو یا نہ ہو۔ اسی کے نتیجے میں کبھی بوڑھوں کے پاس دوسری شادی کے فضائل فارورڈ ہو جاتے ہیں تو کبھی خواتین کے پاس مردانہ طاقت بڑھانے کے میسیج فارورڈ ہو جاتے ہیں۔ واٹس اپ فارورڈ کرنے والوں کے مختلف اقسام ہوتی ہیں جیسے:

’’انٹلکچول گروپ‘‘ یہ لوگ صرف اپنی ذاتی تخلیق پیش کرتے ہیں جو واقعی تعمیری، فکری اور حرکی ہوتی ہیں۔ فی زمانہ یہ ناپید ہیں۔ البتہ کچھ شاعر، ادیب، صحافی اور لیڈر جن کی کہیں بھی دال نہیں گلتی، وہ واٹس اپ یا فیس بک پر ڈال کر اپنی حسرت پوری کر لیتے ہیں۔ ان کا دل رکھنے کے لئے دوسرے مروّتاً ایک عدد لائک یا تھمس اپ سے انہیں نواز دیتے ہیں۔

مولوی گروپ: صبح اٹھتے ہی یہ پہلے فجر کی قضا ادا نہیں کرتے لیکن ’’السلام علیکم‘‘، صباح الخیر، جمعہ مبارک، شب برات شب قدر مبارک وغیرہ فارورڈ کرتے ہیں۔ ایک عدد حمد، نعت یا دعا بھی فارورڈ کر دیتے ہیں۔ پھر ان کو اتحادِ امت کی بہت فکر ہوتی ہے، اس لئے کِس کس مسلمان سے امت کے اتحاد کو خطرہ ہے، کون کون کافر، مشرک اور خارج از اسلام ہے، ان کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔

پی ایف آئی گروپ: گھبرائیے مت، پی ایف آئی سے مراد وہ نہیں جس کو سوچ کر آپ مضمون آگے پڑھنے سے ڈر رہے ہیں۔ پی ایف آئی سے مراد پولیٹیکل فیور آف انڈیا ہے۔ اِن مریضوں کو ہر وقت اسلام اور مسلمان خطرے میں نظر آتے ہیں۔ بھگوا، اسرائیل، اور امریکہ کہاں کہاں کیا کیا کر رہے ہیں، اس کی ایک ایک پل کی خبر فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ نعرہ ایک ہی ہوتا ہے کہ مسلمانو جاگو۔ یعنی یہ واٹس اپ تم بھی پچاس کو فارورڈ کرو تین جہاد اور پانچ حج کا ثواب ملے گا۔ یہ لوگ آپ کو جہاد کے لئے گھر سے نکال کر، خود اپنے دیوان خانے میں نہیں بلکہ بیڈ روم میں چھپ جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔

ڈیڑھ شانہ گروپ: یہ لوگ واٹس اپ یا فیس بیک پر اپنی تصویر نہیں لگاتے۔ پوچھنے پر یہ کہہ کہہ کر ہماری جان جلاتے ہیں کہ تصویر خود نمائی ہے، وہ اسے پسند نہیں کرتے۔ چونکہ ہماری ڈی پی پر ہماری فوٹو ہے، جس سے یقیناً اِن کے پردے یا حجاب کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لئے ہم ان کی پوسٹس کو Archive کے حوالے کر دیتے ہیں۔ تاکہ دوبارہ نہ ان کی پوسٹ آئے نہ ہمارا خون جلائے۔ واٹس اپ پر تصویر یعنی DP آدمی کی شناخت کے لئے ہوتی ہے۔ جسے دیکھ کر آپ کو یاد آ جائے کہ کہاں ملے تھے، کون صاحب ہیں، بوڑھے ہیں جوان ہیں، عورت ہیں، مرد ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، مولانا ہیں یا کیا ہیں۔ لیکن یہ ایک بے نیاز، قلندر اور درویش بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو اور بھی زیادہ چالاک ہوتے ہیں، تصویر کی جگہ مکہ، مدینہ، درگاہ، یا آیت یا کوئی اقوالِ زرین چسپاں کر دیتے ہیں، اور بعض لوگ جہیز میں ملی ہوئی کار یا بائیک کی تصویر لگا دیتے ہیں یا پھر اپنے ہمزادوں کی تصویریں جیسے شیر، گھوڑے، چڑیا یا پھولوں کی تصویریں ڈالتے ہیں۔ یہ سب تو پھر بھی ٹھیک ہے لیکن جو لوگ اپنے پوتوں یا نواسوں یا نواسیوں کی تصویر یں ڈالتے ہیں، ان کی عقل پر رونا آتا ہے۔ اب آپ ان معصوم بچوں کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگاتے بیٹھئے کہ کس پھل کا یہ تخم ہے۔ کچھ لوگ آگے بڑھ کر گروپ بھی بناتے ہیں اور آپ کی اجازت کے بغیر آپ کو شامل بھی کر لیتے ہیں۔ گروپ کا نام بھی اتنا با رعب ہوتا ہے کہ آپ ڈیلیٹ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، جیسے ’’دفاعِ اسلام گروپ‘‘، ’’صدائے حق گروپ‘‘ وغیرہ۔ لیکن اندر وہی بھرا ہوتا ہے جو گروپ کے مقصد سے ایک سو کلو میٹر دور ہوتا ہے۔

زوالوجیکل پارک گروپ: جس طرح باغِ عامہ میں ہمہ اقسام کی مخلوقات ہوتی ہیں، اسی طرح ہمہ اقسام کی پوسٹس آپ کے واٹس اپ میں ہر صبح فارورڈ ہو جاتی ہیں، چاہے ان کا تعلق آپ سے ہو یا نہ ہو، کوئی صاحب صحت پرتو کوئی صاحب سیاست پر، کوئی صاحب جنرل نالج پر تو کوئی صاحب مذہبی معلومات پر مسلسل فارورڈ کی بمباری کرتے ہیں۔ کوئی صاحب جو خود اپنے خاندان میں کے مسائل ہیں بے خبر ہیں لیکن ان کی پوسٹ امبانی کے گھر کی شادی، عامر خان کی طلاق یا شاہ رخ خان کے چرسی بیٹے کی خبروں پر مبنی ہوتی ہیں۔

پھٹکاری گروپ: یہ صرف ایسے پوسٹ بھیجتے رہتے ہیں جن میں قوم کے لئے پھٹکار ہی پھٹکار، لعنت اور ملامت بھری ہوتی ہے۔ قوم جو پہلے ہی نیم برہنہ ہے اس کو پورا برہنہ کرنے کو یہ قولِ فیصل، اعلانِ حق، وغیرہ وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ قوم کے ناصح، واعظ، محتسب، مفتی اعظم، بلکہ تارا مسیح ہوتے ہیں۔ اِن کو ہر بڑے واقعہ پر غصیلہ ردّ عمل دکھانے، قوم ہی کی کسی نہ کسی کمزوری کو موردِ الزام ٹھہرا کر قوم کے کان مروڑنے، حقارت سے دھتکارنے اور مزید ایسی سزاؤں کا انتظار کرنے کی وارننگ دینے کا جنون رہتا ہے۔ یہ لوگ تمام قومی، اخلاقی اور سیاسی مسائل کی لیباریٹری ٹیسٹ رپورٹ کی طرح یہ بھی تجزیہ کر دیتے ہیں جیسے:

مساجد پر بلڈوزر۔۔۔۔۔ لوگ نمازوں کے لئے نہیں نکلیں گے تو یہی ہو گا

لڑکی نے غیرمسلم سے شادی کر لی۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں باپ اولاد کی تربیت ہی نہیں کرتے اس لئے یہی ہو گا۔

فسادات۔۔۔۔۔۔ لیڈر، مولوی، عوام سب بزدل ہو گئے ہیں۔

ان کی ہر پوسٹ میں تبصرے اور مشورے ہول سیل میں ہوتے ہیں۔ ان کو ’’چاہئے گروپ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اِن کی پوری بکواس ایک عدد ’’چاہئے‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ جیسے: اتحاد ہونا چاہئے۔ ایجوکیشن ہونی چاہئے، دین کی محنت ہونی چاہئے۔ مودی کو یہ اور اویسی کو وہ کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کو کیا کرنا چاہئے؟ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے وغیرہ۔ اگر ان کے مشوروں پر آپ خدانخواستہ عمل کرنے بیٹھیں تو کروڑوں روپئے درکار ہوتے ہیں، لیکن یہ فارورڈرس کبھی اپنی جیب سے ایک ہزار روپیہ بھی نہیں نکالیں گے۔ اگر ان کو کسی میٹنگ کی دعوت دی جائے تو ٹھیک اسی دن کوئی رشتہ والے ان کی بیٹی کو دیکھنے آ رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کام کشمیر، غازہ، یوکرین، سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے۔

اس پورے دردِ سر کا علاج یہ ہے کہ آپ واٹس اپ، فیس بک اور یوٹیوب اکاؤنٹ ہی ختم کر دیں، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، آپ اس کے بغیر جس طرح پہلے زندہ تھے، بعد بھی زندہ رہیں گے۔ اپنوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی میلے میں بے مقصد گھومتے ہوئے کھوئے ہوئے بچے کی طرح نہیں رہیں گے۔ ذہن ہر وقت عدالت کا ایک کٹہرا نہیں ہو گا جس میں کبھی زعفرانیوں کو لا کر کھڑا کر رہے ہیں تو کبھی یہودیوں کو، اور ان سب پر خود مقدمہ چلا رہے ہیں، خود ہی فیصلے سنا رہے ہیں۔ ابھی ایک مقدمہ ختم بھی نہیں ہوتا کہ ذہن میں پھر دوسرا مقدمہ دائر ہو جاتا ہے۔ وقت جیسی عظیم نعمت جس کے بارے میں قیامت میں سب سے پہلے سوال ہونے والا ہے، وہ کسی تعمیری کام میں صرف ہو گا۔ اگر سوشیل میڈیا نہیں ہو گا تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ آپ اگر واقعی قوم کے کسی کام کے آدمی ہیں تو لوگ خود چل کر آپ کے پاس آئیں گے یا فون کر لیں گے۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ خود بھی ایک بے مقصد انسان ہیں جس کا پورا وقت صرف تبصرے اور مشورے دینے میں گزرتا ہے۔ آپ خود جب ایک کچہرے کا کنٹینر بن چکے ہیں تو لوگ اگر اِس میں فالتو میسیجس فارورڈ نہیں کریں گے تو کیا تازہ پھولوں کا گلدستہ لاکر ڈالیں گے؟

یہ سوشیل میڈیا پر وقت برباد کرنے والوں کی 99% اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ اگر واٹس اپ یا فیس بک پر داخلے کی پانچ یا دس ڈالر فیس عائد کر دی جائے تو پھر نہ کوئی واٹس اپ پر نظر آئے گا نہ فیس بک پر۔ یہ مفت کے چبوتروں پر بیٹھنے والے سارے وہ گنجیٹی اور چرسی ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف وقت کو برباد کرنا ہے۔ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

ہتھیار ڈالنے کو ہتھیار بھی نہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے