غزلِ یوسف علی یوسف و رفیق انجم

غزل

رفیق انجم

لمحہ لمحہ جلاۓ گی بارش

اور کتنا رُلاۓ گی بارش

پھر دریچے کھلے ہیں یادوں کے

آ کے لوری سناۓ گی بارش

کھل گۓ پھر تبسّموں کے گلاب

پھر مجھے آزماۓ گی بارش

جب نہ پاۓ گی اس کو گلیوں میں

ہر طرف پھڑپھڑاۓ گی بارش

جل رہی ہیں نظر میں قندیلیں

دھیرے دھیرے بجھاۓ گی بارش

رات کے بیکراں اندھیرے میں

آگ پھر سے لگاۓ گی بارش

مضمحل ہو کے جب وہ بیٹھے گا

کوئ نغمہ سناۓ گی بارش

***

غزل

یوسف علی یوسف

تیری یادوں سے کوئی سانس نہ خالی جائے

زندگی اتنی حسیں کیوں نہ بنا لی جائے

اتنی شدت سے نہ کر ترکِ تعلق کا سوال

یہ نہ ہو ہم سے تری بات نہ ٹالی جائے

ان کی قسمت میں جو تاراج ہی ہونا ہے اگر

پھر کسی شہر کی بنیاد نہ ڈالی جائے

آج کچھ ٹھان کے نکلا ہے ہجومِ رنداں

واعظِ شہر کی دستار سنبھالی جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے