لفظ اس کے ہیں مگر ان میں روانی میری
قصہ گو کوئی سہی، ہے تو کہانی میری
لوگ راوی کے کہے کو ہی حقیقت سمجھے
مجھ سے سنتا کوئی آشفتہ بیانی میری
زخم بھرنے کے لیے، داغ ہیں مٹنے کے لیے
نقش بر آب ہے ہر ایک نشانی میری
دست تائید پہ رکھے ہیں ادھر جام پہ جام
حرف انکار ادھر تشنہ دہانی میری
میں نے سو طرح سے سو بار جتن کر دیکھا
اس نے اک بار مگر بات نہ مانی میری
اور پھر ابکے سخن کا وہ تقاضائے ہنر
اور پھر اب کے وہی ہیچ مدانی میری
٭٭٭