کیوں الجھنے لگی ہوا مجھ سے
جل اٹھا ہے اگر دیا مجھ سے
اس کو کہتے ہیں لازم و ملزوم
میں خدا سے ہوں اور خدا مجھ سے
آنکھ حیرت سے بھر گئی لیکن
ایک مصرع نہیں ہوا مجھ سے
عکسِ آئندہ ہوں میں زندہ ہوں
حظ اٹھاتا ہے آئینہ مجھ سے
ایک مدت پھرا میں خار و زبوں
تو مرا رابطہ ہُوا مجھ سے
میں تری ذات کی گواہی ہوں
تیرا پردہ ہی یار کیا مجھ سے
قتل کر دوں گا ساری دنیا کو
جس کا آغاز ہو چکا مجھ سے
اب بکھرتی نہیں مری دنیا
اب الجھتے نہیں خدا مجھ سے
دو ہی رخ ہیں حدِ تحیر کے
ایک تجھ سے ہے دوسرا مجھ سے
ایک مدت سے منتظر ہوں زیب
کوئی تو حال پوچھتا مجھ سے
٭٭٭