غزل اعجاز عبید

غزل
اعجاز عبید

ذہن کی راہوں میں کرتی ہے سفر آوارہ
یہ تری یاد ہے یا بادِ سحر آوارہ

ہم سنائیں گے اسے رام کہانی اپنی
جو بھی مل جائے سرِ راہ گزر آوارہ

ڈھونڈھتی رہتی ہے کیا کھوئے ہوے خواب اپنے
کیوں بھٹکتی ہے خلاؤں میں نظر آوارہ

میرے ہمراہ چلا کرتی ہے یہ بھی ہر وقت
پھر مجھے کہتی ہے کیوں راہ گزر آوارہ

کون کہتا ہے کہ میں قافلے کے ساتھ نہیں
راہ میں کتنے مِلے خاک بسر آوارہ
(پہلی غزل، مطبوعہ کتاب لکھنؤ۔ اگست 1967)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے