غزل احتشم اختر

غزل

احتشام اختر

لبوں پر سرخیاں تھیں، اب کہاں ہیں

ہری سب کھیتیاں تھیں، اب کہاں ہیں

یہاں اک باغ تھا کچھ روز پہلے

حسیں کچھ تتلیاں تھیں، اب کہاں ہیں

کنارے پر گھروندے ریت کے تھے

ندی تھی، کشتیاں تھیں، اب کہاں ہیں

چچا کے گھر میں رونق تو بہت تھی

بہو تھی، بیٹیاں تھیں، اب کہاں ہیں

خزانہ تھا کبھی دریا میں اختر

گہر تھے ، سیپیاں تھیں، اب کہاں ہیں

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے