غزلیں
رفیق سندیلوی
زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لئے
ندائے غیب کو جاتا ہوں بہرے کان لئے
میں بڑھ رہا ہوں کسی رعدِ ابر کی جانب
بدن کو ترک کئے اور اپنی جان لئے
یہ میرا ظرف کہ میں نے اثاثۂ شب سے
بس ایک خواب لیا اور چند شمع دان لئے
میں سطحِ آب پہ اپنے قدم جما لوں گا
بدن کی آگ لئے اور کسی کا دھیان لئے
میں چل پڑوں گا ستاروں کی روشنی لے کر
کسی وجود کے مرکز کو درمیان لئے
پرندے میرا بدن دیکھتے تھے حیرت سے
میں اڑ رہا تھا خلا میں عجیب شان لئے
قلیل وقت میں یوں میں نے ارتکاز کیا
بس اک جہان کے اندر کئی جہان لئے
ابھی تو مجھ سے میری سانس بھی تھی نامانوس
کہ دستِ مرگ نے نیزے بدن پہ تان لئے
زمیں کھڑی ہے کئی لاکھ نوری سالوں سے
کسی حیاتِ مسلسل کی داستان لئے
٭٭٭
کسی دن میری فطرت کا زمیں کو علم ہوگا
میں کیا ہوں اس حقیقت کا زمیں کو علم ہوگا
کئی شکلوں میں بکھرا ہے یہ میرا جسم خاکی
میرے اعضا کی وحدت کا زمیں کو علم ہوگا
ڈبو دے گا انہیں جو ایستادہ ہیں ازل سے
کبھی پانی کی طاقت کا زمیں کو علم ہوگا
مجھے کیا علم کہ لمحۂ حاضر میں کیا ہے
بُری اور نیک ساعت کا زمیں کو علم ہوگا
مرے قلبِ جنوں انگیز کو دے گی توازن
برودت اور حدت کا زمیں کو علم ہوگا
کہاں کس خاک میں روپوش ہے کوئی خزانہ
زمیں کی تہ کی حالت کا زمیں کو علم ہوگا
٭٭٭
کوئی بھی دل میرے دل سے یوں دل لگی نہ کرے
میرا وجود تو خود سے بھی دوستی نہ کرے
زمانے بھر سے الگ ہے تمہاری ناز و ادا
کوئی کرن تیرے جلوؤں کی ہمسری نہ کرے
تیرے نصیب کے آنسو بھی مجھ کو مل جائیں
خدا کبھی تیری آنکھوں کو شبنمی نہ کرے
٭٭٭
زمیں بارہ ستونوں پر کھڑی تھی اور میں بھی
گلوئے شب میں تاروں کی لڑی تھی اور میں بھی
گڑا تھا اس کا چہرہ اور خنجر قلبِ مہ میں
وجودِ شمس میں برچھی گڑی تھی اور میں بھی
سماتے کس طرح ہم دونوں اِس چودہ طبق میں
ہوا اپنی جسامت سے بڑی تھی اور میں بھی
گرا تھا ایک ہی ساعت میں وہ بھی مشتری سے
افق سے کاسنی مٹی جھڑی تھی اور میں بھی
جسے خالی سمجھ کر وہ زمیں پر لوٹ آیا
اُسی گنبد میں اِک میت پڑی تھی اور میں بھی
٭٭٭
اُسے شوقِ غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا
مرے نجمِ آب! مجھے بتا وہ کہاں گیا
جو لکیر پانی پہ نقش تھی، وہ کہاں گئی
جو بنا تھا خاک پہ زائچہ وہ کہاں گیا
کہاں ٹوٹے میری طنابِ جسم کے حوصلے
جو لگا تھا خیمہ وجود کا وہ کہاں گیا
جو زمین پاؤں تلے بچھی تھی، کدھر گئی
وہ جو آسمان سروں پہ تھا وہ کہاں گیا
گئے کس جہت کو تکونِ خواب کے زاویے
جو رُکا تھا آنکھ میں دائرہ وہ کہاں گیا
ابھی عکس اُس کا ابھر رہا تھا کہ دفعتہً
مرے آئینے سے بچھڑ گیا وہ کہاں گیا
کہاں گم ہوئیں وہ زبان و کام کی لذتیں
جو پھلوں میں ہوتا تھا ذائقہ وہ کہاں گیا
٭٭٭
عجب اِک سایۂ لاہوت میں تحلیل ہوگی
فسونِ حشر سے ہیئت مری تبدیل ہوگی
کئے جائیں گے میرے جسم میں نوری اضافے
کسی روشن ستارے پر مری تکمیل ہوگی
دیا جائے گا غسلِ اولیں میرے بدن کو
طلسمی باغ ہوگا اُس کے اندر جھیل ہوگی
کبھی پہنچے گا حسِ سامعہ تک حرفِ خفتہ
کبھی آوازِ نامعلوم کی ترسیل ہوگی
کبھی عقدے کھلیں گے اساطیری زمیں کے
کبھی اس داستانِ کہنہ کی تاویل ہوگی
٭٭٭
حجرۂ کشف و کرامت میں رکھا ہے میں نے
جسم تقویم کی حالت میں رکھا ہے میں نے
سانس کی چھت بھی کسی ثانیے گر سکتی ہے
دل کی ہر اینٹ کو عجلت میں رکھا ہے میں نے
سدرۂ غیب تلک میری رسائی تھی کہاں
جو قدم رکھا ہے وحشت میں رکھا ہے میں نے
٭٭٭
میں خود کو لا مکاں سے ڈھونڈ لوں گا
ستارہ،کہکشاں سے ڈھونڈ لوں گا
مقامِ نجمِ گریہ بھی کسی دن
میں اُصطرلابِ جاں سے ڈھونڈ لوں گا
فلک کا آخری بے نور زینہ
چراغِ خاک داں سے ڈھونڈ لوں گا
کسی شب میں طوافِ خواب کر کے
بدن کو درمیاں سے ڈھونڈ لوں گا
٭٭٭
نیند کے آبِ رواں کو مات دینے آؤں گا
اے شبِ نا خواب تیرا ساتھ دینے آؤں گا
جب ستارے نقطۂ انفاس پر بُجھ جائیں گے
میں خدا کو جان بھی اُس رات دینے آؤں گا
نُور کی موجیں مرے ہمراہ ہوں گی اور میں
رات کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینے آؤں گا
آسماں کے نیلے گنبد سے نکل کر ایک دن
میں زمیں کو قُرمزی خیرات دینے آؤں گا
بند ہو جائیں گے جب سارے دریچے کشف کے
اُس گھڑی میں چند امکانات دینے آؤں گا
٭٭٭