غزلیں ۔۔۔ احمد فریاد

یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے، اسے اُٹھا لو

’’اُٹھانے والوں‘‘ سے کچھ جُدا ہے، اِسے اُٹھا لو

 

وہ بے ادب اس سے پہلے جن کو اُٹھا لیا تھا

یہ ان کے بارے میں پوچھتا ہے، اِسے اُٹھا لو

 

اسے بتایا بھی تھا کہ کیا بولنا ہے، کیا نہیں

مگر یہ اپنی ہی بولتا ہے، اِسے اٹھا لو

 

جنہیں ’’اُٹھانے‘‘ پہ ہم نے بخشے مقام و خلعت

یہ اُن سیانوں پہ ہنس رہا ہے، اِسے اٹھا لو

 

یہ پوچھتا ہے کہ امنِ عامہ کا مسئلہ کیوں

یہ امنِ عامہ کا مسئلہ ہے، اِسے اٹھا لو

 

اِسے کہا تھا جو ہم دکھائیں بس اُتنا دیکھو

مگر یہ مرضی سے دیکھتا ہے، اِسے اٹھا لو

 

سوال کرتا ہے یہ دیوانہ ہماری حد پر

یہ اپنی حد سے گزر گیا ہے، اِسے اُٹھا لو

٭٭٭

 

 

 

 

ساری آوازیں دبا دو سارے بندے مار دو

آپ کی مرضی ہے آقا جتنے بندے مار دو

 

پہلے ہی کڑواہٹوں کی زد میں ہے میری زمیں

اور تم اوپر سے میرے میٹھے بندے مار دو

 

اب تو اپنے جھوٹ سے نظریں ہٹانے کے لیے

ایک ہی رستہ بچا ہے سچے بندے مار دو

 

اپنے دامن پر لگے یہ داغ دھونے کے لیے

کیا عجب کلیہ ہے سارے اجلے بندے مار دو

 

یوں ہی درد سر بنے رہنے ہیں یہ شوریدہ سر

یوں کرو اک ایک کر کے اچھے بندے مار دو

 

جاں پناہ اب مارنے میں ہچکچاہٹ کس لیے

جیسے پہلے مارتے تھے ویسے بندے مار دو

 

یہ رہیں گے تو سوال اٹھتے رہیں گے حشر تک

مشورہ ہے میرے جیسے سارے بندے مار دو

 

بعد میں تحقیق کرنا ان کی گستاخی ہے کیا

گر بہت جلدی میں ہو تو پہلے بندے مار دو

 

اب جو گھر سے اٹھ رہی ہیں میتیں تو بین کیوں

کس نے بولا تھا کہ تم اوروں کے بندے مار دو

 

رات کی تحویل میں دے دو مرا شہر ملال

اور چن چن کر مرے جگنو سے بندے مار دو

 

سلوٹیں پہنا دو چہروں کو مکمل سوگ گی

اور پھر چوکوں میں ہنستے گاتے بندے مار دو

 

چھوڑیے دشمن سے لڑنا آپ کا شیوہ نہیں

آپ کے جب جی میں آئے اپنے بندے مار دو

 

خامشی کی لہر آہٹ ہے کسی طوفان کی

اتنی آوازیں اٹھیں گی جتنے بندے مار دو

 

کیا خبر کب گھر اٹھا لاو کوئی باہر کی آگ

کیا خبر کب کس سے ڈالر لے کے بندے مار دو

٭٭٭

 

 

عجیب دن تھے کہ نام کرنے کا سوچتے تھے

ہم اپنے حصے کے کام کرنے کا سوچتے تھے

 

وہ روشنی تھی ہماری آنکھوں کے طاقچوں میں

چراغ جھک کر سلام کرنے کا سوچتے تھے

 

یہ زرد پیڑوں کے شاخچوں سے لگے پرندے

کبھی ہوا کو غلام کرنے کا سوچتے تھے

 

گراں گزرنے لگا ہے ان کو صبا کا لہجہ

جو تیز لو سے کلام کرنے کا سوچتے تھے

 

کمال یہ ہے کہ ایک ہی عمر تھی جسے ہم

نہ جانے کس کس کے نام کرنے کا سوچتے تھے

 

عجیب خوابوں بھری وہ آنکھیں تھیں یار جن پر

ہم اپنی نیندیں حرام کرنے کا سوچتے تھے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے