کل کی دوپہر احمد محفوظ کے شعری مجموعے ’غبارِ حیرانی‘ کے ساتھ گزاری لیکن اس پر احباب کے لکھے تبصرے اور مختصر تاثراتی تحریریں پچھلے دنوں تواتر سے پڑھنے کو ملتی رہی ہیں جن سے ایک تاثر جو ذہن پر قائم ہوا تھا وہ یہ کہ احمد محفوظ کی شاعری کو کلاسیکی رچاؤ کی شاعری کہا جا رہا ہے۔ فہرست دیکھی تو سامنے کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ احمد محفوظ نے زیادہ تر متداول زمینوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ دوسری وجہ شاید یہ بھی ہو کہ بیشتر مبصرین اخذ و استفادہ کے حوالے سے احمد محفوظ کی شاعری کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ فی زمانہ بعض اہل ذوق حضرات اخذ و استفادہ کو شاعری کا عیب سمجھنے لگے ہیں جبکہ کسی پامال مضمون میں نئی جہت پیدا کرنا یا مضمون کو آگے بڑھانا ایک مستحسن عمل ہے۔ اسی کو تو مضمون آفرینی کہا جاتا ہے۔ مولانا حالیؔ نے مقدمے میں واضح لفظوں میں اس کی صراحت کی ہے:
’’شعر ہی پر کچھ موقوف نہیں بلکہ تمام علوم و فنون میں انسان نے اسی طرح ترقی کی ہے۔ اگلے جو ادھورے (کذا؟) نمونے چھوڑتے گئے، پچھلے اُن میں کچھ تصرف کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ہر ایک علم اور ہر ایک فن کمال کے درجے کو پہنچ گیا۔ شعر کی ترقی بھی اسی طرح متصور ہے کہ قدما کے خیالات میں کچھ کچھ معقول تصرفات ہوتے رہے لیکن اس قسم کے تصرفات کرنے کے لیے شاعری کی پوری لیاقت ہونی چاہیے۔‘‘
مبصرین کے مطابق احمد محفوظ کے یہاں اخذ و استفادہ کا عمل کلاسیکی روایت کی پاسداری کے سبب انجام پذیر ہوا ہے جو ادب کے عمیق مطالعے کی دین ہے۔ احمد محفوظ کی مضمون آفرینی کی کچھ مثالیں عمیر منظر نے اپنے مضمون ’جدید غزل کے تخلیقی رویوں کا تنوع‘ میں نقل کی ہیں مثلاً
ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل
چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی
(میر تقی میرؔ)
لگ گئے رنگِ ہنر سب ایک ہی تصویر میں
پھر کوئی صورت نہ نکلی نقشِ ثانی کے لیے
(احمد محفوظ)
۔۔۔۔۔۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا مَیں تو کیا ہوتا
(مرزا غالبؔ)
کہاں ہوتے جو ہم موجود ہوتے
نہ ہونا ہی تو ہے ہونا ہمارا
(احمد محفوظ)
۔۔۔۔۔۔
تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
(علامہ اقبال)
عزیز کیوں نہ جاں سے ہو شکست آئینہ ہمیں
وہاں تو ایک عکس تھا یہاں ہزار ہو گئے
(احمد محفوظ)
۔۔۔۔۔۔
اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
(ناصرؔ کاظمی)
پڑی ہے تُو کہاں اے شامِ ہجراں
ہمارے گھر میں آ کوئی نہیں ہے
(احمد محفوظ)
مذکورہ بالا اشعار پیش رو شعرا سے استفادے کے باوجود مضامین کی نئی جہتوں کی دریافت کے سبب قابلِ تحسین ٹھہرتے ہیں۔ کلاسیکی شاعری کے پامال مضامین میں نئی جہت کی دریافت کے لیے جہاں کلاسیکی تصورات سے مکمل آگاہی ضروری ہوتی ہے، وہیں تخلیقی توفیق اور فنی ریاضت بھی درکار ہوتی ہے۔ احمد محفوظ کلاسیکی شاعری کی تنقید کے میدان میں ایک جانا پہچانا نام ہے اور شاعری ان کی پہلی محبوبہ۔ بلا شبہ ’غبارِ حیرانی‘ میں دو چار مثالیں مصرع لڑنے یا توارد کی بھی موجود ہیں:
میں کہاں کہاں نہ پہنچ گیا، تری دلبرانہ پکار پر
کبھی بحر میں، کبھی دشت میں، کبھی تخت پر، کبھی دار پر
(نعیم صدیقی)
حصول کچھ نہ ہوا جز غبار حیرانی
کہاں کہاں تری آواز پر نہیں گئے ہم
(احمد محفوظ)
۔۔۔۔۔۔
خطائے بے وفائی اور ہم سے
یقیناً آپ کو دھوکا ہوا ہے
(پنڈت ودیا رتن عاصیؔ)
یقیناً آپ کو دھوکا ہوا ہے
وگرنہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے
(احمد محفوظ)
۔۔۔۔۔۔
آتے آتے آئے گا ان کو خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
(جلیلؔ مانک پوری)
آتے آتے آئے گا ان کا خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
(احمد محفوظ)
۔۔۔۔۔۔
دیکھا ہے جس نے یار کے رخسار کی طرف
ہرگز نہ جاوے سیر کوں گلزار کی طرف
(سراجؔ اورنگ آبادی)
دیکھے جو ایک بار رخ یار کی طرف
پھر عمر بھر نہ جائے وہ گلزار کی طرف
(احمد محفوظ)
واضح رہے کہ اسے توارد ہی کہا جائے گا، سرقہ نہیں کیونکہ احمد محفوظ جیسا صاحبِ قلم محض دو چار اشعار کے لیے برسوں سے مستحکم اپنی ادبی و علمی ساکھ کو داؤ پر لگانے سے رہا۔ بہر حال جب یہ اشعار شاملِ کتاب ہو گئے ہیں تو ان پر باتیں بھی چلتی رہیں گی جیسے کلاسیکی شعرا کے تواردات پر چلتی رہتی ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر بات ہی کرنی ہے تو احمد محفوظ کے اُن اشعار پر کی جائے جو واقعی اردو ادب میں قابلِ قدر اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ’غبارِ حیرانی‘ میں ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے۔ حمد کے اس شعر پر نگاہ ٹھہر گئی ہے:
تُو ہی اب اذنِ رہائی دے کہ کھل کر سانس لے
قید تن میں بولتا ہے اے خدا میرے خدا
بلا شبہ تن کی قید سے رہائی کی تمنا کوئی اچھوتا خیال نہیں ہے لیکن بدن سے رِہا ہونے کے بعد کون کھل کر سانس لینا چاہتا ہے؟ نفس (یا روح)؟ سانس لینے کی حاجت تو ایک ذی روح بدن کو ہوتی ہے اور روح کے الگ ہوتے ہی سانس لینے کا عمل بھی منقطع ہو جاتا ہے۔ نفس یا روح کا بدن سے آزاد ہو کر سانس لینا محلِ نظر ہے اور ہنوز محتاجِ تحقیق بھی۔ اس باب میں دو مسائل صدیوں سے مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ نفس اور روح ایک ہی ہیں یا الگ الگ اور دوسرا یہ کہ لفظ ’نفس‘ نفیس سے بنا ہے یا تنفس سے۔ ان مباحث کے تناظر میں احمد محفوظ کا یہ شعر اہلِ تحقیق کے لیے ایک نئے میدان کی نشاندہی ضرور کر رہا ہے۔ لیکن تخلیقی متن کو ’ایک جمع ایک، دو‘ کے فارمولے میں تولنا بھی انصاف نہ ہو گا:
وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ
اور صبح کی قسم جبکہ وہ سانس لے
(سورہ تکویر، آیت 18)
نصوصِ نبویﷺ میں جہنم کا سانس لینا بھی منقول ہے۔ صبح (اور جہنم) ذی روح نہیں ہے۔ مفسرین نے صبح کے سانس لینے کو مجازاً صبح کے طلوع ہونے (یا روشن ہونے) سے تعبیر کیا ہے تو مذکورہ شعر میں کھل کر سانس لینے کو عین واقعاتی تصور کرنا کیا ضروری ہے۔ کوئی شخص قید خانے کی حبس زدہ فضا سے باہر نکل کر جس سکون و قرار سے ہمکنار ہوتا ہے اس کے لیے ’کھل کر سانس لینے‘ کا محاورہ برمحل بھی ہے اور جدلیاتی بھی۔ احمد محفوظ کی کلاسیکی رچاؤ کی اس شاعری میں ایسی جدت طرازیاں جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔ اندر ہی اندر ٹوٹتا اور بکھرتا فرد اپنے ذہنی انتشار کا علاج جب زندگی سے فرار میں ڈھونڈنے لگے تو اس میں داخلی سے زیادہ خارجی عوامل پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ شاعری تو بہر حال شاعری ہی ہے لیکن تیزی سے بے حس ہو رہے انسانی سماج نے ایسی کشمکش میں گھرے افراد کی درد ناک خبروں پر آنکھیں نم کرنے کی دیرینہ رسم بھی ختم کر دی ہے۔ حمد کا یہ شعر بظاہر تو دعائیہ ہے لیکن در حقیقت ایک طنز آمیز شکوہ بھی ہے۔ حمد کے بعد دو نعتیں ہیں اور ویسی ہی ہیں جیسی ہند و پاک میں برسوں سے لکھی جاتی رہی ہیں۔ پھر پہلی غزل غالب کی زمین میں:
سر بسر پیکرِ اظہار میں لاتا ہے مجھے
اور پھر خود ہی تہِ خاک چھپاتا ہے مجھے
اس مضمون کو نسیم اجمل نے بھی برتا ہے:
خود بناتا ہے مرا منظرِ شوق
پھر تہِ خاک چھپا دیتا ہے
عدم سے ظہور اور ظہور سے فنا کا سفر پیکرِ اظہار اور منظرِ شوق دونوں کا ایک جیسا ہے البتہ ثانی الذکر شعر میں فاعل کی کارگزاری میں رغبت و دلبستگی کا وفور ہے۔ تہِ خاک چھپانے میں خاک میں ملانے کا مفہوم پوشیدہ ہے لیکن لغوی و مجازی معنوں سے پیدا ہونے والے ابہام کا لطف نہیں ہے۔ یہ لطف احمد محفوظ کے ایک دوسرے شعر میں موجود ہے، جسے آپ اسی واقعے کے تسلسل (sequel) کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں:
اُسی نے ملایا مجھے خاک میں
وہی ہاتھ مل مل کے رویا کیا
پہلی غزل کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے:
گمشدہ مَیں ہوں تو ہر سمت بھی گم ہے مجھ میں
دیکھتا ہوں وہ کدھر ڈھونڈنے جاتا ہے مجھے
محاورتاً ’سمتوں کا گم ہو جانا‘ لامقصدیت یا نصب العین کے فقدان کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن اس شعر میں احمد محفوظ نے بے سمتی کو بھی ایک نئی سمت عطا کر دی ہے۔ یہاں گمشدہ ہی سمت نما بھی ہے اس لیے اس کی کھوج میں نکلنے والے کی گمشدگی بھی لگ بھگ طے ہے۔ پھر اس تجسّس کا بھی اپنا مزہ ہے کہ دیکھیے سمتوں کے تعین کے بغیر ڈھونڈنے والے جاتا کس طرف ہے۔ کلاسیکی رچاؤ کے ایک اہم پہلو پر بات کریں تو احمد محفوظ فارسی تراکیب اور اضافتوں کے استعمال میں بھی فراخ دل واقع ہوئے ہیں:
رات آنکھوں میں مری گردِ سیہ ڈال کے وہ
فرشِ بے خوابیِ وحشت پہ سلاتا ہے مجھے
دیدنی ہے یہ توجہ بھی بہ اندازِ ستم
عمر بھر شیشۂ خالی سے پلاتا ہے مجھے
ہمہ اندیشۂ گرداب بہ پہلوئے نشاط
موج در موج ہی ساحل نظر آتا ہے مجھے
ساتھ ہی احمد محفوظ نے چند ایسے الفاظ بھی نہایت خوش اسلوبی سے برتے ہیں جنھیں متروک کہنا تو درست نہ ہو گا لیکن اس طرز سے باندھنا آجکل ترک ضرور ہو چکا ہے۔ مثلاً
’یوہیں‘ بجائے ’یونہی‘
چھوڑیے ایسی کوئی بات نہیں ہے اس میں
وہ تو بس آپ سے کہنے کو تھی اک بات یوہیں
’کی دولت سے‘ بجائے ’بدولت‘
جس کی دولت سے ہم اکثر تجھے پا لیتے تھے
دل کی چھوٹی سی نشانی وہ مٹا چاہتی ہے
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ استعمالات دوبارہ عام کر دیے جائیں۔ خصوصاً ’کی دولت سے‘ تو ہے ہی شاعری میں کھپانے کی چیز۔ ان الفاظ کا استعمال میرؔ کے یہاں بھی ملاحظہ فرمائیے:
گھر گھر ہے ملکِ عشق میں دوزخ کی تاب و تب
بھڑکا نہ ہم کو شیخ یہ آتش یوہیں نہیں
(میرؔ)
امیر زادوں سے دِلّی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھی کی دولت سے
(میرؔ)
دورِ حاضر میں اردو کے غزل گو شعرا کلاسیکی شعریات، تصورات و نظریات کا مکمل احترام کرتے ہوئے زبان و بیان اور موضوعات کی سطح پر کچھ آگے کی منزلیں طے کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’غبارِ حیرانی‘ میں بھی اچھی خاصی تعداد ایسے اشعار کی موجود ہے جن میں زندگی کے متنوع اچھے برے تجربات کو بالکل نئے انداز میں اور نہایت اثر آفرینی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے:
یہیں گم ہوا تھا کئی بار مَیں
یہ رستہ ہے سب میرا دیکھا ہوا
میں ہوں خوابِ گراں کے نرغے میں
رات گزرے تو معرکہ سر ہو
یہاں سے جو اب راستہ ہی نہیں
تو کیا کوئی آگے گیا ہی نہیں
اک روشنی آسیب سی پھرتی ہے سرِ دشت
سایہ سا کوئی پھر نہ شجر سے نکل آئے
جاتے ہیں لوگ ایسے تھک ہار کر جہاں سے
گھر اپنے جیسے کوئی بازار کر کے لوٹے
ذرا بے احتیاطی ہو گئی تھی
پھر ایسا رائگاں ہونا ہمارا
اندیشۂ طوفانِ بلا خیز بہت ہے
اس واسطے ہم قطرے کو دریا نہیں کرتے
الغرض احمد محفوظ نے ’غبارِ حیرانی‘ میں کلاسیکی رچاؤ کی شاعری کے ساتھ ساتھ جدید ترین اسالیب میں بھی نقائص و عیوب سے پاک، شیشے کی طرح شفاف شاعری کے کامیاب نمونے کچھ اس طرح پیش کیے ہیں کہ زورِ بیان اور جدت طبع کی داد ان کے دشمن کو بھی دینی پڑے گی (اگرچہ مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ اس نفیس الطبع شخص کو دشمن بنانے کا ہنر نہیں آتا ہو گا)۔ کتاب کا سر ورق پر معنی اور دیدہ زیب ہے۔ اسے ایم آر پبلیکیشنز، نئی دہلی نے مجلد شائع کیا ہے۔
٭٭٭