شائستہ فاخری کا نیا ناول ’’صدائے عندلیب‘‘ ۔۔۔ علی احمد فاطمی

 

شائستہ فاخری کا نیا ناول ’’صدائے عندلیب‘‘

 

                   علی احمد فاطمی

 

اردو فکشن میں شائستہ فاخری اب ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اپنی سنجیدہ و معیاری تحریر و تخلیق کے ذریعہ اپنی ایک منفرد شناخت بنا لی ہے۔ کئی ناول اور کئی افسانے اردو قارئین و ناقدین کے درمیان پسندیدگی کی سند پا چکے ہیں ۔ ’’صدائے عندلیب بر شاخ شب‘‘ ان کا تازہ ترین ناول ہے۔ ناول کے ابتدائی اوراق میں عورت ہی عورت ہے۔ فلیپ پر عورت بیک پیج پر عورت۔ انتساب میں عورت۔ اسکیچ میں عورت اور ناول کا پہلا جملہ بھی عورت سے متعلق___’’عورت ایک نا مکمل خوابوں کی گٹھری ہے‘‘ اور اس کے بعد یہ بھی__’’اگر دنیا ایک تھئیٹر ہے تو اس تھئیٹر کی بیک اسٹیج عورت ہے۔ ‘‘ اور عورت کے کردار سے ہی ناول کی ابتدا ہوتی ہے۔ ایک عورت دوسری عورت کا پیچھا کر رہی ہے۔ پیچھا کرنے والی عورت مرکزی کردار ہے۔ واحد متکلم کا کردار جس کا نام نازنین ہے جسے مصنفہ بھی کہا جا سکتا ہے جس کا پیچھا کیا جا رہا ہے وہ ستارہ ہے ایک معمولی سی بستی کی معمولی سی عورت لیکن ناول میں بڑی خاموشی سے    ایک اہم کردار کا روپ لیتی ہے۔ پیچھا کرتے ہوئے اس بستی تک جانا۔ پان کی دوکان پر کھڑا ہونا۔ اسی پان کی دوکان پر عورتوں کا پان کھانے کے لیے آنا اور چٹر چٹر پان کھانا عجیب سا لگتا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ناول جتنا حقیقت پسند ہوتا ہے اتنا ہی تصور پسند بھی اور اس میں قابلِ یقین حد تک تصور و تخیّل کا آمیزہ ضروری بھی ہوا کرتا ہے تاکہ فکشن، فکشن رہے۔ تصور اور تخیّل کے عناصر نہ صرف قصّہ کو فلسفہ کے قریب لاتے ہیں بلکہ ایک نئی حقیقت کو دریافت کرنے میں مدد کرتے ہیں ستارہ چمپا وغیرہ غریب بستی کی محنت کش عورتیں جن کے بارے میں مصنفہ نے لکھا  :

’’غربت اور جینے کی جدوجہد کرتی یہ عورتیں بیچاری__ایسی بستیاں ان عورتوں کی جوانی جلد نچوڑ لیتی ہیں ۔ ‘‘

پچاس سال میں ستر سال کی لگنے والی ایسی عورتوں کی کہانی نئی نہیں ہے۔ معاشرہ میں نہ ادب میں لمبی روایت اور تلخ حقیقت۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ زندگی کے ان بے رحم حقائق کو بار بار سمجھا نہ جائے اپنے اپنے حالیہ میں ، اپنے اپنے زاویہ سے۔ چمپا کی بیٹی پھانکی۔ جیسا طبقہ ویسا نام اور ویسا ہی کام ویسی ہی زندگی۔ پھانکی ستارہ کی سہیلی۔ ستارہ کا اگر مرکزی کردار تو گرد و پیش کے معاون کرداروں کا تعارف بھی ضروری لیکن کچھ اس انداز سے کہ چند جملوں میں پورا کردار بلکہ پوری زندگی جھلک پڑے۔ چھلک پڑے۔ لیکن ستارہ کا مکمل تعارف نہیں دیگر کرداروں کے توسط سے ہی اس کا تعارف۔ اس کا تجسّس۔ یہ تکنیک عمدہ ہے اور متاثر کن بھی کہ راستی اور روایتی انداز سے ناول میں ناولٹی مشکل سے آتی ہے۔ بستی کا تعارف۔ عورتوں کا تعارف ان سب کے درمیان رفتہ رفتہ ابھرتا ہے ستارہ کا کردار جو بستی کے تعارف سے ہی نیم انداز میں متعارف ہو جاتی ہے لیکن گیلے بالوں اور فضا میں پرندوں کا شمار کرنے والی ستارہ کچھ الگ سی تو ہو گی تبھی مصنفہ اس کا تعاقب کرتی ہے اور ناول رقم ہوتا ہے۔ شخصیت کیا ہے اور اس کی انفرادیت کیا ہے یہ تجسّس جگانا بھی ایک تخلیقی عمل ہے۔ ستارہ کے تعارف میں میں کا کردار یعنی نازنین کا عورت پن بھی جاگتا چلتا ہے اور مرد کے تئیں ایک ہلکی سی کاٹ بھی جو ایک سوچے سمجھے شعور کا پتہ دیتی ہے۔ یہ جملے دیکھئے  :

’’ سچ مچ بغیر مرد کے عورت خالی برتن میں کھنکتے کھوٹے سکے کی طرح ہوتی ہے__‘‘

یہاں تک بات تخلیقی ہے اور تعمیری بھی لیکن آگے کا جملہ کم از کم اس وقت غیر ضروری لگتا ہے کہ ابھی ناول کے قصہ کا کردار کا مکمل تعارف اور آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ جملہ ملاحظہ کیجئے  :

’’مرحلہ شادی کا ہو یا طوائفیت کا دونوں مورچوں پر عورت ہی خریدی اور بیچی جاتی ہے۔ ‘‘

آگے اس بلیغ جملے کی تفسیر بھی ہے جو غیر ضروری تفصیل بھی لگتی ہے جس سے نہ صرف مصنفہ کی جانب داریت جھلکتی ہے بلکہ تخلیقیت بھی متاثر ہوتی ہے حالاں کہ اس تفسیر میں بڑی حد تک صداقت ہے لیکن صداقت اور تخلیقیت کا تال میل بھی ضروری۔ ناول اور کردار کا بہاؤ بھی فطری ہونا چاہئے نہ کہ فکری۔ فکر تو فطرت کے بطن سے پھوٹتی ہے اور فکشن کو فلسفہ بنا دیتی ہے__ بہر حال ستارہ کا کردار اور خود’’ میں ‘‘ یعنی نازنین کا کردار دونوں تجسّس و تحیّر کا شکار۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں ۔ برگد کا پیڑ، احمد بابا کی آمد۔ جوانی بزرگی۔ موت زندگی غرض کہ تیزی سے کہانی آگے بڑھتی ہے اور پھر ستارہ پر آ کر رک جاتی ہے اس لیے کہ مصنفہ کو ستارہ کی ہی تلاش ہے لیکن اس تلاش میں تجسّس پیدا کر کے مصنفہ نے تکنیک اور فن کے اچھے نمونے پیش کئے ہیں ۔ زندگی کی تلاش شامل ہو جاتی ہے اور قصہ فلسفہ بنتا چلتا ہے۔ اور ناول پرچھائیوں کی تلاش میں رواں دواں ۔ کبھی شہر کبھی غریب کی بستی۔ دو زندگی۔ حال اور ماضی___کہانی پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ یہاں بھی مرد اور عورت۔ مردوں کے بارے میں الگ رائے اور عورتوں کے بارے میں الگ۔ یہ جملے دیکھئے  :

’’مرد کا عشق مرد کے لئے زندگی میں ایک الگ چیز ہوتی ہے۔ جب کہ عورت کے لئے یہ پوری زندگی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ عورت کے لئے عشق کا مطلب جسم اور روح کی مکمل سپردگی ہے بغیر کسی شر ط سب کچھ عشق کی بارگاہ میں قربان کر دینا عورت کا ایمان بن جاتا ہے جبکہ مرد کے لئے عشق عورت کا عشق طلب کرنا ہے__‘‘

ان جملوں میں صداقت ہوسکتی ہے لیکن ان خیالات کو جرنلائز کر کے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن یہ تو طبعی فرق ہوتا ہی ہے اسی لیے مرد کے عشق اور عورت کے عشق میں بہر حال فرق ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے لیکن اس علیحدگی کو فطری اور طبعی نظریہ سے دیکھا جانا چاہئے نہ کہ سماجی۔ ناول میں ’میں ‘ کا کردار سوچتا زیادہ ہے اس لیے کہ وہ حساس اور سنجیدہ ہے لیکن کبھی کبھی اس کی سوچ میں حقیقت کم تصور زیادہ نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی دونوں گڈمڈ بھی ہو جاتے ہیں ۔

ماضی میں میں یعنی نازنین کی کہانی ابھرتی ہے اور ستارہ غائب ہو جاتی ہے۔ شادی، نانی، گڈو اور کشو۔ کئی کردار ابھرتے ہیں ۔ گڈو وفادار اور کشو خود غرض___ماضی اور حال کی ترتیب و توازن سے کراس کرتی ہوئی کہانی آگے بڑھتی ہے جو تکنیکی اعتبار سے ایک مشکل امر ہے لیکن مصنفہ نے یہاں مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ ناکام شادی۔ گڈو کی وفاداری اور نیم تاریکی اور زندگی کی گاڑی سب ساتھ ساتھ چل رہی تھی یا ان کا چلتے رہنا زندگی کی مجبوری تھی۔ گڈو کی غریبی اور وفاداری نے ہی غربت و فلسفۂ غربت کو سمجھنے کے لئے مجبور کیا اور شہر و بستی، آسمان اور ستارہ کی تلاش جاری ہوئی___ستارہ ڈائری کا ہی نہیں زندگی کا ایک اہم کردار، لیکن خاموش، دونوں کے درمیان خاموشیاں جب گلے مل جائیں تو سمجھ لیجئے خاموشی کے اس سپیدوسیہ پردے پر زندگی کی کوئی نُکیلی سچائی کا باب کھلنے والا ہے۔ اسی لیے نازنین کا کردار سوچتا زیادہ ہے۔ مسلسل و متوازن سوچتا ہوا کردار۔ لیکن اسی سوچ سے مقصد اور قصہ جنم لیتا ہے اور ناول کے وسیع دامن میں پھیل جاتا ہے ورنہ اکثر ہم شور و غل میں ڈوب جاتے ہیں اور ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ ایک قصّہ بھی نہیں بنتا۔ سوچ کا سلسلہ صرف حال نہیں ہوتا ماضی بھی ہوتا ہے مستقبل بھی۔ کشمکش کا، تاریکی کا اور پھر خاموشی کا لیکن اندر اندر ایک طوفان پرورش پاتا رہتا ہے۔ گیارہ برس کی ایک نو خیز لڑکی__زیادہ مت بولنا اس لیے کہ زیادہ بولنے کا حق صرف مردوں کو ہے۔ مذہبی ما حول، نماز کی چوکی، سر پر دوپٹہ، ماں کی موت۔ آہ و زاری اور نئی زندگی کی تیاری لیکن ا س نئی زندگی میں بھی تنہائی۔ کشو کی بے وفائی نے اسے ایک نفسیاتی مریض بنا دیا لیکن اچھی بات یہ تھی کہ وہ  :

’’ میں ایک نفسیاتی مریض بن کر اپنے آپ کو کچلنا نہیں چاہتی تھی۔ اس لئے جینے کے لئے طرح طرح کے بہانے تلاشنے کی جستجو میں لگی رہتی__‘‘

یہی جستجو ستارہ کی جستجو بن جاتی ہے جو ذاتی نوعیت کی ضرور ہے لیکن اصلاً زندگی کی جستجو ہے۔ حیات کی تلاش، معنی ٔ حیات کی بھی  تلاش۔ ناول یہیں سے صرف قصہ نہیں رہ جاتا زندگی کی محض تصویر نہیں رہ جاتا بلکہ تفسیر اور تعبیر بھی بن جاتا ہے یہی ناول کا کلائمکس ہے اور یہی ناول کا فن بھی کہ اس کا فن انسان اور انسانی رشتوں پر ٹکا ہوتا ہے کہ ناول نگار کا فن، اسلوب ناول کی مکمل ساخت، سماجیت اور حقیقت کے درمیان سے ہی پھوٹتی ہے۔ وہ ادبیت کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی دائرے کو توڑ کر سماجی حقیقت کی دستاویز بنتا ہے۔

یہ سوال تو قائم رہتا ہے کہ نازنین کو ستارہ کے بارے میں جاننے کی للک کیوں ہے۔ فوراً ایک ہلکا سا اشاراتی جواب بھی___’’مجھے ستارہ اپنے آپ کو سونپی اپنی ہی ایک ذمّہ داری لگتی ہے یا پھر میں نے جینے کے لئے ستارہ کو ایک مقصد بنا لیا تھا__ ‘‘ اور یہ بلیغ جملہ بھی __’’کبھی کبھی زندگی انسان کو ایسے مقام پر پہنچا دیتی ہے جب خود کو بہلانے کے لئے خود سے کھیلنا اس کی مجبوری ہو جاتی ہے۔ ستارہ بھی میری مجبوری بن چکی تھی۔ اس مجبوری میں میرا تجسّس، میری نفرت کے ساتھ میری چاہت اور بہت کچھ بے نقاب کر دینے کی آرزو تھی۔ ‘‘ یہ تجسّس قاری کا بن جاتا ہے اسے اتنا احساس تو ہو جاتا ہے کہ ستارہ محض ایک کردار نہیں ۔ ایک راز ہے، تہہ دار و بے رحم زندگی کا سراغ بھی۔ نازنین اور ستارہ کی یہ تقدیری مماثلت جستجو کی راہ نکالتی ہے۔ ناول کا قصہ بھی بناتی ہے اور زندگی کا فلسفہ بھی۔ لیکن درمیان میں عورت اور مرد کے رشتے، جنسی تلازمے، اگر ایک طرف یہ جملہ__’’میری گود اولاد سے تو خالی ہے مگر شوہر کے بے تحاشا پیار سے بھری ہے۔ ‘‘ تو دوسری طرف یہ بھی  : ’’کئی بار مجھے ایسا لگا کہ کشو میرا شوہر نہیں بلکہ وہ قصائی ہے جو جانور کے گوشت کو تولتا اور کاٹتا  رہتا ہے۔ ‘‘اور پھر یہ فیصلہ بھی ’’ مرد کبھی عورت کے ٹھنڈے جسم کو قبول نہیں کرتا لیکن عورت۔ عورت مرد کو ہر صورت میں قبول کرتی ہے اس پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتی ہے۔ ‘‘ یہ جملے غور طلب ہیں اور شاید بحث طلب بھی لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ان جملوں کی خالق ایک عورت ہے جس نے معلوم سے محسوس تک کا سفر طے کیا ہے کچھ حادثات ہیں جو سچ بھی ہو سکتے ہیں لیکن ناول دائمی سچائیوں کو لے کر آگے بڑھتا ہے کچھ بھی ہو کچھ دیر کے لئے بات کھری اور تیکھی سی لگتی ہے جو ناول کی قرأت میں اضافے تو کرتی ہی ہے اور قاری تھوڑی دیر کے لئے ستارہ کو بھول کر میں کے کردار میں ڈوب جاتا ہے۔ مرد اور عورت کے جذباتی اور جسمانی رشتے کی نوعیت ہمیشہ سے نازک رہی ہیں اس لیے ان کی نزاکت اور حساسیت پر حتمی مہر لگا پانا قدرے مشکل ہے لیکن عُرف عام میں زندگی کے جو نظریے اور رشتوں کے رویّے ہوتے ہیں وہ ناول کا موضوع بنتے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت تو ہے کہ جسمانی رویّے اگر انسانی رویّے میں تبدیل ہو جائے تو ایک سنجیدہ، حسّاس عورت کے لئے یقیناً ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔

نازنین کے کردار کا المیہ یہی ہے کہ کشو عام رویّوں میں بھی جارح ہے اور لا ولدی کی کسک اسے مزید جارح نہیں سفّاک بنا دیتی ہے کہ ساری ذمّہ داری صرف عورت پر ہے وہ عورت جو مردوں کو جنم دیتی ہے باپ اور بھائی بناتی ہے اور ساتھ ہی شوہر کے انیک روپ بھی دیکھتی ہے۔ ذہنی اور روحانی کشمکش اسے ستارہ جیسے کردار کے پاس لے آتی ہے کہ اس کی آنکھوں میں نازنین کو اپنی دنیا نظر آتی ہے اور یہ بھی__’’تنہا ئی اور ذلتّوں کا سفر ہم دونوں ایک ساتھ طے کر رہے ہیں ۔ ‘‘ اس کے باوجود دونوں کردار زندگی جینا چاہتے ہیں ۔ یہی ایک ایسا رجائی اور اثباتی عمل ہے جو ناول کو آگے بڑھاتا ہے اور زندگی کو بھی گزارتا ہے۔ ایسے میں پکچر دیکھنا یا دکھانا بھی ایک عجیب سا عمل لگتا ہے لیکن جب زندگی میں سب کچھ عجیب و غریب ہو تو کچھ عجیب نہیں ہوتا۔ خواہ وہ اکیلا ہو سوتیلا ہو یا زندگی کا جھمیلا۔ زندگی تو زندگی ہے بسر کرنی ہی پڑتی ہے۔ بے مقصد و بے خوف یا با مقصد و بامعنی ایک زندگی نازنین کی ایک زندگی ستارہ کی۔ دونوں کی مماثلتیں و مخالفتیں ۔ یہی زندگی کے رنگ لیکن مصنفہ کچھ اور رنگ تلاش کرتی ہیں ۔ ایسے میں یہ فقرے  :

’’کوئی جوانی سی جوانی نہیں سنیاسنی بنی پھرتی ہے‘‘

’’سنیاسنی نہ بنتی تو آزو بازو والے اس کا نام و نشان ہی مٹا دیتے۔ ‘‘

ان جملوں سے کردار فہمی کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے اور ناول کی قرأت اور زندگی کی حرارت میں ایک کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اور یہ خیال بھی کہ پھکّڑ پن میں بھی سنجیدگی ہوتی ہے اور شور و غل میں خاموشی بقول مصنفہ __’’ستارہ کی خاموشی اس کی آواز سے زیادہ وزنی تھی۔ ‘‘ اس لیے مرکزِ نگاہ ستارہ تھی اور شاید اس لیے بھی کہ __’’یہاں کی ہر عورت میں ستارہ اور ستارہ میں ایک زخم خوردہ عورت سسک رہی تھی۔ ‘‘ ایک اور عمدہ جملہ ملاحظہ کیجئے __’’ہم جیسے لوگ زندگی کو کتابوں میں تلاش کرتے ہیں جبکہ بستی والے زندگی کو اتنا مختصر نہیں سمجھتے کہ اسے چہار دیواری میں قید کر کے جیا جائے وہ زندگی کو پہرہ داریوں سے باہر جا کر گزارتے ہیں ۔ ‘‘ اس لیے میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ ستارہ جیسے کرداروں کو سمجھنے کی کوشش محض ایک کردار کی تفہیم نہیں ہے بلکہ اُس بستی۔ اس طبقہ کی زندگی کی تفہیم و تفسیر ہے جو کتابوں ، مکانوں اور معیار پرستوں سے بیحد مختلف ہے۔ جہاں احمد بابا نہیں ہوتے۔ جہاں چمپا کاکی نہیں ہوتیں اور سب اسے بڑھ کر ستارہ کا وجود ممکن نہیں اس کے لئے تو بس اس بستی میں آنا ہی ہو فا جس کے بارے میں مصنفہ نے اچھی بات کہی __’’یہاں کی عورت نے باقاعدہ کاروباری آداب نہیں سیکھے۔ خوف ٹھوکر اور چند حادثوں نے انھیں سب کچھ سکھا دیا تھا__‘‘، ’’ستارہ میرے لیے جیتی جاگتی مثال تھی۔ ‘‘ اس کے لیے اس زندگی سے روبرو ہونا ناگزیر تھا۔ جہاں کی خوشیاں بھی غم کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں اور جہاں کے چہچہے اور میلے بھی۔ ان کی خستگی اور بیچارگی کا اعلان ہوتا ہے اور مرد کی دلجوئی کا جشن۔ ایک کردار کے اردگرد دوسرے کردار۔ ان کی نفسیات و کیفیات اور زندگی کے معاملات ناول کے کینویس کو بڑا کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایک طرفہ سے بھی لگتے ہیں مجبوری اور بے بسی بھی یک طرفہ جبکہ پورا سماج مجبوری کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ ہرچند کہ اس میں رحمو بابا جیسے بزرگ اور گڈو جیسے وفادار مرد کردار بھی ہیں لیکن واجبی صورت میں حاشیے پر کھڑے ہوئے عُرف عام میں مرد ظالم اور عیاش ہی ہے حالانکہ کبھی کبھی ان کی عیاشی اور سفاکی ان کی مجبوری اور بے بسی کا لاشعوری مظہر ہوتی ہے سماج کا درد اور حالات کے زخم اکثر گھر میں ہی رسنے لگتے ہیں اور گھر میں ہی ان کی مرہم پٹی بھی ہوتی ہے اور پھر ایک نئے زخم کی تیاری بھی۔ گھر کی انگنائی اور چارپائی پر کیا ہوا ظلم اس وقت قدرے سبک سا ہو جاتا ہے جو کرارا  زخم اور کراری چوٹ سماج سے ملتی ہے اور جس کا اکثر سامنا غریب اور بے بس مرد ہی کرتا ہے۔ ایک پھیلی ہوئی بے بسی۔ گمبھیر اداسی، لاچاری، غم و غصہ، چھٹپٹاہٹ جس کا اکثر شکار عورت ہی ہوتی ہے، جو سراسر غلط ہے اس کی قطعی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن اس نفسیاتی عناصر اور سماجی فلسفہ کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کیا اچھا ہو کہ ناول نگار اپنے کرداروں ، قصوں کے ذریعہ سماج کے اس پیچ و خم اور بے رحم رویّوں کی سچی تفہیم کرے اور اصل مسئلہ پر وار کرے جیسا کہ عصمت چغتائی نے کیا قرۃ العین حیدر نے کیا اور بڑے فنکار کہلائے کہ ان کے یہاں انسان کی دمک ملتی ہے حقیقت کے عرفان کی جھلک۔ گیان دھیان کی چمک اور ظلم و ستم کی دھمک جس کی شکار مرد اور عورتیں دونوں ہی ہیں لہٰذا اس ظلم تک پہنچنا قدرے آسان ہے جس کی شکار عورت ہے لیکن اس ظلم تک اور اس گہرائی و پیچیدگی تک پہنچنا ہر اک کے بس کی بات نہیں جس کا شکار بنی نوع انسان ہے اور اشرف المخلوقات ہے خدا کی بنائی ہوئی سب سے بڑی تخلیق۔ عورت بھی انسان ہی ہے لیکن بات رویّہ اور نظریہ کی ہے ذہن اور وژن کی ہے یہ بھی ہے کہ ناول بڑے موضوعات پر ہی لکھے جائیں ایسا ممکن نہیں ہوتا اکثر چھوٹے واقعات و معاملات بھی ہمیں بڑے موضوعات تک لے جاتے ہیں جیسے سچی مقامیت پکّی آفاقیت تک لے جاتی ہے۔ اتنا حق تو ناول نگار کو ملنا ہی چاہئے لیکن کچھ حقوق تو قاری کے بھی ہوتے ہیں اور ناقد کے بھی جو سنجیدگی سے ناول کا مطالعہ کرتا ہے لیکن کچھ معاملات انسانی، اخلاقی اور آفاقی ہوتے ہیں جن کا دائرہ کار اور تخلیقی عمل بھی کائناتی ہوتا ہے لیکن یہاں بھی معاملہ ذہن اور وژن کا ابھرتا ہے۔

ناول نگار جو خاتون ہیں ان کی مشکل یا ذاتی نوعیت کی مجبوری یہ بھی ہے کہ انھیں ستارہ کی ہی زندگی کو سمجھنا ہے۔ اس لیے جھونک میں وہ یہ بھی لکھتی ہیں  :

’’ستارہ میرے لیے روشنی کا مینارہ نہیں اندھیرے میں گم ہوئی منزل کا پتا تھی۔ یہ وہی منزل تھی جہاں عورتوں کی محرومیاں مجروح ہوتی آرزوئیں ۔ بے حس پڑی خواہشیں اور نادیدہ خوابوں کی قبریں تیار ہوا کرتی ہیں اور جہاں کی ہمیشہ تازہ بنی رہنے والی مٹی اپنی تربت پر سیاہ گلابوں کی خوشبو کی منتظر رہتی ہیں ۔ ‘‘

محرومی و مجبوری عورت کی ہو یا مرد کی، مجبوری تو مجبوری ہوتی ہے اصل معاملہ تو یہ ہے کہ مجبوری کی تھاہ میں پہنچنا ضروری ہے خواہ عورت کے ذریعہ یا مرد کے ذریعہ__ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مجبوری کو اہمیت دیتی ہیں یا عورت کو۔ چمپا کاکی کے یہ متاثر کن جملے دیکھئے  :

’’اے میڈم جی! ہمارے لئے کیا آگ کیا پانی، کیا ہوا؟ ہم نصیب جلی عورتوں تو سب موسم ایک جیسے رہتے ہیں ۔ ‘‘

ظاہر ہے یہ ماحول یہ موسم صرف عورتوں کے لیے نہیں مردوں کے لئے بھی ہیں لیکن اس کا اظہار کم اسی لپیٹ میں ایک جملہ اور نکلتا ہے__’’یہ جھگی آپ جیسے لوگوں کے لئے لعنت کی جگہ ہے۔ ‘‘ لا شعوری طور پر نکلا ہوا جملہ مرد اور عورت کے فرق سے زیادہ طبقاتی فرق کو پیش کرتا ہے اور یہ فرق از خود نہ صرف ناول کے کینویس کو بلکہ مقصد کو بھی بڑا کر دیتا ہے۔

ناول میں نیلو فر کا کردار داخل ہوتا ہے۔ نازنین کی چھوٹی بہن۔ بیٹی کی طرح، کئی واقعے، اتار چڑھاؤ سامنے آتے ہیں اور پھر بقول مصنفہ۔ ’’ جب خود پر یا اپنوں پر کوئی وقت بھاری پڑتا ہے تو خدمتِ خلق کا جذبہ کہیں پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ ‘‘ تھوڑی دیر کے لئے بستی کا غم سو گیا اور ستارہ بھی گم ہو گئی اور میں کا دکھ حاوی ہو گیا۔ دکھ جو زندگی کے حوالے ہوتے ہیں اور جو بڑی آسانی سے ہر طبقہ میں داخل ہو جاتے ہیں خواہ وہ کتنا خوشحال ہو یا بد حال۔ دکھ تو دکھ ہوتے ہیں وہ جنس طبقہ اور علاقہ سے بالا تر ہوتے ہیں دُکھ سے ہی زندگی ہے اور زندگی ہے تو دکھ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ غریب طبقہ دکھوں کا عادی ہو کر دکھ میں سکھ تلاش کر لیتا ہے لیکن امیر طبقہ جو سکھوں میں پلتا ہے عموماً دکھ کا عادی نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے۔ معمولی سے دکھ کی تاب نہ لا کر پہاڑ کھڑا کر دیتا ہے نیز دوسرے کے دکھوں کو فراموش کر دیتا ہے اسی لیے اپنی بہن کا دُکھ دیکھ کر مصنفہ کے ذہن سے احمد، ستارہ، چمپا سب اوجھل ہو گئے اور ’ نیفو‘ کا کردار جاگ اُٹھا یہ بھی زندگی کا اک عجب تضاد ہے۔ مزاج ہے جسے مصنفہ نے سچائی سے پیش کیا ہے اور سچائی کی اپنی ایک جمالیات تو ہوتی ہی ہے خواہ وہ کتنی آڑی ترچھی ہو۔

نیلو فر کے توسط سے نازنین کے خاندان کے پیچ و خم سامنے آتے ہیں جو تقریباً ہر گھر کے ہوتے ہیں مختلف انداز اور مختلف شکل میں __عجب احساس ایک عورت کا ناپسندیدہ شوہر، ناپسندیدہ زندگی لیکن چھوٹی بہن کے لئے، دوسروں کے لئے جذبہ اور معاونت۔ یہی کردار کی بوالعجبی ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دُکھ انسان کو کمزور کرتا ہے تو بعض شکلوں میں مضبوط بھی کرتا ہے علم و عمل کا ایک نیا راستہ دیتا ہے۔ بہر حال اب ناول غریب کی بستی کے بجائے شہر کی سڑکوں پر دوڑنے لگتا ہے اور سارے غریب کردار اچانک غائب ہو جاتے ہیں ۔ ستارہ کا تجسّس غائب، نیفو کا تجسّس حاضر۔ ۔ کچھ اور کردار نرس ایلزبیتھ۔ اس کی بیٹی نینسی۔ بیٹا وولکی جو ستارہ کے شوہر پرکاش کا دوست ہے۔ کہانی میں ایک نیا موڑ اور جوڑ۔ تجس کی تجسین۔ کنواری نیفو کا حاملہ ہونا۔ گلابو کا کردار وہ بھی حاملہ۔ حمل دونوں جگہ لیکن انداز الگ الگ ایک کا اوپری طبقہ__دوسرے کا نچلا طبقہ۔ ظاہر ہے دونوں کا ذمہ دار مرد۔ مرد تو چمپا کاکی کے مظالم کا بھی ذمہ دار پھانکی کو پیدا کیا۔ شادی کی واپسی کی اور پھر ستارہ۔ ’’کاش کہ اپنی ستارہ بھی جیتی‘‘ستارہ کی واپسی ہوتی ہے۔ ویران آنکھوں اور ماتمی چہرے والی ستارہ۔ جامدو ساکت ستارہ۔ ابھاگن ستارہ لیکن ان تمام کیفیات میں کردار ابھرتا ہے ستارہ کے شوہر پرکاش کا۔ پرکاش کی زندگی سے زیادہ پرکاش کی موت اہمیت رکھتی ہے یہ ہے کردار کی نئی پیش کش اور نئی تکنیک جو ناول میں جا بجا موجود ہے جس سے تجسّس اور دلچسپی کی فضا قائم رہتی ہے۔

تقریباً سو(۱۰۰)صفحات کے بعد ستارہ اور پرکاش کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے جس کی تلاش پہلے صفحہ سے ہوتی ہے۔ درمیان میں اور بہت کچھ کہ ناول میں زندگی کی طرح بے شمار جھگڑے رگڑے ہوتے ہیں لیکن ان سبھی سے زندگی کی طرح ناول کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔ موضوع کی اہمیت اور ناول کی مقصدیت متاثر نہ ہو اور مرکزی فکر اور کردار نہ بھٹکے تو ناول کی وسعت، زندگی کی وسعت سے الگ نہیں ہوتی پھر اس ناول میں تو کرداروں کی جہت، بستی کی حیثیت اور قصہ کی پرت در پرت کچھ اس طرح فنکارانہ طور پر گھل مل گئے ہیں کہ تجسّس کی وحدت اور قرأت کی کیفیت زیادہ متاثر نہیں ہوتی، ستارہ کے بیٹے کی بیماری اور پرکاش کی موت اور چمپا کاکی کا یہ جملہ__’’ جب سَمے الٹا چل رہا ہو تو انسان کی متی بھی الٹی الٹی چلتی ہے __‘‘اور غریب کا سَمے تو الٹا ہوتا ہی ہے اور خود غریبی امیری کی الٹ ہی تو ہے۔ سکھ کی ضد۔ سکون و آرام کا تضاد اور تضاد جنم دیتا ہے فساد کو خواہ وہ برکت علی کا ہو یا چمپا کا کی کا یا پھانکی کا۔ برکت و پرکاش کے مابین فساد برپا ہوا وجہ ستارہ تھی۔ برکت کو جیل ہوئی۔ باپ رحمت علی احمد بابا ہو گئے کہ حالات انسان کو کبھی بابا بنا دیتے ہیں اور کبھی آقا۔ برکت علی کی دشمنی جاگتی ہے تو ناول کا قصہ بھی جاگتا ہے اور پھر بقول چمپا__’’کہانی تو سمجھو یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ ‘‘ ستارہ کے بچے کی موت۔ نیفو کی شادی لیکن درمیان میں پھر مرد اور عورت کا چکر۔ عورت کی مظلومیت اور مرد کا ظلم اور یہ جملہ__’’پڑھا لکھا مرد ہو، جاہل ہو رکشے والا ہو، سب بستر پر ایک جیسی ذہنیت لے کر آتے ہیں ۔ ‘‘ یہ خیالات دُرست ہو سکتے ہیں لیکن یہاں غیر ضروری سے لگتے ہیں کہ قاری کا تجسّس ستارہ نیفو کے کردار میں اٹکا ہوا ہے پھر یہ بھی ہے کہ کتابی یا تصوراتی زندگی الگ ہوتی ہے اور عملی اور حقیقی زندگی الگ اور پھر مرد بھی الگ الگ قسم کے ہوتے ہیں اگرچہ جسمانی لذّت ایک سی ہوتی ہے لیکن مزاج و برتاؤ الگ الگ بھی ہوتا ہے۔ آخر کار کشو جیسا مرد جسے اس کی بیوی یعنی نازنین پسند نہیں کرتی اور ایک خاص زاویہ سے ہی دیکھتی ہے۔ وہ کہتا ہے  :

’’ میری جان!کون کہتا ہے کہ تم کتابی زندگی جیو، اصلی زندگی لفظوں میں نہیں کتاب کے باہر جی جاتی ہے۔ تم یہ کیوں سمجھتی ہو __تمھیں ایسی غلط فہمی کیوں ہے کہ میں کوزے میں بند رہ کر تمہارے ساتھ زندگی گزار دوں گا۔ میرے جیسے مرد کی بیوی ہو کر بھی تم ہر زیر و بم پر چلنے سے گھبراتی ہو۔ زندگی میں وسعت ہے اس لئے اپنی ذات کو پھیلاؤ__‘‘

اور پھر میں کا یہ احساس  :

’’ میں اس کی باتیں سنتی رہی اپنی زندگی میں آنے والے مردوں کے مزاج کا تجزیہ کرتی رہی ہر ایک اپنے فکری معیار کے حساب سے زندگی جیتا ہے۔ ان تمام مردوں میں مجھے اپنے ابّی اعلیٰ صفت انسان لگے۔ ‘‘

ان جملوں سے راقم کے بالا خیالات کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ایک لڑکی کی نظر میں عموماً ً باپ ہی پسند کئے جاتے ہیں اور شوہر ناپسند حالانکہ وہ باپ کو بھی نا پسند کرنے لگتی ہے وجہ چھوٹی امّی یعنی عورت__بہر حال اس پسندیدگی اور نا پسندیدگی کے درمیان رشتوں کی مختلف النوع نزاکت، جذباتیت اور محبت پوشیدہ رہتی ہے اور ہر رشتہ اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے اپنی ایک الگ پہچان__یہاں تک کہ شوہر کے رویّے اور نظریے بھی الگ الگ ہوتے ہیں جسمانی، جنسی عمل ایک سا ہو سکتا ہے کہ وہ جسمانی عمل کی  مجبوری بھی ہے لیکن تسکین ذوق کی قبولیت اور عورت کی محبوبیت کے تصورات مختلف اور کبھی کبھی بیحد معیاری بھی ہوا کرتے ہیں اور ان تصورات اور عورت کے کردار کو جس قدر مردوں نے پیش کئے ہیں غالباً عورت نے نہیں ۔ اس ضمن میں دفتر کے دفتر قلمبند ہوئے ہیں اور عورتوں کی بہترین اور قابلِ قدر تصویریں و تحریریں خلق ہوئی ہیں ۔ عورت عام طور پر عورت کو مظلوم و مجبور اور تمام طرح کے مرد کو ظالم و جابر سمجھتی آئی ہے۔ یہ سچ ہو سکتا ہے لیکن ادھورا سچ اور ادھورا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ حقیقت، محبت، جذباتیت کی بے شمار پرتیں اور جہتیں ہوا کرتی ہیں جن کو سمجھنا آسان نہیں تاہم سمجھنا ہو تو کہیں جانے کی ضرورت نہیں صرف منٹو، بیدی اور کرشن چندر کا فکشن پڑھ جائیے آپ کو عورت کے مختلف روپ اور محبت کے لازوال نقوش دیکھنے کو مل جائیں گے۔

نیفو کی شادی کے سامنے ستارہ کے بچے کی موت پس منظر میں چلی جاتی ہے اس لیے کہ نیفو اس کی اپنی چھوٹی بہن ہے خون کا رشتہ۔ ستارہ سے تو محض انسانی رشتہ اور تلاش کا جذبہ۔ لیکن اس رشتہ میں بھی سماجی تہذیبی اور ازدواجی کشمکش تیزی سے ابھرتی ہے جب نیفو کے شوہر کا کردار راشد مرزا کی آمد ہوتی ہے راشد تاجر کشو بھی تاجر اور تاجروں کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے جس کا تہذیب سے تعلق کم کم ہوتا ہے وہاں صرف دولت اور فائدہ اور نقصان۔ یہ صورت رشتوں و رویّوں میں بھی در آتی ہے تبھی قلم سے یہ جملے نکلتے ہیں __’’راشد نئے زمانے کا لڑکا ہے۔ اپنے ڈھنگ اور اپنی مرضی سے جینے والے لوگ سب کے پیچھے نہیں رہ پاتے۔ ‘‘ اور باپ کا لاچاری سے یہ جواب__’’جیسی تم سب کی مرضی۔ میں تو اپنی زندگی جی چکا ہوں ۔ اب تم لوگوں کو جینا ہے جیسامرضی ویسا جیو__‘‘ یہ دو نسل کے نہیں دو تہذیبوں کے تصادم ہے۔ آزادی کی ایک جست اور تہذیب کی پست __اسی لئے ابّی کے لہجہ میں دکھ ہے اور مصنفہ کے ذہن میں فکر مندی۔ مصنفہ نے یہ حصہ خوبصورت اور معنی خیز انداز میں پیش کیا ہے کہ بات جب متوازن انداز میں اندر سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے اور جب باہر سے نکلتی ہے تو تخلیق متاثر ہوتی ہے اور قاری کے گمراہ ہونے کے امکانات بننے لگتے ہیں اور قاری مرد ہوتا ہے اور عورت بھی اور کل ملا کر یہ دونوں انسان ہیں اور جہاں انسان کے مسائل ہوتے ہیں وہاں مرد عورت دونوں کا شامل ہونا فطری ہوتا ہے۔ ایسے کامیاب ناول کی گونج دور تک سنائی دیتی ہے۔

بہن کی شادی کے بعد فرصت کے لمحات میں پھر بستی کی یاد آتی ہے اور بقول میں  :

’’اس درمیان میں اتنی الجھنوں میں رہی اور اتنے کام میں الجھی رہی کہ مجھے ایک بار بھی نہ ستارہ کی یاد آئی، نہ خیال آیا کہ اس کے بچے کی موت ہو چکی ہے اس کے دل پر کیا گزر رہی ہو فی۔ احمد بابا، چمپا کاکی، پھانکی، کرنیا کی طرف میرا دھیان گیا ہی نہیں __‘‘

کیا سچی بات ہے جسے مصنفہ نے حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے اور یہ بھی کہ بستی والے صرف اس لئے منھ پھلائے ہوں گے کہ ان کا خرچہ رک گیا ہے۔ ناول ایسی تلخ سچائیوں سے ہی خلق ہوتا ہے اور پھر ان سچائیوں کے درمیان سے نئی سچائیاں جنم لیتی ہیں ۔ زندگی منکشف ہوتی ہے۔ انسان ہی کے در وا ہوتے ہیں ۔ عورت کے لیے یا بیوی کے لیے صرف شوہر شناسی کافی نہیں ہوا کرتی فرد شناسی اور انسان شناسی بھی ضروری ہوا کرتی ہے، اگر چہ یہ جملے متاثر کرتے ہیں ۔ ’’اگر میں محبت کرتی ہوں تو وہ محبت ہمارے لئے نہیں ہماری طرف سے ہوتی ہے۔ میں خوش ہوتی ہوں تو وہ خوشی ہماری ذات میں نہیں ہوتی بلکہ نفسِ حیات میں ہوتی ہے__‘‘ دوسروں کے حوالے سے (خواہ رفیق حیات ہی کیوں نہ ہو) اپنی ذات تک پہنچنے کا راستہ اکثر کمزور اور اُلجھا ہوا ہوتا ہے۔ خود شناسی کا اصل بھرم خود کی ذات سے کھلتا اور بند ہوتا ہے۔ اور وہ بھی کتابی تصورات کے حوالے سے کم زندگی کے تجربات کے حوالے سے زیادہ۔ کبھی کبھی عورت کی مظلومیت بھی خود عورت کی کمزور خود شناسی کا سبب بنتی ہے اور پہلے ہی مرد کو ظالم اور خراب اور کہیں کہیں مجازی خدا سمجھتے ہوئے غلط راہِ تصور پر ڈال دیتی ہے لیکن سچی اور کھری خود شناسی نہ صرف عورت کے مرتبہ بلکہ حضرت انسان کے اصل مقام و مرتبہ کا حوالہ بنتی ہے__ان امور کی تفہیم و تفسیر کے لیے صرف کتابی سوچ کافی نہیں ہوتی بلکہ کتابِ زندگی کی وسعتوں اور رشتوں کی گہرائی و پیچیدگی میں جا کر کھلے اور آزاد ذہن کے غیر جانب دارانہ رویّے اسے بڑی حد تک اصل مقام و منزل تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں جو افکارِ حیات، اقدارِ حیات سے جنم لیتے ہیں وہ عملی ہوتی ہیں اور حقیقی بھی ورنہ اکثر پر ابہام کا کچھ ایسا پردہ پڑا رہتا ہے کہ ساری ساری زندگی سفر کرنے کے باوجود رفیقِ سفر کی ہم سفری ناقابلِ فہم رہتی ہے بقول شاعر  :

بات صرف اتنی ہے زندگی کی راہوں میں

ساتھ چلنے والوں کو ہم سفر نہیں کہتے

 

لیجئے بستی ابھی بھی غائب۔ گھر حاوی، شوہر حاوی یہ فطری ہے اور یہ بھی کہ گھر بستی، سماج کا پہلا زینہ ہے اور پہلا رزمیہ بھی۔ گھر اور بہت سارے گھر سے بستی بنتی ہے۔ اس بستی میں یا اس زندگی میں برکت علی ہیں ، کشو اور راشد بھی۔ انداز الگ الگ ہے طبقہ الگ الگ لیکن مسئلہ ایک۔ مرد کی پرواز ایک، برکت علی زمین پر اڑتے ہیں اور راشد مرزا بقول مصنفہ __’’راشد مرزا ان لوگوں کی طرح لگا جو اپنی زمین چھوڑ کر اڑتے ہیں اتنا اوپر اڑتے ہیں کہ سورج کی گرمی سے پنکھ جل جاتے ہیں ۔ ‘‘ بہن کے دکھ کے لیے اللہ سے گہار اور غریب بستی سے واپس ہوئی کار کہ سارے نیک کام فُرصت کے ہیں وہ بھی مرد کے لیے کم جنت کے لیے زیادہ لیکن یہاں معاملہ کچھ ذاتی نوعیت کا بھی ہے بہر حال ناول متوازی طور پر گھر اور باہر دونوں کو سمیٹتا ہے۔ بظاہر زندگی کے دو رُخ لیکن زندگی ایک۔ دکھ ایک اور دکھوں سے ہی زندگی کا تانا بانا تیار ہوتا ہے اسی لیے ناول کو زندگی کا بزمیہ نہیں رزمیہ کہا گیا ہے لیکن مصنفہ کا خیال ہے __’’یہ دنیا خاک کا ڈھیر ہے اور اس ڈھیر پر ایک آتش فشاں جس کا نام عورت ہے۔ ‘‘

ناول نیم سے زیادہ وا ہوتا ہے لیکن ستارہ کا کردار نہیں کھلتا اس طرح کے مبہم جملے پڑھنے کو ملتے ہیں  :

’’میں جانتی ہوں کہ اپنی خاموشی کی بساط پر ستارہ مجھ سے کھیل رہی ہے مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ میں اس کی بچھائی بساط پر اُسی کو مہرہ بنا کر اپنی چالیں چل رہی ہوں __‘‘

یہ چال یہ تفتیش تجسّس کے دائرے تعمیر کرتی ہے۔ ستارہ کے چہرے پر ایک نقاب ہے نقاب تو ہر چہرے پر ہوتی ہے امیروں کے چہروں پر بطور خاص لیکن غریب اور کمزور عورت کے چہرے پر نقاب کیسی اور کیوں ایک امیر گھر کی عورت اُسے بے نقاب کرنے کے عمل میں مصروفِ عمل۔ ایک سوال۔ ایک خیال، یہ سوال و خیال ہی تسلسلِ بیان اور قصّہ کی شان بنتا چلتا ہے۔ ایک اچھا سوال یہ بھی وہ اگر معمولی عورت ہے تو ٹوٹتی کیوں نہیں ۔ کھلتی کیوں نہیں اس لیے کہ غریب طبقے کے کردار اکثر جلد ہی ٹوٹ جاتے ہیں گھل جاتے ہیں کہ کمزور جھونپڑی اور کچی رہگزر میں پلنے والے چلنے والے کرداروں کے پاس پکے راز ہوتے ہی کیا ہیں لیکن کبھی کبھی زندگی اور افرادِ زندگی سے احتجاج و انتقام مختلف شکلیں اختیار کر لیتے ہیں جن میں ایک شکل خاموشی اور پوشیدگی کی ہے۔ یہی خاموشی اور تجسّس ہی ناول کے قصے کی روح ہے لیکن دوسری طرف بستی کے دوسرے کردار ایلزبیتھ، چمپا وغیرہ خوب بولتے ہیں اور ان کے بول میں صرف طبقہ نہیں بولتا زندگی کا کھرا تجربہ بولتا ہے اور یہ تجربہ ہی ان کرداروں کو چھوٹا ہوتے ہوئے بھی بڑا بناتا چلتا ہے۔ قسطوں میں ان کرداروں کی پیش کش مرکزی کرداروں کے لئے معاونت اور معنویت کا کام کرتی ہے۔ اس تکنیک میں مصنفہ خاصی کامیاب ہیں لیکن ایک بات غور طلب  تو ہے ہی کہ تجربہ، فلسفہ سے پُر زیادہ تر جملے خواتین کرداروں کی زبان سے ہی نکلتے ہیں ۔ ۔ ۔ مرد کردار ابّی، احمد بابا خاموش، کشو راشد وغیرہ عیاش__ان کے تجربات اور معاملات بیحد مختلف ہیں __

تجربوں اور مشاہدوں کی دنیا الگ ہوسکتی ہے کہ طبقے الگ الگ ہیں لیکن فطرت ایک سی، جبلّت ایک سی۔ یہ فطری جبلّت ہے لیکن لمحاتی۔ اسی جبلّت کو اگر کمزور اور بے پڑھے مرد دائمی شکل دے دیں تو صد فی صد غلط۔ تو پھر جنسی مسئلہ، اخلاقی مسئلہ بن جاتا ہے لیکن اس لمحاتی جبلّت سے ابھرنے کے بعد اخلاق و تہذیب متاثر نہیں ہوتے تو پھر فطرت سے جنگ کیسی__عورت کی بھی اپنی ایک فطرت ہوتی ہے جو اکثر مثبت ہوتی ہے اور کبھی کبھی منفی بھی۔ یہ سچ ہے کہ فطرت میں مزاجی و طبعی تقسیم و تفریق ہے لیکن یہ نظام قدرت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اکثر مرد اس قدرتی اختلاف کو برتر اختلاف میں تبدیل کر کے توازن کھو بیٹھتے ہیں اور پھر یہ عدم توازن فطرت سے لے کر حقیقت تک پھیل جاتا ہے جس کا شکار اکثر عورتیں ہی ہوتی ہیں (کبھی کبھی مرد بھی ہوتا ہے)اس لیے شکایت ابھرتی ہے مخالفت کی اور کبھی کبھی نفرت کی بھی۔ اس لیے کہ طلم سہنا انسانی فطرت کے خلاف ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، یہ خلاف، اختلاف میں بدلتا ہے اور پھر اصطلاح میں جسے آج ہم تانیثیت کا نام دینے لگے ہیں لیکن کبھی کبھی تو تانیثیت بھی توازن کھو نے لگتی ہے کہ انسان مرد ہو یا عورت۔ تہذیب و تمدن، اخلاق و ایثار وغیرہ کے بھنور میں پھنسا رہتا ہے۔ اسی چکّر بھنور اور گہری و تہہ دار لہر کو پیش کرنا ہی ناول کی اصل فکر ہے اور فن بھی۔ دیانت داری، فنکاری اور زندگی کے مسائل سے وفاداری جس قدر پائیدار ہو فی ناول اتنا ہی سچا اور حقیقی ہو فا۔ اس کا دائرۂ  فکر بڑا ہو فا اور اس کی آواز بھی دور تک سنی جائے گی ورنہ ناول کی قرأت اور بات ہے اور ناول کی معرفت اور بات__اسی لیے لارنس نے ایک جگہ کہا ہے ناول کا قصہ جب تک فلسفہ نہیں بن جاتا بڑا قصہ یعنی بڑا ناول نہیں بن پاتا۔ یہ سچ ہے کہ یہ ناول جا بجا اپنے معنی خیز اور فکر انگیز مکالموں کی وجہ سے جا بجا فلسفہ کے نزدیک پہنچ جاتا ہے لیکن کبھی کبھی قصہ کا یک رخا پن اور مردوں کا ہوس پن وقتی چٹخارے تو دے دیتا ہے لیکن وقتی چٹخارے کے بعد جو ہلکا پن آتا ہے ناول کا اس سے بچ پانا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ناول اس وقت بھاری بھرکم بھی ہوتا ہے جب مشاہدہ، تجربات کے ذاتی احساس و شعور سے گزر کر ایک فکر قائم کرتا ہے اور ایک نتیجہ خیز رویّہ بھی۔ ان جملوں کو ملاحظہ کیجئے  :

’’بستی میں آمدو رفت سے مجھے اس طبقے کی نفسیات کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی تھی۔ یہ عورتیں دوسروں کا دکھ اسی طرح بانٹتی ہیں جیسے یہ غم دوسروں کا نہیں بلکہ ان کا اپنا ہو۔ یہ سکھ پرایا اور دکھ پر اپنا اختیار سمجھتی ہیں اس لئے ہر دکھیارا ان کا اپنا ہوتا ہے۔ ‘‘

یہ بات سگی بہن نیفو کے لئے نہیں کہی گئی جس پر نازنین کی محبت و دولت نثار ہے۔ شوہر کے لئے بھی نہیں کہی جس پر جسم و جاں قربان ہے۔ ملازماؤں اور غریبوں کے لئے بے ساختہ کہہ دی گئی کہ دکھ اور غربت کی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے لیکن یہ اسی وقت سمجھ میں آتی ہے جب سچے دل و دماغ سے قربت و معرفت حاصل ہو۔ گڈو، ملازمہ، بستی کے لوگ سبھی پر نازنین فدا__وجہ نازنین کی دولت کم ان کی اپنی غربت زیادہ اور غربت میں ایک مخصوص سادگی و معصومیت ہوتی ہے ان کے مطالبات محدود تو ان کے شاطرانہ خیالات بھی محدود ہوتے ہیں جن کا راست طور پر تعلق شکم سیری یا جسمانی تسکین سے ہوتا ہے اور یہ دونوں مطالبات عین فطری ہیں ۔ دکھ میں حسیت دھار دار ہوتی ہے دکھ تو خوشحال طبقہ میں بھی ہوتا ہے لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ہر حال دکھ کا قصہ جو متوازی طور پر چلتا ہے اکثر فلسفہ بنتا نظر آتا ہے۔ فلسفۂ حیات۔ یہیں سے نظریۂ حیات کی تشکیل ہوتی ہے اور نظریۂ ادب کی بھی۔ اور اسی نظریہ کے تحت ہی ملازم گڈو وفادار اور سمجھ دار نظر آتا ہے اور سگی و دلاری بہن کے لئے یہ جملے نکلتے ہیں __’’نیفو کم عقل۔ نا تجربہ کار اور سطحی لڑکی ثابت ہوئی__‘‘لیکن یہ نتیجہ بھی تجربات کی بھٹی سے نکل کر سطحِ کاغذ پر آتا ہے کہ سونا آگ میں جل کر ہی کندن بنتا ہے۔ اسی لیے ارمان پامک ؔ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ناول نگاری محض قصہ نگاری نہیں ہوتی بلکہ سماجی اور معاشی رشتوں کی پہچان بھی اور فکر و شعور کی داستان بھی ہوا کرتی ہے۔

بہن کا کردار۔ گھر کے مسائل۔ بستی کے مسائل سے زیادہ سنگین ہو جاتے ہیں کہ ان سے راست طور پر سابقہ ہے بستی سے ہمدردی کارِ خیر ہے یا ایک ذاتی مقصد کی تلاش و تکمیل اس لیے ناول میں ستارہ کے کردار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور کبھی کبھی غائب ہو جاتی ہے اس کے ساتھ قاری کے تجسّس کا رنگ بھی بدلتا رہتا ہے۔ لیکن بستی کے کرداروں سے ہی زندگی کا حقیقی کردار جھلکتا ہے۔ تجربہ کار ایلزبیتھ کہتی ہے __’’کوڑے کے ڈھیر پر زندگی جیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں __‘‘ اور مصنفہ کا یہ جملہ  :

’’زندگی کے بہت سے میدان ہیں جنھیں ہماری روحیں طے کرتی ہیں لیکن ہم انھیں مادی پیمانوں سے ناپ نہیں سکتے۔ جن کی ایجاد انسانی فکر و نظر کی مرہونِ منت ہے۔ ‘‘

ایک نئی ذہنی کشمکش۔ نئے آزارجس سے مرکزی کردار دوچار اور اب تلاشِ روزگار۔ خود کفالت کا انتشار۔ خواب اور حقیقت میں تکرار ناول کی کچھ عجیب رفتار کہ کائنات ذات میں سمٹنے لگتی ہے اور اس سمٹنے کے عمل میں نالائق شوہر کا ہلکا سا ڈرامائی دُلار مضبوط کردار کو گھر کی داسی بنے رہنے پر مجبور کرتی ہے جو مضبوط سے مضبوط عورت کو بھی یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے  :

’’مجھے اپنے گھر کی داسی بنی رہنے دو۔ طلاق دے کر مجھے بے گھر مت کرو۔ میری زندگی کو چوراہے پر لا کر مت کھڑا کرو۔ ‘‘

ان جملوں کے ذریعے تانیسیت اور نسائیت کے تعلق سے بے شمارسوالات کھڑے کئے جا سکتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان سب سے بالا تر زندگی کے تصادمات ہی احساس و شعور میں سوالات و تضادات پیدا کرتے ہیں ۔ ناول زندگی کے اسی پیچ و خم۔ سردوگرم کو حقیقی و معروضی انداز میں پیش کرتا ہے اسی لیے ناول طربیہ کم المیہ زیادہ ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی کی شاہراہ سے ہو کر گذرتا ہے۔ مشل زرافہؔ نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ ادب کی وہ صنف جو سماج اور معاشرہ کے درمیان سے ہو کر گزرتی ہے بلکہ گزرنا اس کی مجبوری ہے وہ ناول ہے__پریم چند نے بدلے ہوئے انداز میں یہ کہا__’’ناول کو اپنا مواد الماری میں رکھی کتابوں سے نہیں بلکہ انسانوں سے لینا چاہئے جو چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں __‘‘اس ناول کی یہ خوبی تو ہے کہ وہ ایک نہیں زندگی کے کئی رخوں ، کئی تہوں اور کئی طبقوں کو متوازی طور پر پیش کرتا ہے اور راست طور پر اپنا مواد سماج، معاشرہ، بستی، گھر سے لیتا ہے اور ایک کردار کے کیف و کم اور کشاکش کے ذریعہ اسے ایک وحدت میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ زندگی بذات خود اتنی کثیر الجہت اور متنوع ہے اور اس میں اتنی کثرت ہے کہ کثرت کا وحدت میں بننا بنانا آسان نہیں اور یہ ناول کا کام بھی نہیں وہ تو وحدت و کثرت کا مفکرانہ و فنکارانہ اظہار ہوا کرتا ہے۔ اس رو سے یہ ناول چھوٹے چھوٹے معاملات سے قطع نظر کامیابی سے آگے بڑھتا ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ مشکل وقت میں خراب شوہر اچھا لگنے لگتا ہے اور اچھے وقت میں اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں و حرکتیں بھی ناگوار معلوم ہوتی ہیں خاص طور پر تانیثیت سے پُر غلافی عورتوں میں کہ زندگی کی متضاد حقیقت راست نوعیت کی تانیثیت سے بلند ہوتی ہے اور اکثر آڑی ترچھی بھی ہوتی ہے جسے سمجھ پانا آسان نہیں لیکن سمجھنے کی کوشش تو بہرحال کرتے رہنا چاہئے۔

اچھے وقت میں واجب طور پر کاشف سے بیزار عورت برے وقت میں مسز کاشف بن جاتی ہے اور اس کی ہی پہچانوں سے اپنا سنگارکر رہی ہے اور یہ جملہ بھی __’’نازنین بانو جو کچھ دیر پہلے تک برقرار تھی اب گہری نیند سو چکی ہے۔ مسز کاشف جاگ اٹھی تھی__’’یہ بیداری مجبوری تھی یا زندگی کے اُمڈے سیلاب میں تنکے کا سہارا کہ امیر سے امیر عورت بھی بے سہارا ہوتی ہے۔ مرد کرداروں کے درمیان گھری رہتی ہے اور اکثر ان کے رحم و کرم پر ہی جیتی ہے۔ مضبوط کردار کمزور ہو جاتا ہے اور شکست خوردہ بھی لیکن یہ کردار کی شکست نہیں بلکہ زندگی کی حقیقت ہے۔ جسے مصنفہ نے دیانت داری سے پیش کیا ہے اور ناول اس وقت پوری صداقت کے ساتھ ایک نیا موڑ لیتا ہے جب کردار کی صداقت ڈرامائیت میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ جھوٹی وفاداری اور بیقراری زندگی کے ایک بڑے سچ کو پیش کرتی ہے جسے کچھ لوگ کردار یا ناول کا غیر منطقی تضاد کہہ سکتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ زندگی کا تضاد ہے جسے ناول نگار گہرائی سے سمجھتا ہے اور ڈوب کر لکھتا ہے۔ بس مشکل یہ ہے کہ اس ناول میں زندگی کے سارے رویّے، نظریے عورتوں کی مظلومیت کے راستے سے ہو کر گزرتے ہیں ۔ حالانکہ اب یہ مظلومیت شاطر عورتوں میں تبدیل ہو رہی تھی اور اب یہ فیصلہ۔ دیکھئے یہ جملہ  :

’’ اب میں سوانگ کی ایک ماہر کھلاڑی بنوں گی اور میں نے آج اپنا پہلا ڈراما کھیلا تھا__‘‘ لیکن ساتھ ہی یہ جملہ __’’کیا مردوں کی دنیا اتنی بری ہوتی ہے کہ عورت کو مرد ہی سوانگ بھرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ‘‘  یہ سچ ہے لیکن شاید پورا سچ نہیں کہ عورت بھی انسان ہے اور انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے۔ یہ جملہ بھی حقیقت اور صداقت سے پر ہے__’’سب کو اپنی اپنی صلیب خود اٹھانی پڑتی ہے۔ گناہ سبھی سے مرتکب ہوتا ہے۔ مرد سے اور عورت سے بھی مرد کچھ زیادہ۔ ‘‘

نازنین تابوت میں سو گئی۔ مسز کاشف گھر میں جاگ گئی۔ کردار کا مزاج بدلا تو ناول کا ماحول بھی بدلا۔ بستی کے لوگوں سے رشتہ تو نہیں ٹوٹا لیکن بدلا ضرور۔ اسی لیے زاویۂ نظر بدل گیا۔ عجب بات ہے کہ ادھر بستی میں ستارہ بھی بدل چکی تھی۔ ساری، کاجل، جوڑا، مسکاراوغیرہ سبھی داخل ہو چکے تھے۔ متوازی طور پریہ تبدیلی دلچسپ او ر غور طلب ہے۔ بچہ کے مر جانے کے بعد ستارہ بھی بدل چکی ہے اور ایک نئی عورت جنم لے چکی ہے۔ زندگی کا ایک نیا باب کھلتا نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس جملہ کے ذریعہ__ ’’جب آدھی دنیا اس کی لٹ گئی تو پوری عورت بن کر جینے کی آرزو کر بیٹھی اس کے سامنے ایسی کیا مجبوری تھی__‘‘مجبوری کا سوال یا مجبوری کی تلاش قصہ کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری تو ہے لیکن ایک ایسا کردار جو خود بہت کچھ مجبوری سے کررہا ہو۔ بدل رہا ہو کچھ عجیب سا لگتا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ انسان اپنی مجبوری اور دوسروں کی مجبوری کا لاشعوری طور پر موازنہ کرتا ہے اور یہ بھی کہ امیر ہو یا غریب ہر انسان کہیں نہ کہیں ریت رواج، حالات کے آگے کسی نہ کسی شکل میں مجبور ہے۔ فلسفی روسو نے غلط نہیں کہا تھا کہ یوں تو ہر شخص پیدائشی طور پر آزاد پیدا ہوا ہے لیکن حالات، رسم و رواج اسے غلامی کی بیڑیاں پہنا دیتے ہیں ۔ یہی بیڑیاں اسے آزادی اور احتجاج کی طرف لے جاتی ہیں ۔ دونوں عورتوں کا بدلاؤ ایک خاموش احتجاج کا اشاریہ ہے انداز الگ الگ ہیں ۔

اپنے مجبوری بھرے احساس یا تلاش حقیقت کے لیے نازنین ستارہ کی مجبوری کی تلاش میں لگ جاتی ہے جس سے اس کی اپنی مجبوری کے ڈانڈے ملتے ہیں ۔ ناول ایک بار پھر بستی کا رُخ کرتا ہے۔ وہ بستی جہاں زندگی کی صداقتیں ۔ حقیقتیں گھر سے زیادہ سفاک اور بے نقاب ہوا کرتی ہیں ۔ لیکن ایک جگہ مصنفہ یہ لکھتی ہیں ___’’غربت کی ماری ان بستیوں کی ایک ہی خوبی تھی جس نے مجھے کچھ حد تک متاثر کیا تھا۔ بغیر کسی کمٹ منٹ کے یہ سارے لوگ ایک دوسرے کے عیبوں کی پردہ داری میں مہارت رکھتے تھے۔ ‘‘ یہ شرافت نہیں غربت اپنائیت اور زندگی کی مہارت اور وسعت جو کمزور جھونپڑی اور پھٹے کپڑے سے لے کر بکھرے خیالات تک پھیل جاتی ہے۔ گورکیؔ نے ماں جیسے ناول کو لکھتے ہوئے ایک جگہ لکھا تھا کہ غریب مزدور کا کھلا پن آسمان کا کھلا پن ہوتا ہے جہاں دھوپ ہوتی ہے اور بارش بھی۔

نرسنگ ہوم کی تعمیر۔ ستارہ کی تفتیش، کشو کی تفریح اور اپنی ذات کی تکمیل ایک ساتھ چلتی ہے۔ زندگی کئی حصوں میں بٹی ہوئی۔ افراد اور احساسات کا ڈھیر بظاہر بدلی ہوئی شکل میں لیکن ستارہ ہنوز اعصاب پر سوار جبکہ ستارہ بذات خود غیر واضح۔ مبہم اور پوشیدہ و پیچیدہ۔ بس دور کا جلوہ اور اب تو بقول مصنفہ۔ ’’میں تو اپنے آپ پر حیران ہوں کہ اتنے دنوں میں مجھے ستارہ کی آواز تک سننے کو نہیں ملی۔ ‘‘

یہ کردار کی بوالعجبی ہے اور تکنیک کی نیرنگی کہ ستارہ جو اس ناول کا اہم کردار ہے تجسّس، تفتیش اور بیچارگی سے بھرا ہوا لیکن اس کے کردار میں گفتار نہ کے برابر ہے۔ ناول کے بڑے حصہ تک بغیر مکالمہ، نقل و حرکت کے وہ پورے ناول میں ایک عجیب تصویر و تقدیر کے ساتھ قاری کے ذہن سے چپکا رہتا ہے۔ یہ اس کردار کا جمال ہے اور مصنفہ کا کمال بھی وہ جو کچھ ہے بس پیش کش میں ہے۔ منظر میں ہے۔ ناول آگے بڑھتا جاتا ہے راز کھلتے جاتے ہیں لیکن’’ میں ‘‘کا تذبذب و کشمکش ہنوز برقرار ہے لیکن ساتھ ہی ہمت واستقامت بھی حالانکہ وہ کشو اور زندگی سے سمجھوتہ کر چکی ہے لیکن یہ سمجھوتہ بھی اس پر بوجھ بن جاتا ہے اور ناول اسی کشمکش میں آگے بڑھتا ہے اور لکھنؤ سے رام پور پہنچتا ہے۔ رام پور جہاں صدر دروازہ ہے چوڑا برآمدہ ہے، چوڑے تخت ہیں ، سجے ہوئے گملے ہیں ۔ ہر شے وسیع و عریض لیکن بد نصیب عورت کے لئے ہر جگہ تنگ۔ قدیم جگہ پہنچ کر ناول تھوڑی دیر کے لیے ماضی میں چلا جاتا ہے۔ واپس آتے ہی کلائمکس کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔ ستارہ ایک کار میں ایک مرد کے ساتھ جسم کے کھیل میں جو زندگی کا کھیل بن چکا ہے مصروفِ کار تھی۔ یہ تو تھی ستارہ اور اس کا اصل روپ لیکن وہ مرد کون؟ یہ تجسّس ہنوز برقرار۔ ا س تجسّس کے سہارے ناول اختتام کی طرف بڑھتا ہے۔ اس کے لیے نازنین کو بھی روپ بدلنے پڑتے ہیں تھوڑی دیر کے لیے ناول میں ڈرامائی کیفیت طاری ہو تی ہے جو فطری ہے کہ مرکزی کردار اصل زندگی میں دولت و محبت کا ڈرامہ ہی کر رہے تھے۔ خدمت کا، نرسنگ ہوم کا، سیاست اور طاقت کا لیکن جتنا وہ مرد کے بارے میں سوچتی ہے اس سے زیادہ ستارہ کے بارے میں سوچتی ہے اس لیے کہ __’’ستارہ میرے لیے صرف بستی کی عورت نہیں تھی اس کا میرے ساتھ ایک رشتہ تھا جو اس سے مجھے نہ دور جانے دیتا نہ قریب آنے دیتا__‘‘یہ رشتہ کون سا ہے؟ یہی سوال ہے اور یہی ناول کا کلائمکس جو بڑے سلیقہ سے ایک جاسوسی ناول کی طرح صیغۂ راز میں آخر تک چلتا تو ہے لیکن یہ بھی ہے کہ مصنفہ نے اسے محض جاسوسی عمل تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے فکر و فن کے ذریعہ راز ہائے زندگی سے جوڑ دیا۔ زندگی کے پیچ و خم اور مردوں کے سردوگرم میں ڈھال دیا ہے وہ صرف ایک گھر یا دو فرد کی کہانی بنکر نہیں رہ جاتا بلکہ زندگی کی پیچیدہ حقیقت اور مردانہ سماج آلودہ صورت اور دولت و طاقت کی آمرانی کیفیت بن کر سامنے آتا ہے۔ یہی عمل ناول کے کینویس کو بڑا کرتا ہے۔ مقصد اور معنویت کو بھی__زندگی اور انسان سے متعلق یہ نظریہ بھی  :

’’انسان تو دکھ درد کا ایک پھپھولا ہے جب تک مواد اندر رہے زندگی پستی رہتی ہے۔ پھپھولا پھٹ گیا توسمجھو سب کچھ ختم۔ ایسی دنیا سے کیا محبت کرنا اور کیا خود کو سنبھالنا۔ ایک محور پر آ کر سب کچھ صفر ہے۔ ستارہ نے بھی شاید خود کو صفر پر لا کر کھڑا کر دیا تھا__‘‘

زندگی خواہ کتنی صفر ہو جائے لیکن اس کا سفر رکتا نہیں ۔ ناکامی اور غلامی کے باوجود آزادی کا جشن۔ پندرہ اگست، نرسنگ ہوم کا افتتاح، وزیر اعلیٰ کی آمد، ایم۔ پی۔ کا ٹکٹ ایک سیاسی ڈراما جس نے بستی کی زندگی کو قدرے دور کر دیا لیکن ستارہ کا کردار اس کے اعصاب پر سوار تھا پوری کشمکش اور کشاکش کے ساتھ ایسے میں چمپا کاکی اور احمد بابا کے کردار تقویت پہنچاتے ہیں ۔ دونوں کے بارے میں الگ الگ جملہ ملاحظہ کیجئے جس سے نہ صرف کردار کی گہرائی بلکہ زندگی کی بوالعجبی نظر آتی ہے  :

’’چمپا کاکی گزرے وقت کا آنسو تھیں ___‘‘

’’واقعی وہ(احمد بابا ) کیچڑ میں کھلے کنول کی طرح ہیں جن میں اپنے چاروں طرف پھیلی زندگی کی کوئی طلب نہیں ___‘‘

اور کل ملا کر بستی کا یہ سچ  :  ’’پھر بھی یہ لوگ رحم طلب ہیں ، معاشرے کے ناسور ہوتے ہوئے بھی معاشرے کا سچ ہیں جنھیں قبول کرنا ہی پڑے گا۔ ‘‘

ان معنی خیز جملوں کی وجہ سے ناول جاسوسی کیفیت سے بلند ہو کر سماجی حقیقت کو چھونے لگتا ہے اور یہیں سے ناول صرف قصہ نہیں رہ جاتا بلکہ زندگی کا فلسفہ بن جاتا ہے اور قصہ کے معمولی پن میں فلسفہ کو پیدا کرنا زندگی کی اصل صورت و حقیقت کو تلاش کرنا ہی ناول کا فکرو فن ہے جہاں صرف ستارہ کی تلاش نہیں ہے بلکہ زندگی کے اس نظارہ کی تلاش ہے جس میں ہم روز جیتے مرتے ہیں اور باخبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر رہتے ہیں ۔ جیسے نازنین سنجیدہ و حسّاس، فکر مند اور باخبر لیکن ستارہ اور کشو کے صل کردار سے بے خبر__یہی زندگی کا راز ہے اور تضاد بھی اور یہی کراس (Cross)اور یہی ناول کا اصل فن جہاں بڑا ناول حقیقت کو فسانہ اور فسانہ کو حقیقت بنا دیتا ہے لیکن ان دونوں کا رشتہ براہ راست زندگی سے ہی ہوتا ہے۔ ہنری جیمس نے ناول کی بڑائی اور اچھائی کا معیار یہ بھی قرار دیا ہے کہ زندگی کا اثر جتنا گہرا ہو فا ناول اسی قدر بڑا ہو فا۔

اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ ایک لمحہ زندگی اور اس کے متحرک کرداروں سے الگ نہیں ہوتا۔ ان کرداروں کی تمام نقل و حرکت سے زندگی کی صحیح یا غلط تصویر، تعبیر اور تفسیر جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ ان معنوں میں تو یہ ناول کرداروں کے افعال و انتشار سے بھر ا پرا ناول ہے اس کی گہما گہمی اور محرومی میں اس کی کامیابی ہے۔ اس محرومی سے ایک دلچسپ تضاد یہ بھی ابھرتا ہے کہ محرومی و مایوسی کمزور طبقہ تک محدود نہیں ۔ غم ہر جگہ موجود ہے اور حقیقی غم سارے بھید بھاؤ کو بھلا دیتا ہے اس لیے نازنین کو بستی کا چال چلن عزیز ہو یا نہ ہو لیکن غم عزیز ہے اس لیے  :

’’غم انسا ن سے انسان کا فرق مٹا دیتا ہے۔ دکھ درد زندگی کا ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں نہ کوئی چھوٹا ہے نہ بڑا۔ نہ اونچا ہے نہ نیچا ہے نہ امیر ہے نہ غریب ہے۔ ‘‘

دیکھئے کتنی وسعت اور درد مندی سے ایک ذات کا درد کائنات میں پھیل جاتا ہے لیکن اس کو وہی پھیلا سکتا ہے جس کا ذہن اور وژن بڑا ہو صرف درد کا ہونا کافی نہیں __زندگی اور انسان کی سمجھ کے لیے درد مندانہ کیفیت ضروری ہوا کرتی ہے تبھی چمپا، احمد، پھانکی وغیرہ کے درد سمجھ میں آتے ہیں اور درد کا رشتہ بن جاتا ہے ورنہ دور سے تو یہ کمزور اور غلیظ کردار ہیں ۔

ناول کا خاتمہ ایسی ہی زندگی کی بوالعجبی، بے رحمی کو پیش کرتا ہے اور عجیب نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ کشو، ستارہ اور نازنین کی ایک اذیت ناک تثلیث ابھرتی ہے جو صلیب بن جاتی ہے۔ زندگی کی سولی پر دو عورتیں قربان ہو جاتی ہیں اور نجانے کتنی عورتیں ___لیکن یہ معمّہ قاری کے لیے ضروری تھا۔ ناول کے لیے بھی کہ ناول کی اپنی ایک پیش کش ہوتی ہے فنکارانہ پیش کش کہ ناول پہلے فن ہے بعد میں فکر و فلسفہ __غالباً فن کے یہی تقاضے تجسّس قائم رکھتے ہیں لیکن یہ تجسّس ستارہ اور نازنین کے درمیان نہیں ___روزِ اوّل سے ہی دونوں عورتیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی قربان ہو رہی تھیں اسی لیے نازنین کو ستارہ کی تلاش تھی اور اسی لیے ستارہ کا کردار اب تک خاموش تھا لیکن صحیح وقت پر بولتا ہے اور پھر ستارہ کے تیور بھرے مکالمے ختم ہوتے ہوئے ناول کی جان بن جاتے ہیں ۔ آپ بھی ملاحظہ کیجئے  :

’’میڈم آپ جیسے بڑے گھر کی عزّت دار عورتیں ہم بے عزّت عورتوں کے درد کوسمجھیں گی۔ آپ کے گھر وں کے مرد ہی ہمارے بدن میں بے حیائیاں اتارتے ہیں __‘‘

اور ایک تلخ سچ یہ بھی  :

’’میری دوشیزگی کی چادر پہلی بار آپ کے شوہر کے خنجر سے تار تار ہوئی۔ اس وقت میں پندرہ سال کی بچی تھی اور کاشف کے ہونٹوں کے اوپر ہلکی مونچھوں کا اثر دکھنے لگا تھا مجھے بے حیائی کے گڑ میں دھکیلنے والا پہلا ہاتھ آپ کے شوہر کا تھا۔ ‘‘

کشو کے سچ سے ناول شروع ہوتا ہے اور دونوں عورتوں کے سچ پر ختم کہ صداقت اور حقیقت ہی زندگی ہے خواہ وہ کس قدر تلخ ہو اور یہ تلخی انسان کو پختہ بناتی ہے اور ستارہ جیسے کردار کو بے باک بھی جس کی بے باکی میں احتجاج بھی ہے اسی لیے مصنفہ بار بار کہتی ہیں __’’عورت ہونا اپنے آپ میں بڑی طاقت ہے ‘‘یا ’’عورت ہونا اپنے آپ میں ہتھیار ہے۔ ‘‘ یہ بات تو مردوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے اور اگر عورت بہت بڑی طاقت ہے تو پھر وہ مجبور و مظلوم کیوں ۔ یہاں پر مرد کا کردار داخل ہوتا ہے۔ غرض کہ ناول کے آخری حصہ میں عورت، مرد، عزت، شہرت، دولت، سیاست، سب گڈ مڈ ہو جاتے ہیں __ایسے میں شفیق باپ کی یاد۔ میکے یا ماضی کی یاد۔ اذان کی آواز بیحد معنی خیز ہے۔ مومنہ مرکز کا قیام اور خاتمہ پر یہ بھی ایک اہم سوال  :

’’جو اپنی زندگی سنوار نہیں پائی وہ دوسری عورت کو کیا سنوارے گی۔ ‘‘

اور یہ جواب۔ ’’اگر مرد کے ساتھ زندگی گزارنا ہی ایک عورت کے جینے کا مقصد ہے تو یقیناً میں اس مقصد میں ناکام رہی__‘‘

اور عورت کے بارے میں وہی پرانے خیالات، جذبات اور سوالات لیکن ان میں ایک یہ بھی جواب  :

’’آدھا چاند تبھی مکمل ہو فا جب مرد عورت کے شانے سے شانہ ملا کر گھر اور باہر کی زندگی میں گامزن ہو فا۔ ‘‘

زندگی کی رفتار اور ا س میں انسان کا کردار، ماضی، حال، مستقبل، کے چکر ویو میں پھنسا یہ ناول آخر میں زندگی کا پیغام دیتا ہے ایک نشاطیہ پیغام لیکن حقیقت یہ ہے کہ طرب الم سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

مصنفہ کی خوبی یہی ہے کہ انھوں نے الم اور طرب دونوں کو سلیقہ سے پیش کیا ہے اور نہایت باریکی سے دونوں میں ربط بھی تلاش کیا ہے اور یہ بھی کہ دونوں کی ضرورتیں یا ایک کی ضرورت دوسرے کی جبلّت۔ دوسرے کی عیاشی پہلے کی مجبوری بن جاتی ہے۔ اس کراس کا المیہ یہی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پوری خود غرضی اور بے حیائی سے فیڈ(Feed)کرتے ہیں اور خوشی خوشی ایک دوسرے کا استحصال کرتے ہیں غلط یا صحیح انداز میں ۔ ناول میں یہ کراس ابھرتا ہے اور یہ ناول کا ایک مضبوط پہلو ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی ہے کہ کراس در کراس کے اس پیچیدہ عمل میں مرد کردار کی برتری اور طاقتی کا عمل زیادہ دکھایا گیا ہے بڑی حد تک یہ سچ بھی ہے لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ مصنفہ ایک خاتون ہیں ان کے پاس اپنے مشاہدات و تجربات ہیں اور اب نظریات بھی۔ ان کو اپنے رویّہ و نظریہ کو پیش کرنے کا حق ملنا چاہئے اور مبصر مرد ہے اسے بھی اختلاف کرنے کا بھی حق ملنا چاہئے۔ ۔ لیکن یہاں معاملہ مصنف اور قاری کا ہوتا ہے مرد اور عورت کا۔ لیکن پھر بھی نفسیات کو ایک دم سے الگ کر پانا بھی مشکل ہے۔

ایک عمدہ ناول اپنے موضوع کی سنجیدگی، پیچیدگی سے اختلاف کو جنم دے یہ اس کی کامیابی ہے کمزوری نہیں ۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ اس اختلاف و اتفاق، عمل اور رد عمل کو ناول کے کینویس کس خوبی سے اپنے اندر جذب و پیوست کرتا ہے اس عمل میں مصنفہ بڑی حد تک کامیاب ہیں ۔ ان ٹکراہٹوں سے زندگی کا جو منظرنامہ ابھرتا ہے وہ کس قدر حقیقی اور متاثر کن ہے اور ناول کے مکالمے کس حد تک دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں مصنفہ اس سطح پر بھی خاصی کامیاب ہیں ۔ ان کے چند مکالمے پیش کرتا ہوں ۔ پہلے مرد اور عورت سے متعلق  :

’’سچ مچ مرد کے بغیر عورت برتن میں کھنکتے کھوٹے سکّے کی طرح ہوتی ہے۔ ‘‘

’’مرد کا عشق مرد کے لیے زندگی میں الگ چیز ہوتی ہے جب کہ عورت کے لئے یہ پوری زندگی کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ‘‘

’’ مرد عورت کو پھول کی طرح توڑتا ہے اور گھاس کی طرح روند ڈالتا ہے۔ ‘‘

ان مسائل پر رشید جہاں ، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر نے بھی لکھا اور خوب لکھا ہے لیکن شائستہ کا تناظر نیا نیا سا لگتا ہے اور کہیں کہیں پیش کش بھی نئی ہے__اچھی بات یہ ہے کہ کہیں کہیں وہ ان کو زندگی سے جوڑ کر دیکھتی ہیں اس لیے سیاق بڑا ہو جاتا ہے۔ لیکن جہاں علیحدگی میں دیکھتی ہیں مکالمے کمزور اور روایتی سے لگنے لگتے ہیں ۔ اب میں زندگی سے متعلق چند مثالیں پیش کر تا ہوں :

’’پیسے والوں کے لیے جہاں ان کا موڈ قیمت رکھتا ہے غریبوں کے لئے ان کا پیٹ۔ ‘‘

’’غربت زبان کی قوت چھین لیتی ہے۔ ‘‘

’’زندگی جینے کے لئے حوصلہ چاہئے اور کنگالی حوصلہ کو توڑ دیتی ہے۔ ‘‘

’’غریب جب خواب دیکھتے ہیں تو ان کی پرواز اتنی اونچی ہوتی ہے کہ سورج کی گرمی سے پنکھ جل اُٹھتے ہیں ۔ ‘‘

’’کسی کے پاپ سے نفرت کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ کبھی سمے تم سے بھی پاپ کروا سکتا ہے تو کیا تم اپنی دیہہ سے وہ پاپ نوچ کر پھینک سکتی ہو۔ ‘‘

مکالمے اور بھی ہیں جن میں زندگی کے رگڑے جھگڑے، پینترے، تجربے بھرے پڑے ہیں جو ناول کی خصوصیت میں اضافہ کرتے ہیں __لیکن یہ مقام وہیں پر آتے ہیں جہاں مرد اور عورت کا فرق ختم ہو کر انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں عورت بولتی ہے چمپا، ایلزبیتھ جیسی بزرگ اور تجربہ کار عورتوں کی شکل میں وہاں زندگی بولتی ہے جہاں نازنین بولتی ہے وہاں اکثر عورت ہی بولتی ہے اس طرح جہاں کشو، اسلم بولتے ہیں وہاں مرد بولتے ہیں جہاں احمد بابا بولتے ہیں وہاں زندگی کا تجربہ بولتا ہے۔ اسی لئے جہاں کہیں مصنفہ کے قلم سے زندگی کا تجربہ بولتا ہے فلسفہ بولتا ہے ناول بلند ہو جاتا ہے اس کی معنویت و مقصدیت بلند ہو جاتی ہے کہیں کہیں یہ کیفیت نہیں بھی ہوتی اور یہ کیفیت بڑے بڑے ناولوں میں ہوتی ہے__اس لیے مسئلہ اور فیصلہ تو بحیثیت مجموعی ہوتا ہے اور بحیثیت مجموعی یہ ناول کئی افراد، کئی طبقات کی زندگی۔ زندگی کا تجربہ پیش کرنے میں کامیاب ہے اور جہاں کہیں تجربہ، فلسفہ بن جاتا ہے ناول اپنی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ ناول لکھنا آسان نہیں ۔ نثری تخلیق کی سب سے مشکل صنف ہے۔ آگ کا دریا سے پار ہونا پڑتا ہے اور شائستہ فاخری پوری جسارت، حقیقت اور تخلیقیت کے ساتھ اس عمل سے گزری ہیں اور انھوں نے اردو کے نئے ناولوں میں ایک عمدہ، معنی خیز، فکر انگیز  ناول کا اضافہ کیا ہے جس پر انھیں جتنی بھی مبارک باد دی جائے کم ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے