ساکت کنارے از تالیف حیدر ۔۔۔ شہرام سرمدی

ترقیات کے روز افزوں سفر پر گامزن اس دنیا میں، آج بھی اول اول کے نقوش کو نہ صرف یہ کہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ مذکورہ نقوش سے لگاؤ بھی ہنوز برقرار ہے۔ جیسے ایک صناع کی کاریگری اور اس کی صنائع دستی کے اچھوتے نمونے۔ ہرچند کہ صناع کے ان دستی نمونوں میں وہ ظاہری صفائی ستھرائی نظر نہیں آتی جو تولیدی اشیاء کا خاصہ ہوا کرتی ہے لیکن ان کا تخلیقی کھُردرا پن اس دستی شے کا امتیاز بھی ہے اور اس کے صناع کو ممتاز بھی بناتا ہے۔

سلمیٰ کے خرامِ رائگاں میں کہکشاں دیکھنا محض اختر شیرانی کا حسنِ نظر نہیں۔ فنونِ لطیفہ کے چمن میں نوواردوں کا معاملہ بھی کچھ اسی قبیل کا ہے۔ ان نوواردوں میں بعض ‘ہونہار بِروَا کے چِکنے چِکنے پات’ کی مانند ہوا کرتے ہیں۔ تالیف حیدر کی ادبی سرگرمیاں مذکورہ بیان کو بخوبی نمایاں کرتی ہیں۔

‘مشتے نمونہ از خروارے ‘ کو خرمن کی نرخ و قیمت متعین کرنے کے لیے کافی مانا جاتا ہے۔ میں یہاں مشت سے ذرا زیادہ حاضر کرتا ہوں اور تعین کی ذمہ داری قارئینِ کرام کو سونپتا ہوں:

موت اک واقعہ ہے جس کو ہم

جیتے رہتے ہیں زندگی کے طفیل

خدا وجود میں ہے آدمی کے ہونے سے

اور آدمی کا تسلسل خدا سے قائم ہے

اتنا بھی محبت کو نہ سوچے مری ہستی

یہ معجزۂ فکر کہیں دل نہ بنادے

یہ جو آنکھیں ہیں انہیں ترکِ وفا کہتے ہیں

ان میں الجھن ہے نہ پانی ہے نہ افسانہ ہے

درج بالا اشعار تالیف حیدر کے حال ہی میں شائع شدہ اولین شعری مجموعے ‘ساکت کنارے ‘ سے ماخوذ ہیں۔ اہلِ نظر دیکھ سکتے ہیں کہ عمر کے اس مرحلے میں ایسے شعر کہنے والے سے توقع وابستہ کرنا غلط رویہ نہ ہو گا۔ ان اشعار میں شعر تولیدی کا رجحان غالب نہیں ہے بلکہ کہنے والے نے ایک بات کہی ہے جس کو وہ اپنے ڈھنگ سے کہنا چاہتا ہے اور بڑی حد تک وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی نظر آتا ہے۔

تالیف کی شاعری میں اطراف و جوانب کی خبر اور مطالعے کا اثر دو نمایاں عناصر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے یہاں ‘خبر’، ‘اضطراب’ اور ‘مطالعہ’، ‘انہماک’ کے پیکر میں ڈھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ‘ساکت کنارے ‘ سے قبل تالیف کا تنقیدی کام کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ تالیف کی شاعری میں ایسے نقوش بھی ملتے ہیں جن کے توسط سے اپنے ادبی شعری سرمائے سے ان کی واقفیت اور اثر پذیری کے سراغ ملتے ہیں۔ البتہ ذکر کردہ واقفیت اور اثر کو وہ اپنے طور پر برتنے کی کوشش میں منہمک رہتے ہیں۔ بعض اوقات اسے قندِ مکرر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے:

اللہ رے یہ وحشتِ عشاق کا عالم

محفوظ کبھی جیب و گریباں نہیں ہوتے

لیکن اسی دوران، ان کی شخصی رشد و نمو کے خوش آئند آثار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اور بات مذکورہ بالا ‘قندِ مکر ر’ سے آگے بڑھتی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں صنائع دستی والی مہک بھی ملتی ہے:

تو ہے بھی نہیں اور نکلتا بھی نہیں ہے

ہم خود کو رگِ جاں کے سوا دیکھ رہے ہیں

تالیف حیدر کے یہاں نظم اور غزل دونوں کو یکساں طور پر اظہار کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ ان نظموں سے شعر گوئی پر ان کی دسترس بھی توجہ مبذول کرتی ہے۔ نظموں میں ان کے یہاں فکر کا کینوس نسبتا کشادہ بھی ہے اور متحرک بھی۔ اس عمل میں ان کی نظر منظر کو اپنے طور پر دیکھنے کی سعی کرتی ہے۔ ان کی فکری جد و جہد پڑھنے اور سننے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے:

ترجمانی کرنے میں جتنے لوگ ماہر ہیں

شہر میں ہی رہتے ہیں

اور شہر بہرا ہے

اور شہر اندھا ہے

وہ مری سبھی باتیں

کچھ کی کچھ سمجھتا ہے

نظم کے درج بالا اقتباس میں تالیف کے یہاں ذہنی اضطراب کو جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ قابلِ توجہ ہے۔ یا مثلاً:

چلا جا رہا ہوں

نئی سمت میں زندگی کی

جہاں کوئی مردِ بصیرت

مرے وہم کو میری آنکھوں سے نوچے گا

اور مجھکو اک نورِ نو کی کرن بخش دے گا

کہ میں اپنی بستی کے لوگوں میں تھوڑی سی آنکھیں بنانے کی خواہش میں گھر سے چلا ہوں

مذکورہ نظم میں موضوع سے متعلق مناسب زبان و لفظیات کی اہمیت سوچنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سلیقے نے نظم کی فضا کو قائم کرنے میں بھی کلیدی کردار نباہا ہے۔ علاوہ ازیں تالیف کے یہاں بڑے مضامین و موضوعات پر کمندیں ڈالنے کی حوصلہ مندی بھی ملتی ہے۔

وہ اک حادثہ جو زمانے کو ترتیب دے گا

خلاؤں میں رختِ سفر ہے

بعض نظموں میں تالیف حیدر کی سطحِ ذہنی اور فکری بالیدگی دیکھ کر تعجب آمیز خوشی ہوتی ہے۔ اس میں ان کے مزاج کا فلسفیانہ رویہ بھی بخوبی نظر آتا ہے۔ یہ بات اس وقت مزید اہم ہو جاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ تالیف حیدر ابھی ‘تحفۃ الصغر’ والے مرحلے میں ہیں:

مکمل خوشی زندگی کے لیے

ماورائی سی شے ہے

جسے ہم نے خوابوں میں دیکھا

خیالوں میں پایا

حقیقت خوشی سے کہیں دور ہے۔

جیسا کہ عرض کیا کہ تالیف اپنے شعری سفر کے ‘تحفۃ الصغر’ والے مرحلے میں ہیں۔ لہٰذا اس نکتے کے پیش نظر ‘ساکت کنارے ‘ میں در آئیں ان قابلِ اعتراض باتوں کا اس تحریر میں ذکر نہیں کیا گیا جن کی گرفت کے لیے مرحلۂ ‘وسط الحیات’ ہنوز دور است۔

‘ساکت کنارے ‘ میں شامل نظمیں اور غزلیں اردو شاعری کے کارخانے میں رائج تولیدی رویے کی نہج پر نہیں تیار نہیں کی گئیں۔ اس مجموعے کی قرات سے معلوم ہوتا ہے کہ تالیف اپنی لسانی ثروت سے آگاہ ہیں اور کلاسیکی شعری لحن کا بھی انہیں آبھاس ہے جس کی پاسداری اور اسے سنجونے کا حوصلہ بخش رویہ ان کے شعری سفر کا قابلِ توجہ پیش خیمہ ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے