رفیق سندیلوی کی غزل*
ڈاکٹر وزیر آغا
آج سے کچھ عرصہ پہلے رفیق سندیلوی کے مجموعۂ کلام’’ ایک رات کا ذکر‘‘ پر مَیں نے ایک مفصّل مضمون **لکھا تھا اور اِس کے آخر میں اپنے تاثر کو اِن الفاظ میں سمیٹا تھا:
’’ رفیق سندیلوی کی غزل کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اِس شاعر نے اپنے خدوخال سے بھی خود کو مُنسلک رکھا ہے، خدوخال سے باہر آنے کی تگ و دَو بھی کی ہے، بیکرانی کا مزہ بھی چکھا ہے اوراِس کے بعد زمین، رات اور عورت کی طرف بھی مراجعت کی ہے۔ ۔ ۔ اِس لیے نہیں کہ وُہی اُس کی آخری منزل ہے کیوں کہ آخری منزل کوئی نہیں ہے۔ یہ سارا آنے جانے، پھیلنے اور سمٹنے کا وظیفہ ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ رفیق سندیلوی تخلیق کاری کے اصل ذائقہ سے آشنا ہے اور اِسی لئے وُہ اپنے معاصرین سے الگ بھی ہے اور آگے بھی۔ ‘‘
اِس سے میرا مقصود رفیق سندیلوی کے معاصرین سے قطعِ محبت کا اعلان کرنا ہر گز نہیں تھا کیوں کہ تخلیق کاری کے حوالے سے مجھے رفیق سندیلوی کے معاصرین بھی بے حد عزیز ہیں۔ اُن میں سے بیشتر نے اپنے اپنے دائرۂ عمل میں رہتے ہوئے ’جو ذرّہ جس جگہ ہے وُہی آفتاب ہے ،کا ثبوت نہایت عمدگی سے پیش کیا ہے۔ مَیں دراصل یہ کہہ رہا تھا کہ غزل کا ایک امتیازی وصف ریزہ خیالی ہے اور غزل گو شعرا نے اپنے لخت لخت تجربات کو موڈ کے حوالے سے باہم مربوط تو کیا ہے مگر اِس عمل میں کوئی تمثیل متشکل ہو کر سامنے نہیں آئی۔ یہ کام رفیق سندیلوی نے کیا ہے اور قطعاً غیر شعوری طور پر کیا ہے۔ اِس اعتبار سے رفیق سندیلوی کی غزل نظم کے اثرات کو قبول کرنے کی ایک دل کش مثال فراہم کرتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ رفیق سندیلوی کی تمثیل کسی باقاعدہ آغاز یا انجام کے تابع نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اِس کا مطلب یہ تھا کہ تمثیل نے اُس کی غزل کو اَپنی مُٹھّی میں بند کر لیا ہے مگر ہُوا یہ ہے کہ خود یہ تمثیل ٹکڑوں اور قاشوں میں بٹ کر اُس کی جُملہ غزلوں کے اندر بکھر گئی ہے۔ یوں دیکھئے تو ریزہ خیالی کی شرط ایک حد تک پوری بھی ہو گئی ہے تاہم جب اشعار کے بکھرے ہوئے ریزوں کو جمع کریں تو تمثیل کے خدوخال اُبھر آتے ہیں اور ریزہ خیالی کا عنصر ترتیب اورانسلاک کے لئے جگہ خالی کر دیتا ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رفیق سندیلوی کی غزل ، غزل کے اوصاف کی حامِل ہونے کے باوجود ریزہ خیالی کی شرط کو عبور کر گئی ہے، یعنی اُس کی ساخت شکنی میں کامیاب ہو گئی ہے۔
رفیق سندیلوی کی تمثیل کو بہ آسانی تین حصوّں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ رات کے ذکر پر مشتمل ہے، دو سراحصہ رات کے اختتام سے ذرا پہلے کی اُس حالت کا عکاس ہے جس میں فسُونِ خواب جنم لیتا ہے اور تیسرا حصہ وُہ ہے جس میں طلسمی دھوپ ہست کو ایک قریۂ حیرت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ مَیں نے ’’ ایک رات کا ذکر‘‘ پر مضمون لکھتے ہوئے اپنے اِسی تاثر کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور بعض احباب کا خیال ہے کہ مَیں اِس میں کامیاب بھی ہوا ہوں مگر آپ جانتے ہیں کہ احباب کے’ فرمائے ہوئے ،میں محبت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ اِس لیے اُن کی کہی ہوئی بات کو فی الفور قبول نہیں کرنا چاہیے۔ میری یہ استدعا ہے کہ آپ خود رفیق سندیلوی کی کتاب پڑھیں اور دیکھیں کہ مَیں نے جو کہا ہے وُہ کہاں تک دُرست ہے۔ البتہ مَیں آپ کو اُن کے اشعارسُنادیتا ہوں جو مَیں نے مضمون میں اپنے مؤقف کے ثبوت میں پیش کئے تھے:
مَیں دِن کا سلسلہ دِن سے ملانے والا تھا
کہ درمیان میں اِک رات آن کو دی تھی
جسم کے تاریک لشکر سے بچائے گا مجھے
اِک ستارہ رات کے شَر سے بچائے گا مجھے
ایک سیاہ بشارت والے ڈر کے ساتھ گزاری
مَیں نے پہاڑ کے اِک درّے میں ساری را ت گزاری
شب کی تھیلی بھری ہوئی تھی کرنوں سے
دِن کے خالی بستے میں تاریکی تھی
بدن کے خاکداں میں اور کیا رکھّا ہوا ہے
اندھیری رات کا اندوختہ رکھّا ہوا ہے
مَیں کہاں تلک کسی سنگِ شب میں چھپا رہوں
مجھے اپنے گھر میں پناہ دے ، مرے آئینے
مَیں اِک پہاڑی تلے دبا ہوں کسے خبر ہے
بڑی اذیّت میں مبتلا ہوں کسے خبر ہے
مجھ کو صحرا سے بچائے گی اِسی صحرا کی ریت
اور یہی پانی سمندر سے بچائے گا مجھے
مَیں کاٹ دوں گا اندھیرے میں اُس شبیہ کا ہاتھ
او ر اِک طلسم کی شمشیر خواب کو دوں گا
نکل پڑوں مَیں کوئی مشعلِ فسُوں لے کر
قیامِ گاہِ ابد تک مری رسائی ہو
سبز شعاعیں پھوٹ رہی تھیں ٹاپوں سے
اور سوار کے رستے میں تاریکی تھی
ختم ہو جائے گا پھر ابلاغ کا سارا فُسوں
جب سماعت گاہ تک ترسیل ہو جائیں گے ہم
اِدھر رستے میں چوتھے کوس پر تالاب پڑتا ہے
مَیں خاک اور خون سے لِتھڑی رکابیں دھو کے آتا ہوں
اچانک ایک شعاعِ سفر ہویدا ہو
سوار زین کسے، دیدۂ فرس چمکے
ایک صوتی لہر گَردِ خواب سے اُٹھتی ہوئی
دشتِ شب سے کچھ سوارِ بے صدا آتے ہوئے
یہ میرا ظرف کہ مَیں نے اثاثۂ شب سے
بس ایک خواب لیا ، چند شمع دان لئے
پرندے میرا بدن دیکھتے تھے حیرت سے
مَیں اُڑ رہا تھا خلا میں عجیب شان لئے
کسی بحرِ خواب کی سطح پر مجھے تیرنا ہے تمام شب
مری آنکھ کِشتیِ جسم ہے، مرا بادباں مرا ہاتھ ہے
دیکھتا کیا ہوں کہ رقصِ خواب میں ہیں میرے گِرد
سالمے۔ بادل، کُرے ، اجرام اور آتش فشاں
عجیب بے رنگ دھُند مجھ میں ہے ایستادہ
مَیں وسطِ شب میں کہیں کھڑا ہوں کسے خبر ہے
کہاں یہ جسم ، کہاں الف لیل کا رستہ
مَیں تھک گیا ہوں سفر ایک رات کا کر کے
فُسونِ خواب نے آنکھوں کو پتھر کر دیا تھا
اور اِک تارہ حفاظت پر مقرّر کر دیا تھا
طلسمی دھوپ نے اِک مرکزِ عصرِ رواں میں
مرے قد اور سائے کو برابر کر دیا تھا
ستارے بُجھ رہے تھے جا نمازِ جسم و جاں پر
مگر اِک کشف کی مشعل نفَس میں جا گزیں تھی
بھڑک رہی ہے مرے گِرد اِک طلسمی لَو
رکھا ہُوا ہے سرہانے چراغِ نامعلوم
پڑاؤ کرنے پسِ لا مکاں رُکا تھا مَیں
رُکا نہ جس جگہ کوئی وہاں رُکا تھا مَیں
کہیں ایک نقطے پہ رُک گیا ہے نظامِ کون و مکاں ا بھی
کوئی شے جنم نہیں لے رہی، کوئی شے فنا نہیں ہو رہی
کسی دروازۂ معلوم سے داخل ہُو ا تھا
اور اب اِک قریۂ حیرت سَرا میں گھومتا ہوں
اُس اعتکافِ تمنّا کی سرد رات کے بعد
مَیں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو
یہ نجوم ہیں مری اُنگلیاں، یہ اُفق ہیں میری ہتھیلیاں
مری پور پور ہے روشنی، کفِ کہکشاں مرا ہاتھ ہے
جائیں گے ہم خال و خد سے اِک ہیولے کی طرف
پھر ہَوا کے جسم میں تحلیل ہو جائیں گے ہم
مگر ایک رات کا ذکر ہے کہ مدار میں
کسی روشنی کے بہت قریں مرا جسم تھا
نور کی موجیں مرے ہمراہ ہوں گی او ر مَیں
رات کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینے آؤں گا
بدن سے پھوٹے گی لذّت، مٹھاس اور خوشبُو
شراب و عورت و انجیر خواب کو دوں گا
اُڑائے پھرتا ہوں صد ہا جہات میں خود کو
مَیں اپنے جسم کی مٹّی بہم نہیں رکھتا
رفیق سندیلوی کسی ایک دیار کا مستقل باسی نہیں ہے۔ یہی اصل بات ہے کہ شاعر خود کو کسی ایک لکیر میں پابند نہ کرے۔ وُہ صحیح معنوں میں آزاد ہو۔ جہاں چاہے رُک جائے، جہاں چاہے آگے بڑھ جائے یا واپس آئے یا کسی اور سمت میں نکل جائے، چنانچہ اُس کی شاعری کو کسی ایک زمانی تناظر میں رکھ کر دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اِس لئے شاعر مجموعۂ اضداد ہی نہیں، مجموعۂ جہات بھی ہے۔ سارے سفر، جُملہ فاصلے اُس کی ذات کے دروازے پر آ کر رُک جاتے ہیں اور اُس کی ذات کے اندر سے ساری جہات اور سارے فاصلے برآمد ہو کر شش جہات میں پھیل جاتے ہیں۔ ایک اچھا شاعر ہمہ وقت کروٹیں لیتی ہوئی ایک ایسی ساخت ہے جو کائنات کی ساخت سے مشابہ ہے۔ ایسی ساخت کو کسی ایک نظریے ،آئیڈیالوجی ،نفسیاتی دباؤ یا مقصد کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔
تخلیق کاری کے باب میں یہ بات بہ تکرار کہی گئی ہے کہ فن زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے مگر کیا یہ صحیح ہے کیوں کہ ایسی صورت میں تخلیق کاری کا عمل فوٹو گرافی کے عمل سے مختلف نہ ہو گا۔ بعض دوسروں نے کہا ہے کہ فن آئینے کی طرح انعکاس کرتا ہے۔ غور کیجئے کہ فن کار محض منعکس کرنے پر مامور نہیں ہے۔ وُہ دراصل تخلیق کاری کے دوران تین مراحل سے گزرتا ہے۔ ۔ ۔ پہلا مرحلہ باہر کی روشنی کو خود میں جذب کرنے کا ہے اور آخری مرحلہ اِسے منعکس کرنے کا مگر درمیان میں ایک وُہ مرحلہ بھی ہے جو انتہائی پُراسرار ہے یعنی جہاں تخلیق کار باہر سے آنے والی روشنی کی قلبِ ماہیت کر دیتا ہے۔ چنانچہ جب وُہ تقلیب کے بعد اِس کا انعکاس کرتا ہے تو وُہ کوالٹی کے اعتبار سے اتنی بدل چکی ہوتی ہے کہ اِس کی اصل صورت کو نشان زد کرنا بھی بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔ مَیں اپنے اِس مؤقف کو ایک تمثیل کے ذریعے بیان کرتا ہوں۔
یہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ چاندسورج کی چندھیا دینے والی روشنی کو پہلے تو قبول کرتا ہے اور پھر اُسے زمیں تک پہنچا دیتا ہے۔ اگر وُہ محض ایک آئینے کا کردار ادا کرتے ہوئے سورج کی روشنی کو اُس کی تمام تر درخشندگی اور آب و تاب کے ساتھ زمین پر پھیلاتا تو یہاں رات کو بھی دِن ہوتا اور لوڈ شیڈنگ کا سارا مسئلہ حل ہو جاتا مگر چاند تو ازل کا فن کار ہے۔ وُہ ساحر لدھیانوی کا نالائق شاگرد نہیں کہ اُستاد کے شعر ؎ دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں /جو کچھ مجھے دیا ہے وُہ لَوٹا رہا ہوں مَیں ،کو ایک سچا سودا سمجھ کراِس پر عمل پیرا ہو کیوں کہ وُہ جانتا ہے کہ اِس کاروبار میں بہت زیادہ دیانت داری ایک منفی عمل ہے۔ لہٰذا آپ دیکھیں کہ چاند نے سورج کی تیز روشنی میں پرچھائیوں کا کھوٹ ملا کر اسے چاندنی میں منقلب کیا ہے اور ایسا کر کے اسے انتہائی پُر اسرار،سکون بخش اور جاذبِ نگاہ بنا دیا ہے۔ روشنی وُہی ہے مگر چاند کے تخلیقی عمل نے اِسے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ تاہم چاند کا چلن بھی عجیب ہے۔ وُہ سدا گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ یہی حال اکثر تخلیقی کاروں کا ہے کہ وُہ بھی گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ جب وُہ آدھے چاند میں ڈھلتے ہیں تو چاندنی کم اور تیرگی زیادہ پھیلاتے ہیں اور جب ہلال کی صورت جلوہ گر ہوتے ہیں تو چٹکیاں لیتے، ہر کس و نا کس کو چھیڑتے، جراحتیں تقسیم کرتے پھِرتے ہیں۔ ہم انھیں پیار سے طنز نگار کہتے ہیں مگر اصل تخلیق کار وُہ ہے جو ہمہ وقت ماہِ کامل کے پیکر میں سورج کی تیز روشنی کو چاندنی میں بدل کر زمین اور اِس کے باسیوں تک پہنچاتا ہے۔ اِس سے آپ اندازہ لگائیں کہ تخلیق کاری کے عمل میں مصنّف کی اہمیت کتنی زیادہ ہے مگر ساختیاتی ناقدین مصنّف کو نہیں مانتے۔ اُن سے پوچھیں تو وُہ کہیں گے کہ اس تمثیل میں اوّلیں حیثیت زمین کی ہے کیوں کہ وُہی چاندنی کی قرأت کرتی ہے جب کہ چاندنی کی حیثیت تخلیق یاtext کی ہے، رہا چاند تو اُس کی حیثیت صفر ہے۔ ساختیاتی نقاد اِس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اگر چاند نہ ہو تو چاندنی کہاں سے آئے گی؟
رفیق سندیلوی کی کتاب’’ ایک رات کا ذکر‘‘ میں جو تمثیل پیش ہوئی ہے، شاعر کی واقعی زندگی میں اُس کی صورت کیا ہو گی،مجھے اِس سے زیادہ غرض نہیں گو کہ مَیں اُسے مسترد کرنے کے حق میں بھی نہیں ہوں کیوں کہ تخلیق کاری کے عمل میں شاعر کے تجربات و حوادث کو کون نظر انداز کر سکتا ہے؟مگر تجربات و حوادث کے مستقیم بیان سے تو فن وُجود میں نہیں آسکتا۔ لہٰذا میری دِلچسپی اِس میں ہے کہ یہ تجربات و حوادث کس طرح فن میں منقلب ہوسکے ہیں یعنی سورج کی روشنی کس طرح چاندنی میں تبدیل ہوئی ہے اور کیا وُہ واقعی چاندنی بن پائی ہے یا نہیں !مَیں نے ’’ ایک رات کا ذکر‘‘ پر جو مضمون لکھا ہے اُس میں شاعر کی شخصی زندگی کی منقلب صورت کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر مَیں منقلب صورت کو سامنے رکھ کر شاعر کی شخصی زندگی کی کڑیاں دریافت کرنے کی سعی کرتا تو تنقید کے دائرے سے نکل کر تفتیش کے دیار میں داخل ہو جاتا۔ لہٰذا مَیں نے ایسا نہیں کیا۔
مجھے خوشی ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق، ا سلام آباد نے رفیق سندیلوی کی غزل گوئی کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اِس تقریب کا اہتمام کیا ہے۔ یہ موقع تفصیلی محاکمے کا نہیں۔ اِس کے لئے آپ میرا مضمون ملاحظہ کر سکتے ہیں ،تاہم مجھے یہ کہنے میں ہرگز تأمل نہیں کہ رفیق سندیلوی وسیع امکانات کا شاعر ہے۔ اُس نے نہ صرف زبان کو خالص تخلیقی سطح پر برتا ہے بلکہ اپنے تخلیقی عمل کی مدد سے محسوسات، تصوّرات حتّیٰ کہ اپنے خیالات تک کو چیزے دیگر بنا دیا ہے۔ وُہی روشنی کو چاندنی میں ڈھالنے کا عمل!میری دُعا ہے کہ رفیق سندیلوی اپنے اِس جذب کے عالَم کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو اور جراحتیں تقسیم کرنے کے اُس کاروبار میں کبھی ملوّث نہ ہو جس میں ہماری نئی پود ایک انوکھی کشش محسوس کر رہی ہے۔
حوالہ جات:
*یکم اپریل۱۹۹۴ء کا محررہ ،وزیر آغا کا غیر مطبوعہ مضمون جو رفیق سندیلوی کی کتاب’’ ایک رات کا ذکر‘‘ مطبوعہ منیب پبلی کیشنز، اسلام آباد۔ ۱۹۸۸ء کی تقریبِ تفہیم میں پڑھا گیا۔
* *یہ مضمون’’ اوراق‘‘، لاہور۔ شمارہ ۱۱، ۱۲۔ سالنامہ۱۹۹۳ء اور سہ ماہی’’ تمثال‘‘ کراچی۔ شمارہ اپریل تا ستمبر۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں یہی مضمون وزیر آغا کی کتاب’’ معنی اور تناظر‘‘، مکتبہ نردبان، سرگودھا۔ ۱۹۹۸ء میں شامل ہوا۔
٭٭٭