دورِ آئندہ کی ادیبہ، قرۃ العین حیدر
مظفر حسین سیّد
ع: آنے والی نسلیں ہم پر فخر کریں گی، ہم عصرو
یہ مصرع جس شخصیتِ بے مثل پر من و عن صادق ہے، اس کا نام نامی اسم گرامی قرۃ العین حیدر ہے۔ اردو کی عظیم قلم کارہ قُرّۃ العین حیدر عرف عینی اکیسویں صدی کی ادیبہ تھیں ، جنھوں نے شاید غلطی سے بیسویں صدی کے اوائل میں جنم لے لیا، اسی لیے زمانہ انھیں سمجھ نہ سکا، البتّہ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ ان کے پڑھنے والوں نے انھیں سمجھے بغیر (بلکہ اکثر پڑھے بغیر ہی) ان کی تعریف دل کھول کر کی، اتنی تعریف کہ آسمانِ ادب پر بٹھا دیا۔ یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ قرۃ العین حیدر اس مقام کی مستحق نہیں تھیں ، جس پر فائز کی گئیں ، وہ تو اس سے بھی بلند مقام کی حقدار تھیں ، بشرطیکہ اُن کے ہم عصر ان کو صحیح اور درست آنک سکتے، یہاں اس دل چسپ اور سبق آموز حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ پچاس کی دہائی سے ہی قرۃ العین کا ایسا رُعب اور دبدبہ اردو کے ادبی حلقوں پر قائم ہو گیا تھا کہ کوئی ان کے ادبی مقام کو ذرّہ برابر بھی کم کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا، اور یہ ان کی بڑی حصولیابی تھی۔ انھوں نے تمام تحریکات، ادبی انجمنوں ، جماعتوں اور نام نہاد ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر ہو کر اپنے قلم کی بادشاہت قائم کی، جسے بالکل صحیح و لغوی معنی میں قلمرو کہا جا سکتا ہے۔
مرزا غالبؔ کی مثل قرۃ العین حیدر بھی اپنے عصر کی نہیں بلکہ دورِ آئندہ کی قلمکارہ تھیں ، ادیبہ تھیں ۔ غالبؔ کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ ان کے زمانے کے لوگوں (شاعروں ، تذکرہ نگاروں ، خواص، اربابِ اقتدار، حتیٰ کہ عوام) نے نہ انھیں سمجھا اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کی، لہٰذا اردو کے اس عظیم شاعر کو اس امید پر قانع ہونا پڑا کہ آنے والا زمانہ اس کی قدر کرے گا، اس کی اہمیت جانے گا، اور یقیناً ایسا ہوا بھی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے غالبؔ کو بیسویں صدی نے پہچانا، غالبؔ شناسی کا نیا عہد شروع ہوا، ان کی صدی مناتے مناتے اردو والوں نے ان کا حق ادا کر دیا، اور اردو دنیا ہی کیوں ، اردو کے دائرے کے باہر بھی ہندستان، پاکستان، برطانیہ، بلکہ ایک جہان نے ان کی عظمت کے آگے سرنگوں کر دیا، تاہم اس ذکر کو یہیں تک رہنا چاہیے، کیوں کہ اس مضمون کا موضوع غالبؔ نہیں ، بلکہ ان کی رخصت کے ستّاون اٹّھاون برس بعد اس جہانِ آب و گِل میں تشریف فرما ہونے والی ایک عظیم قلم کارہ ہے، جس نے اگرچہ شاعری بھی کی مگر زبانِ فرنگ میں ۔ اب یہ بات دگر کہ اس نے نثر میں جو شاعری کی، اس نے اس کی نثر کو اعلا ترین منازل سے ہمکنار کر دیا، ایں قدر کہ لوگ عش عش کر اُٹھے، قارئین بھی اور ناقدین بھی، اور اس حد تک کہ شاید خود مرزا غالبؔ بھی موجود ہوتے تو نثر نگاری اور نفسِ مضمون دونوں کی بنا پر قرۃ العین کو اپنی آنکھ کا تارا قرار دیتے۔
جو شکوہ غالبؔ کو تھا، وہی قرۃ العین کو بھی تھا، انھوں نے خود ایک بار کہا تھا:
’’اچھا ادب بہت کم لوگوں تک پہنچتا ہے، جیسے میں جو کچھ لکھتی ہوں ، جانتی ہوں ، اسے پڑھنے والے لوگ کم ہی ہیں ‘‘۔ لیکن انھوں نے اس کے ساتھ ہی دوسرے سانس میں یہ بھی کہا تھا: ’’اچھا ادب آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، آج آپ نے نہیں پڑھا تو وہ آپ کو دس سال بعد پڑھنے پر مجبور کرے گا۔ غالبؔ اور شیکسپیئر کو لیجیے، آج بھی ان کا ادب اتنا ہی تازہ ہے‘‘۔
بہر کیف قرۃ العین حیدر غالبؔ سے کہیں زیادہ خوش قسمت تھیں کہ سمجھا یا نہ سمجھا، ان کے ہم عصروں نے انھیں کندھوں پر بٹھایا، ان کی پذیرائی کی، مذاکروں میں ان پر گفتگو کی گئی، ان پر اتنا کچھ لکھا گیا (اور لکھا جا رہا ہے) کہ شاید گنتی کے چند اردو ادیبوں کے علاوہ کسی اور پر اتنا کچھ نہیں لکھا گیا۔ انھیں دورِ حاضر کے تمام انعامات و اعزازات (ساہتیہ اکادمی انعام، گیان پیٹھ انعام اور پدم بھوشن سمیت بے شمار)سے نوازا گیا، علاوہ ازیں عصرِ رواں کی عظیم ادیبہ سے بالا ایک عظیم دانشور بھی تسلیم کیا گیا۔ ملک کی دو موقر دانش گاہوں (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ، دہلی) نے انھیں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مدعو کیا، اور ان کے دورانِ قیام دونوں درس گاہوں کے بے شمار طلبہ اور تحقیق کاروں نے ان کے علم و عرفان سے فیض حاصل کیا، اپنے ذہن و دل کو منوّر کیا۔ اس کے علاوہ کئی مغربی دانش گاہوں و علم گاہوں نے بھی انھیں وقتاً فوقتاً دعوتِ تقریر و تدریس دی۔ علی گڑھ کا ذکر آیا ہے تو ایک دل چسپ بات کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ رشید احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جب وہ کسی محفل میں کسی معقول شخص کو دیکھتے تو انھیں یہ گمان ہوتا کہ ہو نہ ہو، یہ شخص ضرور علی گڑھ کا پروردہ ہے، جب وہ اس کے قریب جاتے اور تعارف حاصل کرتے تو اگر وہ فردِ فرید علی گڑھ کا تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ نکلتا تو ان کی خوشی دو چند ہو جاتی، تاہم سوئے اتفاق اگر وہ شخص علی گڑھ سے فیضیاب ہونے سے محروم رہا ہوتا تو رشید صاحب خیال کرتے کہ کاش اگر یہ شخص علی گڑھ آیا ہوتا، اور رہا ہوتا تو اس کا رنگ کیا ہوتا۔ یہ بات قرۃ العین حیدر پر بھی صادق آتی ہے کہ موصوفہ نے دہرہ دون، دہلی اور لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی، لیکن اتفاقاً وہ علی گڑھ نہ جا سکیں اور نہ ہی وہاں تعلیم حاصل کرسکیں ، لہٰذا علی گڑھ کا ایک نمک خوار وفا دار ہونے کے ناطے راقم الحروف بھی یہ خیال کرتا ہے کہ کاش ہماری عینی آپا نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی ہوتی، جب کہ ان کا علی گڑھ پر بھرپور حق تھا، ان کی پیدائش علی گڑھ میں ہوئی تھی اور ان کے والدِ محترم سجاد حیدر یلدرم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اوّلین مسجّل تھے، مگر اب تو یہی کہا جائے گا کہ علی گڑھ خود قرۃ العین حیدر سے محروم رہا۔
قرۃ العین حیدر کے جدِ امجد ایک صوفی اور شہید تھے، ان کے والد سنّی العقیدہ اور والدہ شیعہ تھیں ، دونوں اپنے اپنے عقائد پر قائم تھے، لیکن باہم کوئی تضاد نہیں تھا، بچّوں کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے مسلک کے انتخاب کی اجازت تھی، اگرچہ قرۃ العین حیدر نے اہلِ سنّت کی جماعت میں رہنا قبول کیا، لیکن ان کے یہاں غلو نہیں تھا، مسلکی رواداری ان کی گھُٹّی میں تھی، اور یوں بھی ان کا خانوادہ آزادیِ رائے اور روشن خیالی کا علمبردار تھا۔ علما، فضلا اور دانشوروں کا خاندان تھا، پھر شدّت کہاں اور تجاوز کیسا؟ قرۃ العین حیدر بہ ظاہر جدید تھیں ، مگر اندر سے خالصتاً مشرقی روایات کی علمبردار۔ انھوں نے ن۔ م۔ راشد پر اپنے خاکے میں جو فقرہ راشد کے بارے میں لکھا ہے، وہ خود ان پر بھی بعینہٖ صادق ہے، وہ کہتی ہیں کہ ’’راشد صاحب کا طرزِ رائش انگریزی ہے اور دماغ مشرقی‘‘۔ ویسے بھی اس امر کے اَن گنت ثبوت موجود ہیں کہ قرۃ العین حیدر باطنی طور پر نہ صرف ایک پختہ مسلمان تھیں بلکہ وہ ملّتِ مسلمہ کو در پیش مسائل اور خصوصاً اس کی پسماندگی کے سلسلے میں خاصی تشویش میں مبتلا رہتی تھیں اور ملّی خدمات کے تحت معاشرتی کام کرنے والے چُنیدہ حضرات کو مہمیز بھی کرتی رہتی تھیں ۔ سیّد حامد نے اپنے ایک مضمون میں یہ اشارہ بھی کیا ہے کہ آخر عمر میں قرۃ العین حیدر صاحبہ کسی بزرگ سے بیعت ہو گئی تھیں ، حالاں کہ انھوں نے اس بات کو عینی صاحبہ کے مزاج سے بعید خیال کیا ہے، تاہم ایسے شواہد بھی ہیں کہ قرۃ العین حیدر کے ذاتی کمرے میں کسی بزرگ کی تصویر آویزاں تھی۔ نیز یہ امر تو اظہر من الشمس ہے کہ قرۃ العین کو اپنے اسلاف پر زبردست فخر تھا اور وہ اپنے عالم، فاضل بزرگوں کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتی تھیں ، انھوں نے اپنے کئی بزرگوں کے بارے میں لکھا بھی اور ان کے کارناموں کو روشناس کرانے کے لیے کاوشیں بھی کیں ، انھوں نے اپنے خاندان کو ہمیشہ ایک روایتی ادارہ قرار دیا۔ اب اسے ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ انھوں نے کسی شخص کو اپنا ہم سفرِ زیست بنانے کے لائق نہیں گردانا، اور اپنی حیات کا سفر تنہا ہی طے کیا، شاید ان کی کسوٹی پر کوئی کھرا نہیں اُتر سکا ہو گا۔
قرۃ العین حیدر صفِ اوّل کی، اوّلین ادیبہ تھیں ، ان کی شناخت بحیثیت افسانہ نگار اور ناول نگار ہی کی گئی اور کی جاتی رہے گی، اگرچہ انھوں نے خاکے بھی لکھے، لیکن یہ انکشاف (ان کے لیے جو پہلے سے واقف نہیں ) دل چسپی کا موجب ہو گا کہ ان کی اوّلین تخلیقی کاوش، کوئی افسانہ یا نظم نہیں بلکہ ایک کارٹون تھا، جو بچّوں کے ایک رسالے میں شائع ہوا تھا۔ ان کی ابتدائی دل چسپی مصوری میں تھی اور انھوں نے اس کی تربیت بھی حاصل کی تھی، گو کہ بعد ازاں وہ اسے اپنا مشغلہ نہ بنا سکیں یا بنانا پسند نہیں کیا، تاہم وہ شوقیہ تصاویر بناتی تھیں اور ان کی تصاویر ان کے دولت کدے کی دیواروں پر ہمیشہ آویزاں رہیں ، اپنی کتاب کا سرورق خود بنانا بھی ان کی پہلی ترجیح ہوتا تھا، یہ بات دگر کہ دیگر علمی مصروفیات کے با وصف، اکثر ایسا ممکن نہیں ہوتا تھا، انھوں نے اپنی ترتیب کے تحت دو تصویری مجموعے بھی شائع کرائے تھے اور شاید اسی رعایت سے انھوں نے اپنے خاکوں کے انتخاب کا نام بھی ’’پکچر گیلری‘‘ رکھا تھا۔ مصوری کے علاوہ موصوفہ کو موسیقی سے بھی گہری دل چسپی تھی، کہ یہ بھی ان کی خاندانی روایت تھی، وہ خود ایک تربیت یافتہ ساز نواز تھیں اور کئی مشکل سازوں پر بہ کمال اپنے فن کا جادو بکھیر سکتی تھیں ۔
اکیسویں صدی کی آمد سے قبل ہی پیدا ہو جانے کے علاوہ قرۃ العین حیدر کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ وہ اردو کی ادیبہ تھیں (اگرچہ یہ اردو کی خوش قسمتی ہے) بالاتفاق اگر وہ انگریزی، فرانسیسی یا روسی زبان کی مصنّفہ ہوتیں تو صورتِ حال دگر ہوتی، ویسے بھی مزاجاً اور اسلوباً وہ مغربی طرز کی ادیبہ ہیں ، اس لیے شروع میں ان کی تحریریں کسی کے پلّے نہیں پڑیں ، برسوں پہلے انھوں نے شہریار اور ابوالکلام قاسمی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا:
’’مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں (ابتدائی دنوں میں ) لوگوں نے برابر کہا کہ آپ جو باتیں لکھتی ہیں ، وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ، باقی ادیبوں کے افسانے سمجھ میں آ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور یہ کہ آپ انگریزی الفاظ کیوں استعمال کرتی ہیں اور یہ کہ آپ جو ماحول دکھاتی ہیں ، وہ بھی عجیب و غریب اور انوکھا ہوتا ہے‘‘۔
شکر ہے کہ قرۃ العین حیدر کو بیسویں صدی کا آخر اور اکیسویں صدی کا دورِ اول نصیب ہوا، لوگوں نے انھیں کچھ کچھ سمجھا اور اس کا اعتراف بھی کیا، اور تو اور ان کا شہرۂ آفاق ناول ’آگ کا دریا‘ بھی بالآخر قارئین کی سمجھ میں آنے لگا۔ سچ یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر اردو کی ایسی ادیبہ ہیں جو بین السطور لکھتی رہیں اسی لیے کسی کی سمجھ میں آیا، کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔
قرۃ العین حیدر تمام ادبی حد بندیوں سے ہمیشہ بالاتر رہیں ، انھوں نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور میں ہوش سنبھالا، ترقی پسندوں کے ساتھ لکھا، لیکن نہ کبھی خود کو ترقی پسند کہا اور نہ عوامی ادب کے سراب میں گم ہوئیں ، ان کی شہرت جب بامِ عروج پر تھی، تب جدیدیت کا پرچم بلند ہوا، وہ اس سے بھی الگ تھلگ رہیں ، اور اس کے بعد، ما بعد جدیدیت کے دَور میں بھی۔ انھیں ترقی پسندوں نے بھی سراہا اور جدیدیت پسندوں نے بھی انھیں اپنا سردار مانا، لیکن وہ کنول کے پھول کی طرح ہر گروہ بندی اور درجہ بندی سے بلند رہیں ۔ دراصل وہ تو خود پیدائشی جدید بھی تھیں اور ترقی پسند بھی۔ ناقدین نے انھیں ’’کلاسیکی‘‘ قرار دیا، مگر انھوں نے اس خطاب کو کبھی قبول نہیں کیا، مذکورہ بالا انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا:
’’اگر میری تحریروں کو دیکھ کر کوئی مجھے رومانیت پسند کہتا ہے تو کہے، اس لیے کہ میں سمجھتی ہوں کہ میرا ذہن کلاسیکی نہیں ہے، میں بنیادی طور پر رومانٹک ہوں ، دیکھیے رومانیت جو ہے، ظاہر ہے، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔ زیادہ تر جو دنیا کا ادب ہے اس کی بنیاد رومانٹک ہی ہے۔ رومانٹک اپروچ۔ تو بہرحال میں بنیادی طور پر رومانٹک ہوں ۔ ۔ ۔ یہاں رومانسٹزم سے میرا مطلب وہ رومانس نہیں ہے، عشق و محبت کا چکّر نہیں ہے، یہ ایک یکسر مختلف شے ہے، تو یہ ہے کہ آپ احساس، کھوج اور کُرید، حسّیت، وفورِ جذبات، تخیّل اور تحیّر، انفرادیت پسندی اور جو کچھ ہے۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جتنی اس طرح کی چیزیں ہیں ، انہی سے رومانی جذبہ بنتا ہے۔ وہ جو ادب کا رومانٹک اپروچ ہے، وہ بالکل ضبط و توازن، تنظیم، خیالات کی صراحت، اِن باتوں سے مختلف چیز ہوتی ہے، جس سے پورے ادب کا رخ بدلا، انیسویں صدی سے، یعنی اس میں تخیّل اور اندرونی فکری عمل جو بھی ہے اس پر زور دیا جانا چاہیے‘‘۔
یہاں یہ باور رہے کہ قرۃ العین حیدر کے والد محترم سجاد حیدر یلدرم اردو ادب میں رومانی تحریک کے روحِ رواں تھے اور ایک صاحبِ طرز ادیب بھی۔ خود قرۃ العین حیدر ان کی قائل تھیں اور جا بجا انھوں نے اپنے والد کی تعریف و توصیف بھی کی ہے۔
قرۃ العین حیدر اصلی ترقی پسند اور اصلی جدید ہیں ، ان کا کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کی فکر اور ان کے طرزِ تحریر کو کسی دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، بقول یاور عباس، انھوں نے کبھی اپنے قلب کو اپنے ضمیر سے جدا نہیں کیا، انھوں نے اپنے اصل میدان، افسانے اور ناول کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھوں نے خاکے لکھے، رپورتاژ لکھے (رپورتاژ کو انھوں نے ایک نئی جہت اور معنویت عطا کی)، مضامین لکھے، تبصرے لکھے، اردو میں بھی، اور انگریزی میں بھی، حتیٰ کہ ایک فلم (ایک مسافر ایک حسینہ) بھی لکھی۔ انھوں نے ریڈیو پر نشریات کیں ، رسائل و جرائد کی ادارت کی، محکمۂ اطلاعات کو اپنی خدمات تفویض کیں اور یہاں تک کہ دیگر سرکاری ملازمتیں بھی کیں ، ان کا میدانِ عمل ہندستان سے پاکستان اور برطانیہ تک وسیع رہا۔ ایسی ہی گوناگوں شخصیت تھی اُن کی۔
قرۃ العین حیدر کی مدّتِ کار کم و بیش ستّر برس پر محیط ہے، یہ ایک طویل عرصہ ہے جو شاید کم ہی قلمکاروں کو نصیب ہوا ہو گا، کیوں کہ ایسے کتنے لوگ ہوں گے، جنھوں نے محض گیارہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کر دیا ہو۔ [مولانا آزاد کو مستثنیٰ قرار دیں ] اور فقط بیس بائیس برس کی عمر میں جس کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی ہو۔ لیکن ایک اہم بات اور کہ اس طویل عرصے میں انھوں نے کُل جمع ستّر پچھتّر افسانے لکھے، جن میں سے صرف ۴۷ اُن کے چار مجموعوں میں شامل ہوئے، باقی کی دریافت بعد میں ہوئی جو ان کی کلیات کا حصہ بنے۔ کل جمع یعنی حاصل قلم، سات عدد ناول، چھ ناولٹ، ایک طویل سوانحی ناول، گیارہ رپورتاژ، چند خاکے، کچھ تراجم اور کچھ بچّوں کی کتابیں ، اس کے علاوہ کچھ مرتّبہ کتابیں ، انگریزی میں نظمیں ، درجنوں مضامین و تبصرے۔ ظاہر ہے کہ کُل وقتی قلم کاری کے لحاظ سے نگارشات کی یہ تعداد بہت زیادہ نہیں ، لیکن جو کچھ ہے بہت خوب ہے اور اعلا پائے کا ہے، یہی ان کا کمال ہے۔ سیّد حامد نے درست ہی کہا ہے: ’’اُن کی شخصیت میں بہت سے ایسے اوصاف تھے جو اس پائے کے مشاہیر اور اکابرین میں عام طور پر نہیں ملتے‘‘۔
اپنی تمام تر جدّت پسندی کے باوجود وہ اپنے ماضی میں جیتی تھیں جس کا اعتراف انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے:
’’انسان بنیادی طور پر ناسٹلجک ہوتا ہے۔ آپ کو بھی اپنے کالج کے زمانے کے دوستوں سے مل کر خوشی ہوتی ہو گی۔ ہمیں بھی پرانے ساتھیوں سے مل کر اچھا لگتا ہے۔ اب آج جو ماحول ہے ملک میں چاروں طرف خون خرابہ، افراتفری اسے دیکھ کر تو ہمیں اپنا زمانہ یاد آتا ہے‘‘۔
علامہ اقبالؔ نے جن دیدہ وروں کا ذکر کیا ہے، قرۃ العین حیدر یقیناً اُن میں سے ایک ہیں ۔ نرگس پتا نہیں کب تک اپنی بے نوری پہ روئے گی، تب جا کر دوسری عینی آپا پیدا ہوں گی یا شاید کبھی نہیں ہوں گی۔ ان کی عظمت، نابغگی و ہمہ گیری بے مثل ہے۔
اتماماً، مغربی طرز کی اس خالصتاً مشرقی ادیبہ کو سلام کہ اس مختصر مضمون میں اس سے سِوا ممکن نہیں ۔
٭٭٭