خیال آباد کی غزل
شکیل الرحمٰن
’خیال آباد‘ کی غزلوں میں عالم خورشید کے جس شعری رویئے کی پہچان ہوتی ہے وہ نئی غزل میں بہت جلد ایک منفرد رجحان کی سورت اختیار کر لے گا اس بات کا مجھے یقین ہے۔ یہ تیز مشاہدوں ((observations اور خود آگہی ((self awareness کے عمدہ تجربوں کی شاعری ہے۔ ابتدائی زندگی کے مشاہدوں کی معصومیت سے آگہی اور خود آگہی کے شعور تک عالم خورشید کی غزل کا سفرتوجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ یہ ایسے جمالیاتی تجربوں کا سفر ہے کہ جس مس میں بچّے کی معصومیت اور اس کا بھولاپن، زندگی کی شادمانی اور تلخی اور جمالِ شہر کی آرزو سب متاثر کرتے ہیں۔ جمالیاتی تجربوں کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے:
ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا
دن میں بھی میں سپنا دیکھا کرتا تھا
ایک خیال آباد تھا میرے دل میں بھی
خود کو میں شہزادہ دیکھا کرتا تھا
سبز پری کا اڑن کھٹولہ ہر لمحے
اپنی جانب آتا دیکھا کرتا تھا
اڑ جاتا تھا بھیس بدل کر چڑیوں کے
جنگل ،صحرا، دریا دیکھا کرتا تھا
ہیرے جیسا لگتا تھا اک اک کنکر
ہر مٹی میں سونا دیکھا کرتا تھا
کسی قسم کی کوئی گھٹن نہیں ہے۔ بچے کا معصوم ذہن آزاد فضا میں متحرک ہے۔ معصوم رومانی ذہن نت نئے نقوش ابھارتا رہتا ہے۔ کبھی شہزادے کے روپ میں کبھی کسی پرندے کے روپ میں اپنے خیالوں کی دنیا میں مست مشاہدے میں مصروف رہتا ہے۔ کبھی سبز پری اڑن کھٹولے پر پاس نظر آتی ہے کبھی بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے پتھر ہیرے کی مانند چمکتے نظر آتے ہیں۔ ہر مٹی میں سونا دیکھنے والی یہ معصوم بھولی بھالی نگاہ کچھ اور ہی ہے۔ مسرت اور شادمانی کا تاثر ایسا ہے کہ خوبصورت نقوش ابھر آتے ہیں۔ شاعر کے ان تجربوں کا بنیادی موتف (Motif) شادمانی اور مسرت ہی ہے۔
مشاہدوں کے اس فطری اظہار میں جو بھولپن اور جمالیاتی فینتاسی ہے وہ توجہ طلب۔ شاعر کو اس بات کا احساس ہے :
نیند پلکوں پہ دھری رہتی تھی
جب خیالوں میں پری رہتی تھی
کوئی چڑیا تھی مرے اندر بھی
جو ہر اک غم سے بری رہتی تھی
رفتہ رفتہ جب زندگی کی تلخی اور مٹھاس کی پہچان ہوتی گئی اور مشاہدہ تیز ہوتا گیا، جمالِ زندگی کے ساتھ جلالِ زندگی کا احساس گہرا ہوتا گیا تو پچھلے تمام مناظر غائب ہو گئیـ:
آنکھ کھلی تو سارے مناظر غائب ہیں
بند آنکھوں سے کیا کیا دیکھا کرتا تھا
یہ وہی آنکھ تھی جو جو ہر صحرا میں دریا دیکھا کرتی تھی! تحت الشعور کی خوابناک دنیا سے اچانک شعور کی دنیا کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ایک دنیا چلی جاتی ہے، جانے شہزادہ بھی کہاں چلا جاتا ہے۔ سبز پری اپنے اڑن کھٹولے کے ساتھ گم ہو جاتی ہے، دن کے سپنے گم ہو جاتے ہیں ، پرندے کا روپ دھارن کر کے جنگل، صحراسب کو دیکھنے کے تمام لمحے سمٹ جاتے ہیں۔ ایک بڑی فینتاسی کی دنیا جانے کہاں گم ہو جاتی ہے۔ دنیا وہ نہیں رہتی، دنیا وہ ہے بھی نہیں شاید! شاعر نے اپنے بنیادی موتف کو ابھارنے اور نمایاں کرنے کے لئے جن چمکیلے ، روشن، طلسمی، جگ مگ، جگ مگ کرتے ہوئے استعاروں کو منتخب کیا ہے ان سے اس کے اس جمالیاتی نقطۂ نگاہ کی پہچان ہوتی ہے جو سادگی اور پرکاری کے حسن کے گہرے احساس سے وجود میں آتا ہے۔
لاشعور یا تحت الشعور سے شعور تک کے سفر میں ’فینتاسی‘ کی دنیا بظاہر جتنی دور جا کر گم ہوتی دکھائی دے وہ گم نہیں ہوتی۔ ہم محسوس کریں یا نہ کریں ، جمالیاتی التباس موجود رہتا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ابتدائی جمالیاتی التباس کبھی گم نہیں ہوتا ہی نہیں ہے۔ لاشعور میں کہیں نہ کہیں موجود رہتا ہے۔ انسان کی سائکی میں جذب ہوتا ہے۔ آخری عمر تک یہ جمالیاتی فینتاسی زندہ رکھنے میں مدد گار ہوتی ہے۔
عالم خورشید اس بات کی سچائی اس طرح پیش کرتے ہیں :
اک چھوٹا سا بچہ مجھ میں اب تک زندہ ہے
چھوٹی چھوٹی بات پہ اب بھی رو سکتا ہوں میں
شاعر نے آنسو اور آنسو کے رشتے کو محسوسات بناتے ہوئے لطیف درد اور گمبھیر درد کے رشتے کی قدر و قیمت کا کتنا عمدہ معنی خیز اشارہ سامنے رکھ دیا ہے۔ بات بات پر مچل جانے والے معصوم بچے کا وجود ہنوز روح کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ جب زندگی کے دکھ اور درد کا احساس بڑھتا ہے تو وہ مچل کر اسی طرح رونے لگتا ہے کہ جس طرح معصوم بچّہ روتا تھا ، وہ بچّہ ہنوز موجود ہے۔ خواہش پوری نہیں ہوتی تو زندگی جب بھی اپنا توازن کھونے لگتی ہے تو وہ اب بھی اسی طرح رو سکتا ہے جس طرح وہ ایک معصوم بچے کی طرح رویا کرتا تھا۔
’خیال آباد‘ کی غزلوں میں زندگی کے دئے ہوئے کرب اور خود زندگی کے مختلف رنگوں کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ شاعر کے سوزِ نہاں اور اس کی مجروح آرزوؤں اور تمناؤں کے اظہار کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس کے تیز مشاہدوں کے یہ شعری تجربے توجہ طلب ہیں :
سناٹے میں دہشت ہر پل گونجا کرتی ہے
اس جنگل میں چین سے کیسے سو سکتا ہوں میں
کمانِ وقت نے ہم کو ہدف بنایا ہے
کہیں سے تیر چلے گا ہمیں پہ آئے گا
یہ کیسے خواب ہمیں آگہی دکھانے لگی
کہ اپنی آنکھوں میں کانٹے چبھوئے جاتے ہیں
عجیب حادثہ اس بار ہم پہ گزرا ہے
بیان کرتے نہیں صرف روئے جاتے ہیں
ہمیشہ گھر کا اندھیرا ڈرانے لگتا ہے
میں جب چراغ جلاتا ہوں رہگزر کے لئے
کھلی جو آنکھ تو ہم ڈوبتے ہوئے نظر آئے
گئے تھے دو سے گرداب دیکھنے کے لئے
لہو میں اپنے ہمیشہ نہائے رہتے ہیں
ہمارے رخ پہ سحر کب گلال ملتی ہے
بتوں کی طرح کھڑے ہیں نہ جانے کب سے ہم
ہماری سانس مگر تیز تیز چلتی ہے
جو ختم ہوتا نہیں سلسلہ چٹانوں کا
تو موجِ خوں بھی کہاں راستہ بدلتی ہے
مری گرفت سے منزل مری پھسلتی رہی
کہ مجھ سے تیز ہمیشہ زمین چلتی رہی
ہوا کے ساتھ بھلا کتنی دور میں جاتا
ہر ایک موڑ پہ وہ راستہ بدلتی رہی
یہ نئی غزل کے عمدہ پر اثر اشعار ہیں جو کلاسیکی آہنگ لئے کلاسیکی استعاروں اور علامتوں میں زندگی کے لمحوں کے کرب اور خلش کو محسوسات بناتے ہیں۔ حادثہ، آنسو، اندھیرا، گرداب، لہو، بت، چٹان، موجِ خوں ، سناٹا، دہشت، جنگل، کانٹے وغیرہ دل کی گداختگی اور سوزِ نہاں سے اس طرح قریب کر دیتے ہیں کہ قاری کے درد اور شاعر کے درد کا ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ فینتاسی کی دنیا سے نکل کر حقیقت اور سچائی تک آتے آتے مشاہدے اور تجربے مختلف ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حیرت کا پیدا ہو جانا فطری ہے۔ عالم خورشید کی غزل میں ’حیرت‘ ایک جمالیاتی وصف بن جاتی ہے۔
گملوں میں سبز کیکٹس، میزوں پہ سنگ سج گئے
حیرت میں ہوں کہ کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا
عالم جیون کھیل تماشا، دانائی نادانی ہے
تب تک زندہ رہتے ہیں ہم جب تک اک حیرانی ہے
یہ کیسی رت ہے سبھی ہو گئے پرائے سے
نہ دھوپ، دھوپ سی ہے اب، نہ سائے سائے سے
سبھی درخت کھڑے ہیں خموش اپنی جگہ
مگر ہیں دست و گریبان سائے سائے سے
تحیّر کی کہ متحرک جمالیاتی تصویر دیکھئے!
خاموش بہہ رہا تھا یہ دریا ابھی ابھی
دیکھا مجھے تو آ گئیں موجیں ترنگ میں
عالم خورشید ایک باشعور تخلیقی فن کار ہیں۔ زندگی اور ماحول کے اضطراب، تفاوات اور انتشار خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ یہ سب تجربوں کا حصہ بھی بنے ہیں لیکن ٹھہرے ہوئے اور سنبھلے ہوئے انداز کی وجہ سے شعری تجربوں میں عمدہ توازن پیدا ہو گیا ہے۔ حالات اور ماحول کیاداسی اور پژمردگی سے غمزدہ تو ہوتے ہیں لیکن کبھی انہیں خود پر طاری نہیں کرتے۔ تخیل میں بسے مستقبل کے کیف اور احساس سے لہجہ نرم ہو جاتا ہے اور شاعر جو کہنا چاہتا ہے کہہ دیتا ہے اور اکثر اس طرح سے بھی کہتا ہے کہ لگتا ہے اس کے الفاظ سر گوشیاں بھی کر رہے ہیں۔ بظاہر عام سا شعری تجربہ جب سرگوشی کرتا ہے تو ذہن گہرائی میں اتر کر زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے اور جمالیاتی سرور حاصل کرتا ہے۔ ’خیال آباد‘ کے مندرجہ ذیل اشعار اس سلسلے میں مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں :
سمندر کی چٹانوں نے کہیں تو راستہ روکا ہے پانی کا
ابھرتی ڈوبتی لہروں میں ورنہ سرکشی کا کیا سبب آخر
یہ اپنی زرخیزی ہے جو کھل جاتے ہیں پھول نئے
ورنہ اپنی مٹی کو شاداب کہاں رکھتے ہیں ہم
یہ کیسی رت ہے سبھی ہو گئے پرائے سے
نہ دھوپ دھوپ سی ہے اب نہ سائے سائے سے
سبھی درخت کھڑے ہیں خموش اپنی جگہ
مگر ہیں دست و گریبان سائے سائے سے
لوٹ آئیں نہ کہیں پھر وہ پرانے طائر
میری شاخوں پہ نئے برگ و ثمر آئے ہیں
شام سے پہلے جلا بیٹھے تھے ہم سارے چراغ
صبح سے پہلے مکاں کو بے ضیا ہونا ہی تھا
موسموں کی گرد شیشے کو چھپاتی کب تلک
بارشوں کے بعد ہم کو آیئنہ ہونا ہی تھا
مجھ کو بہت عزیز تھی شیشہ گری مگر
تشنہ لبی نے کر دیا تیشہ بکف مجھے
راس آ چکی ہیں مجھ کو سمندر کی وسعتیں
ساحل بلا رہا ہے کیوں اپنی طرف مجھے
پڑھا کرتا ہوں اب تاریخ میں جو داستانیں
مورخ نے کسی بھی باب میں لکھا نہیں تھا
کھنڈر ہوتی حویلی سے میں پہروں بات کرتا ہوں
خدا جانے مجھے کیا اس کی ویرانی سے ملتا ہے
بڑی مشکل سے اس کے سحر سے میں بچ کے نکلا ہوں
کسر چھوڑی نہ تھی اس نے مجھے پتھر بنانے میں
یہ اشعار نئی اردو غزل کی بہتر نمائندگی کرتے ہیں۔ ان اشعار سے عالم خورشید کے منفرد رویئے کی پہچان ہوتی ہے۔ حقیقتوں اور سچایؤں کا مطالعہ کرتے ہوئے تخلیقی ذہن کے گہرے مشاہدوں اور آگہی کی پہچان بھی بخوبی ہو جاتی ہے۔ شاعر کے تخیل اور اس کے جذبوں کی خوبصورت آمیزش ہوئی ہے۔ عالم خورشید حقیقت یا سچائی کو جمالیاتی تجربہ بنانے کا گر جانتے ہیں۔ تخلیقی عمل کے بعد تخیل حقیقت کی صورت تبدیل کر دیتا ہے اور اسے کسی نہ کسی جذبے کا رنگ عطا کر دیتا ہے۔ عالم خورشید بات کرنے کا سلیقہ خوب جانتے ہیں۔ ’خیال آباد” کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے مجھے ڈاکٹر سموئل جونسن کی یہ بات یاد آ رہی ہے :
” Poetry pleases by exhibiting an idea more graceful to the mind than things themselves afford”
اپنے شعری تجربوں کو قاری کے ذہن تک پر وقار انداز سے پہنچانا بہت بڑی بات ہے۔ مختلف تجربوں کو چنتے رہنا اور بات ہے مگر انہیں اپنے باطن میں جذب کرنا اور پھر جمالیاتی صورتیں عطا کر کے قاری کے ذہن تک پر وقار انداز میں پہنچانا اور بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ ذاتی مشاہدات سے جاگرتی کے پیدا ہوتے رہنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو ایک ’وژن‘ جنم لیتا ہے۔
شاعری وہ غزل ہو یا نظم میٹھے پانی کا چشمہ اس وقت تک نہیں بنتی جب تک کہ اس میں ’افسانویت‘ نہ پیدا ہو جائے۔ نئی اردو شاعری کو افسانویت کی جانب بڑھنا ہے۔ عالم خورشید کو بھی اپنی بہتر تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ فکشن کے جمال سے ایک گہرا باطنی رشتہ قائم کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں عالم خورشید کے ایسے اشعار خود ان سے سرگوشی کرتے ہیں :
ندی کنارے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
کیا رشتہ ہے میرا بہتے پانی سے
بہتے دریا میں کوئی عکس ٹھہرتا ہی نہیں
یاد آتا ہے بہت گاؤں کا تالاب ہمیں
خوف کا سحر بھی ہے آخری سرحد پہ کھڑا
پھول کے ہاتھ بھی اب شاخِ شرر ہونے لگے
کھنڈر ہوتی حویلی سے میں پہروں بات کرتا ہوں
خدا جانے مجھے کیا اس کی ویرانی سے ملتا ہے
خیال آباد کی غزلوں سے میں نے اسی طرح لطف حاصل کیا ہے اور جمالیاتی انبساط پایا ہے۔
٭٭٭
خیال آباد کی غزل
شکیل الرحمٰن
’خیال آباد‘ کی غزلوں میں عالم خورشید کے جس شعری رویئے کی پہچان ہوتی ہے وہ نئی غزل میں بہت جلد ایک منفرد رجحان کی سورت اختیار کر لے گا اس بات کا مجھے یقین ہے۔ یہ تیز مشاہدوں ((observations اور خود آگہی ((self awareness کے عمدہ تجربوں کی شاعری ہے۔ ابتدائی زندگی کے مشاہدوں کی معصومیت سے آگہی اور خود آگہی کے شعور تک عالم خورشید کی غزل کا سفرتوجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ یہ ایسے جمالیاتی تجربوں کا سفر ہے کہ جس مس میں بچّے کی معصومیت اور اس کا بھولاپن، زندگی کی شادمانی اور تلخی اور جمالِ شہر کی آرزو سب متاثر کرتے ہیں۔ جمالیاتی تجربوں کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے:
ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا
دن میں بھی میں سپنا دیکھا کرتا تھا
ایک خیال آباد تھا میرے دل میں بھی
خود کو میں شہزادہ دیکھا کرتا تھا
سبز پری کا اڑن کھٹولہ ہر لمحے
اپنی جانب آتا دیکھا کرتا تھا
اڑ جاتا تھا بھیس بدل کر چڑیوں کے
جنگل ،صحرا، دریا دیکھا کرتا تھا
ہیرے جیسا لگتا تھا اک اک کنکر
ہر مٹی میں سونا دیکھا کرتا تھا
کسی قسم کی کوئی گھٹن نہیں ہے۔ بچے کا معصوم ذہن آزاد فضا میں متحرک ہے۔ معصوم رومانی ذہن نت نئے نقوش ابھارتا رہتا ہے۔ کبھی شہزادے کے روپ میں کبھی کسی پرندے کے روپ میں اپنے خیالوں کی دنیا میں مست مشاہدے میں مصروف رہتا ہے۔ کبھی سبز پری اڑن کھٹولے پر پاس نظر آتی ہے کبھی بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے پتھر ہیرے کی مانند چمکتے نظر آتے ہیں۔ ہر مٹی میں سونا دیکھنے والی یہ معصوم بھولی بھالی نگاہ کچھ اور ہی ہے۔ مسرت اور شادمانی کا تاثر ایسا ہے کہ خوبصورت نقوش ابھر آتے ہیں۔ شاعر کے ان تجربوں کا بنیادی موتف (Motif) شادمانی اور مسرت ہی ہے۔
مشاہدوں کے اس فطری اظہار میں جو بھولپن اور جمالیاتی فینتاسی ہے وہ توجہ طلب۔ شاعر کو اس بات کا احساس ہے :
نیند پلکوں پہ دھری رہتی تھی
جب خیالوں میں پری رہتی تھی
کوئی چڑیا تھی مرے اندر بھی
جو ہر اک غم سے بری رہتی تھی
رفتہ رفتہ جب زندگی کی تلخی اور مٹھاس کی پہچان ہوتی گئی اور مشاہدہ تیز ہوتا گیا، جمالِ زندگی کے ساتھ جلالِ زندگی کا احساس گہرا ہوتا گیا تو پچھلے تمام مناظر غائب ہو گئیـ:
آنکھ کھلی تو سارے مناظر غائب ہیں
بند آنکھوں سے کیا کیا دیکھا کرتا تھا
یہ وہی آنکھ تھی جو جو ہر صحرا میں دریا دیکھا کرتی تھی! تحت الشعور کی خوابناک دنیا سے اچانک شعور کی دنیا کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ایک دنیا چلی جاتی ہے، جانے شہزادہ بھی کہاں چلا جاتا ہے۔ سبز پری اپنے اڑن کھٹولے کے ساتھ گم ہو جاتی ہے، دن کے سپنے گم ہو جاتے ہیں ، پرندے کا روپ دھارن کر کے جنگل، صحراسب کو دیکھنے کے تمام لمحے سمٹ جاتے ہیں۔ ایک بڑی فینتاسی کی دنیا جانے کہاں گم ہو جاتی ہے۔ دنیا وہ نہیں رہتی، دنیا وہ ہے بھی نہیں شاید! شاعر نے اپنے بنیادی موتف کو ابھارنے اور نمایاں کرنے کے لئے جن چمکیلے ، روشن، طلسمی، جگ مگ، جگ مگ کرتے ہوئے استعاروں کو منتخب کیا ہے ان سے اس کے اس جمالیاتی نقطۂ نگاہ کی پہچان ہوتی ہے جو سادگی اور پرکاری کے حسن کے گہرے احساس سے وجود میں آتا ہے۔
لاشعور یا تحت الشعور سے شعور تک کے سفر میں ’فینتاسی‘ کی دنیا بظاہر جتنی دور جا کر گم ہوتی دکھائی دے وہ گم نہیں ہوتی۔ ہم محسوس کریں یا نہ کریں ، جمالیاتی التباس موجود رہتا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ابتدائی جمالیاتی التباس کبھی گم نہیں ہوتا ہی نہیں ہے۔ لاشعور میں کہیں نہ کہیں موجود رہتا ہے۔ انسان کی سائکی میں جذب ہوتا ہے۔ آخری عمر تک یہ جمالیاتی فینتاسی زندہ رکھنے میں مدد گار ہوتی ہے۔
عالم خورشید اس بات کی سچائی اس طرح پیش کرتے ہیں :
اک چھوٹا سا بچہ مجھ میں اب تک زندہ ہے
چھوٹی چھوٹی بات پہ اب بھی رو سکتا ہوں میں
شاعر نے آنسو اور آنسو کے رشتے کو محسوسات بناتے ہوئے لطیف درد اور گمبھیر درد کے رشتے کی قدر و قیمت کا کتنا عمدہ معنی خیز اشارہ سامنے رکھ دیا ہے۔ بات بات پر مچل جانے والے معصوم بچے کا وجود ہنوز روح کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ جب زندگی کے دکھ اور درد کا احساس بڑھتا ہے تو وہ مچل کر اسی طرح رونے لگتا ہے کہ جس طرح معصوم بچّہ روتا تھا ، وہ بچّہ ہنوز موجود ہے۔ خواہش پوری نہیں ہوتی تو زندگی جب بھی اپنا توازن کھونے لگتی ہے تو وہ اب بھی اسی طرح رو سکتا ہے جس طرح وہ ایک معصوم بچے کی طرح رویا کرتا تھا۔
’خیال آباد‘ کی غزلوں میں زندگی کے دئے ہوئے کرب اور خود زندگی کے مختلف رنگوں کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ شاعر کے سوزِ نہاں اور اس کی مجروح آرزوؤں اور تمناؤں کے اظہار کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس کے تیز مشاہدوں کے یہ شعری تجربے توجہ طلب ہیں :
سناٹے میں دہشت ہر پل گونجا کرتی ہے
اس جنگل میں چین سے کیسے سو سکتا ہوں میں
کمانِ وقت نے ہم کو ہدف بنایا ہے
کہیں سے تیر چلے گا ہمیں پہ آئے گا
یہ کیسے خواب ہمیں آگہی دکھانے لگی
کہ اپنی آنکھوں میں کانٹے چبھوئے جاتے ہیں
عجیب حادثہ اس بار ہم پہ گزرا ہے
بیان کرتے نہیں صرف روئے جاتے ہیں
ہمیشہ گھر کا اندھیرا ڈرانے لگتا ہے
میں جب چراغ جلاتا ہوں رہگزر کے لئے
کھلی جو آنکھ تو ہم ڈوبتے ہوئے نظر آئے
گئے تھے دو سے گرداب دیکھنے کے لئے
لہو میں اپنے ہمیشہ نہائے رہتے ہیں
ہمارے رخ پہ سحر کب گلال ملتی ہے
بتوں کی طرح کھڑے ہیں نہ جانے کب سے ہم
ہماری سانس مگر تیز تیز چلتی ہے
جو ختم ہوتا نہیں سلسلہ چٹانوں کا
تو موجِ خوں بھی کہاں راستہ بدلتی ہے
مری گرفت سے منزل مری پھسلتی رہی
کہ مجھ سے تیز ہمیشہ زمین چلتی رہی
ہوا کے ساتھ بھلا کتنی دور میں جاتا
ہر ایک موڑ پہ وہ راستہ بدلتی رہی
یہ نئی غزل کے عمدہ پر اثر اشعار ہیں جو کلاسیکی آہنگ لئے کلاسیکی استعاروں اور علامتوں میں زندگی کے لمحوں کے کرب اور خلش کو محسوسات بناتے ہیں۔ حادثہ، آنسو، اندھیرا، گرداب، لہو، بت، چٹان، موجِ خوں ، سناٹا، دہشت، جنگل، کانٹے وغیرہ دل کی گداختگی اور سوزِ نہاں سے اس طرح قریب کر دیتے ہیں کہ قاری کے درد اور شاعر کے درد کا ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ فینتاسی کی دنیا سے نکل کر حقیقت اور سچائی تک آتے آتے مشاہدے اور تجربے مختلف ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حیرت کا پیدا ہو جانا فطری ہے۔ عالم خورشید کی غزل میں ’حیرت‘ ایک جمالیاتی وصف بن جاتی ہے۔
گملوں میں سبز کیکٹس، میزوں پہ سنگ سج گئے
حیرت میں ہوں کہ کیا سے کیا شہرِ جمال ہو گیا
عالم جیون کھیل تماشا، دانائی نادانی ہے
تب تک زندہ رہتے ہیں ہم جب تک اک حیرانی ہے
یہ کیسی رت ہے سبھی ہو گئے پرائے سے
نہ دھوپ، دھوپ سی ہے اب، نہ سائے سائے سے
سبھی درخت کھڑے ہیں خموش اپنی جگہ
مگر ہیں دست و گریبان سائے سائے سے
تحیّر کی کہ متحرک جمالیاتی تصویر دیکھئے!
خاموش بہہ رہا تھا یہ دریا ابھی ابھی
دیکھا مجھے تو آ گئیں موجیں ترنگ میں
عالم خورشید ایک باشعور تخلیقی فن کار ہیں۔ زندگی اور ماحول کے اضطراب، تفاوات اور انتشار خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ یہ سب تجربوں کا حصہ بھی بنے ہیں لیکن ٹھہرے ہوئے اور سنبھلے ہوئے انداز کی وجہ سے شعری تجربوں میں عمدہ توازن پیدا ہو گیا ہے۔ حالات اور ماحول کیاداسی اور پژمردگی سے غمزدہ تو ہوتے ہیں لیکن کبھی انہیں خود پر طاری نہیں کرتے۔ تخیل میں بسے مستقبل کے کیف اور احساس سے لہجہ نرم ہو جاتا ہے اور شاعر جو کہنا چاہتا ہے کہہ دیتا ہے اور اکثر اس طرح سے بھی کہتا ہے کہ لگتا ہے اس کے الفاظ سر گوشیاں بھی کر رہے ہیں۔ بظاہر عام سا شعری تجربہ جب سرگوشی کرتا ہے تو ذہن گہرائی میں اتر کر زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے اور جمالیاتی سرور حاصل کرتا ہے۔ ’خیال آباد‘ کے مندرجہ ذیل اشعار اس سلسلے میں مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں :
سمندر کی چٹانوں نے کہیں تو راستہ روکا ہے پانی کا
ابھرتی ڈوبتی لہروں میں ورنہ سرکشی کا کیا سبب آخر
یہ اپنی زرخیزی ہے جو کھل جاتے ہیں پھول نئے
ورنہ اپنی مٹی کو شاداب کہاں رکھتے ہیں ہم
یہ کیسی رت ہے سبھی ہو گئے پرائے سے
نہ دھوپ دھوپ سی ہے اب نہ سائے سائے سے
سبھی درخت کھڑے ہیں خموش اپنی جگہ
مگر ہیں دست و گریبان سائے سائے سے
لوٹ آئیں نہ کہیں پھر وہ پرانے طائر
میری شاخوں پہ نئے برگ و ثمر آئے ہیں
شام سے پہلے جلا بیٹھے تھے ہم سارے چراغ
صبح سے پہلے مکاں کو بے ضیا ہونا ہی تھا
موسموں کی گرد شیشے کو چھپاتی کب تلک
بارشوں کے بعد ہم کو آیئنہ ہونا ہی تھا
مجھ کو بہت عزیز تھی شیشہ گری مگر
تشنہ لبی نے کر دیا تیشہ بکف مجھے
راس آ چکی ہیں مجھ کو سمندر کی وسعتیں
ساحل بلا رہا ہے کیوں اپنی طرف مجھے
پڑھا کرتا ہوں اب تاریخ میں جو داستانیں
مورخ نے کسی بھی باب میں لکھا نہیں تھا
کھنڈر ہوتی حویلی سے میں پہروں بات کرتا ہوں
خدا جانے مجھے کیا اس کی ویرانی سے ملتا ہے
بڑی مشکل سے اس کے سحر سے میں بچ کے نکلا ہوں
کسر چھوڑی نہ تھی اس نے مجھے پتھر بنانے میں
یہ اشعار نئی اردو غزل کی بہتر نمائندگی کرتے ہیں۔ ان اشعار سے عالم خورشید کے منفرد رویئے کی پہچان ہوتی ہے۔ حقیقتوں اور سچایؤں کا مطالعہ کرتے ہوئے تخلیقی ذہن کے گہرے مشاہدوں اور آگہی کی پہچان بھی بخوبی ہو جاتی ہے۔ شاعر کے تخیل اور اس کے جذبوں کی خوبصورت آمیزش ہوئی ہے۔ عالم خورشید حقیقت یا سچائی کو جمالیاتی تجربہ بنانے کا گر جانتے ہیں۔ تخلیقی عمل کے بعد تخیل حقیقت کی صورت تبدیل کر دیتا ہے اور اسے کسی نہ کسی جذبے کا رنگ عطا کر دیتا ہے۔ عالم خورشید بات کرنے کا سلیقہ خوب جانتے ہیں۔ ’خیال آباد” کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے مجھے ڈاکٹر سموئل جونسن کی یہ بات یاد آ رہی ہے :
” Poetry pleases by exhibiting an idea more graceful to the mind than things themselves afford”
اپنے شعری تجربوں کو قاری کے ذہن تک پر وقار انداز سے پہنچانا بہت بڑی بات ہے۔ مختلف تجربوں کو چنتے رہنا اور بات ہے مگر انہیں اپنے باطن میں جذب کرنا اور پھر جمالیاتی صورتیں عطا کر کے قاری کے ذہن تک پر وقار انداز میں پہنچانا اور بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ ذاتی مشاہدات سے جاگرتی کے پیدا ہوتے رہنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو ایک ’وژن‘ جنم لیتا ہے۔
شاعری وہ غزل ہو یا نظم میٹھے پانی کا چشمہ اس وقت تک نہیں بنتی جب تک کہ اس میں ’افسانویت‘ نہ پیدا ہو جائے۔ نئی اردو شاعری کو افسانویت کی جانب بڑھنا ہے۔ عالم خورشید کو بھی اپنی بہتر تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ فکشن کے جمال سے ایک گہرا باطنی رشتہ قائم کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں عالم خورشید کے ایسے اشعار خود ان سے سرگوشی کرتے ہیں :
ندی کنارے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
کیا رشتہ ہے میرا بہتے پانی سے
بہتے دریا میں کوئی عکس ٹھہرتا ہی نہیں
یاد آتا ہے بہت گاؤں کا تالاب ہمیں
خوف کا سحر بھی ہے آخری سرحد پہ کھڑا
پھول کے ہاتھ بھی اب شاخِ شرر ہونے لگے
کھنڈر ہوتی حویلی سے میں پہروں بات کرتا ہوں
خدا جانے مجھے کیا اس کی ویرانی سے ملتا ہے
خیال آباد کی غزلوں سے میں نے اسی طرح لطف حاصل کیا ہے اور جمالیاتی انبساط پایا ہے۔
٭٭٭