جنرل ۔۔۔ داؤد کاکڑ

مجھے جنرل سے پیار تھا۔ اونچے قد و قامت اور صحت مند جسم پر سیاہ چمکدار رنگ کا خوبصورت لیکن خوفناک کتا جس کی دھاک دور دور تک بیٹھی ہوئی تھی . وہ امریکن پٹ بل (Pit Bull) اور پاکستانی بل ڈاگ (Bull Dog) دونوں کی خصوصیات کا ایک عجیب سا امتزاج تھا۔ ہمارا پورا محلہ اس کی وجہ سے نہایت محفوظ تھا۔ محلے کے چھوٹے بڑے سب اس سے پیار کرتے تھے اور جنرل بھی سب کے ساتھ مانوس تھا۔ یوں تو وہ میرے بنگلے کی چار دیواری کے اندر رہتا تھا لیکن محلے داروں کے اصرار پر میں اسے اپنے بنگلے کے باہر کھونٹے سے باندھ دیتا تھا۔ آتے جاتے سب اس کے ساتھ ہیلو ہائے کر تے اور اس کے سر اور گردن کو سہلاتے ہوئے گزرتے۔ جنرل بھی چھلانگیں لگا لگا کر سب کی پذیرائی کرتا۔ اس کے بھونکنے کی آواز اس قدر بھاری اور بلند تھی کہ دور دور تک سنائی دیتی تھی۔

جنرل کے ساتھ محلے والوں کے لو افیئر (love affair) کی وجہ دو ایسے واقعات تھے جن کے بعد وہ ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ پہلا واقعہ ایک دن شام سے پہلے کا ہے جب کہیں سے شامت کے مارے دو آوارہ کتے ہمارے علاقے میں گھس آئے تھے۔ ان میں ایک تو خاصا بڑا اور گر انڈیل کتا تھا لیکن دوسرا کتا قد بت میں چھوٹا ہونے کے باوجود انتہائی جارحانہ انداز لئے ہوئے تھا اور بڑے کتے کے آگے آگے ایک لیڈر کی طرح چل رہا تھا۔ اس وقت علاقے کے بہت سارے بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ہماری کشادہ گلی میں آوارہ کتوں کے داخل ہوتے ہی ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور بچوں نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ کتے اس افتاد سے گھبرا گئے اور بھونکنا شروع کر دیا۔

اتفاق سے اس وقت میرے بنگلے کا بڑا گیٹ کھلا ہوا تھا اور میرا نوکر اسی وقت جنرل کو باہر کھونٹے سے باندھنے کے لئے گیٹ کی طرف لے جا رہا تھا۔ میرے نوکر کے مطابق اس سے پہلے کہ اسے باہر گلی میں ہنگامے کی وجہ سمجھ آتی ، جانے کیسے جنرل اس کی گرفت سے نکل کر ان آوارہ کتوں کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ پھر علاقے کے لوگوں نے ان کتوں کے درمیان وہ گھمسان کی جنگ دیکھی کہ وہ اس علاقے کی فوک ٹیل( Folk tale) بن گئی۔ آوارہ کتا جنرل کے مقابلے میں بڑا اور طاقتور بھی تھا اور دیکھنے میں بھی خونخوار لگتا تھا۔ چھوٹا کتا بھی بڑی جارحانہ خو رکھتا تھا۔ لیکن یہ علاقہ جنرل کا تھا اور اپنے علاقے کی رکھوالی ہر کتے کی سرشت میں ہوتی ہے۔ جنرل نے ان آوارہ کتوں کو جمنے نہ دیا اور وہ دونوں لہو لہان ہو کر دم دبا کر بھاگ گئے۔ جنرل بھی معمولی زخمی ہوا تھا۔

اس واقعہ کے بعد جنرل لوگوں کے دلوں میں جیسے بس گیا تھا۔

دوسرا واقعہ ایک رات کا ہے۔ دو بجے کے بعد کا عمل تھا جب تین ڈاکو علاقے میں گھس آئے تھے۔ اس دن اتفاق سے میرے پورچ کی لائٹ جل گئی تھی اور میرا بنگلہ علاقے کے دوسرے بنگلوں کی نسبت قدرے اندھیرے میں تھا۔ ڈاکوؤں کی شامت اعمال کہ انھوں میرا ہی بنگلہ چنا۔

جنرل اس وقت ڈاگ ہاؤس میں آرام سے لیٹا ہوا تھا کہ اچانک اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی قوت شامہ نے اسے خبردار کر دیا تھا۔ عین اسی لمحے اسے دھم کی آواز آئی۔ وہ جیسے گولی کی طرح آواز کی جانب لپکا اور اس سے پہلے کہ بنگلے کی چار دیواری کے اندر کودنے والا سنبھل پاتا، جنرل نے اسے جا لیا۔ پھر جنرل کی غراہٹ اور ڈاکو کی خوف میں لپٹی چیخوں نے میرے علاوہ میرے ارد گرد کے ہمسائیوں کو بھی جگا دیا تھا۔ اس کے دوسرے دو ساتھی جو گیٹ کے باہر کھڑے گیٹ کے کھلنے کا انتظار کر رہے تھے، اپنے ساتھی کی چیخیں سنتے ہی بھاگے لیکن لمبی گلی سے نکلنے نہ پائے اور ہمسائیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ جنرل کی دھاک اور بھی مضبوط ہو گئی۔

جنرل مجھے ملا تو چھوٹا سا پلا تھا۔ میں نے اسے بڑی محبت اور محنت سے پالا پوسا اور جوان کیا جو میں جنرل کی زندگی کے پہلے دو سال یکسوئی کے ساتھ کر سکا تھا اور پھر میری شادی ہو گئی اور میرے دن رات کی مصر وفیات میں خاصی تبدیلی آ گئی تھی۔ یہی پر میرے بچپن کے دوست جمی کا ذکر آتا ہے۔

جنرل شروع ہی سے جمی کے ساتھ عادی ہو گیا تھا یوں اس کی پرورش میں جمی بھی شامل تھا۔ حالانکہ جمی دور کے محلے میں رہتا تھا لیکن وہ جنرل سے مجھ سے زیادہ پیار کرتا تھا بلکہ اس کا دیوانہ تھا۔ وہ روزانہ وقت نکال کر آتا اور جنرل کو گھنٹہ بھر کے لئے پارک لے جاتا اور اس کے ساتھ خوب کھیلتا۔ چھٹی والے دن وہ اکثر و بیشتر اسے پورے ویک اینڈ کے لئے لے جاتا۔

جمی اس پر پیسے بھی خوب اڑاتا تھا اور آئے دن اس کے لئے نت نئے اور نام کندہ کئے رنگ برنگی کالر اور طرح طرح کے پٹے اور چین (chain) خریدتا رہتا تھا۔ جمی کے ڈاگ ہاؤس کے لئے بھی اس نے کمبل اور کُشن اور جانے کیا کچھ خرید رکھا تھا۔ وہ جنرل کو طرح طرح کی خوراکیں بھی کھلاتا رہتا اور مہینے میں ایک مرتبہ اسے گرومنگ (Grooming) کے لئے بھی لے جاتا تھا۔ میرے بیحد اصرار پر بھی جمی مجھ سے کبھی پیسے نہیں لیتا بلکہ الٹا مجھے آفر کرتا۔ ایسے موقعوں پر وہ مجھے یاد دہانی ضرور کرواتا کہ جنرل پر اس کا بھی بڑا حق تھا۔ جمی دولت مند تھا۔

یوں کہنے کو تو جنرل میرا کتا تھا اور میرے گھر میں رہتا تھا۔ سب جانتے تھے کہ میں ہی اس کا مالک تھا۔ بس میرے پاس اس کے ساتھ کھیلنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ گو کہ میں جمی کی وجہ سے مطمئن تھا کہ وہ میری کمی پوری کر دیتا تھا لیکن میں نے ایک بات ضرور نوٹ کی کہ جب میں اور جمی اکٹھے ہوتے تو جنرل زیادہ تر اسی کی طرف متوجہ رہتا۔ شروع شروع میں مجھے یہ بات ناگوار گزرتی تھی لیکن پھر میں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا تھا کہ جمی مجھ سے زیادہ اس کے ساتھ وقت گزارتا ہے اور اس کے ناز بھی اٹھاتا ہے۔

اور پھر ایک دن مجھے ایک ایسی بات کا پتہ چلا کہ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ بات شاید بہت بڑی نہیں تھی لیکن مجھے غصہ اور دکھ اس بات پر ہوا کہ یہ خبر بجائے جمی کے کسی اور ذرائع سے مجھ تک پہنچی۔ جنرل میرا کتا تھا اور اس سے متعلق ہر بات سے با خبر رہنا میرا حق تھا۔ لیکن جمی نے مجھے اس بات سے مکمل اندھیرے میں رکھا کہ وہ جنرل کو افزائش نسل کے لئے استعمال کر رہا تھا۔

یہ خبر مجھے ایک بزنس میٹنگ کے دوران ملی جس کے بعد میں میٹنگ جاری نہ رکھ سکا اور گھر چلا آیا۔

اس دن جمعہ تھا۔ شام کو جمی آیا جنرل کو ویک اینڈ کے لئے لے جانے کے لئے تو مجھے اپنا منتظر پایا۔

مجھے خلاف معمول گھر میں دیکھ کر حیران ہوا۔ اس کے استفسار پر جواب دینے کی بجائے میں اسے بنگلے کے پیچھے لان میں لے آیا۔ جنرل اسے دیکھ کر خوشی سے چھلانگیں لگا رہا تھا۔ اب میری سمجھ میں سب کچھ آ رہا تھا کہ وہ جمی کو کیوں زیادہ پسند کرتا تھا۔ جنرل کو آسائشوں کے ساتھ عیاشی کی بھی لت پڑ گئی تھی اور اس کا ذمہ دار جمی تھا۔

میرے پوچھنے پر جمی نے اقرار کیا کہ وہ جنرل کو افزائش نسل کے لئے استعمال کر رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی نسل آگے بڑھے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں لیکن وہ مجھے اس بات کا خاطر خواہ جواب نہ دے سکا کہ ایسا قدم اٹھانے سے پہلے اس نے مجھ سے اجازت کیوں نہ لی یا کم از کم مجھے آگاہ کیوں نہیں کیا۔ ایسا نہ کرنے کی توجیہات اس نے یہ پیش کیں کہ ایک تو یہ کہ وہ جنرل پر پورا حق رکھتا تھا اور دوسرا جنرل کی افزائش نسل پر بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔

جمی کو یہ یاد دہانی کراتے ہوئے کہ جنرل میرا کتا تھامیں نے کھل کر اپنی بھر پور ناراضی کا اظہار کیا اور اسے یہ احساس دلایا کہ مجھے اندھیرے میں رکھ کر اس نے میرے اعتماد اور یقین کو گہری ٹھیس پہنچائی تھی۔

بات چیت کے دوران ہمارے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی اور ہماری آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ اس دوران میں جنرل پر بھی نظریں رکھے ہوئے تھا اور مجھے لگا کہ وہ ہماری گفتگو کے اتار چڑھاؤ پر الجھن کا شکار تھا اور کبھی مجھے اور کبھی جمی کو دیکھتا تھا۔ ہمارے لہجوں میں تھوڑی سی بھی گرمی آتی تو وہ بھونکتا اور بے چینی سے ہمارے ارد گرد چکر لگاتا۔

اس دیک اینڈ کے لئے میں نے جنرل کو اپنے پاس ہی رکھا جس پر جمی کا موڈ خاصا خراب ہوا اور وہ چلا گیا۔ لیکن وہ ویک اینڈ میرا بھی اچھا نہیں گزرا کہ جنرل کے رویے میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو گئی تھی۔ وہ پورا ویک اینڈ گم سم اور کھچا کھچا سا رہا۔ میں نے اسے خوش کرنے کی بہت کوشش کی اور اسے ایک لمبی واک کے لئے بھی لے گیا لیکن وہ پژمردہ ہی رہا۔ علاقے کے لوگوں نے بھی یہ بات محسوس کی اور کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا بھی کہ کہیں جنرل بیمار تو نہیں تھا۔

پیر کے دن میں مجھے دو دنوں کے لئے دوسرے شہر جانا تھا۔ عام حالات میں میں جنرل کو جمی کے پاس چھوڑ جاتا لیکن اس مرتبہ میں نے ایسا نہیں کیا اور اپنے نوکر کو اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی ہدایات دیں کہ جنرل اس کے ساتھ خاصا مانوس تھا۔

میرے جانے کے بعد جو ہوا اس کا مجھے تھوڑا سا بھی اندازہ ہوتا تو میں اپنی بزنس ٹرپ کینسل کر دیتا لیکن جو ہونا تھا اسے ہونا ہی تھا۔

اگلے دن فون پر بات کرتے ہوئے میرے نوکر نے مجھے بتایا کہ جنرل ساری رات بھونکتا رہا۔ نہ خود آرام کیا نہ ہمسائیوں کو سونے دیا۔ یہ تو شکر ہے کہ میری بیوی دو دن کے لئے اپنے والدین کے ہاں چلی گئی تھی۔

مجھے نوکر نے یہ بھی بتا یا کہ اگلے دن محلے داروں نے جنرل سے متعلق تشویش کا اظہار کیا اور اسے مشورہ دیا کہ وہ جنرل کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے لیکن میں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ البتہ میں نے اسے یہ مشورہ ضرور دیا کہ وہ جنرل کو کسی وقت بنگلے کے باہر کھونٹے سے باندھ دے۔ ہو سکتا ہے مانوس چہرے دیکھ کر وہ ذرا بہل جائے۔ میں نے بھی دوسرے دن صبح اپنا کام نمٹا کر واپس جانے کا ارادہ کر لیا تھا۔

اس دن مصروفیت کے باوجود میں بے حد بے چین رہا۔ مجھے جنرل کی طرف سے بہت تشویش تھی اور میں سارا دن اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ اسی سوچ بچار کے دوران میں نے ایک فیصلہ کر لیا تھا کہ واپس جاتے ہی جمی کو بلا لوں گا اور جنرل کی خاطر اسے معاف کر دوں گا اس بات سے بے خبر کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

اگلے دن سہ پہر کا وقت تھا جب میں دن بھر کے کاموں سے فارغ ہوکر ابھی ہوٹل اپنے کمرے میں داخل ہی ہوا تھا کہ میرے نوکر کی نہایت پریشان کر دینے والی فون کال آ گئی۔ جنرل پاگل ہو رہا تھا اور کسی طرح قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ میں اور بھی پریشان ہو گیا۔ میں نے آرام کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اسی وقت واپس جانے کی ٹھان لی۔ میں اپنے گھر سے تقریباً تین ساڑھے تین گھنٹوں کی ڈرائیو پر تھا۔ میں نے اپنے نوکر کو بھی آگاہ کیا اور اسے حوصلہ دیا کہ میرے آنے تک جنرل کو سنبھالے۔

واپسی کے سفر کے دوران اچانک مجھے خیال آیا تو مجھے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا کہ یہ بات مجھے پہلے کیوں نہیں سوجھی۔ میں نے فوراً جمی کا نمبر ملا یا لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ ملا یا اور پھر سہ بارہ لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا تو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے نظر انداز کر رہا ہے۔

گھنٹہ بھر کے بعد میرے نوکر کا پھر فون آیا اور اب کی مرتبہ وہ پہلے سے زیادہ گھبرایا ہوا تھا بلکہ رونے حال ہو رہا تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے مجھے یہ بتا یا کہ جنرل کو بہلانے کے لئے اس نے اسے بڑے گیٹ کے باہر کھونٹے سے باندھ دیا اور پھر اندر اس کے لئے پانی وغیرہ لینے گیا تو باہر ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ وہ بھاگا بھاگا باہر آیا تو جنرل ایک دس بارہ سال کے بچے کو بازو سے قابو کئے ہوئے تھا اور خان صاحب اسے چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پھر وہ بھی خان صاحب کے ساتھ شامل ہو گیا تو بالآخر جنرل نے بچے کو تو لہو لہان کر کے چھوڑ دیا لیکن خان صاحب کی ٹانگ اس کے منہ میں آ گئی۔

اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ پھر۔۔۔۔۔؟ میں گھبرا گیا۔

خاں صاحب جو ستر کے پیٹے میں تھے اور علاقے بھر میں نہایت معزز اور قابل احترام انسان تھے۔ علاقے بھر کے ہر چھوٹے بڑے سے بلا امتیاز طبقہ و حیثیت پیار اور خلوص سے پیش آتے تھے اور ہر کسی کی مدد کرنے پر ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے۔ نوجوان طبقہ تو ان سے خاص رغبت رکھتا تھا۔ میں بھی ان کا دیوانہ تھا۔

اپنے نوکر کی بات سن میں سُن سا ہو گیا تھا اور مجھے اس کی آواز جیسے بہت دور سے آ رہی تھی جو کہہ رہا تھا کہ کافی لوگ جمع ہو گئے تھے اور سب نے خان صاحب کی ٹانگ چھڑانے کے لئے جنرل کو مارنا شروع کر دیا۔ کوئی اس کے کان کھینچ ر ہا تھا اور کوئی اسے ٹانگوں سے پکڑ کر الگ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دو تین لوگ تو ڈنڈے اٹھا کر لے آئے لیکن خان صاحب اس حالت میں بھی جبکہ ان کی ٹانگ جنرل کے منہ میں تھی وہ سب کو اسے مارنے سے منع کر رہے تھے اور اپنے ہاتھوں کی ڈھال بنا بنا کر جنرل کا دفاع کر رہے تھے اور پھرو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اچانک میرا فون خاموش ہو گیا۔ میں ہیلو ہیلو کرتا رہا لیکن میرا فون تو مکمل طور پر خاموش تھا۔ تب مجھے خیال آیا کہ جلدی میں میں فون چارجر پر لگانا بھول گیا تھا۔ میں نے گاڑی روڈ سائیڈ پر روکی اور گلو کمپارٹمنٹ سے چارجر نکال کر گاڑی کے چارج سٹیشن پر لگایا اور اپنا فون اس کے ساتھ لگایا۔ ڈائل ٹون آتے ہی میں نے نمبر ملا یا لیکن جواب ندارد۔ میں نے دوبارہ اور سہ بارہ بلکہ بار بار ملایا پر بے سود۔

میں اب حقیقتاً گھبرا گیا تھا اور مجھے عجیب و غریب خیالات آنا شروع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں صرف آدھ گھنٹے کی مسافت پہ تھا لہٰذا میں نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ جس تیز رفتاری سے گاڑی بھاگ رہی تھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ میرا د ماغ بھی گھوم رہا تھا۔ میں جنرل کو کھونا نہیں چاہتا تھا چاہے مجھے اسے مستقل طور پر جمی کے حوالے کیوں نہ کرنا پڑتا۔ جمی کا نام ذہن میں آتے ہی میں نے اسے پھر کال کی۔ اس مرتبہ اس کے جواب نہ دینے پر میں نے اسے میسج چھوڑ دیا اور مختصراً حالات بیان کر کے اسے فی الفور میرے بنگلے پر پہنچنے کا پیغام دیا۔

ابھی میں اپنی گلی سے دور ہی تھا کہ مجھے ایک جم غفیر گلی سے امنڈتا ہوا نظر آگیا۔

یا اللہ خیر۔۔۔۔۔میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

میں گاڑی باہر سڑک پر ہی پارک کر کے گلی کی طرف دوڑا۔ گلی محلے داروں کے علاوہ تماش بینوں سے بھی بھری ہوئی تھی۔ جو مجھے جانتے تھے وہ میرے لئے راستہ بناتے رہے اور میں بالآخر اپنے بنگلے کے پاس پہنچ گیا۔

وہاں کا نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ ایک طرف مجھے ایدھی والوں کی ایمبولینس اور اس میں خان صاحب اور دو بچے زخمی حالت میں نظر آئے جن کی مرہم پٹی ہو چکی تھی۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر سلمان بھی کھڑے تھے جو ہماری گلی کے مکین تھے۔ اور دوسری طرف خون میں لت پت جنرل کی بے جان لاش پڑی ملی۔ لاش کے ساتھ ہی دو خون آلود ٹوٹے ڈنڈے بھی پڑے ہوئے تھے۔ ذرا ہی فاصلے پر جمی اور میرا نوکر زمین پر بیٹھے شاید ابھی رو دھو کر فارغ ہوئے تھے۔

سب کی نظریں مجھ پر تھیں اور شاید سب میرے رد عمل کے منتظر تھے جب کہ میں اس وقت مکمل طور پرنم تھا اور حالات کو سمجھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ پھر مجھے لگا جیسے میری آنکھ سے ایک آنسو گرا ہو۔ عین اسی وقت کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ مڑ کر دیکھا تو خان صاحب مجھے ہمدردانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے فوراً ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگی اور خان صاحب نے مجھے گلے لگا لیا۔ میں ضبط کے باوجود اپنے آنسو نہ روک سکا۔ اسی تر چہرے کے ساتھ میں زخمی بچوں کی طرف متوجہ ہوا اور دونوں بچوں کے والدین سے معافی مانگی۔ سب نے کشادہ دلی سے میری معافی قبول کی اور پھر ایک ہمدرد نے جنرل کی موت پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔

’’جنرل ایک کتا تھا اور کتے کی موت مارا گیا‘‘ یہ کہہ کر میں اپنے نوکر اور جمی کی طرف بڑھ گیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے